سیرۃ النبی ﷺ کے پُر اثر واقعات

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 13 جولائی 2009ء میں حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب ؓ کے قلم سے آنحضرت ﷺ کے پاکیزہ دَور سے چند پُراثر واقعات شامل اشاعت ہیں۔
٭ مدینہ میں ایک بوڑھے انصاری کے بیٹے مسلمان ہو چکے تھے مگر وہ خود ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ انہوں نے گھر میں لکڑی کا ایک بت رکھا ہوا تھا جس کا نام منافؔ تھا۔ ان کا مسلمان بیٹا اور اس کے دوست اُن کو بت پرستی سے منع کرتے مگر وہ باز نہ آتے تھے۔ آخر اُن نوجوانوںنے یوں کرنا شروع کیا کہ رات کے وقت اُن کے اس بت کو اٹھا کر کوڑی پر ڈال آتے۔ صبح کو وہ انصاری اپنے بت کو تلاش کرتے اور گندگی پر اُسے دیکھ کر خفا ہوتے۔ پھر لاکر دھوتے، خوشبو لگاتے اور کہتے کہ اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ یہ حرکت کس کی ہے تو اسے سخت ذلیل کروں۔ یہی کیفیت روز ہوا کرتی۔ ایک دن تنگ آکر انہوں نے ایک تلواراُس بت کی گردن میں لٹکا دی اور کہا کہ اے خدا! میں نہیں جانتا کہ تمہارے ساتھ یہ گستاخی کون کرتا ہے، آج اپنی حفاظت آپ کر لینا۔ رات ہوئی تو بیٹے نے تلوار بُت کے گلے سے نکال لی اور ایک مرا ہوا کتّا باندھ کر بُت کو گندگی پر پھینک دیا۔ صبح جب انصاری نے تلاش کی اور بُت کی یہ حالت دیکھی تو اُن کو یک دم بت پرستی سے سخت نفرت پیدا ہوئی اور وہ اسلام لے آئے۔ یہ شخص بڈھے اور لنگڑے تھے اور اُحد کے دن شہید ہوئے تھے۔ پہلے بدرؔ کی لڑائی کے وقت وہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے تو آپؐ نے فرمایا کہ تم اپنے پَیرسے لاچار ہو، گھر میں ہی ٹھہرو۔ بدر کا میدان مدینہ سے بہت دُور تھا۔ چنانچہ وہ ٹھہرگئے۔ لیکن اُحد کی جنگ ہوئی تو انہوں نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ مجھے بھی لے چلو۔ انہوں نے جواب دیا کہ آپ کو تو آنحضرت ﷺ نے لڑائی سے معافی دے رکھی ہے۔ وہ بولے کہ افسوس! تم لوگوں نے بدر میں بھی مجھے جنت میں جانے سے رکوا دیا اور اب اُحد میں بھی منع کرتے ہو۔ یہ کہہ کر وہ لنگڑاتے لنگڑاتے میدان جنگ میں پہنچے۔ جب لڑائی شروع ہوئی تو آنحضرت ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ اگر میں آج مارا جاؤں تو لنگڑا ہونے کی وجہ سے مجھے جنت کے داخلہ میں تو کوئی روک نہ ہوگی۔آپؐ نے فرمایا: نہیں۔ ان کا ایک غلام بھی اس وقت ان کے ساتھ تھا جو انہیں سہارا دے کر ہمراہ لایا تھا۔ اس غلام سے انہوں نے کہا: بھائی! اب تم گھر جاؤ، مَیں میدان میں پہنچ گیا ہوں، اب تمہاری ضرورت نہیں۔ سعادت مند بولا کہ اگرآپ کے ساتھ مَیں بھی جنت میں چلا جائوں تو آپ کا کوئی نقصان ہے؟ یہ کہہ کر وہ غلام آگے بڑھا اور گھمسان کی لڑائی میں گھس گیا اور آخر شہید ہوگیا اور دونوں اپنے دل کی مراد کو پہنچ گئے اور جاودانی زندگی حاصل کر لی۔ رضی اللہ عنہم ورضواعنہ
