ضلع ڈیرہ غازی خان کے بلوچ اصحاب احمدؑ (مکمل. اقساط اول تا چہارم)

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 4؍نومبر 2022ء)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 16، 18 اور 19؍ستمبر 2013ء میں مکرم راشد بلوچ صاحب کا ایک تحقیقی مضمون شائع ہوا ہے جس میں ضلع ڈیرہ غازی خان کے بلوچ اصحاب احمدؑ کا ذکرخیر کیا گیا ہے۔ قبل ازیں الفضل انٹرنیشنل 28؍جولائی 2017ء کے کالم ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ میں بھی اسی حوالے سے ایک مضمون شامل اشاعت کیا جاچکا ہے جو اس ویب سائٹ میں بھی تلاش کیا جاسکتا ہے۔
مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ یہ بات قطعیت سے نہیں کہی جاسکتی کہ سب سے پہلے بیعت کرنے والے بلوچ خوش نصیب کون تھے۔ لیکن اندازہ ہے کہ غالبا ًوہ حضرت منشی فتح محمد بزدار صاحبؓ تھے۔ 313؍صحابہ کی فہرست میں آپ کا نام 97نمبر پر درج ہے۔
بزدار خاندان کے حضرت منشی فتح محمدصاحب بلوچ ولد محمد خان بزدار صاحب لیہ کے رہنے والے تھے جو اُن دنوں ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں واقع تھا۔ آپ گورنمنٹ انگریزی کے محکمہ ڈاک میں بطور اسسٹنٹ پوسٹ ماسٹر ملازم تھے۔ آپ کی ہمشیرہ محترمہ غلام فاطمہ، صاحبہ کشف والہام تھیں، انہیں حضورعلیہ السلام کے دعوے کی خبر ملی جس کی شہادت حضرت فتح محمد بزدارؓ نے ایک اشتہار میں 12 مئی 1897ء کو شائع کرائی۔ ستمبر 1895ء میں حضورؑ نے حکومت کے نام ایک اشتہار میں اپنی جماعت کے 700 افراد کے نام درج فرمائے جن میں حضرت منشی صاحبؓ کا نام بھی شامل ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ 1895ء تک آپؓ سلسلہ احمدیہ میں شامل ہو چکے تھے۔ حضورؑ کا یہ اشتہار ’’آریہ دھرم ‘‘میں شامل ہے۔
’’سراج منیر‘‘ کے آخر میں ’’فہرست چندہ برائے طیاری مہمان خانہ و چاہ وغیرہ‘‘ کے تحت فہرست میں آپؓ کا چندہ پانچ روپے اور ’’تحفہ قیصریہ‘‘ میں جلسہ ڈائمنڈ جوبلی 1897ء کے تحت آپ کے ایک روپیہ چندے کا ذکر ہے۔ ’’کتاب البریہ‘‘ میں بھی آپؓ کا نام فہرست احباب میں درج ہے۔ آپ علاقہ ڈیرہ اسماعیل خان کے میں نمایاں احمدی تھے۔ آپ کی وفات 1905ء میں اپریل کے آخری ہفتے میں ہوئی۔ 7 دسمبر1905ء کو حضرت مسیح موعودؑ نے وفات پاجانے والے چند احباب کا ذکر خیر کرتے ہوئے فرمایا:
’’سال گزشتہ میں ہمارے کئی دوست جدا ہوگئے …اللہ تعالیٰ نے اپنے ارادہ میں کئی مصالح رکھے ہوں گے اس سال میں حزن کے معاملات دیکھنے پڑے۔‘‘
٭…حضرت مولوی محمد شاہ صاحب تونسویؓ کا تعلق گو بلوچ قوم سے نہیں تھا لیکن آپ ایک لمبے عرصے سے ڈیرہ غازی خان کے علاقے میں بلوچوں کے ساتھ آباد تھے اور آپ کی تبلیغ سے ہی ڈیرہ غازی خان کے بلوچوں میں احمدیت کا نفوذ ہوا۔ آپ بستی مندرانی تحصیل تونسہ سے تعلق رکھتے تھے۔ بعدازاں آسنور کشمیر تشریف لے گئے۔ تبلیغی سرگرمیوں میں یوں محو ہوئے کہ وہیں بسیرا کرلیا،شادی بھی وہیں ہوئی اور 1920ء میں وفات پاکر وہیں بالآخر آسودہ خاک ہوئے۔
آپ کا اصل نام محمد تھا اور محمد شاہ کے نام سے شہرت پائی۔ ڈکھنہ برادری سے تعلق تھا۔ یہ برادری ضلع ڈیرہ غازی خان کے میدانی علاقے میں آباد تھی۔ آپ نے راولپنڈی کے ایک احمدی حکیم صاحب سے طبابت سیکھنی شروع کی تو اُن کی وساطت سے ہی قادیان پہنچے تاکہ حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحبؓ سے استفادہ کریں۔ وہیں قبولِ احمدیت کی سعادت ملی۔ آپؑ کا قیام حضرت مولوی صاحبؓ کے کتب خانے میں تھا اور حضورؓ نے ہی آپؓ کے قیام و طعام کا بندوبست فرمایا۔ جب ’’ایک غلطی کا ازالہ ‘‘ شائع ہوئی تو آپؓ قادیان میں ہی رہائش پذیر تھے۔پس آپؓ 1901ء سے قبل ہی قادیان جابسے تھے۔ قبولِ احمدیت کے بعدآپؓ نے بستی مندرانی کے پڑھے لکھے احباب کو تبلیغی خطوط لکھنے شروع کیے۔اسی تناظر میں آپؓ نے حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ سے ایک مہینے کے لیے اپنے وطن جانے کی خواہش کی تو حضورؓ نے فرمایا کہ میرے خیال میں تو حرج نہیں مگر حضرت صاحبؑ سے اجازت لینا چاہیے۔ چنانچہ آپؓ نے خدمت اقدسؑ میں اجازت کے لیے تحریر کیا تو حضورؑ نے تحریر فرمایا:
’’انسان جب سچے دل سے خدا کا ہو کر اس کی راہ اختیار کرتا ہے تو خود اللہ تعالیٰ اس کو ہر یک بلا سے بچاتا ہے اور کوئی شریر اپنی شرارت سے اس کو نقصان نہیں پہنچا سکتا کیونکہ اس کے ساتھ خدا ہوتا ہے سو چاہئے کہ ہمیشہ خدا تعالیٰ کو یاد رکھو اور اس کی پناہ ڈ ھونڈو اور نیکی اور راستبازی میں ترقی کرو اور اجازت ہے کہ اپنے گھر چلے جاؤ اور اس راہ کو جو سکھلایا گیا ہے فراموش مت کروکہ زندگی دنیا کی ناپائیداراور موت درپیش ہے۔اور میں انشاء اللہ دعا کروں گا۔غلام احمد ‘‘
چنانچہ آپؓ بستی مندرانی تشریف لائے اورآپؓ کی تبلیغ سے 15؍افراد نے تحریری بیعت کرلی جن میں سے آٹھ افراد کو قادیان جاکر دستی بیعت کا شرف بھی نصیب ہوا۔
٭…حضرت مولوی محمد ابوالحسن صاحب بزدارؓ کی کنیت ابوالحسن اور نام عبدالرؤف تھا۔ مولوی عبدالقادر کے بیٹے تھے جو گاڑوالا قاضی کہلاتے تھے۔ یہ گھرانہ تعلیم و تعلم سے وابستہ تھا اسی لیے جلالانی ملاں کہلاتا تھا۔ آپؓ کی علمی عظمت کا شہرہ دامان کوہِ سلیمان میں خوب پھیلا۔ آپؓ کو ڈیرہ غازی خان میں احمدیت کی اشاعت کا بانی کہا جاتا ہے۔ کئی بڑی بڑی جماعتیں آپؓ کے ذریعے قائم ہوئیں۔ آپ ایک لائق مربی اور تجربہ کار حکیم تھے۔ آپ کا اصل وطن کوہ سلیمان کے اندر ’’کالا ماڑ‘‘ ہے۔آپ نے اپنی عمر کا اکثر حصہ یہیں بسر کیا۔آپ نے تین شادیاں کیں کیونکہ آپ کے ہاں نرینہ اولاد کوئی نہیں تھی۔ تیسری شادی کے بعد آپ کے ہاں دو بیٹے ہوئے۔
