شانِ محمود۔ بشارت الٰہیہ کی روشنی میں

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 16 فروری 2010ء میں مکرم نذیر احمد سانول صاحب کے قلم سے شائع ہونے والے ایک مضمون میں الٰہی بشارتوں کی روشنی میں حضرت مصلح موعودؓ کی بلند شان بیان کی گئی ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ؎

بشارت دی کہ اک بیٹا ہے تیرا
جو ہوگا ایک دن محبوب میرا
کروں گا دُور اس مَہ سے اندھیرا
دکھاؤں گا کہ اِک عالَم کو پھیرا
بشارت کیا ہے اِک دل کی غذا دی
فَسُبْحَانَ الَّذِیْ اَخْزَی الْاَعَادِی

آسمانی کتابوں، الٰہی نوشتوں، ربانی صحیفوں، انبیاء عظام کی پیشگوئیوں، اولیاء اللہ کے الہاموں، صلحاء کرام کے کشوف اور بزرگان کی بشارات میں حضرت امام آخرالزمان کے ارفع مقام اور عظیم الشان فرزند کے تولد، مقام و مرتبہ اور کارناموں کی خوشخبریاں دی گئی ہیں جو امتداد زمانہ کے باوجود قدیم کتب میں کسی نہ کسی شکل میں موجود و محفوظ چلی آرہی ہیں تا آنکہ مصلح موعود نے اپنے مقررہ مبارک وقت پر عین علامات کے مطابق جنم لیا اور اپنے مقدس وجود باجود کے اندر تمام موعودہ صفات و کمالات کو ظاہر کیا۔
اللہ تعالیٰ قرآن کریم (سورۃالجمعہ:4,3) میں فرماتا ہے: وہی ہے جس نے اُمّی لوگوں میں انہی میں سے ایک عظیم رسول مبعوث کیا۔ وہ ان پر اس کی آیات کی تلاوت کرتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب کی اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے جبکہ اس سے پہلے وہ یقینا کھلی کھلی گمراہی میں تھے۔ اور انہی میں سے دوسروں کی طرف بھی (اسے مبعوث کیا ہے) جو ابھی ان سے نہیں ملے۔ وہ کامل غلبہ والا (اور) صاحب حکمت ہے۔
اس آیت کریمہ کی وضاحت میں حضرت ابوہریرہؓ روایت بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے تھے۔ اس موقع پر آپؐ پر سورۃ الجمعہ ناز ل ہوئی۔ مَیں نے پوچھا یارسول اللہ! وہ کون لوگ ہیں؟ آپؐ نے جواب نہ دیا یہاں تک کہ ہم نے تین دفعہ سوال کیا اور ہم میں سلمان فارسیؓ بھی تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ سلمان فارسی پر رکھا پھر فرمایا: اگر ایمان ثریا ستارے پر بھی چلا جائے تو ان میں سے کچھ مرد یا ایک مرد اسے واپس لے آئے گا۔
حضرت مصلح موعودؓ اس حدیث کے حوالہ سے فرماتے ہیں: ’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا کہ دین جب خطرہ میں ہوگا تو اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت کے لئے اہل فارس میں سے کچھ افراد کو کھڑا کرے گا۔ حضرت مسیح موعودؑ ان میں سے ایک فرد تھے اور ایک فرد مَیں ہوں لیکن رجال کے ماتحت ممکن ہے کہ اہل فارس میں سے کچھ اور لوگ بھی ایسے ہوں جو اسلام کی عظمت قائم رکھنے اور اس کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے لئے کھڑے ہوں‘‘۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دنیا میں تشریف لائیں گے، وہ شادی کریں گے اور ان کو اولاد دی جائے گی۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت مسیح موعودؑ کو بھی ایک بیٹے کی ولادت کے بارہ میں جو عظیم الشان خوشخبری دی گئی اسے حضور علیہ السلام نے 1886ء میں شائع فرمادیا جس کے مطابق حضرت مصلح موعود ؓ 12؍جنوری 1889ء کو پیدا ہوئے۔