٭ ایک مہم میں آنحضرت ﷺ معہ اپنی بیبیوں کے تشریف لے جا رہے تھے کہ ایک اونٹ چلانے والے نے اس طرح لہک کر گانا شروع کیا کہ اونٹ مست ہوکر تیز چلنے لگے۔ آپؐ نے یہ دیکھ کر فرمایا: شیشوں کا خیال رکھو، کہیں ان کو ٹھیس نہ لگ جائے۔
٭ ایک سفر میں آنحضور ﷺ بمعہ کچھ جماعت کے تشریف لے گئے اور ایک مقام پر پڑاؤ کرکے صحابہ سے الگ ایک درخت کے نیچے لیٹ گئے۔ علاقہ کے بدئووں کے سردار وعثور کو یہ معلوم ہوا تو اُس نے سوچا کہ اس سے بہتر موقعہ ان کے قتل کا پھر نہ ملے گا۔ یہ سن کر وعثور نے ایک تیز تلوار اٹھائی اور گھات لگا کر یکدم پیچھے آپ ؐ کے سر پر جا پہنچا اور تلوار اٹھا کر کہنے لگا۔ کہ اب بتا اے محمدؐ !تجھ کو کون بچا سکتا ہے؟ آنحضرتؐ نے فرمایا۔ اللہ۔ وعثور کا ہاتھ یہ سن کر لرز گیا اور تلوار اس کے ہاتھ سے زمین پر گر پڑی۔ آنحضرتؐ ﷺنے بڑھ کر وہ تلوار اٹھا لی اور پھر کھڑے ہو کر فرمایا کہ اب تجھے میرے ہاتھ سے کون بچا سکتا ہے؟ وہ حواس باختہ ہوکر کہنے لگا: کوئی نہیں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جا اور اپنا کام کر۔ وعثور پر اس بات کا اتنا اثر ہوا کہ وہ مسلمان ہو گیا اور پھر اُن کی قوم بھی مسلمان ہو گئی۔
٭ ایک صحابی فرماتے ہیں کہ اگرچہ فتح مکہ بھی بڑی فتح ہے مگر ہم تو صلح حدیبیہ کو بھی فتح ہی سمجھتے ہیں۔ اس سفر میں آنحضرت ﷺ کے ہمراہ 1400 آدمی تھے۔ حدیبیہ ایک کنوئیں کا نام ہے جس کا پانی صحابہ نے اس قدر کھینچاکہ ایک قطرہ باقی نہ رہا۔ جب آنحضرت ﷺ کو یہ خبر ہوئی تو آپ اس کنوئیں پر تشریف لائے اور اس کے کنارے بیٹھ کر ایک برتن میں پانی منگایا اور وضو کیا۔ پھر ایک کلی اس کنوئیں میں کی اور دعا فرمائی اور باقی پانی اس کنوئیں میں ڈال دیا۔ اس کے بعد اس کنوئیں میں اس قدر پانی ہو گیا کہ سارا لشکر اور تمام جانور سیراب ہوگئے۔ جب آنحضرت ؐ حدیبیہ سے صلح کرکے واپس آئے تو راستہ میں سورہ فتح نازل ہوئی اور حقیقت میں یہ صلح ہی اسلام کی بڑی فتح تھی۔ کیونکہ اس کی وجہ سے مسلمان اور کافر بڑی آزادی سے ایک دوسرے سے ملتے تھے اور مسلمانوں کی تبلیغ اور قرآن سنانے کے نتیجہ میں تھوڑے ہی دنوں میں ہزار ہا آدمی مسلمان ہوگئے۔
٭ آنحضرت ﷺ کی ساتویں مہم کا نام غزوہ ذات الرقاع تھا۔ (یعنی دھجیوں یا چیتھڑوں والی مہم) اس مہم میں چھ چھ آدمیوں کے پاس ایک ایک اونٹ تھا۔ صحابہ کہتے ہیں ہم لوگ باری باری اونٹوں پرسوار ہوتے تھے اور پیدل چلتے چلتے ہمارے پیر زخمی ہو گئے تھے اور بعض لوگوں کے تو پیروں کے ناخن گر پڑے تھے اور تلوے چھلنی ہو گئے تھے تو ان زخموں کی تکلیف سے صحابہ اپنے پیروں پر دھجیاں باندھ لیتے تھے۔ اس لئے اس مہم کا نام ہی دھجیوں والی مہم مشہور ہوگیا۔