حضرت مولوی صاحبؓ اپنی سوانح میں فرماتے ہیں کہ میری عمر تقریباً چھ سات سال کی تھی کہ اپنے بڑے بھائی کے ساتھ تعلیم کے لیے گھر سے نکلا اور ایک مولوی صاحب سے کچھ دن تعلیم حاصل کی لیکن میرے بھائی جلدی واپس گھر آگئے اور سلسلہ تعلیم منقطع ہو گیا۔ والد صاحب نے گھر میں ایک مولوی صاحب تعلیم کے لیے رکھے مگر ان سے بھی طبیعت کو موافقت نہ ہوئی اس لیے چودہ پندرہ سال کی عمر میں مَیں اپنے وطن سے نکل کھڑا ہوا اور مختلف مقامات میں پھرتا ہوا آخردہلی پہنچا۔ وہاں مولوی نذیر حسین دہلوی کے شاگرد مولوی محمد اسحاق سے حدیث پڑھنی شروع کی۔ ان دنوں حضرت اقدسؑ کا نکاح حضرت اماں جانؓ سے ہوا ۔ چونکہ ہم اُسی محلہ میں رہتے تھے جہاں حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ کا مکان تھا اس لیے حضرت میر صاحب کبھی کبھی ہمارے پاس آجاتے تھے اور بخاری شریف کی سماعت فرماتے تھے۔ اس زمانے میں بوجہ طالب علمی حضرت اقدسؑ کے بارے میں زیادہ توجہ نہ ہوئی۔ پھر بغرض حصول تعلیم و حکمت کے لکھنؤ چلا گیا اور وہاں سے تقریباً 1304ھ میں فارغ ہوکر واپس دہلی چلا آیا اور مولوی محمد اسحاق صاحب سے حضرت اقدسؑ کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ ان کے اعتقادات کچھ خراب ہیں۔ پھر وطن واپس آکر مَیں حضرت اقدسؑ کے بارے میں خیال رکھتا رہا۔ اگر کوئی آپؑ کے بارے میں پوچھتا تو مَیں کہتا کہ اس بارے میں جلدی نہیں کرنی چاہیے۔ ایک دو سال بعد میاں نذیر حسین نے حضرت اقدسؑ پر کفر کا فتویٰ دے دیا۔
پہلے خان صاحب فتح محمد صاحب بزدار مرحوم سکنہ لیہ نے مجھے کتاب ’’ازالہ اوہام‘‘ دی۔ جب اس کتاب کا مطالعہ کر رہا تھا تو مَیں لوٹ پوٹ ہو جاتا تھا گو اس وقت مَیں نے بیعت نہ کی تھی مگر حضرت اقدسؑ کے بارے میں میرے خیالات صاف تھے۔ پھر اس کے بعد کتاب ’’آئینہ کمالات اسلام ‘‘ دیکھنے کا موقع ملا تو اعتقادات بالکل درست ہو گئے اور (1900ء) 1318ھ میں ہم چار افراد نے بستی رنداں سے حضرت اقدسؑ کی خدمت میں بیعت کا خط لکھ دیا۔ یعنی میرے علاوہ میرا شاگرد میاں عبدالاسد مرحوم ، میرا شاگرد میاں علی محمد اور میاں عیسیٰ خان صاحب مرحوم رند بلوچ۔
خط لکھنے کے بعد دل میں ہر وقت ایک سخت پیاس تھی کہ کوئی وقت ملے اور ہم دارالامان پہنچیں۔ ڈیرہ غازی خان میں مولوی بخش خان صاحبؓ سے ملا تو اُن سے قادیان جانے کے بارے میں کہا۔ انہوں نے بتایا کہ عنقریب جلسہ سالانہ ہونے والاہے، فلاں تاریخ کو تم ملتان آجاؤ پھر اکٹھے چلے جائیں گے۔ پھر گھر پہنچا اور اپنی والدہ محترمہ اور بیویوں سے حضرت اقد سؑ کا ذکر کیا تو انہوں نے حضرت مسیح موعودؑ کو قبول کیا۔ والدہ محترمہ نے فرمایاکہ میری بیعت خواجہ سلیمان کی ہے۔ میں نے کہا اگر وہ زندہ ہوتے تو وہ بھی حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کرتے۔ آخر ان کی بیعت بھی لکھ دی۔ رمضان کے مبارک مہینے میں جلسہ سالانہ تھا تو ہم قادیان حاضر ہوئے۔ عید وہاں ہوئی۔ گویا ہماری دو عیدیں جمع ہو گئیں، ایک بیعت کی عید اور دوسری عیدالفطر۔ واپس آنے سے پہلے مَیں نے حضورؑ کی بہت سی کتابیں خرید یں۔جب ’’حمامۃ البشریٰ‘‘ پڑھی تو ایسا اطمینانِ قلب نصیب ہوا جو پہلے نہ تھا۔
قادیان سے واپس آیا تو علاقے کے تمام مخالفین اکٹھے ہوگئے اور مجھ پر کفر کا فتویٰ لگا دیا۔ آخرو ہ سب نہایت ذلیل ہو کر ہلاک ہوئے اور میرا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ مخالفت کا سرغنہ مولوی ابراہیم تھا جو اس ذلّت سے مرا کہ پاخانہ منہ سے آتا تھا۔ مرنے کے بعد اس کا چہرہ بھی شرمندگی کے باعث کسی کو نہ دکھاتے تھے۔فاعتبروایا اولوالالباب
آخر خاکسار کی تبلیغ سے بستی رنداں کے اکثر لوگ احمدی ہوگئے۔ خدا کے فضل سے یہ تمام بستی احمدیوں کی ہے اور ان میں بہت مخلص لوگ ہوئے ہیں۔ حضرت مولوی صاحبؓ کچھ عرصہ اسی بستی میں مقیم رہے اورامام الصلوٰۃ بھی رہے۔
(قبل ازیں آپؓ کا ذکرخیر الفضل انٹرنیشنل 26؍نومبر 2010ء کے الفضل ڈائجسٹ میں بھی کیا جاچکا ہے جو اس ویب سائٹ میں بھی تلاش کیا جاسکتا ہے۔)
٭…حضرت مولوی محمد عثمان صاحب مندرانیؓ 1869ء میں حضرت حافظ محمد خان صاحب مندرانیؓ کے ہاں پیدا ہوئے۔ دادا کا نام لکھی محمد خان تھا۔ آپؓ جون 1905ء میں قادیان گئے اور دستی بیعت سے مشرف ہوئے۔ فرمایاکرتے تھے کہ حضور علیہ السلام جب بھی مسجد میں تشریف لا تے تو ز بان پر سُبْحَانَ اللہ کے الفاظ ہوتے۔
آپؓ قرآن مجید کی تلاوت بکثرت کرتے۔ بہت ہی شفیق اور مہربان انسان تھے۔ تبلیغ کا ازحد شوق تھا۔ ابتدائی عمر میں تبلیغ کی خاطر حکمت بھی کرتے تھے۔طب میں آپؓ کو کافی دسترس حاصل تھی۔ اسی اثرورسوخ کی وجہ سے پہاڑی علاقے میں بھی تبلیغ کرتے تھے۔عام طور پر مریضوں کو دوا مفت دیتے تھے۔ شکار کے بڑ ے شوقین تھے۔ بستی مندرانی کے کئی بار سیکرٹری اور صدر بھی رہے۔ اخبار البدر، ریویو آف ریلیجنز اور تشحیذالاذہان کے مستقل خریدار تھے۔ کتب حضرت مسیح موعودؑ اور سلسلہ کی دیگر کتب منگواکر زیرمطالعہ رکھتے۔
آپؓ کے رشتہ دار شدید مخالف تھے اور انہوں نے آپ سے سلام و کلام ترک کر دیا تھا۔ مخالفت میں آپ کے خالو پیش پیش تھے۔ ایک دفعہ آپؓ اُن کے کھیت سے گزرے جو پانی سے بھرا ہوا تھا۔آپؓ نے وہاں بیٹھ کر پانی پیا تو خالو نے یہ کہہ کر اس کھیت کا بند توڑ کر سارا پانی نکال دیا کہ تم نے میرا کھیت پلید کر دیا ہے۔ اور پھر کھیت کو دوبارہ سیراب کیا۔
آپؓ بیان کیا کرتے تھے کہ جب ہم جون 1905ء میں قادیان گئے تو ایک دن لنگر خانے کا منتظم حضورؑ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ آٹا ختم ہو گیا ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ اس وقت ایک دری پر دو زانو تشریف رکھتے تھے۔ آپؑ نے اس پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ میں خدا تعالیٰ کے لیے یہ بستر بیچنے کو بھی تیا ر ہوں مگر اب تک تو میری جائیداد موجود ہے مجھے دنیا کی کوئی فکر نہیں اور نہ ہی لنگر خانے کے خرچ کی فکر ہے۔فکر اس بات کی ہے کہ یہاں خدا جو مال ودولت لائے گا، اس کو صحیح طور پر خرچ کرنے والے ہوں۔پھر منتظم سے فرمایا آپ بٹالہ جا کر سیٹھ سے لنگر خانہ کے لیے خرچ لے آئیں۔
آپؓ نے جولائی 1954ء میں پچاسی سال کی عمر میں وفات پائی اور بستی مندرانی میں دفن ہوئے۔ آپؓ نے اولاد میں دو بیٹے اورچار بیٹیاں چھوڑیں۔
٭…حضرت سردار حافظ فتح محمد خان صاحبؓ کا تفصیلی ذکرخیر اخبار الفضل انٹرنیشنل 10؍نومبر 2017ء کے ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ میں شامل اشاعت کیا جاچکا ہے اور اس ویب سائٹ میں بھی موجود ہے۔ آپؓ نہ صرف اس علاقے میں احمدیت کےبانیوں میں سے تھے بلکہ اکثر دیگر صحابہ آپؓ کے شاگرد بھی رہے۔
٭…حضرت نور محمد صاحبؓ ولد میر محمود خان صاحب مندرانی بلوچ، حضرت حافظ فتح محمد خان صاحبؓ کے بڑے بھائی تھے۔ آپؓ نے اپنے بھائی کے ساتھ ہی تحریری بیعت کی اور دسمبر1907ء میں جلسہ سالانہ کے ایام میں قادیان پہنچے۔ زمیندارہ کرتے تھے۔ قرآن شریف کے پہلے دس سپارے آپ کو زبانی یاد تھے۔ فارسی بھی جانتے تھے۔ آپ کے بھائی حضرت حافظ فتح محمد صاحب اکثر پڑھانے میں مصروف رہتے تھے اور گھر کا تمام کاروبار آپ ہی کیا کرتے تھے ۔آپؓ بہادر انسان اورپُروقار شخصیت کے مالک تھے۔
