ریویو آف ریلیجنز کے اثرات
ہفت روزہ ’’بدر‘‘ قادیان صحافت نمبر 2002ء میں انگریزی رسالہ ’’ریویو آف ریلیجنز‘‘ کے ایک سو سال مکمل ہونے پر ایک تفصیلی مضمون بقلم مکرم مولانا دوست محمد شاہد صاحب شامل اشاعت ہے۔
27؍دسمبر 1891ء کو پہلا جلسہ سالانہ قادیان منعقد ہوا جس کے لئے 7؍دسمبر کو دیئے جانے والے اشتہار میں حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا: ’’جلسہ میں یہ بھی ضروریات میں سے ہے کہ یورپ اور امریکہ کی دینی ہمدردی کے لئے تدابیر حسنہ پیش کی جائیں کیونکہ اب یہ ثابت شدہ امر ہے کہ یورپ اور امریکہ کے سعید لوگ اسلام کے قبول کرنے کے لئے تیار ہورہے ہیں…‘‘۔
28؍دسمبر 1892ء کو دوسرے جلسہ سالانہ کے موقع پر حاضرین کے مشورہ سے حضرت مسیح موعودؑ نے ایک انگریزی رسالہ شائع کرکے یورپ اور امریکہ میں بھجوائے جانے کا فیصلہ فرمایا۔ 15؍جنوری 1901ء کو حضورؑ نے ایک اشتہار کے ذریعہ جماعت کو اس رسالہ کے اجراء کی اطلاع دی اور جنوری 1902ء سے یہ رسالہ محترم مولانا محمد علی صاحب کی ادارت میں انگریزی میں اور مارچ 1902ء سے اردو زبان میں بھی شائع ہونا شروع ہوگیا۔ اس رسالہ نے جلد ہی علمی سطح پر اپنے پُرشوکت مضامین اور اعلیٰ پایہ کی انگریزی کی بدولت سکّہ جمالیا۔ روسی مفکر ٹالسٹائی کو بھی حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے یہ رسالہ بھجوایا تو اُس نے جواباً اس کی بہت تعریف کی اور شکریہ ادا کیا۔ مختلف علمی شخصیات کے علاوہ اخبارات و رسائل نے اس رسالہ کی تعریف میں بہت عمدہ مضامین اور اداریے لکھے۔
رسالہ ’’البیان‘‘ لکھنؤ نے لکھا کہ یہی ایک ایسا پرچہ ہے جس کو خالص اسلامی پرچہ کہنا صحیح ہے۔ مسلمانوں کو خوش ہونا چاہئے کہ ہندوستان میں ایک ایسا رسالہ نکل رہا ہے جس کے زوردار مضامین پر علم و فضل کو ناز ہے۔
اخبار ’’ملت‘‘ لاہور نے لکھا کہ اس کے اعلیٰ اور بے نظیر مضامین نے یورپ کی مذہبی دنیا میں ہلچل مچادی ہے اور پادریوں کے گروہ ماتم زدہ نظر آرہے ہیں۔
ضلع سرگودہا کے ایک احمدی زمیندار چودھری حاکم علی صاحب نے یہ رسالہ مسٹر میلکم ہیلی (جو بعد میں گورنر پنجاب اور گورنر یوپی بھی رہے) کے نام جاری کروادیا۔ کچھ عرصہ بعد جب دونوں کی ملاقات ہوئی تو مسٹر میلکم نے چودھری صاحب سے کہ تم نے یہ رسالہ جاری کرواکے مجھے تکلیف میں ڈال دیا ہے۔ جب مَیں اس کو پڑھتا ہوں تو مجھے یقین ہوجاتا ہے کہ اسلام ہی سچا مذہب ہے اور اس فکر میں مجھے راتوں کو نیند نہیں آتی۔
اسی طرح فقیر افتخارالدین صاحب آف راولپنڈی نے اسے ایک انگریز افسر کے نام جاری کروایا۔ کچھ عرصہ بعد اُس نے کہا کہ اس رسالہ کو بند کروا دو کیونکہ جب یہ آتا ہے تو پڑھے بغیر رہا بھی نہیں جاتا اور جب پڑھتا ہوں تو راتوں کی نیند اُڑ جاتی ہے اور مَیں ڈرتا رہتا ہوں کہ مَیں اسلام قبول نہ کرنے کی وجہ سے خدا کا مجرم ہوجاؤں۔
یکم جون 1909ء کو حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ کو رسالہ کی ادارت کی ذمہ داری سپرد ہوئی۔ انہی دنوں قادیان میں دو انگریز آئے اور کسی سے ایڈیٹر ’’ریویو‘‘ کے مکان کا پتہ پوچھا۔ اپنے مکان کے قریب ہی حضرت مولوی صاحبؓ سادہ کپڑوں میں کھلے گریبان کے ساتھ اپنی بھینس چرا رہے تھے۔ اُن مہمانوں نے آپؓ سے بھی ایڈیٹر کا مکان پوچھا تو آپؓ انہیں اپنے گھر لے آئے اور بیٹھک میں بٹھاکر فرمایا کہ مَیں ابھی انہیں بلا لاتا ہوں۔ اس پر انہوںنے اصرار کیا کہ ہمیں سیدھے اُنہیں کے پاس لے چلئے۔ جب آپؓ نے بتایا کہ ایڈیٹر مَیں ہوں تو وہ حیرت سے کہنے لگے کہ اُن کا خیال تھا کہ ایڈیٹر کوئی انگریز ہوگا۔
ہاورڈ یونیورسٹی میں تاریخ مذاہب کا پروفیسر مسٹر جارج فوٹ مور لکھتا ہے کہ احمدؑ کی 1908ء میں وفات کے باوجود احمدیت کی ترقی جاری ہے۔ انڈیا سے انگریزی رسالہ ریویو آف ریلیجنز اور برطانیہ سے رسالہ اسلامک ریویو شائع ہوتا ہے۔ قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ بھی یہ شائع کرچکے ہیں۔
اسی طرح انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا نے اپنے 1947ء کے ایڈیشن میں احمدیت کی کامیابیوں کے حوالہ سے تفصیلی نوٹ تحریر کیا جس میں رسالہ ریویو کا بھی خصوصیت سے ذکر کیا۔
قیام پاکستان کے بعد دسمبر 1951ء میں رسالہ ریویو (انگریزی) کا احیاء عمل میں آیا جب محترم صوفی مطیع الرحمن بنگالی صاحب اس کے مدیر مقرر ہوئے۔ خلافت ثالثہ میں بھی یہ رسالہ جاری رہا اور بہت سے اہم مضامین اس میں سپرد اشاعت ہوئے۔ خلافت رابعہ میں رسالہ کے انقلاب انگیز دَور کا آغاز ہوا اور حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی ہدایت پر اس کے معیار، افادیت اور اثرانگیزی میں اضافہ کے لئے خصوصی مساعی کی گئی۔ اسی دور میں رسالہ کے انمول مضامین کی مائیکروفلم بھی تیار کی گئی۔