٭ ایک دن آنحضرت ﷺ نے جنگ خندق کے دنوں میں فرمایا کہ کوئی ہے جو مجھے دشمن کی خبر لا کر دے؟ حضرت زبیر بولے: مَیں یا رسول اللہ۔ آپؐ نے پھر یہی سوال کیا۔ زبیر نے پھر وہی جواب دیا۔ آپ ؐ نے تیسری دفعہ پھر کہا تو زبیرؓ نے وہی جواب دیا۔ آنحضرتؐ نے فرمایا کہ ہر نبی کا ایک حواری ہوتا ہے اور میرے حواری زبیر ہیں۔
٭ آنحضرت ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ سے ایک دن فرمایا کہ میں نے تمہارے نکاح سے پہلے تمہیں دو دفعہ خواب میں دیکھا۔ ایک دفعہ تو یوں دیکھا کہ تم ریشم کی ایک چادر میں لپٹی ہوئی ہو اور ایک شخص کہتا ہے کہ یہ آپ کی بی بی ہیں۔ مَیں نے اس کپڑے کو کھولا تو دیکھا کہ تم تھیں۔ اس وقت میں نے یہ تعبیر کی کہ اگر یہی خدا کی مرضی ہے تو پوری ہو کر رہے گی۔
٭ خندق کی جنگ سخت سردی کے دنوںمیں ہوئی تھی اور ساری خندق صحابہ نے اپنے ہاتھوں سے کھودی تھی۔ چونکہ سب لوگ دن رات اسی کام میں مصروف تھے۔ اس لئے کمانا کھانا اور سب کام کاج بند تھے اور بہت سے لوگ بھوکے کام کرتے تھے۔ آنحضرت نے جب اپنے صحابہ کی یہ حالت دیکھی تو یہ شعر فرمایا کہ: ’’اے اللہ! اصلی زندگی آخرت کی ہی زندگی ہے پس تو اپنے فضل سے مہاجر اور انصار کو بخش دے‘‘۔ اس کا جواب مہاجرین اور انصار نے اس شعر میں دیا کہ: ’’ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنا جان و مال سب کچھ محمدؐ کے ہاتھ بیچ ڈالا ہے اور جب تک ہم زندہ رہیں گے۔ خدا کی راہ میں محنت کرتے رہیں گے‘‘۔
حضرت برائؓ فرماتے ہیں کہ مَیں نے خندق کی کھدائی کے دوران دیکھا کہ آنحضرت ﷺ مٹی اٹھاکر ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتے اور آپؐ کا گورا بدن خاک آلودہ تھا اور آپؐ فرماتے جاتے تھے: ’’اے اللہ! اگر تُو نہ ہوتا تو ہم ہدایت نہ پاتے، نہ صدقہ دیتے، نہ نماز پڑھتے۔ اب تُو ہی ہمارے دلوں پر اطمینان نازل کر اور دشمن سے مقابلہ کے وقت ہم کو ثابت قدم رکھ۔ یا اللہ! زیادتی ہمارے دشمنوں ہی کی ہے۔ ہم نہیں مانتے مگر وہ ہمیں کفر اور لڑائی کے لئے مجبور کرتے ہیں‘‘۔
٭ حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم خندق کے دن زمین کھود رہے تھے کہ اتفاقاً ایک جگہ بہت سخت پتھریلی زمین نکل آئی۔ لوگوں نے آنحضرت ﷺ کو اطلاع دی۔ آپؐ اس جگہ تشریف لائے اوراس وقت آپؐ کے پیٹ پر پتھر بندھے ہوئے تھے اور ہم لوگوں کا یہ حال تھا کہ تین دن سے منہ میں دانہ نہیں گیا تھا۔ آپؐ نے آ کر اس جگہ اپنی کدال ماری اس کے بعد وہ زمین نرم ہو گئی اور آسانی سے کھود لی گئی۔
٭ آنحضرتؐ نے خندق کی لڑائی کے بعد فرمایا کہ بس اب کافروں کے حملے ختم ہو گئے اب ہم ہی ان پر چڑھائی کریں گے۔