آپؓ نے 1922ء میں بعمر ستّر سال وفات پائی اور ’لعل اصحاب‘ قبرستان میں مدفون ہیں۔ آپؓ کے چار بیٹے تھے۔
٭…حضرت نور محمد خان صاحبؓ ولد مکرم حسن خان صاحب قوم بلوچ مندرانی سکنہ بستی مندرانی عربی اچھی طرح پڑھ اور سمجھ سکتے تھے۔ ایک سنجیدہ اور باادب انسان تھے۔ احمدیت سے خاص انس تھا۔ آپؓ نے اپریل 1903ء میں تحریری بیعت کی اور مارچ 1904ء میں بستی مندرانی کے پہلے گروپ کے ساتھ قادیان جاکر دستی بیعت کی۔ پھر ایک ہفتہ تک وہاں قیام کیا۔ نہایت متقی،پرہیزگار، پابند صوم وصلوٰۃ اور تہجدگزار تھے۔ وقت پر چندہ اداکرنے والے اور نمازوں کا خاص التزام رکھنے والے تھے۔ جب آپ احمدیت میں داخل ہوئے تو آپ کی بہت مخالفت ہوئی۔ لوگ آپ کو اپنی عام استعمال کی چیزیں بھی نہ دیتے تھے۔آپ کا عام پیشہ کاشتکاری تھا اس لیے اپنا کھیت خود بوتے اور خود ہی کاٹتے تھے۔ تبلیغ کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے۔
آپ ایک دن اپنے کھیت میں ہل چلا رہے تھے اور ملحقہ کھیت میں ایک غیر احمدی ہل چلا رہاتھا جو ایک آنکھ سے محروم تھا۔ آپؓ کو پیاس لگی تو آپؓ نے اُس کے مشکیزے سے پانی پی لیا۔ اس پر وہ سخت غصہ میں آیا اور باقی پانی گرا کر دوبارہ مشکیزہ بھر لایا۔ دوسرے دن آپؓ نے مکرم حافظ فتح محمد صاحب سے ایک شعر لکھواکر اس غیر احمدی کو دیا اور کہا کہ یہ شعر اپنے پیر صاحب سے پڑھواکر مطلب پوچھنا۔ شعر کا ترجمہ تھاکہ صوفی، دجال کی آنکھ والا بے دین کہاں ہے۔ اسے کہہ دے کہ دین کو بچانے والا مہدی آ گیا ہے، اگر تُو جلتا ہے تو بے شک جلتا رہ۔ اس آدمی کو اپنے پیر سے اس کے معنی معلوم ہوئے تو بہت شرمندہ ہوا اور آپؓ سے معافی مانگی۔
آپؓ 1916ء میں معمولی سی بیماری کے بعد وفات پا گئے اور طاہر شاہ بخاری منگروٹھہ شرقی کے قبرستان میں دفن ہوئے۔ آپ کی اولاد میں سے حضرت محمد مسعود خان صاحبؓ بھی صحابہ میں شامل تھے۔
٭…حضرت محمد مسعودخان صاحبؓ 1889ء میں پیدا ہوئے۔ قریباً 15 سال کی عمر میں تحریری بیعت کی اور 20 سال کی عمر میں دسمبر 1907ء کے جلسہ سالانہ پر حضرت مولانا محمد شاہ صاحب کی معیت میں قادیان پہنچ کردستی بیعت کی۔

حضرت محمد مسعود خان صاحبؓ

آپؓ کی والدہ محترمہ آپ کے بچپن میں ہی فوت ہو گئی تھیں۔ آپؓ نے ابتدائی تعلیم حضرت حافظ فتح محمد خان صاحب سے حاصل کی۔ قرآن مجید پڑھنے کے بعد مروّجہ علوم کی اکثر کتب پڑھیں۔ قبول احمدیت کے بعد حضرت مسیح موعودؑکی کتب پڑھیں۔ بیعت کے بعد کچھ وقت قادیان میں مقیم رہے اور مارچ 1908ء میں واپس تشریف لے آئے۔ آپؓ فرماتے تھے کہ حضرت مسیح موعودؑ ایک شفیق مگر بارعب شخصیت رکھتے تھے۔ حضورؑ کی تقریر بااثر اور ہرایک کو اپنی طرف کھینچنے والی تھی۔
حضرت محمد مسعودخان صاحبؓ قرآن مجید کی بکثرت تلاوت فرماتے تھے۔ آخری دو پارے اور کئی سورتیں زبانی یاد تھے۔ نماز بروقت ادا کرتے اور باقاعدہ تہجدگزار تھے۔ بہت سخی اور مہمان نواز تھے۔ اگرچہ چند سال مفلسی کے بھی آئے مگر چندہ وغیرہ باقاعدہ ادا کرتے رہے۔ حلیم، بردبار، مدبر اور وسعت حوصلہ کے مالک انسان تھے۔کسی حال میں بھی شکایت نہ کرتے۔ حضرت نبی کریم ﷺ، حضرت مسیح موعودؑ اور خلفائے سلسلہ سے والہانہ انس تھا۔ ان میں سے جب بھی کسی کا نام آتا تو فرط محبت سے آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے۔
آپ نے1929ٌٌء سے 1938ء تک نواب محمد علی خاں صاحب کے گھر پرحضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے دربان کے فرائض سرانجام دے کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کی خدمت کی توفیق پائی۔ آپؓ نے8دسمبر1964ءکو وفات پائی۔
٭… حضرت میاں محمد صاحبؓ (ولد محمد یوسف) قوم چوغطہ ایک نیک طبع غریب النفس مگر دل کے غنی اور دینی غیرت رکھنے والے بزرگ تھے۔حضورعلیہ السلام کے ذکر پر آپؓ کی آنکھیں اکثر نم ہو جایا کرتی تھیں۔ نا خواندہ ہونے کے باوجود پُراثر انداز سے تعلیم یافتہ لوگوں کو تبلیغ کرنے میں کوشاں رہتے۔ آپؓ حضورؑ کی زندگی میں دو دفعہ قادیان آئے۔ جب آپؓ پہلی بار بیعت کر کے واپس گئے تو آپؓ کا بائیکاٹ کر دیا گیا مگر آپؓ احمدیت پر ثابت قدم رہے۔ پہلے آپ لوگوں کی حجامت وغیرہ کر کے گزارہ کرتے تھے مگر جب اہل علاقہ نے بائیکاٹ کر دیاتو پھر کبھی احمدی احباب کے پاس مزدوری کرتے اور کبھی جنگلی بیر وغیرہ بیچ کر گزارہ کرتے۔ اس پر ان کے بعض رشتہ داروں نے انہیں کہا کہ اگر تم بظاہر ہم لوگوں میں ہی رہتے اور دل میں مرزا صاحب کو سچا مانتے تو اتنی تنگی نہ اٹھاتے۔آپؓ نے جواب دیا کہ مجھے بھوکا مرنا منظور ہے لیکن مجھ سے منافقت نہیں ہوسکتی۔
آپؓ احمدیت قبول کرنے سے پہلے بھی حد درجہ کے متقی اور پرہیزگار تھے۔بکثرت روزے رکھتے۔ نہایت رقیق القلب تھے۔شب بیداری آپ کا معمول تھا۔بستی مندرانی میں قیام جماعت سے قبل روزے کی حالت میں جمعہ کی نماز ادا کرنے آٹھ کلومیٹر دُور کوٹ قیصرانی جایا کرتے تھے۔ آپؓ بیعت سے قبل حقہ و نسوار وغیرہ استعمال کیا کرتے تھے مگر بیعت کے فوراً بعد یہ تمام چیزیں ترک کر دیں۔
آپؓ فرمایا کرتے تھے کہ جب میں پہلے پہل قادیان گیا تو اُن دنوں مجھ پر گریہ وزاری کی حالت طاری تھی۔ اُن دنوں میرے ہاںاولاد نرینہ نہیں تھی۔ میں دل میں یہ خواہش رکھتا تھا کہ حضور سے اس بارے میں دعا کی درخواست کروں گا لیکن حضورؑ نے ایک تقریر فرمائی کہ بعض لوگ ہمارے پاس آتے ہیں اور بعض لوگوں کے خطوط آتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے ہمارے ہاں اولاد نہیں ہمارے لیے دعا کریں کہ خدا ہمیں اولاد کی نعمت سے نوازے۔ کوئی مالی تنگی کا ذکر کرتا ہے۔گو ہم سب کے لیے دعا کرتے ہیں مگر میرے آنے کی غرض یہ ہے کہ لوگ ایمان سلامت لے جائیں۔ مجھے اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے شرم آتی تھی سو میں خاموش رہا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس خاموشی کونوازا اور اولاد نرینہ عطا کی۔
آپؓ 19؍ستمبر1951ءکو بعمر75سال وفات پاکر ’لعل اصحاب‘ قبرستان میں مدفون ہوئے۔
