سیدنا حضرت ابوبکر صدیقؓ
عبداللہ بن عثمان کو یہ خبر شام سے واپس آتے ہوئے ایک سفر کے دوران ملی کہ اُن کے بچپن کے دوست محمدؐ نے دعویٰ نبوت کردیا ہے۔ چنانچہ جونہی عبداللہ مکہ پہنچے تو جلدی سے اپنے دوست کے پاس پہنچے اور پوچھا کہ کیا واقعی آپؐ نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے؟ اللہ کے رسول نے اپنی بات سمجھانے کیلئے گفتگو کا آغاز کیا تو عبداللہ نے عرض کیا کہ مجھے کوئی دلیل نہیں چاہئے، صرف اتنا بتادیں کہ کیا یہ سچ ہے؟ حضرت رسول اللہﷺ نے اثبات میں جواب دیا تو عبداللہؓ نے آپؐ کا ہاتھ تھام کر عرض کیا یا رسول اللہﷺ! آپ گواہ رہیں کہ سب سے پہلے آپ پر میں ایمان لایا ہوں۔ یوں عبداللہؓ کی ایک نئی زندگی کا آغاز ہوگیا۔ اگرچہ پہلے بھی آپؓ نیکی، ایمانداری اور عفت میں اپنی مثال آپ تھے۔ پیشہ تجارت تھا۔ کنیت ابوبکر تھی اور آنحضورﷺ نے صدیق کا لقب عطا کیا تھا۔ ماہنامہ ’’خالد‘‘ سالانہ نمبر1998ء میں سیدنا حضرت ابوبکر صدیقؓ کی سیرۃ و سوانح پر مکرم فرید احمد نوید صاحب کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔
حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے والد عثمان کو قبولِ اسلام کی توفیق فتح مکہ کے بعد عطا ہوئی جب اُن کی عمر 92 سال تھی۔آغاز اسلام پر اُن کا خیال تھا کہ یہ تحریک نوجوانوں کو خراب کرنے کے لئے شروع کی گئی ہے۔ جب عمررسیدہ عثمان اپنے بیٹے کا ہاتھ تھامے آنحضورﷺ کی خدمت میں بیعت کے لئے حاضر ہوئے تو آپؐ نے نہایت شفقت سے فرمایا ’’ابوبکر انہیں کیوں تکلیف دی، یہ تو ضعیف ہیں، مجھے بتا دیتے میں خود ان کے پاس پہنچ جاتا‘‘۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اسلام قبول کیا تو دیوانہ وار تبلیغِ اسلام شروع کردی۔ چنانچہ حضرت عثمانؓ بن عفان، طلحہؓ بن عبداللہ، سعدؓ بن ابی وقاص، عبدالرحمانؓ بن عوف اور بہت سے دیگر جلیل القدر صحابہؓ نے اسلام قبول کیا۔ آپؓ کی ذاتی نیکی اور تقویٰ ہر ملنے والے کو ضرور متاثر کرتا تھا۔ آپؓ کی زندگی آنحضورﷺ اور غریب مسلمانوں کے لئے وقف ہوچکی تھی۔ بہت سے غلاموں اور کنیزوں کی زندگیاں، جن پر اُن کے مالک شدید ظلم توڑا کرتے تھے، آپؓ کے طفیل آزادی کی نعمت سے ہمکنار ہوئیں۔اِن غلاموں میں حضرت بلالؓ اور عامرؓ بن فہمیرہ بھی شامل ہیں۔خدا سے لَو لگانے کے لئے آپؓ نے اپنے گھر کے صحن میں ایک چھوٹی سی مسجد بنا رکھی تھی۔ آپؓ کی عبادت کا منظر ایسا دلکش تھا کہ لوگ خاص طور پر آپؓ کو دیکھنے آتے اور متاثر ہوئے بغیر نہ رہتے۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ اور آنحضورﷺ بھی دشمنوں کے ظلم و ستم سے محفوظ نہ تھے۔ ایک روز تبلیغ کے جرم میں آپؓ کو اس قدر بے دردی سے مارا پیٹا گیا کہ جان کنی کے عالم میں آپؓ کے قبیلے نے آپؓ کو ظالموں کے پنجے سے چھڑایا۔ لیکن جب آپؓ کو ہوش آیا تو گھر میں موجود افراد کو تبلیغ شروع کردی۔ آپؓ کی والدہ آپؓ کے عزم سے اتنا متاثر ہوئیں کہ اگلے ہی روز آنحضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کرلیا۔ اُن کانام حضرت ام الخیر سلمیٰ تھا جو آپؓ کی خلافت کا زمانہ دیکھ کر لمبی عمر پاکر فوت ہوئیں۔
حضرت ابوبکرؓ نے مکہ کے مصائب کی وجہ سے آنحضورﷺ سے ہجرت کی اجازت چاہی اور اجازت ملنے پر حبشہ کی طرف رختِ سفر باندھا۔ ابھی سفر شروع ہی کیا تھا کہ مکہ کے رئیس ابن دغنہ سے ملاقات ہوئی جو آپؓ کی نیکی اور اعلیٰ اخلاق کا معترف تھا۔ اُس کو آپؓ کا ارادہ معلوم ہوا تو وہ آپؓ کو پناہ دے کر واپس لے آیا۔ لیکن جلد ہی قریش نے ابن دغنہ کو مجبور کیا کہ آپؓ کو اپنے گھر میں بنائی ہوئی مسجد میں بھی عبادت سے منع کردے تاکہ دوسرے لوگ متاثر نہ ہوں۔ جب ابن دغنہ نے آپؓ سے یہ بات کی تو آپؓ نے اُس کی پناہ واپس کردی لیکن عبادت جاری رکھی۔
کچھ عرصہ بعد آپؓ نے پھر آنحضورﷺ سے ہجرت کی اجازت چاہی تو آپؐ نے کچھ انتظار کرنے کا ارشاد فرمایا اور چار ماہ بعد جب آنحضرت ﷺ کو مکہ سے ہجرت کی اجازت اللہ تعالیٰ نے عطا فرمادی تو اس بارہ میں آنحضورؐ نے آپؓ کو بتادیا اور پھر آپؓ کی ہمسفر بننے کی درخواست کو بھی شرف قبولیت بخشا۔ مدینہ کی آب و ہوا مہاجرین کیلئے موزوں نہ تھی اسلئے کثرت کے ساتھ لوگ بیمار ہو رہے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ بھی ایک مرتبہ شدید بیمار ہوگئے اور یوں لگا کہ مرض الموت ہے لیکن رسول اللہﷺ کی دعا سے یہ بیماری جاتی رہی اور آپؓ بالکل ٹھیک ہوگئے۔
جب مدینہ کے مسلمانوں کے خلاف کفار مکہ نے بار بار حملے کئے تو حضرت ابوبکرؓ ہر موقعہ پر آنحضرتﷺ کے ہمراہ رہ کر دشمن کا مقابلہ کرتے رہے اور کسی پُرخطر راہ پر اپنے محبوب آقا کا ساتھ نہ چھوڑا۔ جب آنحضرتﷺ کی وفات کا وقت قریب آیا تو حضرت ابوبکرؓ کی فراست اس بات کو جان گئی۔ اپنے محبوب رسولؐ سے جدائی کا تصور بھی آپؓ کے لئے سوہان روح تھا۔ لیکن جب آنحضرتﷺ کی وفات ہوگئی تو صحابہؓ گویا شدت غم سے دیوانہ ہوگئے۔ ایسے میں حضرت ابوبکر صدیقؓ نے خدا تعالیٰ کے اذن سے ایسی تقریر کی کہ ہر کسی کا دل مطمئن ہوگیا اور صحابہؓ کی نظر انتخاب رسول اللہ کی نیابت کے لئے آپؓ پر جا ٹھہری۔ یہ ایک بہت بڑا مقام خدا تعالیٰ نے آپؓ کو عطا فرمایا تھا لیکن یہ مقام کوئی پھولوں کی سیج نہ تھا بلکہ ایک مستقل جدوجہد کی بنیاد تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے ضعیفی کے باوجود اس بوجھ کو قبول کیا اور جوانمردی کے ساتھ اپنے آقاؐ کی جانشینی کی۔
آنحضورﷺ نے وفات سے کچھ عرصہ قبل حضرت اسامہ بن زیدؓ کی قیادت میں ایک لشکر ایک مہم پر بھیجنے کاارادہ کیا تھا۔ آپؐ کی وفات پر بعض صحابہ کا خیال تھا کہ باغیوں کی سرگرمیوں کی وجہ سے لشکر کا سفر ملتوی کردیا جائے۔ لیکن حضرت ابوبکرؓ نے بڑی دلیری سے فرمایا کہ ’’ جس لشکر کی روانگی کیلئے خود رسول اللہ نے حکم فرمایا تھا، وہ ضرور جائے گا۔ خدا کی قسم اگر مدینہ کی گلیاں آدمیوں سے خالی ہو جائیں اور درندے آکر میری ٹانگیں کھینچنے لگ جائیں تب بھی میں اس مہم کو نہیں روکوں گا‘‘۔ چنانچہ یہ لشکر بھجوایا گیا اور محض چالیس دن میں اپنا مقصد پورا کرکے فاتحانہ شان سے واپس آگیا۔
حضرت ابوبکرؓ کی انکساری کا یہ عالم تھا کہ آپکے خلیفہ بننے پر ایک معصوم بچی نے پوچھا کہ پہلے تو بکریاں دوہنے میں ہماری مدد آپ کیا کرتے تھے، اب کون کرے گا؟ آپؓ نے فرمایا کہ میں ہی دوہوں گا۔ چنانچہ آپؓ جب تک زندہ رہے تو حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں پورے طور پر ادا کرتے رہے۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ کے انتقال کے بعد مدینہ کی ایک بوڑھی اور ضعیف عورت نے کہا لگتا ہے آج ابوبکرؓ فوت ہوگئے ہیں۔ کسی نے پوچھا تمہیں کیسے پتہ چلا۔ وہ بولی ابوبکرؓ روزانہ میرے کھانے کیلئے بھیجا کرتے تھے اور کبھی بھی ناغہ نہیں کیا لیکن آج جب کھانا نہیں آیا تو میرے دل نے کہا کہ ضرور ابوبکرؓ فوت ہوگئے ہیں ورنہ وہ وعدہ خلافی کرنا تو سیکھے ہی نہ تھے۔
حضرت ابوبکرؓ کے دور میں اسلامی مملکت کو وسعت بھی ملی اور استحکام بھی نصیب ہوا لیکن اس سارے دَور میں آپؓ اپنے آقاؐ کی جدائی کے صدمے کو بڑی مشکل سے برداشت کر رہے تھے۔ خدا تعالیٰ نے آپؓ کے صبر کے امتحان کو زیادہ لمبا نہیں کیا اور آنحضورﷺ کی وفات کے قریباً دو سال بعد ہی آپؓ بھی وفات پاگئے اور اپنے آقاؐ کے پہلو میں دفن کئے گئے۔