٭ حضرت ابوبکر ؓصدیق بیان کرتے ہیں کہ جب مَیں غار میں آنحضرت ﷺ کے ساتھ تھا تو مَیں نے ایک دفعہ اپنا سر جو اٹھایا تو باہر لوگوں کے پَیر مجھے دکھائی دیئے۔ میں نے آنحضرت ﷺ سے کہا: یا رسول اللہ! اگر ان میں سے کوئی ذرا اپنی نظر نیچے جھکائے تو ہمیں دیکھ لے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ابو بکر چپ۔ ہم دو آدمی ایسے ہیں جن کے ساتھ تیسرا اللہ ہے۔
٭ ایک دفعہ حضرت ابن عمرؓ ایک جگہ سے گزرے جہاں کچھ لوگ ایک مرغی کو باندھ کر اس پر تیروں سے نشانہ بازی کر رہے تھے۔ ابن عمرؓ کو دیکھتے ہی وہ لوگ اِدھر اُدھر کھسک گئے۔ آپؓ نے فرمایا کہ کون یہ ظلم کر رہا تھا؟ آنحضور ﷺ نے تو باندھ کر کسی جانور کو مارنے والے پر لعنت فرمائی ہے اور اسی طرح اس شخص کو بھی لعنتی کہا ہے جو کسی (زندہ) جانور کے اعضاء کاٹ لے اور اس سے بھی منع فرمایا ہے کہ کسی آدمی کے مونہہ پر مارا جائے۔
٭ ایک دفعہ حضرت ابن عباس ؓنے اپنے دوستوں سے کہا دیکھو وہ سامنے جو کالی سی عورت جا رہی ہے یہ جنتی ہے۔ یہ ایک دفعہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں آئی اور کہنے لگی کہ حضور! مجھے مرگی پڑتی ہے اور میں بیہوشی میں ننگی ہو جاتی ہوں، آپ ؐ میرے لئے دعا کیجئے۔ آپؐ نے فرمایا کہ اگر تُو جنت چاہتی ہے تو تُو اس بیماری پر صبر کر ورنہ میں تیرے لئے دعا کروں گا کہ خدا تجھے شفا بخشے۔ اس عورت نے کہا: حضور! اچھا میں صبر کروں گی مگر اتنی دعا ضرور فرمائیے کہ یہ میرا بدن جو کھل جاتا ہے اور بے پردگی ہوتی ہے یہ نہ ہو۔ آنحضرت ﷺ نے اس کے لئے یہ دعا فرمائی۔ اس کے بعد اسے مرگی کے دورے تو پڑتے مگر ننگی نہیں ہوتی تھی۔
٭ جب قریش نے مسلمانوں کو بہت تکالیف پہنچائیں اور حق کے راستہ میں روک ہو گئے تو آنحضور ﷺ نے اُن کے لئے یہ بددعا فرمائی: اے اللہ! ان لوگوں پر یوسف کے زمانہ کا سات برس کا قحط نازل کر۔ چنانچہ قحط پڑ گیا اور بہت آدمی بھوکے مر گئے۔ اور سڑا ہوا مردار اور ہڈیاں تک کھا گئے او ر آنکھوں کے آگے اندھیرا اور دھواں دکھائی دینے لگا۔ جب قحط کی تکلیف حد سے گزر گئی تو ابوسفیان آنحضرتؐ کے پاس آئے اور کہا کہ اے محمدؐ! آپ تو رشتہ داروں سے نیک سلوک کی ہدایت کرتے رہتے ہیں مگر اب تو آپ کی اپنی قوم کال سے ہلاک ہو گئی ہے، للہ خدا سے دعا کیجئے کہ اس مصیبت کو دُور کرے۔ چنانچہ آپؐ نے دعا کی اور وہ قحط دُور ہو گیا۔ مگر قریش تکلیف کے دُور ہوتے ہی پھر وہ شرارتیں کرنے لگے۔
٭ ایک دن آنحضرت ﷺ کوہِ صفا پر چڑھے اور آپ نے قریش کو بآواز بلند پکارا۔ جب لوگ جمع ہو گئے تو آپؐ نے فرمایا کہ اگر مَیں تم سے یہ کہوں کہ دشمن تم پر حملہ کرنے ولا ہے تو کیا تم میرا یقین کروگے؟ سب نے کہا ہاں کیونکہ تُو سچا ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ پھر میری اس بات کو بھی سچا سمجھو کہ ایک سخت عذاب آنے والا ہے اور مَیں تمہیں اس سے ڈراتا ہوں۔ یہ سن کر ابولہب نے کہا: تَبًّالَکَ (یعنی تُو مرے) تُو نے اسی واسطے ہمیں جمع کیا تھا؟