عشق و وفا، ایثار و قربانی، صبر و حوصلے اور بلند عزم و ہمت کی لازوال داستان
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 23؍اگست 2010ء میں شامل اشاعت مکرم محمد محمود طاہر صاحب کے ایک مضمون میں سانحہ لاہور 28 مئی 2010ء کے حوالہ سے چند ایمان افروز واقعات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔
دارالذکر لاہور کا وہ ہال جو 28؍مئی2010ء کو انسانوں کی قربان گاہ کا ایک منظر پیش کر رہا تھا، جہاں درجنوں عباد الرحمن نے اپنے خون سے اس کے درو دیوار اور فرش کو نہلا دیا تھا۔وہ ہال اگلے جمعہ بھی ذکر الٰہی سے ویسا ہی سجا ہوا تھااور ویسے ہی فرزندان توحید سے پُر تھا جیسا کہ اس کا معمول تھا۔ حاضرین کے پائے ثبات میں جرأت و بہادری اور استقامت کا عنصر غالب نظر آ رہا تھا۔ اور یہ اﷲ ہی کی مدد، اس کی تائیدو نصرت اور اس کی طرف سے عطا کردہ سکینت تھی۔
آفرین ہے جاں نثاروں کے لواحقین پر کہ اگلے جمعہ پر بھی وہیں محو عبادت تھے جہاں ایک ہفتہ قبل اُن کے پیاروں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا۔ محترم امیر صاحب ضلع لاہور محترم منیر احمد شیخ صاحب نے دارالذکرمیں اپنی جان اپنے مالک حقیقی کو پیش کی۔ آپ کے بچے جو عموماً ماڈل ٹاؤن بیت النور میں جمعہ پڑھتے ہیں (اور 28 مئی کو بھی وہیں تھے)، 4 جون کو دارالذکرکے محراب میں نماز ادا کررہے تھے جہاں ان کے پیارے والد محترم نے جام شہادت نوش کیا تھا۔
سینکڑوں احمدی خاندان اس عظیم سانحہ سے براہ راست متأثر ہوئے۔ لیکن جہاں عورتوں کے سُہاگ لُٹ گئے، جہاں ماؤں نے اپنے جگر گوشوں کو کھو دیا، جہاں معصوم بچے اپنے باپوں کے سایہ سے محروم ہوگئے، جہاں بہنوں نے اپنے جوان بھائی گنوا دئیے، وہاں ہر زبان پر یہی فقرہ تھا: اِنَّالِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ
مجھے متعدد شہداء کی فیملیز سے ملاقات کرکے اُن کے بلند حوصلے، تسکین قلب اور عدیم المثال صبر کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ سب سے بڑھ کر لواحقین کی طرف سے اس بات پر اظہار مسرت تھا کہ ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اﷲ تعالیٰ نے ہر شہید کے گھر فون کر کے ان کے احوال معلوم کر کے ان کے حوصلے کو بلند کیا۔ یہ وہ کیفیت ہے جو دراصل برکات خلافت کے نتیجہ میں ہی ملا کرتی ہے۔ ہاں وہ خلافت جس کے نتیجہ میں اﷲ تعالیٰ خوف کی حالت کو امن میں بدل دیتا ہے۔
شہداء کے ایثار و قربانی اور جرأت و بہادری کے عظیم نمونوں سے بھی آگاہی ہوئی۔ بیت النور میں نہتے نوجوانوں نے آتشیں اسلحہ سے لیس اور خودکُش جیکٹ پہنے دو حملہ آور دہشت گردوں کو زندہ پکڑ کر قانون کے حوالہ کیا۔ ان میں سے ایک نوجوان نے جب دہشتگرد کی آگ اگلتی ہوئی بندوق پر ہاتھ ڈالا تو شدید گرم بندوق سے اُس کا ہاتھ مجروح ہوگیا لیکن اُس نے گرفت ڈھیلی نہیں کی۔ بیت النور ماڈل ٹاؤن کے سیکیورٹی گارڈ محمد انور نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایاکہ میری لاش سے گزر کر ہی کوئی مسجد میں داخل ہو گا۔ جاں نثار منور احمد قیصر صاحب دارالذکر لاہور میں سالہاسال سے گیٹ پر سیکیورٹی کی ڈیوٹی دیا کرتے تھے۔ بہادری کے ساتھ کہا کرتے تھے کہ کوئی مجھے گرائے گا تو آگے جائے گا۔ اﷲ تعالیٰ نے ان کی بات پوری کی اور جرأت اور بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہ دارالذکر کے ابتدائی جاں نثاروں میں شامل ہوئے۔
عزیزم ولید احمد شہید منفرد اعزاز کے حامل ہیں کہ دادا بھی شہید اور نانابھی شہید۔ آفرین ہے ولید کے والد محمد منور پر کہ جس کا اکلوتا بیٹا شہید ہوگیا اور وہ یہ کہہ رہا تھا ’’میرے والد بھی شہید اور میرا بیٹا بھی شہید ہوگیا۔ میرا بیٹا آگے نکل گیا میں پیچھے رہ گیا۔
دارالذکر میں شہادت کا اعزاز پانے والے ایک مخلص نومبائع مکرم ظفر اقبال صاحب باغبانپورہ لاہور بھی تھے۔ مار چ 2009ء میں بیعت کی اور بڑی تیزی کے ساتھ اخلاص و وفا میں ترقی کی ۔ جمعہ بڑے شوق کے ساتھ دارالذکر میں پڑھا کرتے تھے۔ اکثر کہا کرتے تھے کہ مخالفت ہوئی تو زیادہ سے زیادہ مار دیئے جائیں گے اور شہادت مل جائے گی۔ اﷲ نے ان کی بات پوری کی ۔ان کی اہلیہ نے ان کے بارہ میں کہا کہ یہ احمدی ہونے سے پہلے مخالفت میں جس قدر جوشیلے تھے اتنے ہی جوشیلے احمدیت میں آنے کے بعد ہوگئے۔ ان کے لواحقین ان کی شہادت کو اپنے لئے اعزاز سمجھتے ہیںاور دوسروں کو تسلیاں دیتے ہیں ۔یہ ہے احمدیت کاکردار جو اَور کہیں نظر نہیں آتا۔
مغلپورہ کے ایک جواں عمر شہید مکرم منصور احمد صاحب کے چار کمسن بچے ہیں اور سب وقف نو کی بابرکت تحریک میں شامل ہیں۔ بڑی بچی صرف چھ سال کی اور اس کے بعد بیٹا چار سال کا ہے لیکن بچوں کی تربیت پر حیرت ہوتی تھی کہ دونوں بچوں کو لمبی لمبی نظمیں یاد تھیں۔ شہید مرحوم بچوں کو موبائل فون میں نظمیں ریکارڈ کرکے دیتے، وقف نوکی کلاسز پر بڑی باقاعدگی کے ساتھ لے کر جاتے۔ خود دارالذکر میں پہلی صف میں جمعہ ادا کیا کرتے تھے۔ اُن کی والدہ نے کہا کہ مجھے شوق تھا کہ میرے بچے میرا نام پیدا کریں۔ اﷲ تعالیٰ نے میرے بیٹے کو شہادت دی ہے۔ یہ کیسی عظیم مائیں ہیں جو اپنے جگر گوشوں کی قربانیوں پر نازاں ہیں۔ اسی قسم کا اظہار محمد شاہد کی والدہ نے بھی کیا کہ میرا بیٹاسب بیٹوں سے اچھا اور خوبیوں کا مالک تھا اور واقعۃًاس لائق تھا کہ وہ اﷲ کے حضور قربانی کے لئے پیش کیا جائے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کے پوتے محترم میاں منیر عمر صاحب آف ماڈل ٹاؤن نے بھی جام شہادت نوش کر کے خاندان حضرت خلیفہ اوّل کے خون کو بھی گلشن احمدیت کی آبیاری کے لئے پیش کردیا۔
