ساسانی ایران کا مقابلہ اور اس پر فتح
اسلام سے قبل ایران میں ساسانی خاندان کی شخصی بادشاہت قائم تھی جو مطلق العنان تھی اور ملک گیری کی ہوس کے باعث ہمسایہ مملکتوں پر حملہ آور رہنا ہی ان کا شغل تھا۔ عربوںکی قبائلی رقابت کی ماری ہوئی قوم کو مغلوب رکھنے کی بھی مسلسل کوشش کی جاتی۔ چنانچہ یمن، بحرین اور دیگر قریبی علاقے تو یہ حکمران اپنے ماتحت ہی سمجھتے لیکن بقیہ عرب کو بھی اپنی جاگیر تصور کرتے۔ اہل عرب گو غیرمتمدّن اور کمزور تھے لیکن اپنی آزادی کو ہمیشہ برقرار رکھنے میں کوشاں رہے۔ جب اسلام کا ظہور ہوا اور عرب متحد ہونے لگے تو ایرانیوں نے اِس اتحاد سے خائف ہوکر سرحدی علاقوں کے قبائل پر حملے تواتر سے کرنے شروع کردیئے۔ چنانچہ ایک سرحدی قبیلہ کے سردار حضرت مُثَّنی بن حارثہؓ نے حضرت ابوبکرؓ سے اپنے قبیلہ کے بچاؤ کے لئے ایرانیوں کے خلاف جوابی حملوں کی اجازت حاصل کرلی اور یہ لڑائیاں ہی وسعت پذیر ہوکر قبضۂ ایران کا موجب ہوئیں۔ تاہم جنگ کے بعد مسلم فاتحین نے مقامی آبادی سے جو معاہدے کئے اُن میں مقامی آبادی کی جان، مال اور مذہبی آزادی اور عبادتگاہوں کے تحفظ کی ضمانت دی گئی اور مستشرقین کی اِس سوچ کو ہمیشہ کے لئے غلط قرار دیدیا کہ مسلمانوں نے کسی لالچ یا ہوس کے تحت جارحیت کی تھی۔
ایران کی ساسانی حکومت کا بانی اردشیر تھا جس نے سب سے پہلے اہل عرب کے خلاف فوجی مہم کا آغاز کیا اور پہلے عراق پر قبضہ کرکے بادشاہ عمروبن عدی کو اپنا باج گزار بنالیا۔ پھر لمبے محاصرہ کے بعد بحرین پر قبضہ کرلیا۔ پھر اردشیر کا بیٹا شاپور تخت نشین ہوا تو اُس نے عرب کے اندرونی علاقوں حجاز وغیرہ پر بھی قبضہ کرکے وہاں اپنا گورنر مقرر کردیا۔ پھر ایک اور بادشاہ ھرمز کے بعد جب اُس کا بیٹا شاپور کمسنی میں بادشاہ بنا تو عربوں نے بغاوت کردی۔ یہ شاپور بڑا ہوکر بڑا جابر حکمران بنا اور اس نے نہ صرف عربوں پر حملہ کرکے شدید خونریزی کی بلکہ عرب دشمنی میں اتنا بڑھا کہ جہاں سے بھی گزرتا وہاں کے چشمے اُجاڑ دیتا اور کنوئیں مٹی سے بند کروادیتا تاکہ زندگی کا ہی خاتمہ ہوجائے۔ مدینہ کے قریب تک اُس نے دہشت و خونریزی کا بازار گرم کئے رکھا۔ عرب اگرچہ شاپور کے سامنے تو بے بس تھے لیکن جب رومی حکومت نے شاپور کے خلاف جنگ کے لئے عربوں کو اپنے لشکر میں شامل کرنا چاہا تو ایک لاکھ ستر ہزار عرب رومی لشکر میں شامل ہوگئے۔