اس کے اس کہنے کے جواب میں خدا کی طرف سے سورہ تبت نازل ہوئی۔ یعنی خود ابولہب ہی ہلاک ہوگا اور اس کی عورت بھی عذاب میں گرفتار ہوگی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔یعنی ابولہب اور اس کی بیوی بڑے عذاب سے ہلاک ہو ئے اور جس لشکر سے آپ نے قریش کو اس وقت ڈرایا تھا وہ بھی فتح مکہ کے دن مکہ میں داخل ہوا اور آپؐ کی صداقت کا ایک نشان ٹھہرا۔
٭ آنحضرت ﷺ نے ایک دن اپنی وفات سے کچھ پہلے حضرت فاطمہؓ کو بلایا اور آہستہ آہستہ کچھ ان کے کان میں فرمایا تو وہ رونے لگیں۔ پھر دوبارہ بلاکر کچھ بات ان کے کان میں کہی تووہ ہنسنے لگیں۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ہم لوگوں نے آپ کی وفات کے بعد ان سے پوچھا کہ وہ کیا بات تھی۔ انہوں نے کہا کہ پہلے تو آپ نے یہ فرمایا کہ اسی بیماری سے میری وفات ہوگی۔ اس پر مَیں رونے لگی۔ دوسری دفعہ آپ نے فرمایا کہ اے فاطمہ! میرے بعد میرے اہل بیت میں سے سب سے پہلے مر کر تم مجھ سے ملوگی یہ سن کر میں خوش ہوگئی۔
٭ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں:میں نے آنحضرت ﷺ سے سنا تھا کہ ہر نبی کو مرنے سے پہلے اختیار دیا جاتا ہے کہ چاہے وہ دنیا میں رہے یا آخرت کو پسند کرے۔ جب وہ آخرت کو پسند کر لیتا ہے تو اس کی جان قبض ہوتی ہے۔ مَیں نے آنحضرت ؐ کی وفات کے قریب آپ کو یہ پڑھتے سنا اور اس وقت آپ کا گلا بیٹھ گیا تھا۔ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللہُ عَلَیْھِمْ (یعنی مجھے ان لوگوں میں شامل کر دے تو جن پر تُو نے انعام کیا ہے)۔ اس وقت میں سمجھ گئی کہ آپؐ نے موت کو اختیار کرلیا۔ پھر عین وفات کے وقت آپ کو غشی ہوئی۔ اس وقت آپ کا سر میری ران پر تھا۔ جب ہوش آیا تو آپ نے چھت کی طرف دیکھا اور فرمایا: اَللّٰھُمَّ فِی الرَّفِیقِ الْاَعْلیٰ میں نے خیال کیا کہ اب آپ ہم میں رہنا پسند نہیں کرتے۔ پھر آپ مجھ سے کمر لگا کر بیٹھ گئے اور فرمانے لگے: اللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ وَارْحَمْنِیْ وَاَلْحِقْنِیْ بِالرَّفِیْقِ الْاَعْلیٰ۔ جس وقت آپ کا دم نکلا تو آپ کا سر میرے سینے پر تھا۔ میںنے دیکھا کہ آپ کو سکرات موت کی اتنی تکلیف تھی کہ آپ کے بعد میں نے اتنی تکلیف کسی کو نہیں دیکھی۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ یہ مجھ پر خدا کا فضل تھا کہ آنحضرت ﷺ نے میرے گھر میں میرے سینہ پر سر رکھے ہوئے انتقال فرمایا۔ اس دن میرے بھائی عبدالرحمن سبز مسواک لئے ہوئے گھر میں آئے۔ تو آپؐ نے شوق سے اس مسواک کی طرف دیکھا۔ میں نے عرض کی کہ کیا مسواک لے لوں۔ آپؐ نے اشارہ سے فرمایا: ہاں۔ مَیں نے وہ مسواک لے کر چبائی اور نرم کی۔ پھر آپؐ نے وہ مسواک کی۔ اس وقت آپ کے سامنے پانی کا بھرا ہوا ایک پیالہ رکھا تھا۔ آپ اس میں ہاتھ بھگو کر منہ پر پھیرتے جاتے تھے اور فرماتے تھے کہ لآاِلٰہَ اِلَّا اللہ۔ اِنّ لِلْمَوْتِ سَکَرَات (یعنی موت کے وقت بہت تکلیف ہوتی ہے) پھر آسمان کی طرف ہاتھ اٹھایا اور فرمایا۔ اَللّٰھُمَّ فِی الرَّفِیق الْاَعْلیٰ۔ یہ کہا اور ہاتھ نیچے گر پڑا اور آپ کی روح مبارک پرواز کرگئی۔