٭…حضرت مولوی حافظ محمد خان صاحبؓ (ابن لکھی محمد خان) حافظ قرآن تھے اور عربی و فارسی میں مہارت رکھتے تھے۔ حافظ فتح محمد خان صاحبؓ کی عدم موجودگی میں آپؓ نماز پڑھاتے اور طلبہ کو پڑھاتے تھے۔ قبول احمدیت سے قبل اہل سنت والجماعت سے تعلق رکھتے تھے، پیشہ زمیندارہ تھا اور علاقہ میں اچھی حیثیت اور شہرت کے مالک تھے۔ آپ نے حضرت مولوی محمد شاہ صاحب کی تبلیغ سے اپریل1903ء میں تحریری بیعت کی۔ پھر مارچ1904ء میں بستی مندرانی سے قادیان جانے والے پہلے گروپ میں قادیان جا کر دستی بیعت سے مشرف ہوئے اورتقریباً ایک ہفتہ قادیا ن میں مقیم رہے۔ آپ کی اولاد میں سے حضرت محمد عثمان صاحبؓ بھی صحابی تھے۔ دوسرے بیٹے کانام اللہ بخش تھا۔
حضرت حافظ محمد خان صاحبؓ صوم وصلوٰۃ کے پابنداور تہجدگزار تھے۔ اکثر رات تلاوت کرتے رہتے۔ چندہ بمطابق شرح باقاعدگی سے ادا کرتے۔ بےحد مہمان نواز تھے۔ 1915ء میں بعمر ستر سال وفات پاکر ’لعل اصحاب‘کے قبرستان میں سپردخاک ہوئے۔
٭…حضرت بخشن خان صاحبؓ ولد خان محمد خان صاحب علاقہ بھر میں ایک اچھی حیثیت اور شہرت رکھنے والے بزرگ تھے۔ بہت نڈر اور دلیر تھے۔ کچھ عرصہ بستی مندرانی کے نمبردار بھی رہے۔ بڑے مہمان نواز تھے۔پانچوں وقت کی نمازیں مسجد میں ادا کرتے۔ احمدیت قبول کرنے سے قبل آپؓ کے خیالات شیعہ مذہب کی طرف مائل تھے۔بیعت کے بعد اُن پرانے ساتھیوں کی صحبت ترک کر دی اور انہیں احمدیت کی تبلیغ کرتے رہتے تھے۔ آپ کے والد بہت بوڑھے تھے۔ والدہ فوت ہوگئی تھیں۔ آپ کےچار بھائی تھے جن کی پرورش آپ نے کی۔ آپ قرآن مجید ناظرہ اور فارسی کی چند کتابیں بھی پڑھے ہوئے تھے، البتہ لکھنے کی مشق نہ تھی۔ چندہ جات باقاعدگی کے ساتھ ادا کرتے۔
آپ فرمایا کرتے تھے کہ جب مَیں قادیان گیا تو بٹالہ میں ایک شخص سے قادیان کا راستہ پوچھا۔ وہ کہنے لگاکہ مرزا صاحب کہتے ہیں کہ میں محمد ہوں، امام حسین ہوں۔ مَیں نے پوچھا کہ امام حسین کون ہیں؟ وہ کہنے لگا کہ ارے جاہل تجھے معلوم نہیں کہ امام حسین وہ ہیں جن کے لیے زمین و آسمان پیدا ہوئے۔ میں نے کہا کہ اب وہ کہاں ہیں؟ کہنے لگا کہ اُن کو یزید نے کربلا میں شہید کرادیا۔ میں نے کہا اگر وہ فوت ہوگئے ہیں تو زمین و آسمان کیوں کھڑے ہیں یہ گر کیوں نہیں جاتے؟ اس پر وہ شور مچانے لگا کہ لوگو! مرجائی جارہے ہیں، مرجائی جارہے ہیں۔ پھر ہمیں پتا چلا کہ مولوی محمد حسین بٹالوی نے اس شخص کو لوگوں کو بہکانے کے لیے وہاں کھڑا کیا ہو اتھا۔
حضرت بخشن خان صاحبؓ نے تحریری بیعت 1903ء میں اور دستی بیعت 1905ء میں کی۔
حضرت محمد عثمانؓ سنایا کرتے تھے کہ قادیان پہنچنے کے بعد جب حضرت مسیح موعودؑ تشریف لائے تو بخشن خان صاحبؓ پرانے عقیدے کے مطابق حضورؑ کے قدموں میں جھکنے لگے لیکن حضورؑ نے یہ فرماکر اوپر کھڑا کردیا کہ بندوں کے آگے نہیں جھکنا چاہیے بلکہ خدا کے آگے جھکنا چاہیے۔ آپؓ فرماتے تھے کہ قادیان میں صبح کی نماز مولوی عبدالکریم صاحب سیا لکوٹیؓ نے پڑھائی تو اُن کی بہت اچھی قراءت سن کر میں بےاختیار رونے لگا۔ اس سے پیشتر میرے نوجوان لڑکے اور بیوی فوت ہوئے مگر میں کبھی نہیں رویا مگر ان کی قراءت نے مجھے موم سے بھی زیادہ نرم کردیا تھا ا ور میں بے اختیار رونے لگا۔
جب آپ قادیان سے واپس تشریف لائے تو آپؓ نے دو جلدیں ریویو آف ریلیجنز کی خریدیں اور تیسری جلد کی خریداری کی ادائیگی بھی کردی۔ سلسلہ سے خاص انس رکھتے تھے۔ ہر وقت حضور کی کتب کا مطالعہ کرتے رہتے تھے اور دوسروں سے بھی سنتے رہتے تھے۔اسی طرح غیر از جماعت کو تبلیغ بھی کرتے رہتے تھے۔ آپؓ نے 1914ء میں بعمر 85 سال وفات پائی اور اپنے آبائی قبرستان ’’سید طاہر شاہ بخاری‘‘ میں دفن ہوئے۔ آپ ؓکی ساری اولاد وفات پاگئی تھی۔ البتہ دو بھتیجے احمدی ہوئے جن کی اولاد بھی احمدی ہے۔
٭…حضرت مولوی پھل خان صاحبؓ بستی بزدار کے ابتدائی بیعت کرنے والے تھے۔ ناخواندہ تھے اور جراحی کا کام کرتے تھے۔ کبھی کبھی کوٹ قیصرانی جایاکرتے تھے اور احمدیت کا پیغام پہنچایا کرتے تھے۔ نہایت مخلص احمدی اور پُرجوش داعی الیٰ اللہ تھے۔ کوٹ قیصرانی کے ابتدائی احمدی حضرت سردار امام بخش صاحبؓ جب احمدیت کے بارے میں تحقیق کر رہے تھے تو آپؓ نے ہی ان کی تسلی کروائی اورسلسلہ کا لٹریچر ان کو دیا۔ آپؓ کی وفات 1915ء میں ہوئی۔
====================================
(حصہ دوم)
(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 11؍نومبر 2022ء)
٭…حضرت میاں اللہ بخش صاحبؓ بزدار نے ابتدا میں ہی حضرت مولوی ابوالحسن صاحبؓ بزدار کے ہاتھ پر بیعت کرلی تھی۔ آپ 1290ھ میں ایک زمیندار خاندان میں پیدا ہوئے اس لیے اکثر عمر اسی کام میں گزاری مگر ہروقت ذکرالٰہی میں مصروف رہتے تھے۔ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے۔ آپ کی اولاد میں چارلڑکے اورایک لڑکی ہے اور سب صاحبِ اولاد ہوئے۔ آپ کا پانچواں بیٹا مولوی عبداللہ خان بلوچ مولوی فاضل ہوکر1936ءمیں فوت ہوئے جو نہایت نیک لائق اور نرم طبیعت کے مالک تھے۔
حضرت میاں اللہ بخش صاحبؓ بزدار نے جب حضرت مسیح موعودؑ کا ذکرسنا تواپنے والد صاحب کو بتایا۔ انھوں نے فرمایاکہ اگرمہدی پیدا ہوگیا ہے تومَیں اُن پرایمان لے آیا ہوں۔ جلد ہی اُن کی وفات ہوگئی۔ پھر آپؓ کی ملاقات حضرت مولوی ابوالحسن صاحبؓ بزدار سے ہوئی تو آپ نے اپنے فرقے کی مسجد کے علاوہ حضرت مولوی جندوڈا صاحبؓ کی مسجد میں بھی جانا شروع کردیا۔ آپ ایک پیر صاحب کی بیعت میں تھے۔ ایک بار وہ آئے تو حضرت مولوی ابوالحسن صاحبؓ بھی بستی بزدار تشریف لائے ہوئے تھے۔ دونوں کی آپس میں بات چیت ہوئی مگرپیر صاحب نہ مانے۔ تاہم آپؓ نے وہاں سے اُٹھتے ہی تحریری بیعت کرلی اور چند ماہ بعد قادیان جاکر دستی بیعت کی توفیق پائی۔ اس سفر میں آ پ کو تین چار سو میل پیدل چلنا پڑا۔ چند دن ٹھہر کر جمعہ کے روزبیعت کرکے آپؓ واپس روانہ ہوئے۔ واپسی پرحضرت مسیح موعودؑ اور حضرت حکیم نورالدین صاحبؓ نے آپؓ کے لیے دعا کی۔
بیعت کے بعد جب آپؓ واپس بستی بزدار تشریف لائے تو آپؓ کی بہت مخالفت ہوئی۔ عزیزواقارب نے بھی استہزا کانشانہ بنایا اورکہتے تھے کہ اب ہم دیکھتے ہیں کہ آپ اپنے بیٹوں کی شادیاں کہاں کریں گے۔ مگرآپ فرماتے تھے کہ ہم روزبروزخداتعالیٰ کی محبت میں ترقی کرتے جارہے تھے، ہمارے دل میںسکون تھااور کسی کی جدائی کاغم نہ تھا۔ اس کے بعد حضرت اللہ بخش صاحبؓ کی بیوی اور آپ کی سوتیلی والدہ نے بھی تحریری بیعت لکھوادی۔ آپ نہایت غریب پرور تھے۔ اپنے کپڑے غربا کودے دیتے تھے۔آپ کی والدہ پوچھتیں تو کہتے اس کوبہت ضرورت تھی۔آپ کوحدیث، قرآن اور حضرت مسیح موعودؑ کی کتب کا بہت زیادہ شوق تھا۔ کتب پڑھتے اورروتے تھے۔تمام نمازیں اور تہجد خشوع و خضوع سے اداکرتے تھے۔ نمازتہجدسے فارغ ہوکر اکثر حضرت مسیح موعودؑ کا منظوم کلام پڑھتے تو آنکھیں نم ہوجاتیں۔
