حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کی سیرت
حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’میں یہاں قادیان میں صرف ایک دن کے لئے آیا اور ایک بڑی عمارت بنتی چھوڑ آیا۔ حضرت صاحبؑ نے مجھ سے فرمایا۔ اب تو آپ فارغ ہیں۔ میں نے عرض کیا ارشاد۔ فرمایا آپ رہیں۔ میں سمجھا دو چار روز کے لئے فرماتے ہیں۔ ایک ہفتہ خاموش رہا۔ پھر فرمایا آپ تنہا ہیں ایک بیوی منگوا لیں۔ تب میں سمجھا زیادہ دنوں رہنا پڑے گا۔ تعمیر کا کام بند کرادیا۔ چند روز بعد فرمایا کتابوں کا آپ کو شوق ہے یہیں منگوالیجئے۔ تعمیل کی گئی۔ فرمایا: اچھا دوسری بیوی بھی یہیں منگوالیں۔ پھر مولوی عبد الکریم صاحب سے ایک دن ذکر کیا کہ مجھے الہام ہوا ہے لَا تَصبون الی الوطن فیہ تھان وتمتحن (وطن کی طرف واپس جانے کا کبھی خیال بھی نہ کر کیونکہ اس میں تیری اہانت ہو گی اور تجھے تکلیفیں اٹھانی پڑیں گی)۔ یہ الہام نورالدین کے متعلق معلوم ہوتا ہے۔ مجھ سے فرمایا: وطن کا خیال چھوڑ دو۔ چنانچہ میں نے چھوڑ دیا اور کبھی خواب میں بھی وطن نہیں دیکھا‘‘۔
ایک موقعہ پر فرمایا: ’’ہمارے حضرت صاحب فرمایا کرتے تھے کسی کو خوشی ہے کہ میرے پاس مال ہے کسی کو خوشی ہے کہ میری اولاد بہت ہے اور کسی کو خوشی ہے کہ میرا جتھا بہت ہے۔ پر میں خوش ہوں کہ میرا خدا جو ہے وہ قادر مطلق ہے‘‘۔
ماہنامہ ’’خالد‘‘ مئی 1996ء و اگست 1996ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی منتخب تحریرات مکرم محمود مجیب اصغر صاحب پیش کرتے ہیں۔
حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کا قادیان اور حضرت اقدس مسیح موعودؑ سے بے پناہ عشق کا اندازہ ان الفاظ سے لگائیے۔ فرمایا:-
’’میں نے یہاں وہ دولت پائی ہے جو غیر فانی ہے، جس کو چور اور قزاق نہیں لے جاسکتا۔ مجھے وہ ملا ہے جو تیرہ سو برس کے اندر آرزو کرنے والوں کو نہیں ملا۔ پھر ایسی بے بہا دولت کو چھوڑ کر مَیں چند روزہ دنیا کے لئے مارا مارا پھروں؟
مَیں سچ کہتا ہوں کہ اگر اب کوئی مجھے ایک لاکھ کیا ایک کروڑ روپیہ یومیہ بھی دے اور قادیان سے باہر رکھنا چاہے میں نہیں رہ سکتا۔ ہاں امام علیہ السلام کے حکم کی تعمیل میں، پھر خواہ مجھے ایک کوڑی بھی نہ ملے۔ پس میری دولت میرا مال، میری ضرورتیں اس امام کے اتباع تک ہیں اور دوسری ساری ضرورتوں کو اس ایک وجود پر قربان کرتا ہوں‘‘۔