آپ کے لئے مرض موت میں ایک دو ا تجویز کی گئی۔ جب وہ تیار ہو کر آئی تو اہل بیت نے اسے پلانا چاہا۔ آپ اس وقت غشی کی سی حالت میں تھے۔ مگر اشارہ سے منع کرتے تھے کہ مجھے دوا نہ پلاؤ۔ گھر والوں نے کہا کہ دوا سب بیماروں کو بری ہی لگتی ہے ۔ چنانچہ زبردستی آپ کے منہ میں ڈال دی گئی۔ جب آپؐ کو ذرا افاقہ ہوا۔ توآپ نے فرمایا کہ جب میں نے منع کیا تھا تو تم لوگوں نے مجھے زبردستی دوا کیوں پلائی؟ اچھا وہ دوا لاؤ۔ پھر آپؐ نے ان سب لوگوں کو جو اس کے پلانے میں شریک تھے وہ دوا پلوائی صرف حضرت عباس بچ گئے کیونکہ وہ پلانے کے وقت موجود نہ تھے۔
٭ ایک دفعہ آپؐ کے پاس حضرت عمر ؓ حاضر ہوئے آپؐ نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا۔ وہ کہنے لگے کہ یا رسول اللہ آپ مجھے سوائے اپنی جان کے ہر چیز سے زیادہ پیارے ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: نہیں اے عمر! خدا کی قسم جب تک میں تجھے اپنی جان سے بھی زیادہ پیارا نہ ہوں گا تب تک تیرا ایمان کامل نہیں ہوگا۔ حضرت عمرؓ یہ سن کر کہنے لگے کہ یا رسول اللہ! بے شک اب آپ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ پیارے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ ہاں اے عمر! اب ایمان کامل ہوگیا۔
٭ آنحضور ﷺ کبھی کبھی عبادہؓ بن صامت کے گھر تشریف لے جاتے تھے۔ اُن کی بیوی کا نام اُمّ حرامؓ تھا۔ ایک دن انہوں نے آنحضورؐ کی دعوت کی۔ کھانے کے بعد جب آپؐ لیٹ گئے تو امّ حرامؓ آپؐ کے سر کو صاف کرنے لگیں۔ آپ سوگئے۔ جب اٹھے تو ہنستے اٹھے۔ امّ حرامؓ نے پوچھا: یا رسول اللہ! آپ کیوں ہنستے ہیں؟ فرمایا میں نے اپنی امت کے لوگوں کو بادشاہوں کی طرح سمندر میں جہازوں پر سوار ہو کر جاتے دیکھا ہے۔ امّ حرام نے عرض کیا: یارسول اللہ! آپ دعا کریںکہ خدا مجھے بھی ان لوگوں میں سے کر دے۔ آپؐ نے دعا کی اور پھر سوگئے۔ جب دوبارہ اٹھے تو پھر ہنستے ہوئے اٹھے۔ امّ حرام نے وجہ پوچھی تو فرمایا کہ میں نے ایک اَور جماعت کو اپنی امّت میں سے دیکھا کہ خدا کے رستہ میں جہاد کر رہے تھے۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ میرے لئے بھی دعا کر یں کہ میں ان لوگوں میں شامل ہوں۔ آپؐ نے فرمایا: تم تو پہلے لوگوں میں شامل ہو گی۔ چنانچہ ام حرامؓ حضرت معاویہ کے زمانہ میں سمندر کے سفر پر گئیں اور جہاز سے اترتے وقت اپنی سواری کے جانور سے گر کر شہید ہوئیں۔
