صبر کی سائنسی اور طبّی حکمتیں
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 13جون 2011ء میں محترم ڈاکٹر مرزا سلطان احمد صاحب نے صبر کی سائنسی اور طبّی حکمتوں کے حوالہ سے ایک مضمون قلمبند کیا ہے۔
ٓٓ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اس( مصیبت ) پر صبر کر جو تجھے پہنچے ۔یقینا یہ بہت اہم باتوں میں سے ہے۔(لقمٰن18:)
دنیا میں انسان کو مختلف قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ایک عام قسم کا صدمہ جس سے زندگی میں تقریباً ہرشخص کو دوچار ہونا پڑتا ہے ، وہ اپنے کسی پیارے کی موت کا صدمہ ہے۔ مختلف طبائع اس صدمہ سے دوچار ہونے کے وقت مختلف قسم کا ردّعمل دکھاتے ہیں۔کچھ کا صدمہ شدید ردِّعمل کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور کچھ اپنے آپ کو قابو میں رکھتے ہیں۔ جب حضرت اُمِّ حبیبہ ؓ کے والد کا انتقال ہوا تو آپ نے تیسرے دن خوشبو منگوا کر ملی اور فرمایا کہ مجھے اس خوشبو کی ضرورت نہیں تھی اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ نہ سنا ہوتا کہ کسی بھی عورت کے لئے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہو یہ جائز نہیں کہ وہ شوہر کے علاوہ کسی کا سوگ تین روز سے زائد منائے۔
اسی طرح حضرت اُسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت ز ینب ؓ نے آپؐ کو اطلاع بھجوائی کہ ان کا ایک بیٹا قریب المرگ ہے۔اس لئے آپ تشریف لائیں۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو سلام بھجوایا اور کہلوایا کہ اللہ تعالیٰ نے جو لے لیا اُسی کا تھا اور جو دیا ہے وہ بھی اسی کا ہے۔ہر چیز اس کی بارگاہ میں وقتِ مقررہ پر ہوتی ہے۔ اس لئے صبر کریں اور اللہ سے اجر کی توقع رکھیں۔ حضرت زینبؓ نے پھر پیغام بھجوایا تو آپؐ تشریف لے آئے ۔ بچے پر جانکنی کا عالم تھا۔یہ دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں بھر آئیں۔ اس پر حضرت سعدؓ نے کہا کہ یا رسول اللہ! یہ کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ یہ رحمت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں میں رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ رحم دل بندوں پر رحم فرماتا ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صدمہ میں افسوس کے اظہار کی کچھ حدود بھی متعین فرمائی ہیں۔ چنانچہ فرمایا کہ وہ ہم میں سے نہیں جو منہ پیٹے اور گریبان پھاڑے اور جاہلیت کی چیخ و پکار کرے۔
ان ارشادات کی دینی ، نفسیاتی اور معاشی حکمتیں تو واضح ہیں۔ لیکن سائنس کی موجودہ تحقیق کے نتیجہ میں معلوم ہوا ہے کہ دباؤ (Stress) کی حالت میں جسم میں مختلف قسم کے غدود معمول سے زیادہ مقدار میں ہارمون پیدا کرنے لگتے ہیں۔ پھر بعض غدود ان ہارمونز کو متوازن کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور اگر صدماتی کیفیت شدید ہو جائے یا اس کا دورانیہ طویل ہو جائے تو جسم میں دونوں اقسام کے ہارمونز کی اضافی مقدار بہت سی بیماریوں کا باعث بن جاتی ہے۔ چنانچہ بعض تشویشناک بیماریوں کے علاوہ الرجی، دمہ، ایگزیما اور Urticaria کی علامات پیدا ہوسکتی ہیں، مائیگرین بھی جنم لے سکتی ہے۔ بلڈپریشر میں زیادتی یا کمی ہوسکتی ہے۔ اسہال یا قبض کی تکلیف بھی ہو سکتی ہے۔ نیز کئی نفسیاتی امراض (بشمول اضطراب، ڈپریشن یا بے خوابی) جنم لے سکتے ہیں۔حتیٰ کہ دل کے امراض بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح انسان کی بھوک ختم ہو سکتی ہے یا زیادہ کھانے کی عادت پیدا ہو سکتی ہے اور بعض اشخاص میں یہ کیفیت ذیابیطس شروع کرنے کا باعث بن جاتی ہے۔ اگر بچوں یا نوجوانوں میں یہ کیفیت طویل ہو جائے تو نشوو نما پر منفی اثر پڑ سکتا ہے اور ہڈیاں کمزور ہو سکتی ہیں۔