حضرت غلام حسین صاحبؓ کا حلفیہ بیان ہے کہ ’’خاکسار کو رؤیا میں دکھایا گیا کہ چاند آسمان سے ٹوٹ کر حضرت امّاں جان کی جھولی میں آپڑا ہے۔ پھر دوسری رؤیا میں دکھایا گیا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے بعد میاں محمود احمد صاحب خلیفہ ہوں گے۔ ان کی نصرت ہوگی اور ان پر وحی بھی نازل ہوگی۔ یہ دونوں خوابیں مَیں نے لکھ کر حضرت خلیفہ اوّل کے حضور بھیج دیں۔ آپ نے جواب میں لکھا کہ آپ کی خوابیں مبارک ہیں۔ پھر جب میں قادیان جلسہ سالانہ پر گیا تو علیحدگی میں بندہ نے روبرو میاں عبدالحیٔ صاحب مرحوم حضرت خلیفہ اول سے عرض کیا کہ یا حضرت! جو خوابیں میں نے آپ کو تحریر کی تھیں ان سے تو معلوم ہوتا ہے کہ حضور کے بعد میاں محمود احمد صاحب خلیفہ ہوں گے۔ حضرت خلیفہ اولؓ اور میاں عبدالحیٔ صاحب مرحوم چارپائی پر بیٹھے تھے اور مَیں نیچے پیڑھی پر بیٹھا تھا۔ حضور نے جھک کر مجھ کو فرمایا: ’’اسی لئے تو اس کی ابھی سے مخالفت شروع ہوگئی ہے‘‘۔ مَیں نے عرض کیا یاحضرت! سچے کا نشان بھی یہی ہوتا ہے کہ اس کی مخالفت ہو؟ آپؓ نے فرمایا ہاں! سچے کا یہی نشان ہوتا ہے‘‘۔
حضرت امام یحییٰ بن عقبؒ پانچویں صدی ہجری میں بلند پایہ بزرگ گزرے ہیں۔ آپ نے اپنی نظم میں آخری زمانے میں نمودار ہونے والے انقلابات کا ذکر کرتے ہوئے مسیح موعود کی بعثت اور آپ کے موعود فرزند کی پیدائش کی خبر دی ہے۔ آپؒ فرماتے ہیں: مَیں نے اسرار سے عجیب حالات و اسباب مطالعہ کئے ہیں جن کو میں اپنے اس کلام میں ظاہر کرتا ہوں۔ آسمان پر ایک بہت بڑا ستارہ ظاہر ہوگا جس کی دُم ہوا کی طرح بلند ہوگی۔ یہ نشان فرنگیوں کے غلبہ کے زمانے میں ظاہر ہوں گے۔ جو اس زمانے میں دریاؤں کے ساحلوں اور پہاڑوں کی چوٹیوں تک کے مالک ہوجائیں گے اور یہ علامات اس بات کی دلیل ہوں گی کہ مہدی کا ظہور ہوگیا ہے۔ وہ تمام شہروں کا مالک ہوجائے گا۔ پہاڑوں میں رہنے والے وحشی اس سے محبت رکھیں گے اور شہروں کے باشندے اس کی اطاعت قبول کریں گے۔ وہ کفر اور ضلالت کو دنیا سے نابود کر دے گا اور اپنے ساتھ ایسے زبردست دلائل اور براہین لے کر آئے گا کہ ان لوگوں کے کمال کا اعتراف کرنا پڑے گا‘‘۔ اور پھر ’’اس کے بعد محمود ظاہر ہوگا جو ملک شام کو بغیر جنگ کے فتح کرے گا۔ شام کے قلعے اس کی اطاعت قبول کریں گے اور وہ اپنے مال کو
بے حساب اور ہر حالت میں خرچ کرتا رہے گا‘‘۔
حضرت مصلح موعودؓ کا نام نامی اسم گرامی خود اللہ تعالیٰ نے تجویز فرمایا۔ اس بارہ میں حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’میرا پہلا لڑکا جو زندہ موجود ہے جس کا نام محمود ہے۔ ابھی وہ پیدا نہیں ہوا تھا جو مجھے کشفی طور پر اس کے پید اہونے کی خبر دی گئی اور میں نے مسجد کی دیوار پر اس کا نام لکھا ہوا یہ پایا کہ محمود۔ تب میں نے اس پیشگوئی کے شائع کرنے کے لئے سبز رنگ کے ورقوں پر ایک اشتہار چھاپا جس کی تاریخ اشاعت یکم دسمبر 1888ء ہے اور یہ اشتہار مورخہ یکم دسمبر 1888ء ہزاروںآدمیوں میں شائع کیا گیا اور اب تک اس میں سے بہت سے اشتہارات میرے پاس موجود ہیں‘‘۔
حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکیؓ ایک بلند پایہ باکمال اہل اللہ ولی کامل گزرے ہیں۔ آپ اپنا ایک کشف اس طرح بیان فرماتے ہیں: ’’ایک دن میں مسجد احمدیہ پشاور میں بیٹھا ہوا تھا۔ میرے پاس مکرمی میاں شمس الدین صاحب امیر جماعت احمدیہ پشاور بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ مجھ پر اچانک کشفی حالت طاری ہوگئی۔ میں نے دیکھا کہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ تشریف لائے ہیں۔ آپ کا دل مجھے سامنے نظر آرہا ہے جس میں کئی روشن سورج چمک رہے ہیں جن کی چمک اور روشنی بڑے زور کے ساتھ ہمارے اوپر پڑ رہی ہے۔ آپ کے دل کے سامنے میرا دل ہے جس میں بلب کی روشنی کے برابر روشنی نظر آتی ہے۔‘‘