دریائے سندھ کے کنارے آپ کی اراضی تھی۔ آپ کبھی کبھی وہاں جایاکرتے تھے۔ وہاں ایک کنواں تھا جس پرکچھ لکڑیاں پڑی رہتی تھیں۔ لوگ کہتے تھے یہاں بھوت ہیں کوئی نہ جاوے۔ مگر آپ نے سب لکڑیاں اٹھاکر بطور ایندھن استعمال کرلیں اوران کے وہم کودورکردیا۔
آپؓ کی وفات 7ستمبر1940ء کو قریباً 70سال کی عمر میں ہوئی اور بستی بزدار کے پرانے قبرستان میں تدفین ہوئی۔
٭…حضرت میاں اللہ دتہ صاحبؓ حضرت اقدسؑ کے عاشق تھے۔ حضورؑ کا ذکر خیر کرکے روح کو گرما دیتے تھے۔ آپ باربار قادیان تشریف لے جاتے تھے۔ فرماتے تھے سیدنا حضرت اقدسؑ کے معصوم چہرے کودیکھنے کے لئے بے قرار رہتا ہوں۔ آپؓ نے بہت لمبی عمر پائی۔خلافت ثانیہ کے دَور میں آپ کی وفات ہوئی۔
آپؓ اپنے قبول احمدیت کا واقعہ یوں بیان کرتے ہیں: مجھ کو مولوی محمد ابوالحسن صاحب سکنہ بستی بزدار نے تبلیغ کی کہ حضرت مسیح موعودؑ ظاہر ہوگئے ہیں ان کی اس بات کو سن کر میں نے یہ خیال کیا کہ یہ بات صحیح نہیں کیونکہ عیسیٰ تو آسمان پر ہیں یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ یہ زمین سے پیدا ہوکر سچا ہوجائے۔ پھر چند روز کے لئے مَیں نے اللہ تعالیٰ کے حضور حقیقت حال کے انکشاف کے لئے دعائیں کیں تب موسم بہار ماہ چیت1901ء میں جمعرات کی رات کو مَیں نے خواب میں دیکھا کہ کوئی شخص آواز دے رہا ہے کہ ’’اے میاں شخص مہدی آون والا ایہو اے جیہڑا آچکا‘‘ یہ آواز تین دفعہ دہرائی گئی۔ اس کے بعد صبح کو جمعہ کی نماز پڑھنے کے وقت میں نے بیعت کا خط تحریر کردیا اور پھر مئی 1901ء میں خود قادیان حاضر ہوکر حضرت مسیح موعودؑ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ میرے دوساتھی اَور بھی تھے۔ ہم نے وہاں ایک رات بعد از نماز عشاء دیکھا کہ آسمان میں یک دم روشنی پیدا ہوگئی جو حضرت مسیح موعودؑ کے مکان پر چھارہی تھی۔ نمازفجر پڑھنے گئے تو معلوم ہوا کہ اسی رات حضرت مسیح موعودؑکو الہام ہو اکہ نصر من اللہ ……۔
جب قادیان سے واپس آنے لگے اور حضرت اقدسؑ سے اجازت طلب کی تو ساتھ ہی دعا کے لیے عرض کیا کہ لوگ اب ہماری مخالفت کریں گے۔ تب حضورؑ نے فرمایا کہ جو شخص تمہارے ساتھ بدگوئی کرے گا اس کا گلا بند ہو جائے گا۔
جب ہم خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ آئے تو راستے میں ایک عورت ملی۔ اس کو ہم نے مسیح موعود کی آمد کی خبر سنائی تو اس نے کہا کہ میں نے رات کو خواب میں دو شخص تمہاری شکلوں میں دیکھے تھے جو سبز پوشاک پہنے ہوئے تھے۔ وہ مجھے پکڑ کر رسول کریم ﷺ کے دروازے پر لے گئے۔ مجھ کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ تم ہی ہو کیونکہ تمہاری شکل ان دونوں سے ملتی ہے۔اور پھر کہا میری بیعت کے لیے لکھ دو اور اگر تم نے نہ لکھا تو گواہ رہو کہ قیامت کے دن میں تمہاری دامن گیر ہوں گی۔
آپؓ بیان فرماتے ہیں کہ مَیں 1901ء ماہ مئی میں قادیان پہنچا تو حضرت مسیح موعودؑ بیمار تھے۔ آپؑ نے اپنے احباب کو بلایا اور فرمایا: مَیں نے تم کو خدا اور رسول کے رستہ پر کردیا ہے اور یہی راستہ سیدھا ہے۔ زندگی کا کوئی اعتبا ر نہیں۔
1903ء یا 1904ء کا موقع ہے کہ مَیں قادیان شریف گیا۔ موقع عید کا تھا اور لنگر خانہ میں لنگر چلا اور عام و خاص کی تجویز ہونے لگی تو میری نیت میں فرق آنے لگاکہ جو مہدی موعود ہوگا وہ حکماً عدلاً ہوگا، مگر اب اس لنگر خانہ میں ریا ہونے لگا ہے، مساوات نہیں۔ پھر صبح کو مسجد مبارک میں گیا تو حضرت مسیح موعودؑ اذان سے پہلے تشریف لائے تو آتے ہی فرمایا:مولوی نور الدین کہاں ہیں؟ حضرت مولوی صاحب نے عرض کی: حضور مَیں حاضر ہوں۔ حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ رات اللہ تعالیٰ نے مجھے خبر دی کہ تیرا لنگر ناخن کی پشت برابر بھی منظور نہیں ہوا کیونکہ لنگرخانہ میں رات کو ریا کیا گیا ہے اور اب جو لنگر خانہ میں کام کررہے ہیں ان کو علیحدہ کرکے قادیان سے چھ ماہ تک نکال دیں اور ایسے شخص مقرر کیے جائیں جو نیک فطرت ہوں اور صالح ہوں۔
ایک شخص نے سوال کیا کہ حضور ہم احمدی ہوچکے ہیں اور حضورؑ نے فرمایا ہے کہ غیر احمدی کے پیچھے نماز نہ پڑھو مگر ہماری رشتہ داریاں ہیں، ہم مجبور ہیں۔ حضورؑ نے فرمایا کہ مَیں نے خدا سے خبر پا کر تم لوگوں کو سنا دیا ہے کہ یہ لوگ مُردہ ہیں۔ زندہ مُرد ہ کے پیچھے نماز نہیں پڑھ سکتا۔
مَیں اور اللہ بخش صاحب چار ماہ قادیان میں ٹھہرے۔
٭…حضرت حاجی فتح محمد صاحبؓ اردو اور فارسی زبانوں کے ماہر تھے۔ آپؓ بہت نیک،پاک اور تہجد گزار وجود تھے۔ حج کرنے کے لئے پیدل مکّہ گئے۔ بڑے بڑے پیر آپؓ کی نیکی اور تقویٰ کی وجہ سے آپؓ کو عزت دیتے تھے۔ آپؓ بہت دعا گو تھے اور دعا میں بہت تاثیر تھی۔
٭…حضرت مہر خان صاحب رندؓ
٭…حضرت محمد عظیم صاحبؓ نے 1901ء میں حضرت مولانا ابوالحسن صاحبؓ کی دعوت سے احمدیت قبول کی اور اسی سال عازم قادیان ہوئے۔ آپ حضرت مسیح موعودؑ کے عاشق صادق تھے۔ جلسہ سالانہ قادیان پر اکثر تشریف لے جاتے۔ باوجود غربت کے آپؓ نے تعلیم حاصل کی۔ فارسی کے فاضل تھے اور بستی سہرانی میں قرآن پاک اور حدیث شریف کا درس دیتے تھے۔ زمیندارہ کا کام کرتے تھے۔ حضرت مسیح موعودؑ کی کتب پڑھنے کا بے حد شوق تھا۔
آپؓ ایک کامیاب مناظر تھے۔ ایک دفعہ آپ ایک جلسے میں تشریف لے گئے جہاں ایک مولوی حضرت اقدسؑ کے خلاف کذب بیانی کررہا تھا۔ اس پر آپؓ نے لوگوں کو مخاطب کر کے اُس کا جواب دیا تو شور پڑ گیا۔ایک مولوی نے آپؓ کو تیر مارنے کی کوشش کی لیکن نشانہ خطا ہوا اور جو اس جلسہ کا بانی مبانی تھا اس کی پگڑی میں جا کر لگا۔ پھر اُس نے ایک جوتا پھینکا جو آپؓ کے ناک پر لگا (جس کا داغ آخری عمر تک چہرے پر موجود رہا) فرمایا کرتے تھے کہ قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ کے سامنے تبلیغ کی کارروائی کا یہ نشان پیش کروں گا۔
