حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی دربارہ مہاراجہ دلیپ سنگھ
(مطبوعہ انصارالدین یوکے جولائی واگست2022ء)
(عبدالرحمن شاکر)
مہاراجہ رنجیت سنگھ ایک بہت زیرک اور ہوشیار آدمی تھا۔ کم ازکم دو باتیں انگریز قوم کے متعلق اُس نے اچھی طرح سمجھ لی تھیں:
(1) انگریز جو لدھیانہ تک آگئے ہیں اور دوسری طرف پنجاب کو سندھ کی طرف سے گھیرے میں لینے کی کوشش کر رہے ہیں یہ خالی از علّت نہیں اور ایک نہ ایک دن یہ اس کی سلطنت پر قبضہ کر لیں گے۔
(2) لاہور میں گرجا بنانے کا مطالبہ کیا جائے گا۔
واقعات نے ثابت کر دیا کہ یہ دونوں خدشات درست تھے۔ اُنہی دنوں چارلس مٹکاف سفارت لے کر قصور کے مقام پر حاضر ہوا تو رنجیت سنگھ نے کئی روز تک شرفِ ملاقات نہ بخشا۔ وہ بھی پیچھے پیچھے پھرتا رہا۔ آخر جب ملاقات ہوئی تو اُس نے پہلے سے تیار کردہ ایک مسودۂ معاہدہ دوستی پیش کیا کہ اس پر دستخط کردیں۔ رنجیت سنگھ حیران ہوا کہ یہ کیا بات ہے۔ جب ہما را تمہارا کوئی جھگڑا نہیں،کوئی اختلاف نہیں اور دوستی ہے تو اس کے لکھنے پڑھنے کا کیا مقصد ؟مگر وہ اپنی بات پر قائم رہا۔ لیکن جب فقیر عزیز الدین صاحب نے عام فہم پنجابی میں سِکھ درباریوں کو انگریزکے منشا سے با خبر کیا تو لکھاہے کہ سِکھ سرداروں نے انگریز کو بڑی فصیح و بلیغ گالیاں دیں۔ (’’رنجیت سنگھ ‘‘ مصنفہ خشونت سنگھ صفحہ 211)
چنانچہ رنجیت سنگھ کی وفات تک انگریزوں سے دوستی قائم رہی لیکن رنجیت سنگھ کی آنکھ بند ہوتے ہی انگریزوں نے اس کے سب سے چھوٹے بیٹے کو عیسائی بنالیا۔ اُس کی عمر 8سال تھی۔
مہاراجہ رنجیت سنگھ کا جانشین اُس کا لڑکا کھڑک سنگھ ہوا۔ مگر بڑاکمزور دماغ آدمی تھا۔ چند روز بعد اسے قتل کردیا گیا۔ اور جب اس کا لڑکا کنور نونہال سنگھ اپنے والد کی آخری رسوم ادا کرکے حضوری باغ کے سامنے والے دروازے میں سے اندر آرہاتھا تو اُوپر سے ایک بہت بڑا وزنی پتھر گرا کر اسے بھی ہلاک کردیا گیا۔
نیا مہاراجہ شیر سنگھ (جو مشہور ہے کہ رنجیت سنگھ کا ہی بیٹا تھا ) 18؍نومبر 1840ء کو تخت نشین ہوا۔ شروع میں تو وہ بہت سادہ لوح اورصاف دل تھا مگر بعض مصاحبوں کی وجہ سے عیاش طبع اور ظالم ہو گیا۔ کچھ عرصہ بعد اسے بھی قتل کردیا گیا۔
شیرسنگھ کا لڑکا پرتاپ سنگھ ایک روز نہا دھو کر اپنے بال سُکھا رہا تھا کہ حاسدوں نے اُسے بھی قتل کردیا۔
پھر رنجیت سنگھ کا سب سے چھوٹا بیٹا دلیپ سنگھ تخت پر بیٹھا جو نومبر 1838ء میں پیدا ہوا تھا اور بوقت تخت نشینی سات آٹھ برس کا بچہ تھا۔ اسے باقاعدہ مہاراجہ تسلیم کر لیا گیا اور اس کی ماں رانی جنداں سربراہ بنی۔