ان اثرات کا ایک عجیب پہلو یہ ہے کہ ان ہارمونز کی زیادتی کے باعث جراثیم کے خلاف جسم کی قوت مدافعت کمزور ہوجاتی ہے ۔ چنانچہ معدہ میں جراثیم کی ایک قسم زیادہ نشوونما پاکر السر پیدا کرنے کا باعث بنتی ہے۔ اسی طرح تپدق کے خلاف قوت ِ مدافعت کمزور ہوجاتی ہے اور فلو میں مبتلا ہونے کے امکانات زیادہ ہو جاتے ہیں۔
چنانچہ مصیبت کے وقت صبر کرنے کی ہدایت میں صرف مذہبی یا اخلاقی حکمتیں نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں پر رحم کر کے یہ تعلیم دی ہے تاکہ وہ اپنے آپ کو جسمانی مصیبتوں میں مبتلا نہ کر لیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صبر کے آداب میں یہ راہنمائی بھی فرمائی ہے کہ ’’صبر تو صدمہ کے شروع میں ہوتا ہے‘‘۔ حضرت مسیح موعودؑ ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ میں فرماتے ہیں: ’’منجملہ انسان کے طبعی امور کے ایک صبر ہے جو اس کو ان مصیبتوں اور بیماریوں اور دکھوں پر کرنا پڑتا ہے جو اس پر ہمیشہ پڑتے رہتے ہیں اور انسان بہت سے سیاپے اور جزع فزع کے بعد صبر اختیار کرتا ہے۔لیکن جاننا چاہئے کہ خدا کی پاک کتاب کے رو سے وہ صبر اخلاق میں داخل نہیں ہے بلکہ وہ ایک حالت ہے جو تھک جانے کے بعد ضرورتاً ظاہر ہو جاتی ہے۔ یعنی انسان کی طبعی حالتوں میں سے بھی ایک حالت ہے کہ وہ مصیبت کے ظاہر ہونے کے وقت پہلے روتا چیختا سر پیٹتا ہے۔ آخر بہت سا بخار نکال کر جوش تھم جاتا ہے اور انتہا تک پہنچ کر پیچھے ہٹنا پڑتا ہے۔ پس یہ دونوں حرکتیں طبعی حالتیں ہیں ان کو خُلق سے کچھ تعلق نہیں بلکہ اس کے متعلق خُلق یہ ہے کہ جب کوئی چیز اپنے ہاتھ سے جاتی رہے تو اس چیز کو خدا تعالیٰ کی امانت سمجھ کر کوئی شکایت منہ پر نہ لاوے۔‘‘
ماہرینِ نفسیات میں ایک طبقہ کا مؤقف تھا کہ بعض صدمات میں نفسیاتی علاج کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ دوسرے طبقہ کا کہنا تھا کہ انسان رفتہ رفتہ شدید ترین صدمات کو بھی خود ہی فراموش کر دیتا ہے۔ چنانچہ بہت سے بڑے حادثات کے مواقع پر ماہرین نفسیات نے ایک منظم انداز میں مرنے والوں کے لواحقین کے ساتھ نشست کرکے ان کو اس سانحہ سے نبرد آزما ہونے کے لئے تیار کیا۔ لیکن بعد میں اعداد و شمار نے یہ ظاہر کیا کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ بعض لوگوں میں ان نشستوں کے نتیجہ میں غیر محفوظ ہونے کا احساس پیدا ہوگیا۔ چنانچہ 2004ء کی سونامی کے بعد عالمی ادارۂ صحت نے اس قسم کی نشستوں کے خلاف وارننگ دی۔ اب سائنسدانوں کا یہی رحجان ہورہا ہے کہ انسان کے اندر موجود صلاحیتوں کو ہی اجاگر ہونے کا موقع دیا جائے تو بہتر ہو گا۔ اکثر لوگ سانحوں کے ایک عرصہ کے بعد سنبھل ہی جاتے ہیں لیکن اصل صبر تو وہی ہے جو کہ انسان صدمہ کی ابتدا میں دکھاتا ہے۔