شمالی روشنیاں (Aurora / Northern Lights)
ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ اگست 2006ء میں مکرم آر۔ایس۔ بھٹی صاحب کے قلم سے شمالی روشنیوں (اروہ را) کے بارہ میں ایک معلوماتی مضمون شامل اشاعت ہے۔ ان روشنیوں کو عام طور پر ناردرن یا آرکٹک (Arctic) لائٹس کہا جاتا ہے۔
اروہ را ایک طبیعاتی نظریہ ہے جو کہ عموماً زمین سے 50 سے 200 میل کی بلندی پر ہوتا ہے۔ دنیا کے انتہائی شمال میں ایک آرکٹک سرکل (Arctic Circle) ہے جو زمین کے نقشہ میں 78 ڈگری شمال میں واقع ہے۔ جو شہر یا ممالک اس بیلٹ پر واقع ہیں ان میں عموماً یہ اروہ را دکھائی دیتا ہے۔ مشہور مقامات میں ناروے کا قصبہ Hammerfest اور شہر Tromso نیز الاسکا کا قصبہ Fairbanks شامل ہے۔ اس کے علاوہ Murmansk ایک بہت ہی خاص شہر ہے۔ یہ روس کے شمال میں برف سے آزاد قصبہ ہے۔ سردیوں میں بھی اس کا درجہ حرارت منفی 8سے نیچے کم ہی جاتا ہے۔ اس کی آبادی آدھا ملین ہے اور آرکٹک سرکل پر واقع یہ سب سے بڑا شہر ہے اس لئے اسے آرکٹک کیپٹل اور The Gates To The Arctic بھی کہتے ہیں۔
اروہ را کے نظارہ کے لئے درست مقام کے علاوہ تین چیزیں ضروری ہیں یعنی صاف آسمان، تاریک رات اور قسمت۔
یہ روشنیاں اُن شمسی ذرّات کی وجہ سے ہیں جو عظیم دھماکوں اور شعلوں کی وجہ سے بھاری تعداد میں سورج سے نکلتے ہیں۔ یہ ہائی انرجی پارٹیکلز ہوتے ہیں اور انہیں پلازما بادل (Plasma Clouds) کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ یہ بادل خلا میں 300 سے 1200 کلومیٹر فی سیکنڈ (ایک ملین کلو میٹر فی گھنٹہ سے زائد) کی رفتار سے سفر کرتے ہیں۔ اس قدر تیز رفتاری کے باوجود زمین تک پہنچنے میں انہیں دو سے تین دن لگ جاتے ہیں۔ جب یہ شمسی آندھی زمین کی کرہ ہوائی تک پہنچتی ہے تو زمین کی مقناطیسی فیلڈ اسے پکڑ لیتی ہے اور اسے زمین کے دو مقناطیسی قطب کی طرف لے جاتی ہے یعنی قطب شمالی اور قطب جنوبی کی طرف۔ اُسی دوران یہ زمین کے ہوائی کرہ سے ٹکراتے ہیں جو ان مہلک ذرات کو زمین تک پہنچنے سے روکنے کے لئے ایک مؤثر ڈھال فراہم کرتا ہے۔ اس ٹکراؤ کے نتیجہ میں روشنی کا اخراج ہوتا ہے اور Aurora نظر آتا ہے۔ یہ روشنیاں متواتر حرکت میں رہتی ہیں۔ بیسویں صدی تک سائنسدان ان روشنیوں کی کوئی توجیح پیش نہیں کر سکے تھے۔ اب یہ تحقیق ہورہی ہے کہ توانائی کا یہ اخراج انسان کس طرح اپنے استعمال میں لا سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے: وہ جانتا ہے جو زمین میں داخل ہوتا ہے اور جو اس میں سے نکلتا ہے اور جو آسمان سے اترتا ہے اور جو اس میں چڑھ جاتا ہے۔ (سورۃالحدید)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ بیان فرماتے ہیں:
’’زمین سے ہر وقت کچھ نہ کچھ آسمان کی طرف بلند ہوتا رہتا ہے اور کچھ نہ کچھ نیچے اترتا رہتا ہے۔ کچھ تو ایسے بخارات وغیرہ ہیں جن کو واپس زمین کی طرف بھیج دیا جاتا ہے۔ لیکن کچھ ایسی ریڈیائی اور مقناطیسی شعاعیں ہیں جو بلند ہو کر زمین کے دائرے سے نکل جاتی ہیں۔ اسی طرح آسمان سے Meteores اور ریڈیائی شعاعوں کی زمین پر مسلسل بوچھاڑ ہورہی ہے۔ اس کی بھی مسلسل تحقیق جاری ہے اور بہت کچھ معلوم ہوجانے کے باوجود آسمان سے اترنے والی اکثر شعاعوں کا سائنسدانوں کو علم نہیں ہوسکا۔ یہ مضمون بھی رسول اللہﷺ کے زمانہ میں کسی انسان کے تصور میں بھی نہیں آسکتا تھا‘‘۔
اروہ راہ کے بارہ میں سائنسدان کافی حد تک درست پیش گوئی کرلیتے ہیں۔ اسے خلا کا موسم بھی کہا جاتا ہے اور یہ معلومات spaceweather.com اور todayspaceweather.com سے بھی لی جاسکتی ہیں۔ یہ معلومات menetogram سے حاصل شدہ ہوتی ہیں جو کہ رصدگاہوں میں موجود ہوتا ہے۔ اور یہ جیو فزیکل رصدگاہیں فن لینڈ اور الاسکا میں کام کر رہی ہیں۔ سب سے بہترین پیش گوئی سیٹلائٹ سے کی جاتی ہے جو کہ شمسی آندھی، سورج اور زمین کے درمیان sensing کررہاہوتا ہے۔
اروہ را کا ایک بہترین منظر 6 و 7؍اپریل 2000ء کی رات کو دیکھا گیا جو 2:20 سے 3:00 بجے تک جاری رہا۔ عموماً اس قسم کا واضح خیرہ کن منظر گیارہ سالوں کے بعد ہوتا ہے۔ توقع ہے کہ آئندہ اس کا مظاہرہ 2011ء یا 2012ء میں وقوع پذیر ہوگا۔
اروہ را میں روشنی کے ناچتے، لہراتے ربن آسمان پر گھنٹوں چمک سکتے ہیں۔ یہ چمکدار پردے، سبز، پیلے، نارنجی گہرے سرخ رنگوں کے ہو سکتے ہیں۔ اور بعض اوقات رنگوں کا مکمل سپیکٹرم بھی دکھائی دیتا ہے۔ بل کھاتا ہوا (Twist) اروہ را عموماً 15-10 منٹ میں غائب ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ بعض اوقات ایک تاج کی شکل کا اروہ را دکھائی دیتا ہے جس کے مرکزی نقطہ سے روشنیاں ہر طرف پھیل رہی ہوتی ہیں۔ سب سے کم نظر آنے والا اروہ را سرخ رنگ کا ہے جو کہ ایک مرتبہ 11؍فروری 1958ء کو دکھائی دیا تھا اور ابھی تک زیر بحث ہے۔ رنگوں کا فیصلہ ایٹموں کی اقسام کرتی ہیں۔
شدید اروہ را سے مختلف مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ ایک اروہ را نظارے میں دس لاکھ میگاواٹ بجلی پیدا ہوتی ہے جو کہ پاور لائن، ریڈیو اور ٹیلی ویژن نشریات اور مواصلاتی رابطوں کے لئے نقصان دہ ہے۔ اسی طرح شارٹ ویوز میں بھی انتشار ہوسکتا ہے۔ اروہ را سے الیکٹران نکلتے ہیں جو کہ الیکٹرونکس اور شمسی رابطوں کو خراب کر سکتے ہیں۔