اُس زمانے میں فوج اور ملک کی حالت کا اندازہ مندرجہ ذیل عبارت سے لگایا جا سکتا ہے جو سکّھوں کے مشہور تاریخ دان گیانی گیان سنگھ نے اپنی کتاب ’’تواریخ گورو خالصہ‘‘ کے صفحہ 166پر تحریر کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’اُس وقت خالصہ فوج کا یہ حال تھا کہ اپنے تئیں بادشاہ سمجھتی تھی اور سوائے لُوٹ مار اور غارت کے کسی کو دوسرا کام ہی نہ تھا۔ جس کو چاہتے تھے لُوٹ لیتے تھے اور جسے چاہتے تھے چھوڑ دیتے تھے۔ کسی کی مجال نہ تھی کہ دم مار سکتا۔ فوج کا ہر سپاہی بادشاہ بنا پھرتاتھا۔ مردم آزاری اور دل آزاری کا بازار گرم تھا۔ جس گاؤں میں چلے جاتے تھے وہ اُجڑ جا تا تھا۔ جس بازار سے گزر جاتے تھے وہ خاک ہو جاتا تھا۔ اُسی وقت کا نام سکّھا شاہی مشہور ہے۔ ‘‘
پھر لکھا کہ
’’خالصہ فوج کی خود سری اور سرکشی سے ہر ایک کا ناک میں دم تھا۔ ہر شخص کو اپنی جان کی فکر تھی اور جو دن گذر جاتا تھا غنیمت سمجھتے تھے۔ ‘‘ (صفحہ673)
اُدھر ستلج کے اس پار لدھیانہ میں بیٹھے انگریز سکھوں کا تماشا دیکھ رہے تھے۔ انگریزوں نے عملاًستلج کے ساتھ ساتھ کے علاقے پر اپنا سکہ جما لیا ہوا تھا اور ارد گرد کے سکھ رؤساء کو اپنی حفاظت میں لے لیا ہوا تھا۔ دارالخلافہ لاہور میں سخت بد امنی کی وجہ سے راجہ گلاب سنگھ ڈوگرہ خورد سال دلیپ سنگھ کو ہمراہ لے کر بمقام قصور لارڈ ہارڈنگ گورنر جنرل کے سامنے پیش ہوا اور رحم کی درخواست کی۔ انگریزوں نے منافقت سے کہا کہ ہم ایک دوست کی سلطنت تو نہیں لے سکتے مگر امن قائم کرنے کے لیے سکھ حکومت کی ’’امداد ‘‘ضرور کریں گے۔
مگر انگریزوں کی لغت میں ’’امداد‘‘کے معنی کچھ اور ہی ہوتے ہیں۔ غرض گلاب سنگھ کو یقین دلا دیا کہ حکومت سکھوں کی ہی قائم رہے گی مگر چونکہ سکھوں نے انگریزی علاقہ پر حملہ کرکے پہل کی ہے لہٰذا ہم ستلج اور بیاس کے درمیانی علاقہ پر قبضہ کرتے ہیں اور تم ڈیڑھ کروڑ روپیہ تاوان ِجنگ بھی ادا کرو۔ اُس نے منت سماجت کرکے 50لاکھ روپیہ معاف کرالیا۔ کمسن مہاراجہ نے بھی اپنی زبان سے رحم کی درخواست کی۔
پھر 20 ؍فروری 1846ء کو لارڈ ہارڈنگ خود لاہور آیا او ر طے پایا کہ چونکہ حکومت سخت پریشان ہے، خزانہ خالی ہے، علاقے ویران ہیں، اس لیے ایک کروڑ روپیہ کے عوض ہم جموں کشمیر اور لداخ لیتے ہیں۔ چنانچہ 8؍مارچ 1846ء کو یہ معاہدہ لکھا گیا۔
اس کے بعد سکھوں نے مہاراجہ دلیپ سنگھ کی طرف سے درخواست پیش کی کہ چونکہ خالصہ فوج سے دربا رِ لاہور کو خطرہ محسوس ہورہا ہے لہٰذا انگریزی فوج بطور تحفظ لاہور میں رکھی جائے۔ یہی بات انگریز دل سے چاہتے تھے۔ اس پرعہدنامہ کی تمام شرائط کا اعلان کمسن دلیپ سنگھ کی زبان سے کرایا گیا۔ جواباً لاٹ صاحب نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ اگر اب سکھوں کی طرف سے ذرا بھی شرارت ہوئی تو پھر یہ معاہدہ وغیرہ کچھ نہ سمجھنا اور ہم جو چاہیں گے کریں گے۔