٭ حضرت ابو طالب کی ایک بہن تھیں وہ غیروں میں بیاہی گئی تھیں۔ اُن کے ایک بیٹے ابو سلمہ تھے جو آغاز میں ہی مسلمان ہو گئے تھے۔ اُن کے قبیلہ کے لوگوں نے جب ان پر ظلم توڑنے شروع کئے تو یہ بھاگ کر اپنے ماموں ابو طالب کے پاس آ چھپے۔ ان کے چچا وغیرہ ابو طالب کے پاس آئے تاکہ ابو سلمہ کو واپس لے جائیں مگر ابوطالب نے انکار کردیا۔ اس پر اُن لوگوں نے کہا کہ اے ابو طالب تم نے ہم لوگوں سے اپنے بھتیجے (یعنی آنحضرتؐ) کو بچا لیا، اب کیا ہم سے ہمارے بھتیجے کو بھی بچاتے ہو؟ ابو طالب کہنے لگے: کیوں نہیں، میرا فرض ہے کہ اپنے بھانجے کو بھی اس مصیبت سے بچاؤں جس سے میں اپنے بھتیجے کو بچاتا ہوں۔ اس پر وہ لوگ ناکام واپس گئے۔ اس کے بعد ابوسلمہ حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے۔
٭ حضرت رباحؓ ذکر کرتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ ایک جہاد میں تشریف لے گئے۔ اس لشکر کے اگلے حصہ کے افسر خالد ؓ بن ولید تھے۔ ان کا مقابلہ دشمن سے ہوا تو ہلّہ میں ایک عورت بھی ماری گئی ۔ ہم لوگ اس عورت کی لاش کو دیکھ رہے تھے کہ اتنے میں آنحضرت ؐ بھی پیچھے سے تشریف لے آئے۔ دیکھ کر ناراض ہوئے اور فرمانے لگے کہ یہ عورت تو لڑائی نہیں کرتی تھی یہ کیوں قتل کی گئی؟ پھر آپ نے ایک آدمی کو لشکر کے اگلے حصہ کی طرف بھیجا اور فرمایا کہ خالد بن ولید کو جاکر کہہ دو کہ عورتوں بچوں اور بوڑھوں کو ہرگز قتل نہ کریں۔
٭ بدر کی جنگ میں کافروں کی طرف سے ایک شخص عمیر ابن وہب بھی شریک تھے اور یہ آنحضرتؐ اور مسلمانوں کے سخت دشمن تھے۔ یہ خود توبدر سے بچ کر مکہ آ گئے۔ مگر ان کا ایک بیٹا مسلمانوں کی قید میں آگیا۔ جب کفار کا لشکر شکست کھا کر مکہ آیا۔ تو ایک دن عمیر اور صفوان بن امیہ کعبہ کے پاس بیٹھے باتیں کررہے تھے۔ صفوان نے کہا کہ بدرمیں اپنے لوگوں کے مارے جانے سے ہماری زندگی تلخ ہو گئی ہے۔ عمیر نے کہا ہاں بات تو یہی ہے مجھ پر قرض ہے جس کے ادا کرنے کا کوئی سامان مجھے نظر نہیں آتا اور کچھ میرے بال بچے ہیں جن کے لئے کوئی گزارہ نہیں۔ اگر ان دو باتوں کاانتظام ہو جائے تو محمدؐ کے پاس جا کر اسے قتل کردوں، اپنی جان پر کھیل جاؤں مگر اسے کبھی زندہ نہ چھوڑوں اور محمد ؐ کے پاس جانے کے لئے میرے پاس اچھا بہانہ بھی ہے۔ میرے ایک بیٹے کو وہ قید کرکے لے گئے۔ میں کہوں گا کہ میں اپنے بیٹے کو فدیہ دے کر چھڑانے آیا ہوں۔ یہ سن کر صفوان بہت خوش ہوا اور بولا کہ تمہارا قرضہ میرے ذمہ ۔ باقی رہے بال بچے، سو پہلے وہ کھائیں گے پھر میرے بال بچے۔ اس پر معاملہ طے ہو گیا اور صفوان نے عمیر کے لئے سامان سفر تیار کردیا اور ایک زہر کی بجھی ہوئی تلوار اس کو دے دی۔
