سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے سیدنا طاہر نمبر میں مکرم نعیم اللہ خان صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضورؒ سے 1970ء میں انتخابات کے دوران تعارف کا موقع ملا جب مجھے مکرم چودھری انور حسین صاحب کے پاس شیخوپورہ بھجوایا گیا۔ حضورؒ ہمیں ہدایات دینے کے لئے رات کو آیا کرتے اور رات میں ہی واپس روانہ ہوجاتے۔نہ تھکنے والی شخصیت تھے۔
میرے کاروبار میں ہرقسم کی مدد کی اور مشورے دیئے۔ عبادت کا بے حد شغف تھا۔ کراچی میں میرے پاس تشریف لاتے تو فرماتے کہ نماز کی امامت کرواؤ۔ مجھے ہچکچاہٹ ہوتی تو فرماتے کہ اگر تم نہیں پڑھاؤگے تو مسافر ہونے کی وجہ سے آدھی پڑھوں گا۔
سادگی ایسی تھی کہ میرے ساتھ موٹر سائیکل پر بیٹھ کر ہی سفر کرلیتے اور کار کے لئے کسی کو تکلیف نہ دیتے۔ دوران سفر چھوٹے ہوٹلوں پر بھی کھانا کھالیتے اور تکلّف نہ کرتے۔ ہمیشہ کھانے کی تعریف کرتے۔
حضورؒ کا حافظہ بہت عمدہ تھا۔ میرے والد کی دیکھی ہوئی ایک خواب کی تعبیر مجھے آٹھ سال بعد بتائی جب مَیں نے لندن جاکر حضورؒ سے ملاقات کی۔
سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد مَیں نے بھی حضورؒ کی تحریک پر لبیک کہا اور کاروبار کے لئے ازبکستان آگیا۔ لیکن کاروباری حالات خراب ہونے پر مجھے قرغزستان منتقل ہونا پڑا۔ اس موقع پر حضورؒ نے بہت حوصلہ دیا اور ایک خط میں فرمایا: ’’انشاء اللہ آپ کے تمام نقصانات پورے ہوجائیں گے‘‘۔ بعد میں حضورؒ کے الفاظ لفظ بلفظ پورے ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے کاروبار میں بہت برکت ڈالی۔