ایک دفعہ زیرتبلیغ دو بھائیوں کے اصرار پر آپؓ اُن کے ایک جلسے میں شامل ہوئے۔ وہاں بھی مولویوں نے فحش کلامی شروع کر دی۔ آپؓ نے انھیں سمجھایا کہ ایسا کرنا قرآنی تعلیم کے خلاف ہے اس پر وہ لوگ اَور بگڑ گئے اور ڈنڈا لے کر آپ کو مارنے کے لیے لپکے۔آپ تو ﷲ کے فضل سے بچ گئے لیکن ان لوگوں کا آپس میں ہی جھگڑا ہوگیا۔ اس پر زیرتبلیغ دونوں بھائیوں نے وہیں احمدیت قبول کرنے کا اعلان کردیا۔
1901ء میں جب آپؓ قادیان سے بیعت کرکے واپس تشریف لائے تو آپ کی بے انتہا مخالفت ہوئی۔ سات مولویوں کو لایا گیا جنہوں نے یہ فتویٰ دیا کہ آپؓ کا نکاح ٹوٹ گیا ہے چنانچہ آپؓ کے سسر اپنی بیٹی کو لینے آگئے اور اُسے کہنے لگے کہ تمہارا شوہر چوڑھا ہو گیا ہے اس وجہ سے تمہارا اب اس کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں، تمہارا نکاح ٹوٹ گیا ہے۔ آپؓ کی بیوی نے کہا کہ یہ شخص پانچ وقت کی نمازیں پڑ ھتا ہے اور تہجدگزار ہے، میں بھی اس کے ساتھ تہجد پڑھتی ہوں۔اگر یہ بےدین ہوگیا ہے تو میں بھی بےدین ہوگئی ہوں اور مَیں آخری دم تک اپنے خاوند کے ساتھ ہی رہوں گی۔ اس پر لوگ یہ کہتے ہوئے وہاں سے چل دیے کہ یہاں مرزائی مرض آگیا ہے۔
حضرت محمد عظیم صاحب کی وفات 1946ء میں ہوئی۔ آپ کی دو بیویاں تھیں جن سے بارہ بیٹیاں اور چار بیٹے تھے۔ آپ بستی سہرانی (ڈیرہ غازی خان) میں مدفون ہیں۔
حضرت میاں محمد عظیم صاحبؓ بیان فرماتے تھے کہ مَیں نے حضورؑ سے عرض کیا کہ حضور! مَیں نے دوسری شاد ی کی ہے، دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ اولاد صالحہ عطا فرمائے۔ فرمایا: اللہ تعالیٰ آپ کو اولاد صالحہ دے گا جو تہجد گزار ہوگی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ دو لڑکے بہت مخلص عطا ہوئے۔ مَیں نے یہ بھی عرض کی کہ غیراحمدی مجھے تنگ کریں گے اس کے لیے حضور دعا فرمائیں۔ فرمایا: غیراحمدی آپ کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے۔ حضور کی یہ دعا بھی قبول ہوئی۔
========================================
(حصہ سوم)
(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 18؍نومبر 2022ء)
٭… حضرت میاں خدا داد خان صاحبؓ رسائیدار 1883ء میں پیدا ہوئے، موضع گھوگھیاٹ ضلع شاہ پور (حال سرگودھا) کے رہنے والے تھے۔ والد کا نام پہلوان خان صاحب تھا۔ آپؓ کی قوم بلوچ تھی۔ 1901ء میں حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کی۔ ابتدا میں فوج کی ملازمت کے سلسلے میں کوئٹہ میں تعینات رہے اور وہاں سے 1906ء میں آپؓ نے اور آپؓ کی اہلیہ محترمہ کرم بی بی صاحبہ نے وصیت کی۔
1909ء سے 1914ء تک آپؓ جماعت احمدیہ کراچی کے سیکرٹری رہے۔ 1911ء میں حضرت مرزا محمود احمد صاحب نے انجمن انصاراللہ قائم فرمائی تو آپؓ اس انجمن کے ابتدائی ممبران میں شامل تھے۔ خلافت ثانیہ کے آغازپر 1914ء میں جب مجلس شوریٰ منعقد ہوئی تو اس میں آپؓ جماعت احمدیہ کراچی کی طرف سے شریک ہوئے۔ 1920ء میں آپؓ کی رہائش محلہ دارالفضل قادیان میں تھی۔ آپؓ نے یکم نومبر 1928ء کو عارف والا ضلع ساہیوال میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں مدفون ہوئے۔ آپ کی عمر 45سال تھی۔ آپؓ کی اولاد میں دو بیٹے اور ایک بیٹی شامل ہیں۔
٭…حضرت سردار کر م داد خا ن صاحبؓ کی ولا دت 1875ء میں ہوئی اور آپؓ کو قادیان جاکر دستی بیعت کرنے کی سعادت 1902ء میں حاصل ہوئی۔
اپنے قبولِ احمدیت کے حوالے سے آپؓ فرماتے ہیں : مَیں نے بیعت کرنے سے پہلے خواب دیکھا کہ ایک سڑک پر آنحضرت ﷺ اور حضرت مسیح موعودؑ ٹہل رہے ہیں۔ بندہ سامنے سے آرہا ہے۔ آنحضرت ﷺ بندہ کو مخاطب کرکے (انگلی کا اشارہ کرکے) فرماتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے۔ یہ تین دفعہ حضورؐ نے فر ما یا۔ جب مَیں نے 1902ء میں قادیا ن میں بیعت کی تو اُسی حلیہ میں حضورؑ کو پایا۔ بیعت کے وقت میں نے عرض کی کہ میری برادری سب شیعہ ہے حضور دعا فرماویں۔ حضورؑ نے فرمایا مَیں نے دعا کردی ہے (بعدازاں وہ سب احمدی ہوگئے)۔ پھر حضورؑ نے خطاب فرمایا جس میں یَاتُوْ نَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْق کا ذکر کیا اور فرمایا کہ کیا یہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی! اور فرمایا کہ تمہارے درمیا ن وہی مسیح بول رہا ہے جس کی خبر خدا اور اُس کے رسولﷺ نے دی تھی۔
اس کے بعد مَیں نے حضورؑ کی زیارت 1904ء بمقا م گورداسپور کی تھی جب حضور پر کرم دین بھیں والے نے مقدمہ کر رکھا تھا۔ اتنے دن ٹھہرا رہا جب تک مقدمہ کا فیصلہ نہیں ہوگیا۔ جب مجسٹریٹ نے پانچ صد روپیہ جرمانہ کیا تو خواجہ کمال الدین نے فوراً روپیہ آگے رکھ دیا، تب بندہ عدالت میں موجود تھا۔ اس کے بعد بندہ ملازم ہوکر بمقام شب قدر علاقہ پشاور میں تھا کہ حضور کے وصال کی خبر پہنچی۔
بندہ نے حضرت مسیح موعودؑ کی وفات کے بعد حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کی بیعت کی۔ پھر اُن کی وفات کے بعد ڈاکٹر محمد حسین شاہ صاحب ہمارے پاس پہنچے اور کہنے لگے کہ بیعت میں جلدی نہ کرنی چاہیے۔ میں نے کہا جب خلیفہ خدا بناتا ہے تواس میں جلدی یا نہ جلدی کے کیا معانی ہوئے۔ جس کو خدا خلیفہ بنائے گا ہم بیعت کرلیں گے مگر آپ کے یہاں آنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر حضر ت محمود خلیفہ ہوئے توآپ لوگ بیعت نہیں کریں گے۔ ہاں اگر محمدعلی خلیفہ ہوئے تو ضرور بیعت کرلیں گے۔ یہ سن کر وہ سخت غصہ میں بھرگئے اور کہا کہ تم لوگ اپنے بھائیوں پر بدظنی کرتے ہو، تم کو کیا معلوم ہے کہ ہم بیعت کریں گے کہ نہیں۔ میں نے کہا کہ یہا ں آپ کے آنے کا کیا مطلب تھا؟
بندہ ہر جلسہ پر حاضر ہوتا رہا۔ سوائے دو سال کے جب مجھے ملازم ہو نے کی حالت میں عدن بھیجا گیا۔ بندہ نے 1931ء میں پنشن لے لی اور مستقل طور پر قادیان میں آگیا کیونکہ مکان ہم نے 1919ء میں یہاں بنالیے تھے۔ یہاں آتے ہی حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی خدمت میں لکھ بھیجا کہ میں اپنی زندگی سلسلہ کے کاموں کے لئے وقف کرتا ہو ں۔ بندہ کو محلوں سے چندہ وصول کر نے پر لگایا گیا۔ پھر سیکرٹری وصایا اور پھر انسپکٹر وصایا بنایا گیا۔ بعد میں باقاعدہ دفتر بہشتی مقبرہ میں کام کرنا شروع کیا اور دفتر والوں نے مجھے بتایا کہ حضور نے آپ کی وقف زندگی پر خوشی کا اظہار فرمایا ہے۔