حضرت مصلح موعودؓ زیارت نور ربّانی کے سلسلہ میں اپنا ایک کشف تفسیر کبیر میں یوں بیان فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ جن لوگوں کو اصلاح خلق کے لئے مبعوث فرماتا ہے وہ انہیں اپنے انوار اور تجلیات کا
جلوہ گاہ بناتا ہے اور یہ نور بعض دفعہ ظاہری طور پر متمثّل ہوکر دوسرے لوگوں کو بھی نظر آجاتا ہے تاکہ سعید الفطرت انسان اس سے فائدہ اٹھائیں اور وہ اپنے قلوب میں تغیر پیدا کریں۔ خود مجھے بھی اللہ تعالیٰ کا نور بعض دفعہ تمثل کے طور پر دکھائی دیا ہے۔ چنانچہ 1910ء یا 1911ء کا واقعہ ہے کہ مجھے بخار ہوگیا اور ساتھ ہی مجھے اپنی ران میں شدید درد ہونے لگا۔ چونکہ ان دنوں طاعون سے بعض اموات ہورہی تھیں۔ مجھے وہم ہوا کہ کہیں یہ طاعون ہی نہ ہو۔ چنانچہ میں نے اپنے کمرے کا دروازہ بند کرلیا اور سوچنے لگا کہ یہ کیا ہونے لگا ہے۔ اسی اثناء میں جبکہ میری آنکھیں کھلی تھیں مَیں درودیوار کو دیکھ رہا تھا اور مجھے اپنے کمرہ کی تمام چیزیں نظر آرہی تھیں۔میں نے کشفی طور پر دیکھا کہ ایک سفید اور نہایت چمکتا ہوا نور ہے جو میرے کمرے کے نیچے سے نکل رہا ہے اور آسمان کی طرف چھت پھاڑ کر جارہا ہے۔ نہ اس کی کوئی ابتدا معلوم ہوتی ہے اور نہ انتہا۔ اس کے بعد مَیں نے دیکھا کہ اس نور میں سے ایک ہاتھ نکلا ہے جس میں ایک سفید چینی کا پیالہ ہے اور اس پیالہ میں دودھ بھرا ہوا ہے۔ اس ہاتھ نے وہ پیالہ مجھے پکڑا دیا اور میں نے وہ دودھ پی لیا۔ جب میں وہ دودھ پی چکا تو میں نے دیکھا کہ نہ تو کوئی درد ہے اور نہ بخار بلکہ میں اچھا بھلا ہوں اور مجھے کوئی تکلیف نہیں ہے‘‘۔
پیشگوئی مصلح موعود کے الفاظ ’’دوشنبہ ہے مبارک دوشنبہ‘‘ کی توضیح کرتے ہوئے حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکیؓ فرماتے ہیں کہ مکرم ماسٹر نعمت اللہ خانصاحب گوہر مجھے فرمانے لگے کہ حضرت مسیح موعودؑ کا الہام ’’دوشنبہ ہے مبارک دوشنبہ‘‘ المصلح الموعود کے لئے بطور علامت کے ہے۔ لیکن حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی پیدائش ہفتہ یعنی شنبہ کے دن ہوئی اور آپ خلیفہ بھی ہفتہ کے دن ہوئے اور دو شنبہ یعنی سوموار سے آپ کا کوئی تعلق معلوم نہیں ہوتا۔ پس آپ کس طرح مصلح موعود ہوئے۔ مَیں نے کہا کہ آپ نے تو اپنی تشریح سے ثابت کردیا ہے کہ سیدنا حضرت محمود مصلح موعود کی پیشگوئی کے مصداق ہیں۔ جب حضور کی ولادت شنبہ کو ہوئی اور آپ مسند خلافت پر بھی شنبہ کے دن بیٹھے تو یہ دو مبارک شنبہ ہوئے۔ ایک شنبہ ولادت کا اور دوسرا شنبہ خلافت کا اور یہ دونوں دن ہی باعث صدمبارک اور مسرت ہیں۔
حضرت مصلح موعودؓ نے 1936ء کی مجلس مشاورت پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’’میں اس لئے ہی خلیفہ نہیں ہوں کہ حضرت خلیفہ اولؓ کی خلافت کے دوسرے دن جماعت احمدیہ کے لوگوں نے جمع ہو کر میری خلافت پر اتفاق کیا بلکہ اس لئے بھی خلیفہ ہوں کہ حضرت خلیفہ اولؓ کی خلافت سے بھی پہلے حضرت مسیح موعودؑ نے خداتعالیٰ کے الہام سے فرمایا تھا کہ میں خلیفہ ہوں گا۔ پس میں خلیفہ نہیں بلکہ موعود خلیفہ ہوں۔ میں مامور نہیں مگر میری آواز خداتعالیٰ کی آواز ہے کہ خداتعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کے ذریعہ اس کی خبر دی تھی۔ گویا اس خلافت کا مقام ماموریت اور خلافت کے درمیان کا مقام ہے‘‘۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں