سر پیٹر مینس فیلڈ -MRI کے موجد
ہفت روزہ ’’بدر‘‘ قادیان 20 اپریل 2004ء میں 2003ء کا طب میں نوبل انعام حاصل کرنے والے برطانوی سائنسدان سر پیٹر مینس فیلڈ (Sir Peter Mansfield) کا تعارف مکرم رشید احمد چودھری صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
سر پیٹر مینس فیلڈ 1933ء میں پیدا ہوئے۔ 15 سال کی عمر میں کوئی سرٹیفیکیٹ حاصل کئے بغیر انہوں نے سکول چھوڑ دیا۔ اُن کی خواہش تھی کہ وہ پرنٹر بن جائیں اس لئے انہوں نے لندن کی ایک پرنٹنگ کمپنی میں حروف کمپوز کرنے پر ملازمت اختیار کرلی۔ فوجی ہتھیاروں کے بارہ میں علم حاصل کرنا ان کے تفریحی مشاغل میں شامل تھا۔ چنانچہ 19سال کی عمر تک اس نے ملٹری ہتھیاروں ، بم سازی اور راکٹوں کے بارہ میں کافی معلومات حاصل کر لی تھیں۔ اس کے بعد وہ ایلزبزی کے مقام پر راکٹ لانچ کرنے کے محکمہ میں سائنٹفک اسسٹنٹ کے طور پر ملازم ہوگئے۔ اس زمانہ میں ہر نوجوان کو نیشنل سروس کرنا ضروری تھا۔ وہاں سے فارغ ہو کر آپ نے کوئین میری کالج سے پہلے بی اے کی ڈگری حاصل کی اور پھر فزکس میں ڈاکٹریٹ کیا۔ جس کے بعد انہیں نوٹنگھم یونیورسٹی میں کام کرنے کا موقعہ ملا جہاں سے وہ ریٹائرہوئے۔ اب ان کی عمر 70 سال ہے۔ آپ کو یہ انعام امریکہ کےPaul Lauterbur کے ساتھ مشترکہ طور پر ملا ہے جو Illinois یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔ ان دونوں نے طبی میدان میں تحقیق کرکے انسانوں کے لئے ایک نہایت مفید مشین ایجاد کی ہے جس سے انسانی جسم کے اندرونی حصوں مثلاً دماغ وغیرہ کا عکس لیا جاسکتا ہے اور مریض کو کسی قسم کی تکلیف کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ ان کی اس ٹیکنیک کو(MRI (Magnetic Resonance Imagin کہتے ہیں۔ ان کی تحقیق کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ہر ایٹم کا مرکز مقناطیسی محور کے گرد گھومتا ہے۔ مینس فیلڈ نے 1970ء میں جو عکس حاصل کیا تھا وہ صاف نہیں تھا تا ہم اس نے ہمت نہ ہاری اور کئی تجربات کے بعد صاف عکس حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
سب سے پہلی MRI مشین 1980ء کے اوائل میں لیبارٹریوں کو فراہم کی گئی اور 2002ء تک دنیا بھر میں بائیس ہزار مشینیں ہسپتالوںمیں استعمال ہورہی تھیں جن کی مدد سے ہر سال 6 کروڑ افراد فائدہ حاصل کررہے تھے۔ اس میں ایکسرے کا استعمال نہیں ہوتا اس لئے یہ بالکل بے ضرر مشین ہے مگر چونکہ ان مشینوں سے بہت طاقتور مقناطیسی شعائیں نکلتی ہیں اس لئے اگر جسم کے اندر کوئی دھات موجود ہو یا دل میں Pace Maker لگا ہو تو یہ مشین استعمال نہیں کی جاتی۔ آجکل اس مشین سے جسم کے ہر حصے کا عکس لیا جاسکتا ہے خاص طور پر دماغ کا یا ریڑھ کی ہڈی کا۔ کئی اور طریق سے بھی اس سے فائدہ حاصل کیا جارہا ہے مثلاً اگر گھٹنا زخمی ہوجائے تو اس مشین سے زخم کی نوعیت کا پتہ چلایا جاسکتا ہے۔ اسی طرح کینسر کا علاج بھی اس کی مدد سے آسان ہوجاتا ہے۔