16؍مارچ کو یہ طے ہوا کہ انگریزی فوج کے اخراجات 22لاکھ روپے دربار ِلاہور ادا کرے گا۔ اس پر رانی جنداں نے سخت احتجاج کیا تو اسے سخت ملٹری پہرہ میں قلعہ شیخوپورہ میں قید کر دیا گیا۔ وہ عورت بڑی ہوشیار تھی اس نے وہاں بھی باہر کے سکھ سرداروں سے رابطہ پیدا کرلیا تو اُسے بنارس بھجوادیا گیا اور وہاں سے انگلستان بھجوادیا گیا جہاں وہ 1863ء میں فوت ہوگئی۔
آخر کا ر 29؍مارچ 1849ء کو زمامِ حکومت قلعہ لاہور کے شیش محل میں انگریزوں نے باقاعدہ طور پر اپنے ہاتھ میں لے لی۔ ایک دربار ِخاص منعقد کیا گیا۔ سیّد رجب علی میر منشی گورنر جنرل نے اُٹھ کر اعلان پڑھا کہ مہاراجہ دلیپ سنگھ کو معزول کیا جاتاہے اور سکھ حکومت کو مملکت ِبرطانیہ میں شامل کیا جاتا ہے۔ خطاب مہاراجگی قائم رہے گا اور 5لاکھ روپیہ سالانہ پنشن دی جائے گی وغیرہ۔ اس پر تمام سکھ سردار بچوں کی طرح بلک بلک کررونے لگ گئے اور یوں احساس ہونے لگا کہ رنجیت سنگھ کی تمام محنت بیکارہو گئی ہے۔
چند روز بعد دلیپ سنگھ کو پہلے پشاور کی طرف بھجوادیا گیا تاکہ اس کو دیکھ کر سکھ قوم کے جذبات بھڑک نہ اُٹھیں۔ پھر اسے فتح گڑھ (یوپی) بھجوایا اور آخر کار 1854ء میں انگلستان بھجوادیا گیا۔
انگریزی حکومت کے نفوذ کے ساتھ ہی چرچ مشنری سوسائٹی نے اپنا کام تندہی سے شروع کردیا تھا۔ سر جان لارنس خود اس کا مربی تھا اور اپنی گرہ سے 500روپے چندہ دیا کرتا تھا اور خواہشمند تھا کہ سکھ سلطنت کے خاتمہ پر پنجاب میں عیسائیت پھیل جائے۔
1853ء میں امرتسر میں پہلا مشن سکول قائم کیا گیا تھا جہاں پر دلیپ سنگھ بھی پڑھا کرتا تھا۔ انگریز افسران اور پادریوں کے اثر کے تحت دلیپ سنگھ نے عیسائیت قبول کرلی۔ چنانچہ مہاراجہ دلیپ سنگھ جب انگلستان گیا تو ملکہ وکٹوریہ کی خدمت میںبھی حاضر ہوا۔ ملکہ اس کی شخصیت سے بہت متاثر ہوئی اوراسی جذبے نے ملکہ کو مجبور کیا کہ وہ لارڈ ڈلہوزی گورنر جنرل انڈیا کو ایک خط لکھے۔ اس خط کا ترجمہ درج ذیل ہے:
’’بکنگھم پیلس
24؍جولائی 1854ء
… ملکہ لارڈ ڈلہوزی کو بتانا چاہتی ہے کہ وہ دلیپ سنگھ سے مل کر کس قدر خوش ہوئی ہے۔ میرے جذبات ملے جُلے سے ہیں۔ ایک طرف تو تکلیف اور ہمدردی کے جذبات ہیں اور دوسری طرف یہ کہ یہ نوجوان جس کو ہماری فوج نے مغلوب کرلیا، وہ تخت وتاج سے محروم کردیا گیا حالانکہ اس غریب کا کوئی قصور نہ تھا۔ اس کی جوانی عمدہ کردار او ر اس کے تیکھے نقوش اور سب سے بڑھ کر یہ نوجوان اپنے آبائی مذہب کو ترک کر کے اب عیسائی ہو چکا ہے ،ہماری ہمدردی کو کھینچتے ہیں۔ ہمیں اس کو دوست بنانا چاہیے اور اس کی حفاظت کرنی چاہیے۔ …‘‘
(بحوالہ لیٹرز آف کوئین وکٹوریا۔ جلد سوم صفحہ 49)
اس کے علاوہ بھی ملکہ وکٹوریہ نے دلیپ سنگھ کے بارے میں دو تین خطوط میں اس کے لیے ہمدردی کا اظہار کیا اور بہتری کے خیال سے کچھ تجاویز بتائیں اور ’’فرزند دلبند‘‘کا خطاب بھی عطا فرمایا کیونکہ مہاراجہ موصوف ملکہ وکٹوریہ کے منظورِنظر تھے۔