عمیر مدینہ پہنچے اور مسجد کے دروازہ کے آگے اترے۔ حضرت عمرؓ اُس وقت وہاں اپنے دوستوں میں بیٹھے جنگ بدر کا ہی ذکر کر رہے تھے۔ جب انہوں نے عمیر کو دیکھا اور دیکھا کہ اس کے پاس تلواربھی ہے تو ان کو اندیشہ ہوا کہ یہی بے ایمان بدر کے دن بھی مسلمانوں کی مخبری کرنے آیا تھا۔ حضرت عمر ؓ نے فوراً آنحضرت ﷺ کو اس بات کی خبر دی اور عرض کیا کہ یارسول اللہؐ ! اُس کے پاس تلوار ہے اور یہ شخص بڑا مکار اور فریبی ہے۔ اس کا اعتبار نہ کیجئے گا۔ آنحضرت ؐ نے فرمایا کہ اچھا اس کو میرے پاس لے آؤ۔ حضرت عمرؓ اس کو لے آئے تو آنحضرتؐ نے پوچھا: اے عمیر! تم یہاں مدینہ میں کیوں آئے ہو؟ انہوں نے کہا کہ میرا بیٹا آپ کی قید میں ہے، اس کے لئے آیا ہوں۔ آپ اس کا فدیہ لے لیں اور اسے چھوڑ دیں۔ کیونکہ آپ بڑے نیک اور رحمدل آدمی ہیں۔ آنحضرتؐ نے پوچھا تم یہ تلوار کیوں ساتھ لائے ہو۔ عمیر نے کہا کہ کم بخت تلوار بدر کے دن ہمارے کس کام آئی جو اَب کسی کام آئے گی، میں اسے بھولے سے لے آیا۔ آپؐ نے فرمایا سچ بولو۔ عمیر نے پھر وہی بات کہی جو پہلے کہی تھی۔ آنحضرتؐ نے فرمایا پھر وہ شرطیں کیا تھیں جو تم نے کعبہ میں صفوان سے کی تھیں۔ یہ سن کر عمیر ڈر گئے اور کہنے لگے :میںنے تو کوئی شرط اس سے نہیںکی۔ آنحضرتؐ نے فرمایا کہ تم نے اس سے میرے قتل کا وعدہ لیا اس شرط پر کہ وہ تمہارے بال بچوں کا خرچ اٹھائے اور تمہارا قرضہ ادا کرے۔ حالانکہ میری حفاظت خداکرتا ہے۔ عمیر نے بے اختیار ہو کر کہا کہ یا رسول اللہ! میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپ اس کے پیغمبر ہیں۔ یا رسول اللہ! ہم آپ کو جھوٹا نبی کہتے تھے۔ مگر ان شرائط کی سوائے میرے اور صفوان کے اَور کسی کو خبر نہ تھی۔اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے یہاں بھیج دیا اور میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لایا۔ آنحضرتؐ نے اپنے اصحاب کو فرمایا کہ عمیر کو قرآن سکھاؤاور ان کے بیٹے کو رہا کر دو۔ انہوں نے آنحضرت ؐ سے عرض کیا کہ مجھے مکہ جانے کی اجازت دیجئے تاکہ میں قریش کو اسلام کی دعوت دوں شاید وہ ہلاکت سے بچ جائیں۔ آپؐ نے ان کو اجازت دی اور وہ مکہ چلے گئے۔
دوسری طرف صفوان نے عمیر کے جانے کے چند دن کے بعد لوگوں سے کہنا شروع کیا کہ لوگو! خوش ہو جاؤ۔ عنقریب تم ایسی خوشخبری اور فتح کی خبر سنو گے کہ بدر کے واقعہ کو بھول جاؤگے۔ اور جو کوئی شخص مدینہ سے آتا تھا اُس سے صفوان پوچھا کرتا تھا کہ بتاؤ مدینہ میں کچھ حادثہ تو نہیں ہوا۔ یہاں تک کہ ایک شخص نے بیان کیا کہ تازہ واقعہ یہ ہے کہ عمیرؔ مسلمان ہو گئے ۔ یہ سن کر سب مشرکوں نے عمیر پر لعنت کی اور صفوان نے قسم کھائی کہ اب میں کبھی عمیر سے بات نہیں کروں گا اور نہ اسے کوئی فائدہ پہنچاؤں گا۔ اس کے بعد حضرت عمیرؓ بھی مکہ پہنچ گئے اور انہوں نے لوگوں کو اسلام کی طرف بلانا شروع کیا اور مکہ کے بہت سے لوگ ان کے ہاتھ پر اسلام لے آئے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں