شیرسنگھ سے واحد حسین تک
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 12؍اکتوبر 2000ء میں مکرم محمد سعید احمد صاحب کے قلم سے ایک مضمون مکرم واحد حسین گیانی صاحب کے بارہ میں شامل اشاعت ہے۔
محترم واحد حسین صاحب گوجرانوالہ کے رہنے والے تھے اور پیدائشی طور پر مسلمان تھے۔ آپ کی والدہ کی وفات ہوچکی تھی اور والد دیگر رؤسا کی طرح تمام بری عادات میں مبتلا تھے جس کی وجہ سے آپ اپنے گھر کے ماحول سے دلبرداشتہ تھے۔ ایک سکھ لڑکا آپ کا کلاس فیلو تھا اور آپ کا اُس کے گھر آنا جانا بھی تھا۔ جب آپ نے اُس کے گھر کا ماحول اپنے گھر سے بہتر دیکھا تو آپ نے سکھ مذہب قبول کرلیا اور اپنی ذہانت اور محنت سے جلد ہی سکھ مذہب کی تعلیمات پر عبور حاصل کرکے گیانی بن گئے اور ایک مشہور گوردوارے اور سکھوں کی ایسی گدّی سے منسلک ہوگئے جس کے سَنْت ایک ممتاز مقام رکھتے تھے اور چونکہ وہ غیرشادی شدہ تھے اس لئے اُن کی جانشینی کا مسئلہ گیانی صاحب کی آمد نے حل کردیا اور سرکاری کاغذات میں آپ کو باقاعدہ اُس گوردوارے اور سَنْت کا جانشین قرار دیا گیا۔
محترم گیانی واحد حسین صاحب کے سکھوں میں مقام کا اندازہ اس بات سے ہوسکتا ہے کہ آج تک بے شمار سکھوں نے گرنتھ حفظ کرنے کی کوشش کی لیکن کوئی بھی کامیاب نہیں ہوسکا۔ چند ایک سکھ نصف کے قریب گرنتھ حفظ کرسکے اور آپ اُن میں سے ایک تھے۔
حضرت ماسٹر عبدالرحمان صاحبؓ سابق مہرسنگھ، مختلف گوردواروں میں تبلیغ کی خاطر جایا کرتے تھے اور مکرم گیانی صاحب کے گوردوارہ میں بھی اُن کی آمدورفت تھی۔ ایک رات جب سارا ماحول محو خواب تھا تو گیانی صاحب کو کسی نے آہستہ سے بیدار کرکے کہا کہ ’’اُٹھ شیر سنگھا! تیرے جان دا وقت آگیا ہے‘‘۔ گیانی صاحب نے آنکھیں کھول کر دیکھا اور حضرت ماسٹر صاحبؓ کو پہچان لیا۔ اُن کے حکم میں اس قدر جذب تھا کہ گیانی صاحب بالکل بے بس ہوکر اُن کے پیچھے چل پڑے اور اسی کیفیت میں قادیان پہنچ گئے۔ حضرت مصلح موعودؓ کے دست مبارک پر بیعت کی، بال کٹوائے اور اس طرح گیانی شیر سنگھ اب مولوی واحد حسین بن گئے۔ اس واقعہ نے سکھ حلقوں میں آگ لگادی ، احمدیوں کو دھمکیاں دی گئیں اور گیانی صاحب کو واپس لانے کے لئے کئی سکھ وفود قادیان آئے، سکھ اخبارات میں بہت شور مچایا گیا۔
آخر سکھوں کو خیال آیا کہ گیانی صاحب اپنے سَنْت کی شخصیت کے سحر میں گرفتار تھے۔ چنانچہ اب سَنْت کو قادیان بھیجا گیا۔ انہوں نے علیحدہ لے جاکر آپ سے پوچھا پوچھا : شیرسنگھ! کیا تم احمدی ہوگئے ہو؟۔ آپ نے آنکھیں نیچی کئے جواب دیا:جی۔ سَنْت نے پوچھا: کیا احمدی ہوکر تمہارے دل کو چین ملتا ہے؟۔ آپ نے جواب دیا:جی۔ سَنْت نے کہا: اچھا ربّ راکھا۔ پھر سَنْت نے سکھوں میں واپس جاکر انہیں تلقین کی کہ سب شورش بند کردو کیونکہ شیرسنگھ اب ہمارا نہیں رہا۔
تقسیم ہند سے قبل ضلع لاہور کے ایک گاؤں میں سکھوں اور مسلمانوں کے درمیان تنازعہ نے مذہبی رنگ اختیار کرلیا چنانچہ حکومت نے امن عامہ کی خاطر اذان پر پابندی لگادی۔ حضرت مصلح موعودؓ کو جب اس کی خبر ملی تو حضورؓ نے گیانی صاحب کو بلاکر فرمایا کہ آپ وہاں جائیں اور کسی طرح اذان جاری کرواکر آئیں۔ آپ دعائیں کرتے ہوئے روانہ ہوئے اور گرمیوں کی تپتی دوپہر کے وقت اُس گاؤں میں جاپہنچے۔ اُسی وقت مسجد کی چھت پر چڑھ کر آپ نے گورمکھی زبان میں بلند آواز سے خوش الحانی سے اذان دے دی۔ جب آپ اذان دے کر چھت سے نیچے اُترے تو سارا گاؤں اور پولیس والے مسجد کے سامنے اکٹھے ہوچکے تھے۔ انہوں نے دیکھا کہ یہ تو ایک اجنبی ہے۔ آپ نے سکھوں سے پوچھا کہ ابھی جو کچھ مَیں نے پڑھا تھا اُس سے کسی کو تکلیف ہوئی ہے۔ جواب ملا: نہیں۔ پھر آپ نے مسلمانوں سے یہی پوچھا: انہوں نے کہا کہ ہمیں تو خاص سمجھ نہیں آئی مگر یہ طریقہ اذان دینے کا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ مَیں نے اذان ہی دی ہے مگر گورمکھی زبان میں۔ اس پر سکھوں نے کہا کہ اگر یہی اذان ہے تو ہمیں اس سے کوئی تکلیف نہیں۔ چنانچہ فریقین میں صلح ہوگئی اور اذان دوبارہ جاری ہوگئی۔