محترم محمود احمد شاد صاحب مربی سلسلہ نے مسجد بیت النور میں منبر پر احباب جماعت کو دعاؤں کی تلقین کرتے ہوئے اور اﷲ اکبر کا نعرہ بلند کرتے ہوئے اپنی جان مالک حقیقی کے سپرد کرکے واقفین زندگی کے لئے بھی مثال قائم کر دی۔ بہت ہی مرنجاں مرنج طبیعت کے مالک اور علمی مزاج کے حامل تھے۔ آپ کو متعدد بار دھمکیاں ملتی رہیں لیکن کبھی مرعوب نہیں ہوئے۔
اس سانحہ کے دوران ڈیڑھ صد کے قریب لوگ زخمی ہوئے۔ ان کے حوصلے بلند ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کے فرشتوں نے اُن کو بھی سکینت سے نوازا ہے۔ اس کی ایک ’معصوم مثال‘ ایک پیاری سی کم عمر بچی چار سالہ عزیزہ نور فاطمہ کی ہے جو کہ اپنے ابا محمد اعجازصاحب آف مغلپورہ اور دو اطفال بھائیوں کے ہمراہ دارالذکر میں جمعہ پڑھنے آئی تھی۔ ان سب کو گرنیڈ کے پھٹنے سے زخم آئے لیکن سب سے گہرا زخم نور فاطمہ کو اس کے رخسار پر آیا جو ڈیڑھ انچ کے قریب تھا۔ لیکن آفرین ہے اس معصوم بچی پر کہ تین گھنٹے مربی ہاؤس میں محبوس رہی۔ لیکن رونا تو درکنار ایک بار اُف تک نہیں کی اور جب دوسرے لوگ بولتے تو یہ انگلی کے اشارے سے منع کرتی کہ باہر گندے لوگ ہیں خاموش رہیں۔ اس پر یہ تسکین یقینا اﷲ کے فرشتے اُتار رہے تھے۔
شہداء کی قربانی اور ان کے لواحقین کے صبرو رضاکی داستان بہت طویل ہے۔ان شہادتوں کی ایک شان یہ بھی ہے کہ دونوںمقامات پر جماعت لاہور کی مرکزی قیادت کو جام شہادت نوش کرنے کی توفیق ملی۔ دارالذکرمیں محترم منیر اے شیخ صاحب امیر جماعت لاہور اور بیت النور میں میجر جنرل ناصر احمد صاحب صدر جماعت ماڈل ٹاؤن راہ مولیٰ میں قربان ہوئے اس طرح آپ حضرت مسیح موعودؑ کے بیان فرمودہ اس شعر کی بھی عملی تصویر بن گئے کہ:
من نہ آنستم کہ روز جنگ بینی پشت من
آں منم کاندر میان خاک و خوں بینی سرے
کہ میں وہ نہیں ہوں کہ جس کی بروز جنگ پشت نظر آئے بلکہ میں وہ ہوں جسے تومیدانِ جنگ میں خاک و خون سے لتھڑا ہواپائے گا۔
حضرت مسیح موعودؑ نے حضرت سید عبداللطیفؓ شہید کی شہادت پر فرمایا تھا: ’اے عبداللطیف! تیرے پر ہزاروں رحمتیں کہ تُونے میری زندگی میں ہی اپنے صدق کا نمونہ دکھایا اور جو لوگ میری جماعت میں میری موت کے بعد رہیں گے۔میں نہیں جانتا کہ وہ کیا کام کریں گے‘۔ آج حضرت مسیح موعودؑکے غلام آپؑ کی وفات کے سو سال بعد بھی وہی نمونہ دکھلا رہے ہیں جس کی مثال حضرت صاحبزادہ صاحبؓ نے قائم کی تھی۔