مگر خدائی تقدیر کچھ اَور ہی تھی۔ خدا تعالیٰ نے اپنی کسی خاص مصلحت کی بِنا پر اس کے لیے ذلّت اور تکلیف مقدر کردی تھی جو پوری ہو کر رہی۔ واقعہ یوں ہواکہ دلیپ سنگھ کے بعض رشتہ داروں نے اُس سے خط وکتابت شروع کردی اور اُسے لکھا کہ کبھی پنجاب آؤ اور درشن دے جاؤ۔ اُس کے دل میں بھی خیال ہواکہ چلو اپنے وطن ہو آئیں۔ چنانچہ اس کی ماں رانی جنداں کے ایک عزیز سردار سنت سنگھ نے اُسے خط لکھا جس کا جواب حسب ذیل ہے۔
’’ایلوڈن ہال ۔ تھیٹ فورڈ سفک
میرے پیارے سردار سنت سنگھ
آپ کاخط وصول کر کے مجھے بے حد خوشی ہوئی۔ آپ نے جو اپنی خدمات میرے لیے پیش کی ہیں ان کے لیے میں تہ دل سے ممنون ہوں۔ مگر مجھے کسی چیز کی حاجت نہیں۔ چونکہ برٹش گورنمنٹ میرے ساتھ انصاف سے انکاری ہے لہٰذا میں 16؍دسمبر کو انگلستان چھوڑ دوں گا اور خاموشی سے دہلی میں رہائش اختیار کر لوں گا۔ کیونکہ اب میں بہت غریب ہوچکا ہوں۔
اپنی مرحومہ امّاں کے رشتہ دار سے مل کر مجھے بہت خوشی ہوئی ہے۔
جیسا کہ آپ نے سن لیا ہوگا کہ میں نے پھر سے آبائی مذہب قبول کرلیا ہوا ہے۔ مَیں آپ کو’’واہ گرو جی دی فتح ‘‘ کہہ کر سلام عرض کرتا ہوں۔
دلیپ سنگھ 7 ؍اکتوبر1885ء‘‘
مہاراجہ دلیپ سنگھ نے برٹش حکومت سے اپنی سلطنت کے عوض بہت سارے مطالبات پیش کیے تھے اور متعدد درخواستیں زیرِ غور تھیں۔ مگر جیسا کہ اس قوم کی عادت ہے وہ ٹال مٹول کرتے تھے۔ ان تمام باتوں سے دل برداشتہ ہو کر وہ واپس وطن آنا چاہتے تھے اور عیسائیت قبول کرنے کے باوجود بھی ان کا کچھ لحاظ نہ ہوا اس لیے وہ ان لوگوں سے بہت سخت متنفر ہوگئے تھے۔
اُوپروالا خط مہاراجہ نے اکتوبر 1885ء میں لکھاکہ وہ واپس وطن آرہے ہیں مگرخدا تعالیٰ کی مشیت کچھ اَور تھی۔
نومبر1885ء میں جمال الدین صاحب سیکھوانی ؓ حضرت اقدس امام الزماں مرزا غلام احمدقادیانی علیہ السلام کی ملاقات کے لیے قادیان گئے۔ اُن کا بیان ملاحظہ ہو:
’’یہ خاکسار در ماہِ نومبر 1885ء کو واسطے ملاقات جناب مرزا صاحب موصوف کے گیا اور اسی روز منجانب اللہ بابت مہاراجہ دلیپ سنگھ کے منکشف ہوا تھا وہ میرے پاس اور نیز کئی آدمی جو اس وقت موجود تھے ظاہر کیا کہ یہ لوگ آمدن دلیپ سنگھ کے (باعث)سرور وخوشی کر رہے ہیں۔ یہ سرور ان کو حاصل نہ ہو گا۔ مجھ کو خدا کی طرف سے ظاہر ہواہے کہ جب وہ آئے گا بہت شدائد و مصائب اٹھا ئے گا بلکہ یہاں تک کہ اُس وقت مرزا صاحب نے فرمایا کہ اس کی لاش ایک صندوق میں مجھے دکھلائی گئی ہے۔‘‘ (رجسٹر روایات صحابہ 4صفحہ 155،تذکرہ صفحہ 137 طبع دوم)
نیز حضرت اقدس ؑ نے اشتہار 20 ؍فروری 1886ء میں بھی لکھا کہ
’’ایک دیسی امیر نووارد پنجابی الاصل کی نسبت مجھے بعض متوحش خبریں جو کسی کے ابتلا اور کسی کی مو ت وفوت ِاعزّہ وغیرہ پر دلالت کرتی ہیں … منجانب اللہ منکشف ہوئی ہیں۔ ‘‘ (تذکرہ صفحہ 137طبع دوم )
اسی طرح حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے کتاب ’’شحنۂ حق ‘‘ صفحہ 56 پر اپنی پیشگوئیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :
’’ دلیپ سنگھ کی نسبت پیش از وقوع اس (لالہ شرمپت) کو بتلایا گیا کہ مجھے کشفی طور پر الہام ہوا ہے کہ پنجاب کا آنا اس کے لیے مقدر نہیں۔ یا تو یہ مرے گااور یا ذلّت اور بے عزتی اُٹھائے گا اور اپنے مطلب سے ناکام رہے گا۔ ‘‘
اور یہ پیشگوئی حضرت اقدسؑ علیہ السلام نے اُس وقت کی تھی جب سارے پنجاب میں اس کی آمد کا چرچا اور شور مچا ہوا تھا۔ چناچہ جب مہاراجہ دلیپ سنگھ صاحب سفر کرتے ہوئے عدن پہنچے تو گورنمنٹ آف انڈیا نے برٹش گورنمنٹ کی ہدایات کے ماتحت اُن کو آگے بڑھنے سے روک دیا۔ گیانی گیان سنگھ نے لکھا ہے:
’’گورنمنٹ آف انڈیا کو اس کا عام چال چلن مشتبہ نظر آیا۔ اس وجہ سے اُسے عدن سے واپس انگلینڈ جانے کا حکم ہوا۔‘‘ (تواریخ گورو خالصہ صفحہ 710)
نیزاس لیے کہ گورنمنٹ نے سوچا ہو گا کہ اگر دلیپ سنگھ پنجاب گیا تو سکھوں کے سوئے ہوئے جذبات بھڑک جائیں گے اور عین ممکن ہے کہ یہ قوم بغاوت کردے اور تمام امن برباد ہو جائے۔ بہر حال خدائی مشیّت یہ تھی کہ مہاراجہ دلیپ سنگھ وطن نہ آئیں۔
مہاراجہ دلیپ سنگھ نے اپنی خواہش کی تکمیل یوں کرلی کہ عدن کے سکھوں کو بلُوا کر ’’پوہل‘‘لے لیا۔ یعنی دوبارہ سِکھ مذہب قبول کر لیا۔
جب جہاز مغربی فرانس کی بندر گاہ مارسیلز پہنچا تو دلیپ سنگھ وہاںسے پیرس سے ہوتا ہوا زارِروس کے پاس چلاگیا مگر وہاں زار نے بھی اُسے مُنہ نہ لگایا اور آخر کار خجل خوار ہو کر وہ واپس انگلستان آگیا۔
لندن واپس آکر جب وہ ملکہ وکٹوریا سے ملنے گیا تو اس نے ملاقات ہی نہ کی۔ ملکہ کو غصہ یہ تھا کہ اس نے عیسائیت کیوں ترک کی۔ آخر کا ربڑی مشکل سے شرفِ ملاقات بخشا مگر پرانی توجہ نہ ہوئی۔ پھر دلیپ سنگھ نے پارلیمنٹ میں دی ہوئی اپنی درخواستیں بھی واپس لے لیں مگر ملکہ نے پھر بھی کوئی توجہ نہ دی۔
مہاراجہ دلیپ سنگھ کی غیر حاضری میں اس کی مصری نژاد بیوی نے اپنے خاوند کی جدائی سے متأثرہو کر بندر گاہ ڈوور (Dover) کے قریب سمندر میں چھلانگ لگاکر خودکشی کرلی۔
غرضیکہ خدا کا فرمان جو اس کے پیارے مسیح کی زبان سے جاری ہواتھا ہرطرح سے پورا ہوا۔ دلیپ سنگھ کو وطن دیکھنا نصیب نہ ہوا۔ ذلت اور بے عزتی ہوئی۔ اعزّہ کی وفات کے سلسلہ میں بیوی فوت ہو گئی اور ہر طرح ناکام رہا۔ اور یہی الہام کا مفہوم تھا۔
دلیپ سنگھ کی ایک لڑکی بمبا سنگھ نے لاہور میڈیکل کالج کے پرنسپل ڈاکٹر کرنل سدر لینڈ سے شادی کر لی تھی۔ کرنل صاحب نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو آخری بیماری میں دیکھا تھا اور علاج معالجہ بھی کیاتھا۔ اور انہی کی تصدیق پر انگریز اسٹیشن ماسٹرلاہورنے حضورؑ کی نعش کو گاڑی میں لے جانے کی اجازت دی تھی۔