صحابہؓ رسولؐ کا تعلق باللہ اور ذوق عبادت
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ سالانہ نمبر 2009ء میں مکرم عبدالستار خان صاحب کے قلم سے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے تعلق باللہ، ذوق عبادت اور دلگداز دعاؤں کے حوالہ سے ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں کو دیکھا تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو منتخب فرمایا۔ پس آپ کو اپنی رسالت سے سرفراز فرمایا۔ یہ انتخاب اللہ نے اپنے علم کی بنا پر کیا۔ آپ کے انتخاب کے بعد پھر لوگوں پر نگاہ ڈالی تو بہترین عباد کو صحابہ کے طور پر انتخاب فرمایا اور ان کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے انصار اور اپنے نبی کے وزراء بنا دیا۔
= حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو ایک لشکر پر سردار بنا کر بھیجا۔ وہ صحابی اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھاتے تو اپنی قراء ت کو
قُلْ ھوُ َاللّٰہُ اَحَد
پر ختم کرتے۔ جب وہ لوگ واپس لوٹے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس بات کا ذکر ہوا تو آپؐ نے فرمایا۔ اس سے دریافت کرو کہ وہ ایسا کیوں کرتا ہے۔ صحابہؓ کے دریافت کرنے پر انہوں نے جواب دیا کہ اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ کی صفت ’’اَحَد‘‘ کا ذکر ہے اور مَیں اس کے پڑھنے کو محبوب رکھتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کو بتا دو کہ اللہ تعالیٰ بھی اس کو محبوب جانتا ہے۔
= جب حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو صحابہ کرام پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ ان کے دلوں کو یقین نہیں آتا تھا کہ ان کا محبوب آقا جدا ہوگیا ہے۔ حضرت عمر ؓ تلوار لے کر لہرانے لگ گئے کہ جو کہے گا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے ہیں مَیں اس کا سر قلم کر دوں گا۔ایسے میں سیدنا حضرت ابوبکرؓ تشریف لائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک سے کپڑا اٹھایا اور کہا
اِنَّالِلہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔
اور مبارک پیشانی پر بوسہ دینے کے بعد بے اختیار منہ سے یہ الفاظ نکلے: ہائے دوست رخصت ہو گیا۔پھر سرجھکایا اور دوبارہ پیشانی کو بوسہ دے کر چہرہ مبارک ڈھانک دیا اور کہا آپ کی زندگی کیا اچھی تھی اور موت بھی کیا اچھی ہے۔ آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے اور کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان۔ اللہ کی قسم اللہ آپ پر دو موتیں جمع نہیں کرے گا۔ (وہ موت جو مقدّر تھی ہوگئی لیکن آپ کے مشن پر موت کبھی وارد نہیں ہوگی)۔ اس کے بعد باہر تشریف لائے جہاں حضرت عمرؓ تلوار لہرارہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ جو رسولؐ اللہ کی وفات کا اعلان کرے گا اس کا سرتن سے جدا کردوں گا۔ آپ نے بڑی جرأت و بہادری سے حضرت عمرؓ کو مخاطب ہو کر فرمایا۔ عَلٰی رِسْلِک عمر ٹھہر جاؤ۔ پھر صحابہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا وہ سن لے کہ محمدؐ فوت ہو چکے اور جو اللہ کی عبادت کرتا تھا وہ جان لے کہ خدا زندہ ہے وہ کبھی نہیں مرے گا۔…
جس توحید کے قیام کی خاطر رسولؐ اللہ تشریف لائے تھے اور اس راہ میں بیشمار دکھ و مصائب برداشت کئے تھے۔ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سیدنا حضرت ابوبکرؓ نے توحید کا ہی درس دیا۔