جب 1934ء میں احرار کا جلسہ قادیان میں ہوا تو حضرت میاں شریف احمد صاحبؓ نے مجھے دفتر سے نکال کر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی حفاظت کا انچارج مقرر فرمایا۔
حضرت سردار صاحبؓ 1934ء سے 1947ء تک مذکورہ خدمات نہایت فرض شناسی سے بجا لاتے رہے۔ آپؓ سچے اور مخلص فدائی احمدی تھے۔ سلسلہ کی مالی تحریکات میں ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ آپؓ موصی بھی تھے اور جائیداد کے تیسرے اور آمدنی کے نویں حصے کی وصیت کی ہوئی تھی۔ تحریک جدید کے مالی جہاد میں بھی شامل تھے۔
آپؓ نے دو شادیاں کی تھیں۔ چنانچہ آپؓ کو حضرت پیر منظور محمد صاحبؓ اور حضرت مولوی محمداسماعیل صاحبؓ حلالپوری کی دامادی کا شرف حاصل تھا۔ آپؓ کی اولاد میں تین بیٹیاں شامل تھیں۔
٭…حضرت میر خداداد خان صاحبؓ سابق والیٔ قلات 1904ء میں حضرت مسیح موعودؑ کے حلقہ غلامی میں شامل ہوئے۔ آپؓ میر احمد خان دوم کی نسل میں سے تھے جو بادشاہ اورنگزیب کے زمانے میں قلات میں براہوی سلطنت کے بانی تھے۔ آپؓ میر محراب خان دوم کے بیٹے تھے۔
حضرت میر خداداد خان صاحبؓ 1857ء میں تخت نشین ہوئے تھے اور 17سال تک خطرات میں محصور رہ کر قبائلی سرداروں کی بغاوتوں کو فرو کرتے رہے۔ آپؓ کی شاہی انگشتری میں ’’خدا دادگان را خدادادہ‘‘ اور ’’دین و دنیا مرا خدا داداست‘‘ کے الفاظ نقش تھے۔ آپؓ واحد خان تھے جنہوں نے اپنی ریاست میں باقاعدہ فوج اور مرکزی خزانہ قائم کیا۔ ہمت، استقلال، خلوص اور فراست آپؓ کی سیاسی کشتی کے چپو تھے۔ آپؓ نماز اور دیگر مذہبی فرائض کی ادائیگی بہت اہتمام اور التزام سے کرتے تھے اور عالمانہ مذاق رکھتے تھے۔ آپؓ 37سال تک حکمران رہے اور بلوچستان کے انگریز ایجنٹ گورنر جنرل کی سازش سے مارچ 1892ء میں معزول کردیے گئے اور تاج شاہی 10نومبر 1893ء کو آپؓ کے بیٹے محمود خان کو پہنادیا گیا۔ آپؓ نے20مئی 1909ء کو پشین میں وفات پائی اور وہیں سپرد خاک کیے گئے۔
٭…حضرت ما سٹر محمد پریل صاحبؓ 1886ء میں پیدا ہوئے۔ کنڈیارو ضلع نوابشاہ سندھ کے رہنے والے تھے۔ قادیان جاکر حضرت اقدسؑ کی بیعت کی اور پھر کئی دن وہاں مقیم رہ کر کسب فیض کرتے رہے۔
آپؓ جب حضرت مسیح موعودؑ کے چشم دید واقعات بیان کرتے تو آپؓ پر وارفتگی کا عالم طاری ہوجاتا۔ آپؓ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ فرمایا کرتے تھے:’کہاں ہے وہ ہمارا سندھی نوجوان!‘۔ مَیں اردو بہت کم سمجھتا تھا اور اُس وقت قادیان میں سندھی بالکل نہ سمجھی جاتی تھی۔ نامعلوم وہ کون سی غیبی طاقت تھی جو مجھے قادیان لے گئی۔ باوجود ایک دیہاتی قسم کا نوجوان ہونے کے میں نے اس قدر طویل سفر کیا اور عمر بھر کے لیے اپنا دل اس دلرُبا کو دے آیا جو اس مقدس بستی میں نور ہدایت کا آفتا ب بن کر چمکا تھا۔
آپؓ بیان فرماتے ہیں : اس عاجز نے جولائی1905ء میں بیعت کی۔ اس زمانہ میں مسجد مبارک بہت چھوٹی تھی۔ چار پانچ آدمی صف میں بیٹھتے تو جگہ بھر جاتی۔ اس ماہ میں بہت گرمی تھی۔ حضرت مسیح موعودؑ جب مسجد میں تشریف آور ہوتے تو مَیں پنکھا جھلتا تھا۔ مولوی محمدعلی صاحب کا دفتر مسجد مبارک کے اوپر تھا۔ ایک دن اُن کو کچھ حضورؑ کے آگے گزارش کرنی تھی اور ان کا خیال تھا کہ بیٹھ کر گزارش کریں۔ یہ عاجز حضرت اقدسؑ کے زانو مبارک سے اپنے زانو ملاکر پنکھا چلاتا تھا کہ مولوی صاحب نے کسی کو اشارہ کیا کہ مجھے پیچھے ہٹنے کے لیے کہے۔ اُس آدمی نے جب مجھے اشارہ کیا اور مَیں اُس کے اشارے پر پیچھے ہٹنے لگا تو حضرت اقدسؑ نے میرے زانو پر ہاتھ مارکر فرمایا: مت ہٹو۔ تو یہ عاجز پھر وہیں بیٹھا رہا اور پنکھا چلانے لگا اور مولوی صاحب نے کھڑے ہوکر اپنی گزارش کی اور حضرت اقدسؑ نے ان کو مناسب جواب دیا۔ اُس زمانہ میں تو اِس بات کا خیال نہیں رہا لیکن اب اِس بات سے بہت سرور اور لذّت آتی ہے کیونکہ میں ایک ادنیٰ آدمی اور بےسمجھ، اردو بھی پوری نہیں آتی تھی، اور مولوی محمدعلی صاحب ایم اے اور عالم تھے مگرنبی اللہ کی نظر میں ادنیٰ اوراعلیٰ ایک ہی ہوتا ہے۔
یہ عاجز پندرہ دن صحبت میں رہا، ہر دن حضرت اقدسؑ کا نورانی چہرہ روشن دیکھنے میں آتا تھا۔ اس عاجز کو یہی معلوم ہوتا کہ اب حمام خانہ سے غسل کرکے آرہے ہیں اور سرِمبارک کے بالوں سے (جو کندھے کے برابر تھے) گویا موتیوں کے قطرے گر رہے ہیں۔ اس عاجز نے پندرہ روز میں حضرت اقدس کے چہرہ ٔمبارک میں غم نہیں دیکھا۔ جب بھی مجلس میں آتے، خوش خندہ پیشانی دیکھنے میں آتے۔ دیگر یہ بات دیکھنے میں آئی کہ مولوی محمد احسن صاحب امروہی اور دیگر علماء بڑی بڑی حدیثوں کی کتابیں لے آتے اور عرض کرتے کہ حضور اس کتاب میں یہ حدیث ہے، اس کا کیا مطلب ہے؟ تو حضورؑ نے کبھی بھی نہیں کہا کہ اچھا کتاب دیکھوں تو جواب دیتا ہوں، مگر فوراً فرماتے کہ یہ مطلب ہے۔ اس سے عاجز پر یہ اثر ہوا کہ نبیوں کی یہی شان ہے۔
حضرت ماسٹر صاحبؓ بہت دعاگو اور صاحب رؤیا و کشوف تھے۔ 13؍اگست 1971ء کو کراچی میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین ہوئی۔
٭…حضرت میاں پیر بخش صاحبؓ (بیعت 1904ء بمقا م قادیان)۔ آپؓ کا تعلق بستی رنداں سے تھا۔ آپؓ کو یاد تھا کہ ایک شخص سید احمد شاہ صاحب نے حضوؑر کی خدمت میں بیعت کرنے کے بعد آنحضرت ﷺ کاسلام پہنچایا تھا اور حضورؑ نے فرمایا تھا: اچھی بات۔
آپؓ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم حضرت اقدسؑ کے پاؤں دبا رہے تھے کہ ایک مولوی صاحب نے منع کیا مگر حضورؑ نے فرمایا : ان کو کچھ نہ کہو۔
========================================
(حصہ چہارم.آخر)
(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 25؍نومبر 2022ء)

بستی رنداں اور بستی سہرانی کے صحابہ کرامؓ