عربوں کے ایک قبیلہ بکر کے خلاف جب ایرانیوں کے بادشاہ کسریٰ نے کسی بات پر ناراض ہوکر لشکر روانہ کیا توعربوں نے تعداد میں کم ہونے کے باوجود اُسے ماربھگایا۔ یہ عربوں کی ایرانیوں کے خلاف پہلی فتح تھی جس کی خبر جب آنحضورﷺ نے سنی تو فرمایا: ’’آج پہلا دن ہے کہ عرب نے ایران سے انصاف حاصل کیا ہے‘‘۔ جب آنحضورﷺ نے بادشاہوں کو خطوط لکھے تو یمن پر ایرانی قبضہ موجود تھا۔ ایرانی بادشاہ کسریٰ پرویز کے لئے خط لے کر حضرت عبداللہ بن حذافہؓ پہلے یمن گئے اور وہاں کے ایرانی گورنر بازان کی معرفت ہی کسریٰ کے دربار میں پہنچے۔ کسریٰ نے خط سن کر اسے ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور غصہ سے کہا: ’’میرا غلام ہوکر مجھے اس طرح مخاطب کرتا ہے‘‘۔ پھر اُس نے یمن کے گورنر کو لکھا کہ نبوت کے مدعی کو گرفتار کرکے میرے پاس بھجوایا جائے۔ بازان نے دو کارندے آپؐ کی طرف بھجوادیئے۔ یہ کارندے جب طائف پہنچے تو وہاں کے لوگوں نے یہ کارروائی سن کر خوشی کا اظہار کیا اور آپس میں یوں پیغام دیا کہ ’’خوشخبری ہو کہ بادشاہوں کے بادشاہ کسریٰ نے اس کے لئے آدمی مقرر کردیئے ہیں جو تمہیں اس سے نجات دلادیں گے‘‘۔ جب ان کارندوں نے آنحضورﷺ کی خدمت میں کسریٰ کا پیغام پہنچایا تو یہ بھی کہا کہ بازان نے مجھے آپ کو لانے کے لئے بھیجا ہے۔ اگر آپ بازان کے پاس چلے آئیں تو وہ کسریٰ کو ایسی تحریر لکھ دے گا کہ بادشاہ آپ کو تکلیف دینے سے رُک جائے لیکن اگر آپ انکار کریں گے تو آپ کسریٰ کو جانتے ہی ہیں، وہ آپ کی قوم کو تَباہ کردے گا اور ملک کو ویران بنادے گا۔
آنحضورﷺ نے اُس کارندے کو اگلے دن دوبارہ آنے کا ارشاد فرمایا۔ جب وہ آیا تو آپؐ نے اُس سے فرمایا: ’’جاؤ، ہمارے خدا نے تمہارے آقا کا آج رات خاتمہ کردیا ہے‘‘۔ جب دونوں کارندے واپس یمن پہنچے اور بازان کو یہ اطلاع دی تو زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ ایران سے اطلاع آگئی کہ کسریٰ کو اُس کے بیٹے شیرویہ نے ہلاک کردیا ہے اور وہ خود بادشاہ بن گیا ہے۔
مذکورہ واقعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایرانی کس طرح عربوں کو اپنا ماتحت خیال کرتے تھے اور یہ کہ ایرانی ناراض ہوکر عربوں پر کس قدر ظلم کرتے تھے۔ چنانچہ مسلمان اس میں سراسر حق پر تھے کہ اپنے جان سے پیارے وجود کو دھمکی دینے والی اور جنگی الٹی میٹم دینے والی حکومت سے جنگ کریں۔
کسریٰ کے بعد ایران میں کئی بادشاہ چھوٹے چھوٹے عرصہ کے لئے بادشاہ بنے اور کسی قدر خلفشار کی صورت پیدا ہوئی۔ عربوں کی سرحد پر جو ایرانی صوبہ تھا اُس کا گورنر ھرمز تھا جو بڑے جاہ و جلال کا مالک تھا۔ عرب پر مسلسل زمینی حملے کرنا اور ہندوستان پر سمندری حملے کرنا اُس کا معمول تھا اور عرب اُس کے مظالم پر شدید پریشان تھے۔ اُس کے مظالم اس قدر تھے کہ عربی زبان میں خباثت اور کفر کا ضرب المثل بن گیا تھا۔ جب حضرت مثَّنیؓ نے ھرمز کی جارحانہ کارروائیوں کے جواب میں حضرت ابوبکر ؓ کی اجازت سے ایرانیوں کے خلاف Counter attacks کا آغاز کیا تو کچھ عرصہ بعد مزید امداد کی درخواست پر حضرت ابوبکرؓ نے حضرت خالدؓ کو مسلمانوں کی مدد کے لئے بھجوادیا۔ چنانچہ ایران پر حملہ مسلمانوں کی جارحیت نہیں تھی بلکہ یہ ایک دفاعی حکمت عملی تھی۔ اس کا ثبوت یہ بھی ہے کہ جب حضرت عمرؓ نے اسلامی فوج کے کمانڈروں کے ایک وفد سے پوچھا کہ اسلامی مفتوحہ علاقہ میں بغاوت کیوں ہوجاتی ہے کہیں مسلمان ذمیوں کو تکلیف تو نہیں دیتے۔ جواب میں احنف بن قیس نے کہا کہ مسلمان کبھی ذمّی کو تکلیف نہیں دیتے بلکہ اس بغاوت کی وجہ یہ ہے کہ ایرانی مسلسل ہمارے خلاف شورشیں کرتے چلے جارہے ہیں لیکن ہم نے آج تک ایران کا کوئی حصہ اُس وقت تک فتح نہیں کیا جب تک شاہِ ایران کی فوج نے حملہ نہیں کیا۔
اگرچہ مسلمان اس بات پر حق بجانب تھے کہ ایرانی حملے کی صورت میں ایران کو فتح کرکے دَم لیں لیکن حضرت عمرؓ کی امن کو قائم کرنے کی خاطر یہی ہدایت تھی کہ ہر معرکہ کے بعد مسلمان اپنی فتح کے فوجی فوائد سے متمتّع ہونے کی بجائے مزید فوجی اقدام روک دیں۔ لیکن ایرانی جلد ہی تازہ دَم ہوکر پھر مسلمانوں پر حملہ آور ہوتے اور شکستوں پر شکست کھاتے چلے گئے۔
دراصل اگر کوئی عربوں کی طاقت اور دوسری طرف ساسانی و بازنطینی مملکتوں کی طاقت کا موازنہ کرے تو یہی نتیجہ نکالے گا کہ عربوں کا دونوں عظیم طاقتوں کے خلاف لڑنا کبھی بھی جارحیت کا نتیجہ نہیں ہوسکتا بلکہ یہ دونوں طاقتوں سے مظالم سے نجات حاصل کرنے کی ایک جہد مسلسل تھی۔ چنانچہ ہر معرکے میں ایرانیوں کی تعداد مسلمانوں کی تعداد سے کئی گُنا زیادہ تھی۔ اور مسلمانوں کے اسلحے کا یہ حال تھا کہ ایرانی ان کا تمسخر اُڑاتے اور ان کے تیروں کو تُکّے کہا کرتے۔ اگر مسلمانوں کا ارادہ جارحیت کا ہوتا تو وہ دونوں طاقتوں کے خلاف ایک ہی وقت میں سرگرم عمل ہونے کی بجائے ایک طاقت کی پشت پناہی سے دوسری پر حملہ آور ہوتے۔ اگر مسلمانوں کی خواہش صرف لُوٹ مار کی ہوتی تو عراق وغیرہ چند علاقوں پر قبضہ ہی کافی ہوتا۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ مسلمانوں نے اپنی دفاعی لڑائی مجبوراً لڑی جو خدا تعالیٰ نے عظیم الشان فتوحات میں بدل دی۔