= صحابہ کرامؓ نے توحید باری تعالیٰ کی خاطر المناک مشکلات کو برداشت کیا۔ اس راہ میں جانیں قربان کیں۔ تپتی ہوئی گرم ریت اور پتھروں پر گھسیٹا گیا۔ الٹا لٹکا کر نیچے آگ جلا دی گئی۔ لوہے کی زرہیں پہنا کر چلچلاتی دھوپ میں کھڑا کر دیا گیا۔ بھوک اور پیاس کی اذیتیں دی گئیں۔ شیرخوار بچوں کو دودھ سے محروم کیا گیا۔ سوشل بائیکاٹ کیا گیا۔ اموال اور جائیدادیں چھین لی گئیں۔ ماں باپ نے مسلمان بچوں سے جدائی اختیار کرلی۔ وطن سے بے وطن کر دیا گیا۔ مقدس حاملہ عورتوں کے حمل گرا دیئے گئے۔ عبادتگاہیں گرادی گئیں۔ غرضیکہ روزانہ نئے ظلم و ستم ایجاد کئے گئے ہر رات نے ظلم تراشے۔ صبح و شام کو مصائب و آلام کی چکیوں میں تبدیل کر دیا گیا۔ زندگی ہر گھڑی موت کا الارم سناتی تھی۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم نے یہ سب دکھ مصائب اور تکالیف رب ذوالجلال کی خاطر خندہ پیشانی سے قبول کئے اور توحید کے علم کو بلند سے بلند تر کرتے چلے گئے۔ خدائے بزرگ و برتر نے ان شاندار قربانیوں کو بہت ہی پیار اور محبت کی نظر سے دیکھا اور شرف قبولیت عطا فرماتے ہوئے ان بزرگ ہستیوں کو زندہ جاوید کردیا۔ جن پر قومیں ابدالآباد تک فخر کرتی رہیں گی۔
= ایک دن سرداران قریش نے مسجد حرام کے پاس حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال و جواب کرنا شروع کر دیئے پھر پکڑ کر زدوکوب کرنے لگ گئے۔ حضرت ابوبکرؓ نے شوروغل سنا اور دوڑے ہوئے آئے اور کہا: تمہارا برا ہو۔ اس عظیم انسان سے اس لئے لڑتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا ربّ اللہ ہے اور یہ تمہارے پاس روشن دلائل لے کر آیا ہے۔ چنانچہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ دیا اور حضرت ابوبکرؓ کو مارنے لگ گئے۔ آپ کی بیٹی حضرت اسماء کہتی ہیں کہ ابا گھر آئے۔ آپ جب بالوں کی مینڈھی کو ہاتھ لگاتے تو وہ آپ کے ہاتھ میں آجاتی اس پر بھی کوئی شکوہ نہ تھا۔ بلکہ فرماتے رہے:
تَبَارَکْتَ یَا ذَالْجَلَالِ وَالْاِکْرَام۔
= آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں بتوں کے پجاریوں کی ایسی کایا پلٹی کہ عبادت الٰہی ان کی محبوب غذا بن گئی۔ بعض صحابہ اس بات کی خاص پابندی کیا کرتے تھے کہ ہر نماز سے قبل نیا وضو کیا جائے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے بارہ میں کتب احادیث میں یہی لکھا ہے۔
= صحابہ کرامؓ سخت سے سخت مصروفیت کی حالت میں بھی جب نماز کا وقت آتا تو تمام کاروبار چھوڑ کر سیدھے مسجد کی طرف ادائیگی نماز کے لئے چلے جاتے۔ حضرت سفیان ثوریؓ سے روایت ہے کہ صحابہ خریدوفروخت کیا کرتے تھے۔ لیکن فرض نمازوں کو ہر صورت میں جماعت کے ساتھ ادا کرتے۔
= حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ ایک بار میں بازار میں تھا کہ نماز کا وقت آگیا۔ تمام صحابہ دکانیں بند کرکے مسجد چلے گئے۔ قرآن کریم کی یہ آیت
رِجَالٌ لَّا تُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِاللّٰہ … (النور: 41)
انہی کے بارہ میں نازل ہوئی۔ یعنی یہ ایسے لوگ ہیں جن کو تجارت، خریدوفروخت خدا کی یاد سے غافل نہیں کرتی۔
= احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ صحابہ کو نماز باجماعت ادا کرنے کا اس حد تک شوق تھا کہ بیماری اور تکلیف کے باوجود مسجد میں نماز ادا کرنے کی کوشش کرتے۔ بعض صحابہ دوسروں کا سہارا لے کر مسجد آتے اور نماز باجماعت ادا فرماتے۔
= حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رات عشاء کی نماز باجماعت پڑھانے کے لئے دیر تک تشریف نہ لاسکے۔ عورتیں اور بچے انتظار میں سوگئے تو حضرت عمرؓ نے حضور کو پکارا۔ حضور تشریف لائے اور فرمایا۔ ساری دنیا میں تمہارے سوا اور کہیں لوگ اس نماز کی انتظار میں نہیں۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ یہ ان دنوں کی بات ہے جب مدینہ کے سوا اورکہیں نماز نہیں ہوتی تھی۔
= ایک دوسری روایت میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کام کی وجہ سے عشاء کی نماز بہت دیر سے پڑھائی اور صحابہ انتظار میں بیٹھے رہے۔ بعض کو نیند بھی آگئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا تم لوگ نماز کی انتظار میں تھے گویا نماز ہی پڑھتے رہے۔ یعنی نماز پڑھنے کا ثواب ملتا رہا۔
= محبوب سے محبوب چیز بھی اگر صحابہ کی نماز میں خلل انداز ہوتی تو وہ ان کی نگاہ میں مبغوض ہوجاتی۔ ایک دن حضرت ابوطلحہ انصاریؓ اپنے باغ میں نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک چڑیا اڑتی ہوئی آئی چونکہ باغ بہت گھنا تھا اور کھجوروں کی شاخیں باہم ملی ہوئی تھیں۔ چڑیا ان میں پھنس گئی اور نکلنے کی راہ ڈھونڈنے لگی۔ ان کو باغ کی شادابی اور اس کی اچھل کود کا یہ منظر بہت پسند آیا اور اس کو تھوڑی دیر دیکھتے رہے۔ پھر نماز کی طرف توجہ کی تو یہ یاد نہ آیا کہ کتنی رکعتیں پڑھی ہیں۔ دل میں کہا کہ اس باغ نے یہ فتنہ کیا ہے۔ فوراً حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا واقعہ بیان کرنے کے بعد کہا کہ اس باغ کو صدقہ میں دیتا ہوں۔
اسی طرح ایک اور صحابی کے متعلق روایت ہے کہ وہ اپنے باغ میں نماز پڑھ رہے تھے۔ فصل کا زمانہ تھا دیکھا تو کھجوریں پھل سے لدی ہوئی تھیں۔ ان کو دیکھ کر نماز سے توجہ ہٹ گئی اور بھول گئے کہ کس قدر رکعتیں پڑھی ہیں۔ نماز سے فارغ ہو کر سیدنا حضرت عثمانؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ اس باغ کی وجہ سے میں فتنہ میں مبتلا ہوا ہوں۔ اس لئے اس باغ کو صدقہ کرتا ہوں۔ چنانچہ انہوں نے 50 ہزار پر اسے فروخت کردیا۔
= سخت سے سخت تکلیف میں بھی صحابہ کرامؓ کی نماز قضا نہیں ہوتی تھی۔ جس دن حضرت عمرؓ کو زخم لگا اسی رات کی صبح لوگوں نے نماز فجر کے لئے جگایا تو بولے ہاں جو شخص نماز چھوڑ دے اسلام میں اس کا کوئی حصہ نہیں۔ چنانچہ اسی حالت میں کہ زخم سے مسلسل خون جاری تھا نماز پڑھی۔
بزرگ صحابی حضرت خبیبؓ کو جب شہید کیا جانے لگا تو انہوں نے اپنے قاتلوں سے اجازت مانگی کہ مجھے دو رکعت نماز پڑھ لینے دو۔ بخاری میں روایت ہے کہ یہ پہلے شخص تھے جنہوں نے قتل کے وقت دو رکعت ادا کرنے کا طریق جاری کیا۔ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا اگر مجھے یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ تم کہو گے کہ گھبرا کر ایسا کررہا ہے تو میں اور زیادہ خدا سے محو راز و نیاز ہوتا۔ پھر یہ اشعار پڑھتے ہوئے اپنے مولا کے حضور حاضر ہوگئے۔ (ترجمہ) جب میں مسلمان ہونے کی حالت میں قتل کیا جاؤں تو میں پرواہ نہیں کرتا کہ کس پہلو گرتا ہوں۔ اگر خداوند تعالیٰ کو منظور ہوا تو میرے جسم کے ٹکڑوں میں بھی برکت دے دے گا۔
= اگر کسی رکاوٹ کی وجہ سے نماز قضا ہو جاتی تو صحابہ کرام کو اس کا بہت دکھ اور تکلیف ہوتی۔ غزوہ خندق میں کفار سے برسرپیکار ہونے کے باعث حضرت عمرؓ کی عصر کی نماز قضا ہوگئی تو آپ کو انتہائی رنج میں کفار کو برا بھلا کہتے ہوئے آئے اور رسول اللہ کے سامنے اپنے دکھ کا اظہار کیا۔
= خدائے واحد و یگانہ کی عبادت کرنے کے جرم میں کفار مکہ کی اذیتوں سے مجبور ہو کر سیدنا حضرت ابوبکرؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہجرت کی اجازت لے کر رخت سفر باندھا تو راستہ میں ابن الدغنہ رئیس قارہ سے ملاقات ہوئی۔ اس سے پوچھا ابوبکر کہاں کا قصد ہے؟ آپ نے فرمایا کہ قوم نے مجھے جلاوطن کردیا ہے۔ اب ارادہ ہے کہ کسی اَور ملک کو چلاجاؤں اور آزادی سے خدا کی عبادت کروں۔ ابن الدغنہ نے کہا کہ تم سا آدمی جلاوطن نہیں کیا جاسکتا۔ تم مفلس و بے نوا کی دستگیری کرتے ہو، قرابت داروں کا خیال رکھتے ہو، مہمان نوازی کرتے ہو، مصیبت زدوں کی اعانت کرتے ہو۔ میرے ساتھ واپس چلو اور اپنے وطن ہی میں اپنے خدا کی عبادت کرو۔ چنانچہ آپ ابن الدغنہ کے ساتھ پھر مکہ واپس آئے۔ ابن الدغنہ نے قریش میں پھر کر اعلان کر دیا کہ آج سے ابوبکرؓ میری امان میں ہیں۔ ایسے شخص کو جلاوطن نہ کرنا چاہئے جو محتاجوں کی خبرگیری کرتا ہے۔ قرابت داروں کا خیال رکھتا ہے۔ مہمان نوازی کرتا ہے اور مصائب میں لوگوں کے کام آتا ہے۔ قریش نے ابن الدغنہ کی امان کو تسلیم کیا لیکن فرمائش کی ابوبکر کو سمجھا دو کہ وہ جب اور جس طرح جی چاہے اپنے گھر میں نمازیں پڑھیں اور قرآن کی تلاوت کریں لیکن گھر سے باہر نمازیں پڑھنے کی ان کو اجازت نہیں۔ مگر حضرت ابوبکرؓ صدیق نے عبادت الٰہی کے لئے اپنے صحن خانہ میں ایک مسجد بنالی تھی۔ کفار کو اس پر بھی اعتراض ہوا۔ انہوں نے ابن الدغنہ کو خبر دی کہ ہم نے تمہاری ذمہ داری پر ابوبکرؓ کو اس شرط پر امان دی تھی کہ وہ اپنے مکان میں چھپ کر اپنے مذہبی فرائض ادا کریں۔ لیکن اب وہ صحن خانہ میں مسجد بنا کر اعلان کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں، اس سے ہم کو خوف ہے کہ ہماری عورتیں اور بچے متاثر ہو کر اپنے آبائی مذہب سے بدعقیدہ نہ ہو جائیں۔ اس لئے تم انہیں مطلع کردو کہ اس سے باز آجائیں ورنہ تم کو ذمہ داری سے بَری سمجھیں۔ ابن الدغنہ نے ابوبکر صدیقؓ سے جا کر کہا: تم جانتے ہو کہ میں نے کس شرط پر تمہاری حفاظت کا ذمہ لیا ہے اس لئے یا تو تم اس پر قائم رہو یا مجھے ذمہ داری سے بری سمجھو، میں نہیں چاہتا کہ عرب میں مشہور ہو کہ میں نے کسی کے ساتھ بدعہدی کی لیکن حضرت ابوبکرؓ نے نہایت استغنا کے ساتھ جواب دیا کہ مجھے تمہاری پناہ کی حاجت نہیں میرے لئے خدا اور اس کے رسول کی پناہ کافی ہے۔
= آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سلمان فارسیؓ اور ابوالدردائؓ کو بھائی بھائی بنا دیا تھا۔ سلمان ابو الدرداء سے ملنے گئے دیکھا تو ام درداء (ان کی بیوی) میلی کچیلی ہیں انہوں نے حال پوچھا تو کہا تمہارا بھائی ابو الدرداء تارک الدنیا ہوگیا ہے اتنے میں ابو الدرداء بھی آئے اور سلمان کے لئے کھانا تیار کیا اور کہنے لگے تم کھاؤ میں روزے سے ہوں سلمان نے کہا جب تک تم نہ کھاؤ گے میں نہیں کھاؤں گا۔ خیر ابوالدرداء نے کھالیا جب رات ہوئی تو ابوالدرداء عبادت کے لئے اٹھے سلمان نے کہا سو جاؤ وہ سوگئے پھر اٹھنے لگے تو کہا سو جاؤ جب رات آخر ہوئی تو سلمان نے کہا اب اٹھو پھر دونوں نے نماز پڑھی تو حضرت سلمان نے ان کو سمجھایا بھائی دیکھو اللہ کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری جان کا بھی اور تمہاری بیوی کا بھی اور ہر ایک کا حق ادا کرو۔ یہ سن کر ابوالدرداء آنحضورؐ کے پاس آئے اور آپ سے یہ سب واقعہ بیان کیا۔ آپؐ نے فرمایا: سلمان نے سچ کہا۔
= حضرت امام حسنؓ کا بیان ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمرؓ نماز پڑھ رہے تھے۔ جب اس آیت پر پہنچے (تیرے رب کا عذاب یقینا واقع ہونے والا ہے اور اس کو کوئی دُور کرنے والا نہیں) تو بہت متاثر ہوئے۔ رقت طاری ہوگئی اور روتے روتے آنکھیں سوج گئیں۔ اسی طرح ایک دفعہ تلاوت کرتے ہوئے آپ پر اس قدر خشوع طاری ہوا کہ اگر ان کے حال سے ناواقف شخص انہیں دیکھ لیتا تو یہ سمجھتا کہ آپ کی روح ابھی اسی حالت میں پرواز کر جائے گی۔
= حضرت عمرؓ نماز میں عموماً ایسی سورتیں پڑھتے جن میں قیامت کا ذکر یا اللہ تعالیٰ کی عظمت کا بیان ہوتا اور خشوع و خضوع اور رقّت کی وجہ سے آنسو رواں ہو جاتے۔ حضرت عبداللہ بن شداد کا بیان ہے کہ باوجودیکہ میں پچھلی صف میں رہتا تھا لیکن حضرت عمرؓ جب یہ آیت
انما اشکوا بثی و حزنی
پڑھتے تو آپ کے رونے کی آواز مجھے سنائی دیتی۔
= غزوہ ذات الرقاع کے موقع پر دو صحابی ایک پڑاؤ پر پہرہ دینے کے لئے مقرر تھے۔ ایک صحابی اپنی ڈیوٹی دے کر سوگئے جبکہ دوسرے نماز پڑھ رہے تھے۔ ایک مشرک نے نماز پڑھنے والے صحابی کو تیر مارا جو ان کے بدن میں پیوست ہو گیا۔ اس صحابی نے تیر نکالا اور نماز میں قائم رہے۔ اس مشرک نے دوبارہ تیر مارا جو انہیں لگا۔ اس کو بھی انہوں نے نکالا لیکن نماز میں مشغول رہے۔ مشرک نے تیسرا تیر پیوست کردیا۔ انہوں نے نکال کر رکھ لیا اور رکوع اور سجدہ میں چلے گئے اور اتنے میں سوئے ہوئے صحابی کو جگا دیا اور وہ مشرک بھاگ کھڑا ہوا۔ زخمی صحابی سے جب ان کے ساتھی نے دریافت کیا کہ مجھے پہلے کیوں نہ جگایا تو وہ کہنے لگے کہ میں ایک ایسی سورۃ پڑھ رہا تھا کہ اسے ختم کئے بغیر مجھے پسند نہ آیا کہ نماز ختم کردوں۔ جب مشرک نے مجھ پر تیر اندازی کی تو میں نے رکوع کیا اور تمہیں جگا دیا۔ لیکن خدا کی قسم اگر اس پہرہ داری کے فریضہ کے ضائع ہونے کا خطرہ نہ ہوتا تو خواہ میری جان چلی جاتی میں اس سورۃ کو پورا کئے بغیر نماز ختم نہ کرتا۔
