ذکرحبیب علیہ السلام

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی حضرت مولوی محمد حسین صاحب ؓ کی خودنوشت سوانح ’’میری یادیں‘‘ سے کچھ اَوراق روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 5؍مارچ 1999ء میں منقول ہیں۔
حضرت مولوی صاحبؓ تحریر فرماتے ہیں کہ میرے والد حضرت میاں محمد بخش صاحب بٹالویؓ اور تایا پہلے اہلِ حدیث تھے اور جمعہ کی نماز مولوی محمد حسین بٹالوی کی امامت میں ادا کیا کرتے تھے اور اُن کے مداح تھے۔ والد صاحب باوجود اَن پڑھ ہونے کے بہت ذہین تھے چنانچہ قرآن کریم ناظرہ نہ پڑھنے کے باوجود انہوں نے کسی حافظ سے پہلے پارہ کا پہلا ربع اور مختلف اماموں کی قرآء ت سن سن کر آخری پارے کا آخری ربع زبانی یاد کرلیا تھا۔
1897ء میں جب مارٹن کلارک نے حضور علیہ السلام کے خلاف قتل کا مقدمہ دائر کیا تھا تو حضور کے خلاف گواہی دینے کیلئے مولوی محمد حسین بٹالوی بھی عدالت پہنچا- چنانچہ جمعہ کی نماز اُس کے نائب امام نے پڑھائی اور نماز کے بعد میرے والد صاحب سے کہنے لگا کہ آج شیر کے منہ میں بکرا آنے والا ہے …۔ اُس نے مولوی محمد حسین بٹالوی کو شیر اور حضرت مسیح موعود کو (نعوذباللہ) بکرے سے تعبیر کیا۔ اُس نے میرے والد صاحب کو عدالت میں آنے کی بھی تاکید کی۔ چنانچہ جب یہ عدالت میں پہنچے تو مولوی محمد حسین بٹالوی عدالت میں ڈپٹی کمشنر مسٹر ڈگلس سے کرسی کا مطالبہ کر رہا تھا۔ اُس نے جواب دیا کہ آپ کا نام کرسی نشینوں میں نہیں ہے۔ لیکن جب اِس نے کرسی کے لئے اصرار کیا تو ڈپٹی کمشنر نے ڈانٹ دیا۔ تب مولوی صاحب برآمدہ میں رکھی ہوئی چپڑاسی کی کرسی پر جاکر بیٹھ گئے۔ چپڑاسی نے اُنہیں دیکھا تو اُسے اپنی نوکری کی فکر ہوگئی اور اُس نے یہ کہہ کر اٹھا دیا کہ جب صاحب نے کرسی نہیں دی تو مَیں کیسے دے سکتا ہوں۔ چنانچہ وہ میرے والد صاحب کے پاس آئے اور اِن کے کندھے سے چادر اتار کر بچھاکر اس پر بیٹھ گئے۔ میرے والد صاحب نے اُسی دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بغور دیکھا تھا اور طبیعت پر ایسا اثر پڑا تھا کہ مولوی محمد حسین بٹالوی سے نفرت ہوگئی اور دل میں ایسا جوش پیدا ہوا کہ اپنی چادر اُس کے نیچے سے کھینچ لی اور جھاڑ کر کہا کہ میری چادر پلید کردی ہے۔ اسی مقدمہ کے دوران میرے والد صاحب نے حضرت اقدسؑ کی بیعت کرلی۔
میرے والد صاحب کی عادت تھی کہ جب بھی بازار میں اچھے خربوزے دیکھتے، خرید کر والدہ صاحبہ کے ہاتھ حضورؑ کی خدمت میں روانہ کر دیتے۔ 1901ء میں وہ مستقل قادیان آ بسے۔ 1902ء میں جب میری عمر قریباً دس سال تھی تو میں نے حضور کے دست مبارک پر پہلی بار بیعت کی اور پھر پچاس سے زیادہ مرتبہ دوسرے لوگوں کے ساتھ بیعت کی توفیق پائی۔
اگرچہ مَیں نے بطور پیشہ دکانداری کا آغاز کیا لیکن تبلیغ کا بہت شوق تھا جو ساتھ ساتھ جاری رہی۔ جب حضور علیہ السلام کا الہام ’’کشتیاں چلتی ہیں تا ہوں کشتیاں‘‘ اخبار میں شائع ہوا تو بازار میں ہمارا بہت مذاق اڑایا گیا۔ لیکن 1914ء میں جنگ عظیم کے دنوں میں جب اخباروں کی سُرخیاں یہ لگیں کہ ’’کشتیوں کی کشتیاں‘‘ تو اس الہام کے شان سے پورا ہونے کے بازار والے بھی گواہ بن گئے۔
مَیں نے اپنے والد صاحب کو ساٹھ سال کی عمر میں قرآن کریم ناظرہ ختم کروایا تھا اور وہ ہمیشہ بالالتزام تلاوت کیا کرتے تھے۔
مَیں جب تیسری جماعت میں پڑھتا تھا تو ایک بار قادیان میں اتنی سردی پڑی کہ پانی منجمد ہوگیا۔ حضور کی ایک خادمہ کے کہنے پر کچھ لڑکے برف لے کر حضور کو دکھانے گئے جن میں مَیں بھی شامل تھا۔ مَیں نے اتنی سخت سردی میں صرف ایک قمیض پہن رکھی تھی اور شلوار اوپر اُڑس رکھی تھی۔ حضور برف دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور فرمایا لڑکوں سے تو سردی بھی ڈرتی ہے۔ پھر مجھے انگیٹھی کے پاس بٹھا لیا اور چبانے کو ریوڑیاں دیں اور خود دوبارہ لکھنے میں مصروف ہوگئے۔
ایک بار حضور گورداسپور سے قادیان واپس آرہے تھے تو ہم لڑکے نہر کی پٹری پر ہولئے۔ کافی دُور جاکر حضور کی رتھ نظر آئی۔ جب ہم رتھ کے قریب پہنچے تو حضور نے بابا جیوا رتھ بان سے پوچھا کہ یہ لڑکے کون ہیں۔ اُس نے بتایا کہ سکول کے لڑکے قادیان سے آئے ہیں۔ تب حضور نے رتھ رکوائی، سب لڑکوں کے سروں پر ہاتھ پھیرا اور تھوڑے تھوڑے چنے سب کو دیئے اور پھر ہمارے ساتھ ہی پیدل چلنے لگے۔ کچھ آگے چلے تو قادیان سے حضورؑ کے استقبال کیلئے آنے والے اَور دوست بھی ساتھ شامل ہوگئے۔ موضع بڑاں پہنچے تو وہاں کے دو معزز سکھوں نے ہاتھ جوڑ کر درخواسست کی کہ حضور رَس پی کر جائیں۔ فرمایا کہ آدمی بہت زیادہ ہیں اس لئے تکلیف نہ کریں۔ لیکن اُن کے اصرار پر ٹھہر گئے اور رَس پی کر پھر آگے چلے۔
میں بچپن سے ہی نمازوں کا پابند تھا اور داڑھی بھی نہیں منڈوائی تھی اس لئے لوگ مجھے مولوی کہتے تھے۔ یہ لفظ مجھے ناپسند تھا۔ 1918ء میں فوج میں بھرتی ہوکر بصرہ چلا گیا تو وہاں بھی نمازوں اور تلاوتِ قرآن میں باقاعدگی کی وجہ سے لوگ مجھے مولوی کہنے لگے، جس کا مجھے قلق تھا۔ ایک رات خواب دیکھا کہ مسجد اقصیٰ قادیان میں نماز پڑھنے گیا ہوں۔ درمیانے دَر کے قریب پہنچا تو آواز آئی ’’مولوی صاحب‘‘۔ مَیں نے خیال کیا کہ کسی نے کسی کو بلایا ہے کیونکہ مَیں تو مولوی نہیں ہوں۔ پھر یہی آواز آئی۔ پیچھے دیکھا تو حضرت مسیح موعودؑـ اس عاجز کو پکار رہے ہیں۔ جلدی سے حاضر ہوا۔ حضور نے اپنی بائیں ران پر بٹھاکر پوچھا ’’مولوی صاحب! آجکل لوگ ہم پر کیا اعتراض کرتے ہیں؟‘‘ عرض کیا حضور کی نبوت پر بحث کرتے ہیں۔ فرمایا: آپ پھر کیا جواب دیتے ہیں؟۔ میرا جواب سن کر حضورؑ فرمانے لگے یہی جواب درست ہے۔ اس کے بعد آنکھ کھل گئی اور میرے دل میں تحریک ہوئی کہ چونکہ حضور نے مولوی کا خطاب دیدیا ہے اس لئے کسی کے مولوی کہنے پر اب مَیں ناراض نہیں ہوں گا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مجھے مولوی بنادیا اور سینکڑوں مناظروں میں کامیابی بخشی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں