سیرت حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ
سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:-
’’جب سے مَیں خدا تعالیٰ کی درگاہ سے مامور کیا گیا ہوں اور حی و قیوم کی طرف سے زندہ کیا گیا ہوں۔ دین کے چیدہ مددگاروں کی طرف شوق کرتا رہا ہوں اور وہ شوق اس شوق سے بڑھ کر ہے جو ایک پیاسے کو پانی کی طرف ہوتا ہے اور مَیں رات دن خدا تعالیٰ کے حضور چلّاتا تھا اور کہتا تھا کہ اے میرے ربّ! میرا کون ناصر و مددگار ہے، مَیں تنہا ہوں۔ پس جبکہ دعا کا ہاتھ پے در پے اُٹھا اور آسمان کی فضا میری دعا سے بھر گئی تو اللہ تعالیٰ نے میری عاجزی اور دعا کو قبول کیا اور ربّ العالمین کی رحمت نے جوش مارا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک مخلص صدیق عطا فرمایا جو میرے مددگاروں کی آنکھ ہے اور میرے اُن دوستوں کا خلاصہ ہے۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام، صفحہ 581)
سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی سیرت کے مختلف پہلوؤں کے حوالہ سے مکرم مظفر احمد شہزاد کے قلم سے ایک مضمون ماہنامہ ’’خالد‘‘ مئی 2001ء میں شامل اشاعت ہے۔
حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کا یہ تعلق باللہ اور قرآن مجید کے ساتھ عشق ہی تھا کہ آپ کو خواب میں بتایا گیا کہ اگر کوئی منکر قرآن آپ سے کسی ایسی آیت کا مطلب پوچھے جس سے آپ ناواقف ہوں تو اس کا علم تمہیں ہم دیں گے۔ چنانچہ ایک ہندو کی کتاب کا جواب لکھتے ہوئے جب حروف مقطعات کی بحث کا موقع آیا تو ایک مرتبہ مغرب کی نماز میں دو سجدوں کے درمیان دعا کرنے پر اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو مقطعات کا وسیع علم عطا فرمایا جس کا ایک حصہ آپؓ نے رسالہ نورالدین میں شائع فرمادیا۔
قرآن کریم سے آپؓ کو اتنا عشق تھا کہ فرمایا کہ خدا تعالیٰ مجھے بہشت اور حشر میں نعمتیں دے تو مَیں سب سے پہلے قرآن شریف مانگوں گا تا حشر کے میدان میں بھی اور بہشت میں بھی قرآن شریف پڑھوں، پڑھاؤں اور سناؤں۔
آپؓ بہت صاحبِ فراست تھے اور ہر ایک کو مناسب حال دلیل کے ساتھ جواب دیتے۔ ایک بار ایک وکیل نے آپؓ سے ہستی باری تعالیٰ کی دلیل مانگی تو آپؓ نے اُس سے پوچھا: کیا تمہاری کوئی جماعت ہے؟۔ اُس نے کہا نہیں۔ پوچھا: تم کسی کے ہادی ہو؟ کہا: نہیں۔ پوچھا: کیا تم چاہتے ہو کہ جھوٹے مشہور ہوجاؤ؟ کہا: نہیں۔ فرمایا: جب تم جیسا لچر آدمی بھی اپنے آپ کو جھوٹا کہلانا پسند نہیں کرتا تو بھلا انبیاء کرام کی تمام جماعت کیسے گوارا کرسکتی تھی کہ وہ جھوٹ بولیں اور ہر علاقہ اور ہر زمانہ کا نبی یہ دعویٰ کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ ہم سے مکالمہ کرتا ہے۔
ایک مرتبہ مہاراجہ کشمیر نے آپؓ سے کہا کہ مولوی جی! تم ہم کو تو کہتے ہو کہ تم سؤر کھاتے ہو اس لئے بیجا حملہ کر بیٹھتے ہو۔ انگریز بھی تو سؤر کھاتے ہیں، وہ کیوں اِس ناعاقبت اندیشی سے حملہ نہیں کرتے؟۔ فرمایا: وہ ساتھ ہی گائے کا گوشت بھی کھاتے رہتے ہیں اس سے اصلاح ہوجاتی ہے۔
حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کو حضور علیہ السلام سے عشق تھا اور حضورؑ بھی آپؓ سے بے حد محبت کرتے تھے۔ ایک بار حضرت مسیح موعودؑ کے گھر میں مستورات کے درمیان اس امر پر گفتگو ہونے لگی کہ حضورؑ کو اپنے مریدوں میں سب سے پیارا کون ہے؟ کوئی فیصلہ نہ ہوسکا تو حضرت اماں جان نے فرمایا کہ میرے خیال میں تو مولوی نورالدین صاحبؓ ہیں اور اس کا امتحان مَیں ابھی کرائے دیتی ہوں۔ اُس وقت حضورؑ ایک کمرہ میں بیٹھے کچھ لکھ رہے تھے۔ حضرت اماں جان ؓ حضورؑ کے پاس جاکر کہنے لگیں: ’’آپ کے جو سب سے پیارے مرید ہیں وہ…‘‘۔ اتنا کہہ کر وہ چپ ہوگئیں۔ اس پر حضورؑ نے گھبراکر پوچھا ’’مولوی نورالدین صاحب کو کیا ہوا، جلدی بتاؤ‘‘۔ اس پر حضرت اماں جانؓ ہنسنے لگیں اور سارا واقعہ بیان کرکے عرض کیا کہ مَیں آپؑ سے یہی بات کہلوانا چاہتی تھی۔