صحابہ کرام انتہائی ذوق و شوق اور مستعدی سے رضائے باری تعالیٰ حاصل کرنے کے لئے فرض نمازیں ادا کرتے تھے اسی طرح نوافل، نماز تہجد، اشراق اور صلوٰۃ کسوف وغیرہ پڑھا کرتے تھے۔ قرآن مجید میں صحابہ کرام کی فضیلت اور عبادت کے شوق و لگن کو ان الفاظ میں بیان فرمایا گیا ہے۔
تَتَجَافٰی جُنُوْبُھُمْ عَنِ الْمَضَاجِعَ… الخ (السجدۃ:17)
آیات نازل ہوئیں تو صحابہ کرام راتوں کو دیر تک نماز پڑھا کرتے یہاں تک کہ پاؤں پھول جاتے تھے۔
= حضرت عبداللہ بن عمرؓ اور حضرت انس بن مالکؓ سفر میں ہوتے تھے تو سواری کے اوپر ہی بیٹھے بیٹھے نفل کی نمازیں پڑھ لیا کرتے تھے اور اس کو رسول اللہ کی سنت سمجھتے تھے۔
= آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوہریرہؓ اور حضرت ابوالدرداء کو نماز اشراق کی وصیت فرمائی تو یہ دونوں بزرگ باقاعدگی کے ساتھ نماز اشراق ادا کیا کرتے تھے۔
= چاند اور سورج کو جب گہن لگتا تو تمام صحابہ صلوٰۃالکسوف ادا کیا کرتے تھے۔ ایک بار جب گہن لگا تو حضرت عبداللہ ابن عباس نے صفہ زمزم میں لوگوں کو جمع کیا اور باجماعت نماز ادا کی۔
= حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام مغرب اور عشاء کے درمیان بھی نوافل ادا کیا کرتے تھے۔ اصحاب الصفہ دن کو جنگل سے ایندھن لاتے اور (فرض نماز کے علاوہ) رات کو نوافل ادا کرتے۔ چنانچہ خداتعالیٰ فرماتا ہے:
کَانُوْا قَلِیْلًا مِّنَ الَّیْلِ مَایَھْجَعُوْنَ (الذّٰریٰت:18)۔
یہ لوگ عبادت میں مشغول رہنے کے سبب راتوں کو بہت کم سوتے ہیں۔
= صحابہ کرام نہ صرف خود نفل نمازیں ذوق و شوق سے ادا فرماتے بلکہ غیروں بالخصوص اپنے اہل و عیال کو بھی بیدار کرکے نماز میں شریک کیا کرتے تھے۔
ایک روز حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو گھر سے نکلے تو دیکھا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پست آواز کے ساتھ قراءت کررہے ہیں۔ آگے بڑھے تو حضرت عمرؓ کو نہایت بلند آواز سے نماز میں قراءت کرتے دیکھا۔ جب یہ دونوں بزرگ صحابہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ابوبکر! نماز میں تمہاری آواز دھیمی تھی۔ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں جس سے (خدا سے) سرگوشی کررہا تھا۔ اس کے کان میں میری آواز پہنچ گئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرؓ سے دریافت کیا کہ تمہاری آواز نماز میں بہت بلند تھی تو حضرت عمرؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مَیں سونے والوں کو جگاتا اور شیطان کو دھتکارتا ہوں۔
= حضرت عمرؓ نہایت خشوع و خضوع سے نماز تہجد ادا کرتے۔ صبح ہونے کے قریب ہوتی تو گھر والوں کو جگاتے اور یہ آیت پڑھتے:
وَاْمُرْاَھْلَکَ بِالصَّلٰوۃِ (طٰہ:133)
(اپنے گھر والوں کو بھی نماز کا حکم دے)۔
= ابوعثمان نہدی کہتے ہیں کہ ایک دفعہ مجھے سات دن حضرت ابوہریرہؓ کی مہمانی کا فخر حاصل ہوا۔ گھر میں تین افراد تھے۔ ابوہریرہؓ ان کی بیوی اور ایک خادم۔ رات کو انہوں نے تین حصوں میں تقسیم کررکھا تھا۔ ایک حصہ میں ایک فرد عبادت کرتا تھا۔ جب وہ سونے لگتا تودوسرے کو اٹھا دیتا اور جب دوسرا سونا چاہتا تو تیسرے کو اٹھا دیتا۔
= آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز تہجد میں لمبی لمبی سورتیں مثلاً سورۃ بقرہ، آل عمران، مائدہ اور انعام وغیرہ پڑھا کرتے تھے اور جس قدر لمبا قیام ہوتا تھا اسی طرح رکوع اور سجود بھی طویل ہوتے تھے۔ اس لئے اس قدر طویل اور پُرسکون نماز میں وہی شخص شریک ہوسکتا تھا جس کا دل شوق عبادت سے لبریز ہوتا۔ بعض صحابہ آنحضرتؐ کے ساتھ اس نفلی طویل عبادت میں بھی شریک ہو جاتے۔ حضرت عوف بن مالکؓ بیان کرتے ہیںکہ ایک مرتبہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز تہجد میں شریک ہوا۔ آپؐ نے بہت طویل سورتیں پڑھیں اور میں عبادت میں شریک رہا۔ ایک بار حضرت حذیفہؓ کو بھی یہ شرف نصیب ہوا۔ نیز حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کو بھی۔
اسی طرح حضرت عائشہؓ کو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز تہجد ادا کرنے کی توفیق و سعادت ملتی رہی۔
یہ شوق صرف چند صحابہ کرامؓ تک محدود نہ تھا بلکہ عموماً سب صحابہ میں پایا جاتا تھا۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ایک رات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں نماز تہجد پڑھی لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ پڑھی۔ پھر دوسری رات بھی آنحضرتؐ نے پڑھی تو بہت سے صحابہ شریک ہوگئے پھر تیسری اور چوتھی رات بھی صحابہ جمع ہوگئے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف نہ لائے۔ جب صبح ہوئی تو آپؐ نے فرمایا۔ میں نے تمہارا کام دیکھا (یعنی نوافل ادا کرتے ہوئے) مگر میں اس بات کے ڈر سے نہ نکلا کہ تم پر یہ عبادت فرض نہ ہوجائے۔
= بعض صحابہ کو اس حد تک عبادت کا شوق و ذوق تھا کہ ساری رات عبادت میں اور دن کو روزہ میں گزارتے لیکن ایسا کرنے سے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں منع فرمایا۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ارشاد فرمایا کہ مجھے اطلاع ملی ہے کہ تم رات کو عبادت کرتے اور دن کو روزہ رکھتے ہو۔ مَیں نے عرض کیا: یارسول اللہ یہ درست ہے، مَیں ایسا ہی کرتا ہوں۔ اس پر حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تُو ایسا کرے گا تو تیری آنکھیں خراب ہو جائیں گی۔ تیری جان کمزور ہو جائے گی تجھے معلوم ہونا چاہئے کہ تیرے نفس کا بھی تجھ پر حق ہے۔ تیری اہلیہ کا بھی تجھ پر حق ہے بے شک روزہ بھی رکھو۔ افطار بھی کرو۔ عبادت بھی کرو اور سوبھی۔
= حضرت عتبان بن مالک انصاریؓ جنہیں غزوہ بدر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہونے کی سعادت نصیب ہوئی تھی وہ بیان کرتے ہیں کہ میں اپنی قوم بنی سالم کی امامت کیا کرتا تھا میرے گھر اور ان کے درمیان ایک نالہ تھا۔ بارش ہو جاتی تو میرے لئے یہ نالہ پار کرنا مشکل ہو جاتا اور میری بینائی میں فتور آگیا تھا۔ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی اس مشکل کا ذکر کرکے عرض کی کہ یا رسول اللہ میرے گھر تشریف لاکر ایک جگہ نماز پڑھ کر برکت بخشیں تاکہ میں وہ جگہ نماز کی مقرر کرلوں۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک روز حضرت ابوبکرؓ سمیت میرے گھر تشریف لائے۔ اس وقت دن چڑھ چکا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جگہ نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہوئے۔ اللہ اکبر کہا تو ہم لوگوں نے بھی آپ کے پیچھے صف باندھ کر دو رکعتیں پڑھیں۔
= حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ان کی نانی ملیکہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانے کی دعوت دی۔ حضور تشریف لائے اور کھانا تناول فرمایا اور پھر ارشاد فرمایا کہ کھڑے ہو جاؤ مَیں تمہیں نماز پڑھاؤں۔ حضرت انس فرماتے ہیں کہ میں ایک بوریئے کی طرف گیا جو سیاہ ہوچکا تھا۔ میں نے اس پر پانی چھڑکا۔ اسی بوریئے پر آنحضرتؐ کھڑے ہوئے اور میں اور ایک اور بچے نے آپ کے پیچھے صف باندھی اور بڑھیا (نانی) نے ہمارے پیچھے۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دو رکعات نماز پڑھائی۔
= حضرت عبداللہ بن عباسؓ اپنے بچپن کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے ایک رات اپنی خالہ حضرت امّ المومنین میمونہؓ کے پاس گزاری۔ جب آدھی رات گزر گئی یا اس سے کچھ پہلے یا اس سے کچھ بعد۔ تو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے۔ سورہ آل عمران کی آخر کی دس آیتیں پڑھیں پھر وضو کیا اور نماز تہجد کے لئے کھڑے ہوگئے۔ حضرت عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں کہ میں نے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز تہجد ادا کی۔ حضورؐ نے دو دو رکعتیں کرکے نماز تہجد پڑھی اور آخر میں وتر پڑھے۔ پھر لیٹ گئے یہاں تک کہ فجر کی نماز کا وقت ہوگیا۔
= حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ سخت گرمی کی حالت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نمازیں ادا کیا کرتے تھے۔ گرمی کی شدت اس قدر ہوتی کہ زمین پر پیشانی لگانا مشکل ہوجاتا تو بعض صحابہ کپڑا بچھا کر اس پر سجدہ کرتے۔
= بخاری شریف میں بیان ہے کہ صحابہ اذان دینے کے لئے مسابقت کرتے۔ ایک بار حضرت سعد بن ابی وقاص نے ان میں قرعہ بھی ڈالا۔
= بعض صحابہ کا یہ طریق تھا کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں نماز باجماعت ادا کرنے کے بعد پھر اپنی قوم کے پاس واپس جاتے اور انہیں نماز پڑھاتے۔ چنانچہ حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ حضرت معاذ بن جبل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز (فرض) پڑھا کرتے تھے پھر جا کر اپنی قوم میں امامت کرتے اور وہی نماز ان کو پڑھاتے۔
صحابیات کا ذوق عبادت
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں عورتیں بھی اپنے ربّ کی عبادت بجالانے کے شوق میں مساجد میں جایا کرتی تھیں۔ کیونکہ آنحضورؐ کا ارشاد مبارک تھا کہ عورتوں کو رات کے وقت مسجدوں میں جانے سے نہ روکو۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صبح کی نماز میں کئی مسلمان عورتیں بھی چادروں میں لپٹی ہوئی نماز ادا کرتیں۔ پھر (نماز کے بعد) اپنے گھروں کو لوٹ جاتیں (اندھیرے کی وجہ سے) کوئی انہیں نہ پہچانتا۔
= ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر میں دو ستونوں کے درمیان ایک رسی بندھی ہوئی دیکھی۔ آپؐ نے دریافت فرمایا کہ یہ کیسی رسی ہے؟ بتایا گیا کہ یہ رسی امّ المومنین زینب نے باندھی ہے۔ جب وہ کھڑی کھڑی عبادت کرتے تھک جاتی ہیں تو اس سے سہارا لیتی ہیں۔ آپؐ نے فرمایا اس رسی کو کھول دو۔ تم میں سے ہر شخص کو اس وقت تک عبادت کرنی چاہئے جب تک نماز میں دل لگا رہے۔
= حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ ایک دن بنی اسد قبیلہ کی ایک عورت میرے پاس بیٹھی تھی اتنے میں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو دریافت فرمایا یہ کون عورت ہے؟ حضرت عائشہؓ نے جواب دیا کہ یہ فلاں عورت ہے جو رات بھر عبادت کرتی ہے اور سوتی نہیں۔ پھر اس کے نماز پڑھنے کی کیفیت بیان کی۔ اس پر آنحضرتؐ نے ارشاد فرمایا کہ بس اتنا عمل کرو جتنے کی طاقت ہو۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ تو ثواب دینے سے تھکتا نہیں۔ تم ہی (عمل کرتے کرتے) تھک جاؤ گے۔
= حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں: ’’ جس قدر انسان خدا کے خوف میں ترقی کرے گا اسی قدر محبت زیادہ ہوتی جاوے گی اور جس قدر محبت الٰہی میں ترقی کرے گا اسی قدر خدا کا خوف غالب ہو کر بدیوں اور برائیوں سے نفرت دلا کر پاکیزگی کی طرف لے جائے گا‘‘۔
جس دل میں محبت الٰہی ہوتی ہے وہ ربّ ذوالجلال کے خوف سے لرزاں و ترساں رہتا ہے۔ صحابہ کرام کے دل جو محبت الٰہی سے لبریز تھے وہ خدا کی ہیبت و جلال سے لرزاں بھی رہتے تھے۔ حضرت عثمانؓ خوف خداوندی سے اکثر آبدیدہ رہتے۔ موت، قبر اور عاقبت کا خیال ہمیشہ دامنگیر رہتا۔ کوئی جنازہ گزرتا تو کھڑے ہو جاتے اور بے اختیار آنکھوں سے آنسو نکل آتے۔ مقبروں سے گزرتے تو رقّت طاری ہو جاتی اور داڑھی تر ہوجاتی۔ لوگ کہتے کہ جنت و دوزخ کے تذکروں سے تو آپ پر اس قدر رقّت طاری نہیں ہوتی۔ آخر مقبروں میں کیا خاص بات ہے کہ انہیں دیکھ کر آپؓ بیقرار ہو جاتے ہیں۔ فرماتے آنحضرؐت کا ارشاد ہے کہ قبر آخرت کی سب سے پہلی منزل ہے۔ اگر یہ معاملہ آسانی سے طے ہوگیا تو پھر تمام منزلیں آسان ہیں۔ اگر اس میں دشواری پیش آئی تو تمام مرحلے دشوار ہوں گے۔
= حضرت عمرؓ خشیت الٰہی سے لرزاں و ترساں رہتے۔ قیامت کے مواخذہ سے بہت ڈرتے تھے اور ہر وقت اس کا خیال رہتا۔ صحیح بخاری میں ہے کہ ایک دفعہ ایک صحابی سے آپؓ نے فرمایا ’’تم کو یہ پسند ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اسلام لائے، ہجرت کی، جہادکیا اور نیک اعمال کئے۔ اس کے بدلہ میں دوزخ سے بچ جائیں اور عذاب و ثواب برابر ہو جائے۔ وہ صحابی کہنے لگے۔ خدا کی قسم ہم نے روزے بھی رکھے، نمازیں پڑھیں بہت سے نیک کام کئے اور ہمارے ہاتھ پر بہت سے لوگ اسلام لائے۔ ہمیں ان اعمال سے اپنے ربّ سے بہت توقعات ہیں۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا اس ذات کی قسم، جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ مجھے تو یہی غنیمت معلوم ہوتا ہے کہ عذاب سے بچ جائیں اور نیکی اور بدی برابر ہو جائیں۔
= حضرت ابوبکرؓ کے متعلق یہ روایت بھی آتی ہے کہ آپ فرمایا کرتے تھے اگر آسمان سے ندا آئے کہ ایک آدمی کے سوا تمام دنیا کے لوگ جنتی ہیں تب بھی مواخذہ کا خوف میرے دل پر ہوگا کہ شاید وہ بدقسمت انسان میں ہی ہوں۔
حضرت ابوبکرصدیقؓ کے متعلق احادیث میں لکھا ہے کہ جب آپ کوئی سرسبز درخت دیکھتے تو فرماتے۔ کاش میں درخت ہی ہوتا کہ عاقبت کے جھگڑوں سے چھوٹ جاتا۔ کسی باغ سے گزرتے تو چڑیوں کو چہچہاتے دیکھتے تو آہ سرد کھینچ کر فرماتے پرندو تمہیں مبارک ہو کہ دنیا میں چگتے پھرتے ہو درخت کے سایہ میں بیٹھتے ہو اور قیامت کے روز تمہارا کوئی حساب نہ ہوگا۔ کاش ابوبکر بھی تمہاری طرح ہوتا۔
ذکر الٰہی و تسبیحات
= صحابہ کی روح کی غذا ذکر الٰہی تھی۔ بڑی کثرت سے نمازوں کے علاوہ بھی ذکر الٰہی اور تسبیحات کیا کرتے۔ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ سے فرمایا کہ تم دونوں ہر نماز کے بعد دس بار تسبیح دس بار تحمید اور دس بار تکبیر پڑھ لیا کرو اور جب سونے لگو تو 33 بار تسبیح، 33 بار تحمید اور 34 بار اللہ اکبر پڑھ لیا کرو۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس کی تلقین فرمائی۔ میں نے اس کو چھوڑا نہیں۔
= حضرت عکرمہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہؓ ہرروز بارہ ہزار دفعہ تسبیحات کرتے اور فرماتے: میں اپنے گناہوں کے مطابق تسبیحات کرتا ہوں۔
= حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک شخص نے آکر یہ کہہ کر نماز شروع کی۔
اَللّٰہُ اَکْبَر کَبِیْرًا وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ کَثِیْرًا وَّ سُبْحَانَ اللّٰہِ بُکْرَۃً وَّاَصِیْلًا
یعنی اللہ سب سے بڑا ہے اور سب تعریفیں اسی کے لئے ہیں اور اس کی ذات پاک ہے صبح بھی اور شام بھی۔ نماز کے بعد حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ کلمے خدا کو ایسے پیارے لگے کہ آسمان کے دروازے ان کے لئے وا کردیئے گئے۔ ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں ہمیشہ یہ مبارک کلمات دہراتا ہوں۔
= ایک دن حضرت معاویہ مسجد میں آئے تو دیکھا کہ مسجد میں لوگ حلقہ بنائے بیٹھے تھے۔ آپ نے پوچھا کیوں بیٹھے ہو۔ جواب دیا گیا کہ ذکر الٰہی کررہے ہیں۔ آپ نے فرمایا صرف اسی لئے بیٹھے ہو۔ جواب ملا ہاں صرف اسی لئے۔ اس پر حضرت معاویہ نے کہا۔ ایک بار اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کا حلقہ ذکر دیکھا تو اسی طرح سوال کیا اور جواب ملنے پر فرمایا کہ میرے پاس جبریل آئے اور خبردی کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لئے فرشتوں پر فخر کرتا ہے۔