اس بستی سے 7؍افراد کے وفد کو 1901ء میں قادیان جانے کی توفیق ملی۔ لمبی مسافت طَے کرکے یہ وفد بٹالہ پہنچا تو مولوی محمد حسین بٹالوی وہاں بیٹھا ہوا تھا۔ اُس نے پوچھا کون ہو اور کہاں جا رہے ہو؟ انہوں نے بتایا کہ ڈیرہ غازی خان سے آئے ہیں اور امام مہدی کی زیارت کرنے قادیان جا رہے ہیں۔ اُس نے کہا کہ مرزا غلام احمد میرا ہم مکتب رہا ہے۔ وہ جھوٹا مکار اور ٹھگ ہے (نعوذ باللہ) آپ وہاں جا کر کیا کریں گے، بہتر ہے کہ یہیں سے واپس ہوجائیں۔ انہوں نے کہا کہ اُن سے مل کر ہی واپس جائیں گے۔ جب قادیان پہنچے تو ایک سکھ سے پوچھا کہ ہم نے مرزا صاحب سے ملنا ہے۔ اُس نے لباس سے سمجھا کہ یہ دیہاتی لوگ ہیں، زمین وغیرہ کا معاملہ ہوگا اور مرزا امام الدین وغیرہ کا پوچھ رہے ہیں، لہٰذا وہ اُن کے ڈیرے پر لے گیا۔ مرزا امام الدین کے ڈیرے پر نوکر چاکر بیٹھے بھنگ کا گھوٹا لگا رہے تھے اور انتہائی بری مجلس لگی ہوئی تھی۔ یہ احباب وہاں پہنچ کر بہت پریشان ہوئے کہ ہم نے یونہی اتنی مسافت طے کی۔ اس پر وہ سکھ سمجھ گیا اور کہنے لگا کہ ایک اَور مرزا صاحب بھی ہیں۔ پھر اُس نے مسجد مبارک کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ وہاں مرزا صاحب مسجد میں آپ کو ملیں گے۔ یہ دوست سیڑھیاں چڑھ کر مسجد میں تشریف لے گئے تو نماز مغرب کا وقت تھا۔ دیکھا کہ کوئی نہایت ہی نیک و نرالا انسان سجدے میں پڑا ہوا ہے۔ یہ انتہائی بےقرار تھے کہ حضور سجدہ سے سر اٹھائیں تاکہ ہم دیدار کریں۔ حضورؑ کے چہرے سے معصومیت ٹپک رہی تھی۔ حضورؑ نماز سے فارغ ہوئے تو سب نے السلام علیکم عرض کی۔ حضرت مولوی محمد عیسیٰ صاحبؓ نے امیر وفد کی حیثیت سے عرض کیا کہ حضورہم آپ کی تحریری بیعت کر چکے ہیں اور اب دستی بیعت کے لیے حاضر ہوئے ہیں۔ حضورؑ نے انتہائی پُرشوکت الفاظ میں وعلیکم السلام فرمایا۔ پوچھا: کہاں سے آئے ہیں؟ عرض کیا کہ ڈیرہ غازی خان سے۔ حضوؑر بہت خوش ہوئے کہ اتنے دُور افتادہ مقام پر بھی ہمارا پیغام پہنچ چکا ہے۔ پھر یہ وفد ایک ہفتہ تک قادیان میں مقیم رہا۔ اس وفد میں درج ذیل سات احباب شامل تھے:
1۔حضرت مولوی محمد عیسیٰ صاحب رندؓ بستی رنداں کے وہ مبارک وجود ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعودؑ کا پیغام سنتے ہی آمنا و صدقنا کہا۔ آپؓ رند قوم میں نمایاں مقام رکھتے تھے۔ رزق حلال اور صدق مقال آپؓ کی خصوصیات تھیں۔ بستی رنداں میں امام الصلوٰۃ تھے۔ تقویٰ و طہارت، عشق رسولؐ اور عشق قرآن کی نعمت سے مالامال تھے۔ قبول احمدیت سے قبل اکثر امام مہدی کی زیارت سے سرفراز ہونے کی دعا کرتے تھے۔ یہ دعا قبول ہوئی۔ خلافت کے عاشق تھے اور وفات سے قبل اپنی اولاد کو آخر دَم تک خلافت سے وابستہ رہنے کی تلقین کی۔ آپؓ نے 1916ء میں نماز فجر کے دوران عین حالتِ سجدہ میں وفات پائی۔ اولاد میں 5بیٹے اور 3بیٹیاں چھوڑیں۔
2۔حضرت اللہ بخش صاحب رندؓ
3۔حضرت مولوی جان محمد صاحبؓ (المعروف حاجی جندوڈا صاحب) صاحبِ کشف و رؤیا تھے۔ قرآن مجید میاںحسن صاحب سے پڑھا۔ والدین بچپن میں ہی فوت ہوگئے تو بارہ چودہ سال کی عمر میں آپ گھرسے نکل کھڑے ہوئے اور پھرتے پھراتے موضع نانک پور ضلع مظفرگڑھ میں ایک پیر صاحب کے پاس پہنچ گئے۔ وہاں ایک مولوی صاحب سے کچھ پڑھتے رہے اور بچوں کوقرآن مجید بھی پڑھایا کرتے تھے۔ ایک دن باتوں باتوں میں امام مہدی کا ذکر آیا تو آپؓ کے استاد نے اپنے شاگردوں سے فرمایا کہ عین ممکن ہے کہ آپ لوگوں میں سے کوئی امام مہدی کو دیکھے۔
آپؓ آزادخیال آدمی تھے۔ جب وہاں دل نہ لگا تو وطن کی طرف مراجعت فرمائی۔ چونکہ عالم آدمی تھے اس لیے مقامی لوگوں کے اصرار پر بستی بزدار میں درس وتدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ اس وقت آپ کی عمر پچیس تیس سال کی ہوگی۔ ایک بیوہ سے شادی کرلی مگرپچیس برس تک اس سے اولاد نہ ہوئی۔ اولاد کے حصول کے لیے دعاؤں میں لگے رہے تو بہت سے بزرگوں سے کشفی حالت میں ملاقات ہوئی جنہوں نے بتایاکہ آپؓ کی اولاد نہ ہوگی۔ بالآخر ارادہ کیاکہ حضرت سلطان باہوؒ کی خانقاہ پرجاکردعا کریں۔ روانگی سے ایک رات پہلے رؤیا میں سلطان باہوؒ ملے اورفرمایا کہ میرے پاس آنے کی ضرورت نہیں، اس بیوی سے اولاد نہ ہوگی۔ اس پر آپؓ نے نکاح ثانی کے لیے دعا شروع کی تو کچھ عرصے بعد چاروں خلفائے راشدین کو خواب میں دیکھا جن کی طرف سے ایک چھوٹا سا خوبصورت دوپٹہ آپ کوعطاہوا۔ اسی رؤیا کی بِنا پرآپ نے اپنے ایک پرانے دوست کوپیغام دیا جن کی چھوٹی سی لڑکی تھی۔ دوست نے کہا کہ آپؓ کی عمر زیادہ ہے اورلڑکی چھوٹی ہے، دوسرے یہ کہ میرے پاس اس لڑکی کے سوا کوئی اولاد نہیں اس لیے میں اس لڑکی کواتنی مسافت پرنہیں دے سکتا۔ آپؓ نے پوچھا کہ اگرآپ کی مزید اولاد ہوجائے تو پھر بھی مجھے لڑکی نہ دوگے؟ اُنہوں نے اس شرط پرلڑکی دینے پر آمادگی ظاہر کردی۔ خدا کی شان کہ کچھ عرصے میں اُن کے ہاں ایک لڑکا اور ایک لڑکی اَور پیدا ہوگئے تو اُنہوں نے آپؓ کانکاح اپنی لڑکی سے کردیا۔ اس شادی سے مولوی صاحبؓ کے ہاں تین لڑکے اور دو لڑکیاں پیدا ہوئیں۔ پھرآپؓ نے مستقل رہائش بستی بزدار میں اختیار کرلی اور درس و تدریس کے لیے اپنی ذاتی زمین پر ایک مسجد بھی بنوائی۔
ایک روز آپؓ نے رؤیا میں دیکھا کہ ایک اونچے مکان پرایک نہایت خوبصورت اور وجیہ شخص ٹہل رہاہے اورکہہ رہاہے کہ ایک شخص پہلے آیا اور اب مَیں آیا ہوں اور کہ اس بات کا اعلان کردو۔ آپؓ فرمایا کرتے تھے کہ وہ حضرت مسیح موعودؑ تھے۔ چنانچہ آپؓ اور حضرت مولوی ابوالحسن صاحبؓ نے اکٹھے تحریری بیعت کرلی۔ آپ دونوں کسی زمانے میں ہم درس بھی رہے تھے۔ پھر آپؓ اور حضرت اللہ دتہ صاحبؓ دونوں بستی مندرانی جاکر حضرت شاہ محمد صاحبؓ سے ملے اور حضورؑ کے حالات معلوم کیے۔ اس کے بعد حضرت مولوی جندوڈا صاحبؓ اور حضرت اللہ بخش صاحبؓ قادیان گئے۔ کچھ سفر پیدل کیا اور کچھ سواری پر۔ جب واپس گاؤں آئے تو شدید مخالفت ہوئی۔ آپؓ کی مسجد کو گرانے کی دھمکی بھی دی گئی۔ جو لوگ آپ کی مالی امداد کرتے تھے انہوں نے امداد بند کردی تو آپؓ محنت مزدوری کرکے گزارہ کرنے لگے۔
آپؓ نے مجذوبانہ زندگی بسر کی۔ اکثر مسجد میں زمین پر ہی سوجاتے۔ رات کاآخری حصہ اکثر خدا تعالیٰ کی یاد میں گزارتے۔ ابتدا سے ہی اوّل وقت پر نماز کے عادی تھے۔ اذان دیتے، اگر کوئی آجاتا تو باجماعت نمازپڑھتے وگرنہ اکیلے پڑھ لیا کرتے۔ غرضیکہ آپ نے تقویٰ سے عمربسرکی۔
4۔حضرت محمد عظیم صاحب سہرانیؓ
5۔حضرت اللہ دتہ صاحب سہرانیؓ
6۔حضرت حاجی فتح محمد صاحبؓ
7۔حضر ت مہر خان صاحب رندؓ

………٭………٭………٭………

50% LikesVS
50% Dislikes

ضلع ڈیرہ غازی خان کے بلوچ اصحاب احمدؑ (مکمل. اقساط اول تا چہارم)” ایک تبصرہ

  1. مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت پر ہر قوم اور قبیلہ کی سعید روحوں نے آپ کی بیعت کی ۔ آج ان کی نسلیں قطع نظر اس کے کہ وہ امیر تھے یا غریب تھے ساری دنیا میں پھیل چکی ہیں اور پھیل رہی ہیں ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں