عظیم خواتین مبارکہ سے وابستہ یادیں

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 29؍جنوری و 5؍فروری 2024ء)
لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے2013ء نمبر1 میں محترمہ سیّدہ طاہرہ صدیقہ ناصر صاحبہ حرم حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے ایک مضمون میں اپنے مشاہدات کے حوالے سے خاندانِ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بعض بزرگ خواتین کی سیرت رقم فرمائی ہے۔


٭…سیّدہ محترمہ تحریر فرماتی ہیں کہ حضرت سیّدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کی ایک نصیحت مجھے ہمیشہ یاد رہی ہے۔ میرا میٹرک کا بورڈ کا امتحان تھا اس لیے دنوں کا کوئی احساس نہ تھا کہ آج کون سا دن ہے۔ مَیں نے اور میری ایک ہم جماعت عزیزہ نے ارادہ کیا کہ دعا کے لیے بزرگوں کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں۔ وہ جمعہ کا روز تھا۔ سب سے پہلے حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ملاقات کے کوئی آثار نہ تھے۔ ہم دونوں صحن کے کنارے پر شش وپنج کے عالم میں کھڑی تھیں کہ حضورؒ کسی کام کے سلسلہ میں صحن میں آئے۔ آپؒ ہم سے کچھ فاصلہ پر تھے۔ آپ کی نظر ہم پر پڑی لیکن آپؒ نے کچھ ارشاد نہ فرمایا اور خاموش رہے۔آپؒ کے چہرے کے تأثر سے ہمیں محسوس ہوا کہ آپؒ نے پسند نہیں فرمایا اس لیے ہم چُپ کرکے وہاں سے چلی آئیں۔اس کے بعد ہم حضرت سیّدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کے ہاں گئے۔آپؓ نے ہماری درخواست پر ہمیں اندر بلالیا۔ آنے کا مقصد پوچھا اور پھر سمجھایا کہ جمعہ کا دن نہانے دھونے کا ہوتا ہے اس لیے جمعہ کو ملاقات کے لیے نہیں آنا چاہیے۔ یہ سن کرہم بہت شرمندہ ہوئیں اور اپنی غلطی کی بھی سمجھ آئی اور پھر حضورؒ کے تأثر کی بھی سمجھ آگئی۔ مجھے حضرت سیّدہؓ کا یہ نصیحت فرمانا ہمیشہ آپؓ کے لیے دل میں ایک محبت بھری یاد کے ساتھ تازہ رہتا ہے۔
٭…حضرت سیّدہ نواب امۃالحفیظ بیگم صاحبہؓ نہایت ذہین اور صاحبِ فراست تھیں۔ آپؓ سے بھی بچپن سے ہی امّی ملاقات کرواتی رہیں لیکن آپؓ کے لیے میرے دل میں غیرمعمولی محبت اُس وقت پیدا ہوئی جب میری امّی اور بہن انگلستان گئی ہوئی تھیں اور مَیں اور ابّو گھر پر تھے۔ ایک دن اچانک مجھے آپؓ کا فون آیا کہ تمہاری امّی باہر گئی ہوئی ہیں میں نے سوچا فون کرکے تمہارا حال پوچھ لوں۔ آپؓ کے اس احسان اورحسن خلق سے دل میں آپؓ کی محبت بہت بڑھ گئی۔
ایک بار مَیں نے آپؓ سے آپؓ کے تبرک کی فرمائش کی تو آپؓ نے اپنی دو قمیضیں منگوا کر میرے سامنے رکھ دیں کہ جو پسند ہے لے لو۔پھرایک مرتبہ آپؓ نے ازخود شفقت فرماتے ہوئے مجھے حضرت مسیح موعودؑ کے کپڑے کا ایک ٹکڑا بطور تبرک عنایت فرمایا۔
حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی وفات کے بعد مَیں اپنے بیڈروم میں تھی۔ حضرت سیّدہؓ بھی میرے پاس حضورؒ کے بستر پر تشریف فرما تھیں۔ مَیں ہال کمرہ میں جانے لگی تو آپؓ نے اپنی چادر اوڑھنے کے لیے مجھے عنایت فرمادی۔
٭… حضرت سیّدہ مریم صدیقہ صاحبہ (چھوٹی آپا) کی شخصیت کے نمایاں پہلو آپ کی عاجزی، انکساری اور محنت کی عادت تھی۔ آپ نرم خُو تھیں۔ مَیں نے آپ کو غصّے کے ساتھ بات کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ ساتھی کارکنات کے ساتھ مادرانہ شفقت کا برتائو نظر آتا تھا۔ آپ لجنہ کے کام،گھر کے کام، جماعتی ذمہ داریاں اور خاندان کی ذمہ داریاں تمام نہایت محنت سے ادا کرتی تھیں۔بڑھاپے میں بھی مَیں نے آپ کو بہت تند ہی کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرتے دیکھا۔ آپ کے گھٹنے میں تکلیف ہوتی لیکن پھر بھی آپ بلامبالغہ ایک ہی دن میں افراد جماعت کی تین تین، چارچار شادیوں میں شمولیت فرما رہی ہوتیں۔مریضوں کی عیادت، غمی اور خوشی کے مواقع ہوں تو آپ بہت با قاعدگی سے اور خیال سے اپنے عزیزوں اور ملنے والوں کے تعلقات کونباہتیں۔
مہمان نواز بھی بہت تھیں۔ عید کی صبح آپ نے سب افراد خاندان کے لیے ناشتے کی ٹرالی سجائی ہوتی اور سب کی خاطر مدارات کرکے خوشی محسوس کرتیں۔ مَیں بچپن سے ہی آپ سے ملتی رہی تھی۔ میری نمایاں کامیابیوں پر آپ ہمیشہ بہت خوش ہوئیں۔ میڈیکل کی تعلیم کے دوران بھی آپ کی شفقت اور راہنمائی مجھے اور میری ساتھی احمدی طالبات کو حاصل رہی۔ لیکن یہ بات مَیں نے نمایاں طور پر محسوس کی کہ میری شادی کے بعد آپ میرے ساتھ بالکل مختلف انداز سے پیش آتیں۔ اگرچہ آپ ہر لحاظ اور رشتے سے مجھ سے بڑی تھیں لیکن محض اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے خلیفۂ وقت کی بیوی ہونے کا شرف عطا فرمایا آپ اس رشتے کو بہت ملحوظِ خاطر رکھتیں۔
٭…حضرت سیدہ مہر آپا صاحبہ کی طبیعت اپنے الہامی نام کی طرح مہرو محبت والی تھی۔بہت خوش ذوق اور خوش پوش تھیں۔ہمیشہ بہت محبت اور پیار کے ساتھ ملتیں۔ لیکن بچپن کی ایک ملاقات اور آپ کا احسان تا زندگی یاد رہے گا۔ مَیں چھوٹی تھی اور امی کے ساتھ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی خدمت میں ملاقات کے لیے حاضر ہوئی۔ اُس روز مہر آپا حضورؓ کے پاس تھیں۔ حضورؓ اپنی علالت کے باعث کمرے میں بستر پر ہی لیٹے تھے۔ آپؓ سفید براق لباس میں ملبوس تھے۔ مَیں آپؓ کی دائیں جانب کھڑی ہوگئی اور بچپن کی لاعلمی میں مصافحہ کے لیے حضورؓ کی جانب ہاتھ بڑھادیا۔ حضرت سیّدہ مہر آپا حضورؓ کے سرہانے کھڑی تھیں۔ وہ حضورؓ کے سر کے قریب جھکیں اور بتایا: حضور! خان صاحب کی چھوٹی بیٹی مصافحہ کرنا چاہتی ہے۔ حضورؓ نے اپنا دایاں ہاتھ بڑھادیا اور میرے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں تھام کر دیر تک دعا کرتے رہے۔ مَیں نے یہ واقعہ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کو شادی کے بعد سُنایا تو آپؒ بہت زیادہ خو ش ہوئے۔


ایک مرتبہ حضرت سیدہ مہر آپا صاحبہ نے ایک عجیب بات مجھے ارشاد فرمائی۔ میرا MBBSکا نتیجہ نکلا اور مَیں نے اپنے کالج فاطمہ جناح میڈیکل کالج میں اوّل پوزیشن حاصل کی۔ اس خوشی میں ،مَیں امّی کے ساتھ مٹھائی لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔آپ حسبِ معمول نہایت محبت سے ملیں اور باتوں میں مسکراتے ہوئے فرمایا: ’’نہ کوئی جنا مَیں نے بیٹا ورنہ میں تمہیں کبھی نہ چھوڑتی ۔‘‘ مَیں اسے آپ کی محبت کا ایک انداز سمجھ کر مسکرادی۔ جب میری شادی حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ سے ہوئی تو مجھے آپ کا یہ فقرہ یاد آیا کہ ایک رنگ میں آپ کی خواہش کو اللہ تعالیٰ نے پورا فرما دیا۔
حضرت مصلح موعودؓ کی ازواج مطہر ات میں سے حضرت چھوٹی آپا اورحضرت مہر آپا کو ہی ملنے کا موقع مجھے ملا۔ مختلف مواقع پر باتوں کے دوران مَیں نے یہی محسوس کیا کہ ان دونوں کو حضرت مصلح موعودؓ سے بےحد محبت تھی۔ محبت کا ہی یہ ایک انداز تھا کہ حضرت مہر آپا نے حضرت مصلح موعودؓ کے ساتھ گزرا ہوا ایک ایک دن گِنا ہواتھا۔ ایک مرتبہ فرمایا کہ میں نے حضرت مصلح موعودؓ کے ساتھ صرف بارہ سال گزارے ہیں۔ حضورؓ کو زیادہ میک اپ وغیرہ کرنا پسند نہ تھا۔ایک مرتبہ مجھ سے فرمایا کہ بس ایک مہینہ تم اپنا شوق پورا کرلو پھر مَیں نے تمہیں سنگھار نہیں کرنے دینا۔ ایک دوسرے موقع پر فرمایا بس لپ سٹک اور کاجل کااستعمال کرلیا کرو۔


٭… حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی زوجہ محترمہ حضرت سیّدہ سرورسلطان بیگم صاحبہؓ (اُمّ مظفر) کو یہ عظیم سعادت بھی حاصل ہے کہ آپؓ کے وجودِ مبارک سے اللہ تعالیٰ نے تَریٰ نَسْلًا بَعِیْدًا کا الہام پورا فرمایا اور آپ کی دختر اوّل حضرت صاحبزادی امۃالسلام بیگم صاحبہؓ کی ولادت حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی میں ہوئی۔

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ

مجھے اپنی والدہ کے ساتھ حضرت اُمِّ مظفرؓ سے بچپن میں کئی مرتبہ ملاقات کا موقع ملا۔ اُس کی وجہ یہ تھی کہ اُمّی کو آپؓ سے خاص محبت تھی کیونکہ میری نانی نیازی پٹھان تھیں اور حضرت امّ مظفرؓ بھی نیازی تھیں۔آپؓ اُن کے ساتھ دوپٹہ بدل بہن بھی بنی ہوئی تھیں۔
حضرت اُمّ مظفرؓ کو مَیں نے جس عمر میں دیکھا وہ آپؓ کی بڑھاپے کی عمرتھی۔ ٹانگ میں فریکچر کی وجہ سے بستر پر دراز ہوتیں۔ آپؓ کا چہرہ پُرشفقت نرمی لیے ہوتا۔ سر پر ہمیشہ ریشمی تکون رومال باندھا ہوتا۔ مَیں جب کبھی بھی آپؓ سے ملنے گئی آپؓ نے ہمیشہ خادمہ سے منگوا کر مجھے بسکٹ کھانے کے لیے دیے۔ آپ کا محبت بھری نظر سے مجھے دیکھنا بھی مجھے یاد ہے۔ اِنہی ملاقاتوں کی ایک اَور برکت کا یہاں ذکر کردینا بےمحل نہ ہوگا۔ ایک بار مَیں اورامّی حضرت اُمّ مظفرؓ سے مل کر آپ کے گھر البشریٰ کے صحن میں آئے تو وہاں چارپائی پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ لیٹے آرام فرمارہے تھے۔ امّی نے اُنہیں سلام کیا اور مجھے بھی آپؓ کی چارپائی کے قریب آپؓ سے ملنے کے لیے کیا۔ آپؓ نے بہت محبت سے مجھ سے میرا نام، جماعت وغیرہ کا پوچھا۔مَیں اُس وقت قریباً 6سال کی تھی اور غالباً دوسری جماعت میں تھی اور اپنی کلاس میں اوّل آئی تھی۔ آپؓ یہ سُن کر بہت خوش ہوئے۔ پھر امّی نے مجھے آپؓ کو دبانے کے لیے کہا۔ اُس وقت مجھے دبانے کا صرف اتنا ہی مطلب آتا تھا جتنا کہ مَیں اپنے ابّا کو دباتی تھی یعنی کہ سر میں انگلیاں پھیرنا۔ اس لیے میں حضرت میاں صاحبؓ کے سرہانے بیٹھ کر اُن کے سر میں انگلیاں پھیرنے لگ گئی۔ اچانک میری نظر امّی کے گھبرائے ہوئے چہرے پر پڑی جو آپؓ کی چارپائی کی پائنتی کی طرف کھڑی تھیں اور آپ نے مجھے کہا کہ ایسے نہیں، ادھر آؤ اور پاؤں دباؤ۔ لیکن حضرت میاں صاحبؓ نے فرمایا کہ نہیں نہیں ایسے ہی ٹھیک ہے۔ ا ور مَیں کچھ دیر تک آپؓ کے مبارک سر میں ہاتھ پھیرتی رہی۔
٭…حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ کی زوجہ محترمہ حضرت سیّدہ بُوزینب بیگم صاحبہؓ کی طبیعت خاموش تھی اور بہت زیادہ ملناجُلنا نہ تھا۔ مَیں نے آپؓ کو اپنے سکول یا کالج کے فنکشنزمیں کبھی نہ دیکھا اور نہ ہی امّی کبھی آپؓ سے ملوانے کے لیے لائیں۔ لیکن میری شادی کے بعد، حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ اپنے خاندان کی جن دو بزرگ ہستیوں سے بطورخاص مجھے ملوانے کے لیے خود لے کر گئے اُن میں سے پہلی خاتون مبارکہ آپؓ ہی تھیں۔ حضورؒ آپؓ کو چچی جان بُو کے نام سے بُلاتے تھے۔ (دوسری بزرگ ہستی حضرت سیّدہ امۃالحفیظ بیگم صاحبہؓ تھیں۔)

حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ

چچی جان بُو کو شادی شدہ لڑکیوں کا اچھا پہننا اوڑھنا اور زیور وغیرہ پہننا پسند تھا۔اس لیے جس روز ہم نے آپؓ کو ملنے جانا تھا تو حضورؒ نے مجھے خاص طور پر فرمایا کہ آج اچھی طرح سے زیور وغیرہ پہن کر تیار ہونا۔ اور یہ واحد موقع تھا جب آپؒ نے مجھے خاص طور پر تیار ہونے کے لیے ارشاد فرمایا ورنہ آپؒ بذاتِ خود زیادہ سنگھار کو پسند نہ فرماتے تھے۔
حضورؒ جمعہ کے روز عصر کی نماز کے بعد بہشتی مقبرہ جاتے تھے۔ آپؒ نے مجھ سے فرمایا کہ واپسی پر ہم چچی جان بُو کو ملنے جائیں گے۔ چنانچہ ہم آپؓ سے ملنے گئے۔ حضورؒ آپؓ سے محبت اور ادب سے ملے، مجھے ملوایا اور پھر کچھ دیر تک آپؓ کے کمرے میں بےتکلّفی کے ساتھ آپؓ کے ساتھ تشریف فرما رہے۔ آپؓ کم گو تھیں ۔باوقار اور سادہ لباس(تنگ پاجامہ قمیض) اور سادہ گھر لیکن رکھ رکھائو بہت تھا۔ حضورؒ کی وفات کے بعد مَیں کئی مرتبہ آپؓ سے ملنے گئی۔آپؓ غیرمعمولی شفقت اور محبت سے مجھے ملتیں اور خاطرتواضع بھی فرماتیں۔ چند مرتبہ مجھے آپؓ کے ہاں گھر کی بنی آئس کریم کھانے کا موقع ملا۔ آئس کریم کھلانے کے بعد خادمہ سے کہہ کر بڑے اہتمام سے چلمچی اور پانی کا جگ منگوا کر ہاتھ دھلواتیں۔ آپ کی بڑی صاحبزادی محترمہ آپا باری صاحبہ نے مجھے بتایا کہ جب کبھی بھی تمہارا ذکر کرتیں تو ہمیشہ تمہیں چھوٹی دلہن کہہ کر یاد فرماتیں۔
حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے مجھے بتایا کہ قادیان میں جمعہ کی نماز کے بعد ہم لڑکے ہمیشہ چچی جان بُو کے گھر جاتے اور آپؓ شکرپاروں، پتوڑ (پالک کے پتوں کے پکوڑے) اور چائے کے ساتھ سب کی تواضع فرماتیں۔ آپؓ کی یاد میں حضورؓ نے صاحبزادہ مرزا فرید کو فرمایا کہ اب تم یہ تیار کروایا کرو اور اُس کا نام ’’چچی جان بُو سٹائل دعوت‘‘ رکھا۔
٭…حضرت مسیح موعودؑ کی دوسری نسل کی خواتین میں سے جن کے ساتھ میرا بےانتہا قریبی، گہرا اور لمبا تعلق رہا وہ حضرت سیّدہ صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ تھیں۔ عمر کے بہت بڑے فرق کے باوجود پورے خاندان کی خواتین میں سے آپ مجھے اپنی گہری دوست محسوس ہوئیں اور آپ کا رویّہ بھی میرے ساتھ ایسا ہی تھا کہ آپ کی بڑی بہو محترمہ عتیقہ فرزانہ صاحبہ نے ہنستے ہوئے مجھے کہا کہ آپ کے ساتھ تو خالہ کا ہم عمر سہیلیوں والا تعلق تھا۔
اگرچہ آپ کے ساتھ میرا تعلق تو بچپن سے ہی تھا لیکن شادی کے بعد جو تعلق قائم ہوا وہ بالکل مختلف نوعیت کا تھا۔آپ مجھ سے ایسے ہی محبت بھرا سلوک کرتیں جیسے کہ کوئی ہم عمر بہن ہو۔ میرے اندازے کے مطابق حضرت مصلح موعودؓ کے بعد آپ کو سب سے زیادہ محبت حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ سے ہی تھی۔ اس حوالے سے آپ نے اس محبت کی برسات مجھ پر بھی ساری عمر جاری رکھی۔

حضورؒ کو بھی آپ سے بہت پیار تھا اور حضورؒ آپ پر بہت اعتماد بھی کرتے تھے۔میری بری کی تیاری بھی آپ نے ہی کی۔ اس غرض سے آپ لاہور بھی تشریف لے گئیں۔ مجھے بعد میں کہنے لگیں کہ مجھے زیور کا ایک اَور سیٹ زیادہ پسند آیا تھا لیکن جو رقم بھائی نے دی تھی وہ کم تھی اور مصطفیٰ بھی ساتھ نہ تھے اس لیے میں وہ نہ لے سکی جس کا آپ کو افسوس تھا۔ ریت کا جوڑا بھی آپ نے ہی تیار کروایا۔ دلہن کے لیے ہر ضروری چیز اہتمام سے رکھی اور مجھے بھی کہنے لگیں کہ میں نے کہا کہ اس کی تو پہلی شادی ہے ناں۔ شادی کے بعد کپڑے کی بچی ہوئی کترنیں تک حفاظت سے مجھے دیں اور ایک بٹوہ بھی اُن کا تیار کروا کردیا۔ بری کا سامان آپ کی بڑی صاحبزادی محترمہ امۃالرؤوف صاحبہ شادی سے پہلے ہمارے گھر دینے کے لیے تشریف لائیں اور ولیمے کے روز بھی انہوں نے ہی مجھے تیار کیا۔ تیاری کے دوران سارا وقت حضرت صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ ہمارے ساتھ تشریف فرما رہیں۔ اُس کمرہ میں حضرت مسیح موعودؑ کا پلنگ بچھا ہواتھا۔ آپ اُس پر ٹیک لگا ئے بیٹھی رہیں اور اس دوران گفتگو بھی کرتی رہیں۔ مجھ سے فرمایا تم نے شاید ہمارے گھر آنا تھا اس لیے شروع سے ہی تم سے پیار تھا۔
حضورؒ کی زندگی میں بھی آپ کا میرے ساتھ محبت وپیار کا سلوک رہا لیکن حضورؒ کی وفات کے بعد تو آپ کے تعلق میں ایک اَور ہی رنگ پیدا ہوگیا۔ ہر طرح سے ہر پہلو سے آپ نے میرے ساتھ محبت، شفقت، ہمدردی، پیار اور اپنائیت کا سلوک فرمایا۔ میرے ساتھ یوں تعلق رکھا جیسے کہ آپ اپنے بھائی کی امانت کا پوری طرح سے خیال رکھ رہی ہوں۔ یہ بھی نہیں تھا کہ آپ اپنی باتوں سے میرے ساتھ اس بات کا اظہار کرتی ہوں بلکہ کبھی بھی آپ نے یہ بات مجھے جتائی نہ تھی لیکن عملاً آپ کے سارے تعلق پر نظر ڈالتی ہوں تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ آپ نے میرے ساتھ تعلق میں اسے اپنی ذمہ داری سمجھا اور خوب نبھایا۔ حضورؒ جب مجھے بیاہ کر لائے تو میرے ساتھ موٹر میں آپ ہی تشریف فرما تھیں۔حضورؒ فرنٹ سیٹ پر بیٹھے تھے۔ جب حضورؒ کی وفات ہوئی تو اسلام آباد سے ربوہ آتے ہوئے بھی آپ ہی میرے ساتھ موٹر میں بیٹھیں۔ میرے جذبات کا بہت گہرا خیال رکھا۔ چلتے وقت مجھے فرمایا: ’’بھائی کا تکیہ ساتھ رکھ لو۔‘‘ یہ خیال آپ کی حسّاس طبیعت کو ہی آسکتا تھا کہ شاید اسی طرح مجھے کچھ سکون محسوس ہو۔
محترمہ صاحبزادی امۃالقدوس صاحبہ نے حضورؒ کی وفات پر نظم لکھی تو مجھے کہنے لگیں: تم نے قوسی ؔکی نظم پڑھی ہے۔اُس میں دو شعر تمہارے متعلق بھی کہے ہیں۔
میری عدّت کی مدّت کے دوران آپ باقاعدگی سے شام کو میرے ہاں تشریف لاتی رہیں۔کئی مرتبہ موتیے کے پروئے ہو ئے پھول بھی میرے لیے لاتیں۔
جب تک آپ صحت کی حالت میں رہیں نہایت اہتمام سے مجھے عید کا تحفہ بھجواتی رہیں۔ عیدالفطر پر جوڑا اور چوڑیاں اور کبھی ساتھ دیسی عطر بھی اور عیدالاضحی پر گوشت کا تحفہ باقاعدگی سے بھجواتیں۔ عیدالفطر کی صبح لذیذ شیرخرما آپ کی طرف سے لازماً آتا۔ خادمہ ٹرے میں سجاکرعید کا تحفہ لاتی۔ میری ملازمائوں کے لیے بھی عیدی ساتھ بھجواتیں۔ لفافے پر اپنے ہاتھ سے ’’عیدی ملازمین‘‘ لکھا ہوتا۔ آپ اپنے خادموں کی عزت نفس کا بھی خیال رکھتیں۔ مجھ سے فرمایا کہ مَیں اپنے ملازموں کو کبھی نوکر نہیں کہتی بلکہ ہمیشہ ملازم کہتی ہوں۔ مَیں نے آپ کو ملازموں کے شکوے کرتے ہوئے کبھی نہ دیکھا۔
آپ بسااوقات مجھے کھانے کا تحفہ بھجواتیں۔ آپ کے ہاں کھانا بہت اچھا پکتا تھا کیونکہ آپ خود نگرانی فرماتی تھیں۔ شکار مجھے بہت پسند ہے۔ اس لیے شکار پکتا تو آپ مجھے بھی بھجواتیں جو نہایت خوش شکل اور خوش ذائقہ ہوتا۔
جب مَیں آپ سے ملنے جاتی تو اکثر اصرار سے مجھے کھانے پر روک لیتیں۔ میرے پاس دوپٹہ نہ ہوتا تو ہمیشہ میرے کپڑوں سے ملتا جلتا کوئی اپنا دوپٹہ نکال کر مجھے دینا کہ یہ اوڑھ لو۔ عید کی دوپہر آپ نے دعوت کی ہوتی۔ اگرچہ اُس روز میرے ہاں بھی دعوت ہوتی لیکن آپ ضرور مجھے مدعو کرتیں۔ عید کی دوپہر مَیں حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کے بچوں کو کھانے پر بُلایا کرتی تھی۔ آپ بہت باریکی میں باتوں کا خیال رکھا کرتی تھیں۔ مجھ سے کئی دفعہ فرمایا کہ مَیں نے اپنی دعوت پر بھائی کے بچوں کو نہیں بُلایا تاکہ تمہاری دعوت خراب نہ ہو۔ آپ نہایت نفیس مزاج اور صفائی پسند تھیں۔ گھر بھی شیشے کی طرح چمکتا اور آپ کا غسلخانہ بہت صاف ستھرا ہوتا۔ہر چیز اپنی جگہ پر چمکتی ہوئی بےداغ۔ کھانے کے بعد ہاتھ دھونے اور کُلّی کرنے کے بعد آپ پان کھاتیں۔ ایک دفعہ فرمایا: مجھے سمجھ نہیں آتی لوگ کُلّی کیے بغیر کیسے پان کھا لیتے ہیں۔
مجھے بھی پان پسند تھا۔ آپ کے پاندان سے اَن گنت مرتبہ پان کھانے کا موقع ملا۔ پاندان نہایت صاف ستھرا، سلیقے سے ٹِکا ہوا ہوتا۔ آپ کو میرے شوق کا علم تھا اس لیے جب بھی جاتی ہمیشہ پان کھانے کے لیے ارشاد فرماتیں۔ اگر پاندان میں الائچی نہ ہوتی تو خاص طور پر خادمہ سے کہہ کر منگواتیں۔ آپ نے آخر عمر میں خود پان کھانا ترک کردیا تھا لیکن مَیں جب بھی جاتی میرے لیے ضرور کہہ کر پاندان منگواتیں ۔کھانے کی میز پر ہمیشہ مجھے اپنے دائیں ہاتھ بٹھاتیں اور خاص خیال سے ہر چیز لینے کے لیے کہتیں۔ میرے ساتھ آئی ہوئی خادمہ اور ڈرائیور کو بھی خیال سے کھانا بھجواتیں۔
آپ نے مجھے 1982ء سے اپنے ساتھ بطور نائب صدر لجنہ ربوہ کے طور پر خدمت پہ متعین کرلیا اور پھر قدم قدم پر مجھے اپنے ساتھ رکھتیں۔ حضرت چھوٹی آپا کے ہاں مجلس عاملہ پاکستان کی میٹنگ ہوتی تو آپ مجھے اپنے ساتھ لےکر جاتیں۔ محلوں میں انتخابات کے لیے جاتیں تو بھی مجھے ساتھ لےکر جاتیں۔ لجنہ ربوہ کے اجتماع اور جلسوں کے مواقع پر صدارت کے لیے حضرت چھوٹی آپا کو مدعو کرتیں اور مجھے بھی ہمیشہ ان کے ساتھ بٹھاتیں۔ مجھے بہت قریب سے آپ کو کام کرتے دیکھنے کا موقع ملتا۔ مَیں نے دیکھا کہ جلسوں وغیرہ کے پروگرام کی کاپی پر ہر تقریر، نظم پڑھنے والی کے بارہ میں اپنے تأثرات نوٹ فرما لیتیں۔ پھر آہستہ آہستہ آپ نے مجھے اکیلے ہی حلقوں میں بھجوانا شروع کردیا۔ لیکن کہیں بھجوانے سے پہلے ضرور مجھ سے دریافت فرماتیں کہ فلاں دن فلاں محلے میں جاسکوگی؟ 1985ء میں آپ نے لجنہ ربوہ کا شعبہ تعلیم میرے سپرد فرما دیا۔
سالہا سال تک صدرات حلقہ جات لجنہ ربوہ کی ماہانہ میٹنگ آپ کے گھر پر منعقد ہوتی رہی۔ موسم کی مناسبت سے سب کی تواضع کرتیں۔ میٹنگ کے بعد مَیں آپ کے ساتھ شام کی چائے پیتی۔ یہ میٹنگ آپ کے وسیع و عریض glazedبرآمدہ میں ہوتی۔ آپ نے کئی مرتبہ خوشی سے بتایا کہ ’’بھائی (حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ ) کو میرا برآمدہ بہت پسند تھا۔‘‘
مَیں کئی مرتبہ دلی تشکّر کے جذبات کے ساتھ حضرت باجی جان کے اس عمل کو یاد کرتی ہوں جب انٹرنیشنل مجلس شوریٰ لندن میں غالباً 1991ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے بڑے درد کے ساتھ اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ جماعت میں اس وقت صحیح تلفّظ کے ساتھ قرآن کریم پڑھنے میں کتنی کمی ہے اور فرمایا کہ مَیں آپ سب کو اس بات کے لیے پابند کرتا ہوں کہ اپنے اپنے ملکوں میں واپس جاکر میری ہدایت کے مطابق صحیح تلفّظ کے ساتھ قرآن پڑھائے جانے کی خدمت سرانجام دیں۔

خاکسار بھی اُس شوریٰ میں بطور نمائندہ شریک تھی اور حُسن اتفاق سے اُس وقت نائب صدر اور سیکرٹری تعلیم لجنہ ربوہ تھی۔ مَیں نے حضورؒ سے تمام videos جو حضورؒ نے تیار کروائی تھیں لیں اور اس عزم کے ساتھ ربوہ آئی کہ جاکر یہ کام ضرور کرنا ہے۔ لیکن اس کام کے لیے سب سے بنیادی ضرورت ایک VCR اور TV کی تھی جس کی مدد سے اُن Cassettesسے فائدہ اُٹھایا جاسکتا تھا۔مَیں نے ایک دو جماعتی ذرائع سے کوشش کی لیکن کامیابی نہ ہوئی۔آخر مَیں نے باجی جان سے عرض کیا کہ کیوں نہ ہم اپنا خرید لیں۔ فرمایا: اچھا اس مہینے چندے کی رقم آئے گی تو لے لینا۔ لجنہ ربوہ کے کُل بجٹ میں سے اس بڑے خرچ کو پورا کرنا اُس وقت بےانتہا مشکل تھا لیکن آپ نے ایک لمحے کے لیے بھی تردّد نہ فرمایا اور اس لازمی ضرورت کو پورا کرنے کی اجازت دی۔ TVسولہ ہزار کا آیا اور VCRنو ہزار کا۔ وقفے وقفے سے دونوں اشیاء لیں۔ پھر ہر محلے کو cassettesمہیا کرنے پر مزید آٹھ دس ہزار خرچ آیا۔ اور یہ اُس زمانے کی بات ہے جب لجنہ ربوہ کا کُل سالانہ ممبری کا بجٹ صرف پچاسی ہزار روپے ہوتا تھا۔
حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی وفات کے بعد اکثر لوگ اپنی سمجھ کے مطابق مجھے مشورہ دیتے۔ بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ مجھے اپنے میڈیکل professionمیں واپس چلے جانا چاہیے۔ میری بڑی ہمشیرہ کو ایسا ہی مشورہ محفل میں کسی خاتون نے دیا۔ باجی جان قریب کھڑی سن رہی تھیں۔ میری ہمشیرہ کہتی ہیں کہ باجی جان نے بڑے مضبوط لہجے میں اُن سے کہا کہ وہ جو کر رہی ہیں وہ بالکل ٹھیک ہے اور یہ کہ اُنہیں یہی کرنا چاہیے (یعنی جماعتی خدمت)۔ اِسی طرح اگر کوئی میری کسی بات پر ناجائز اعتراض کرتا تو آپ اُسے جواب دیتیں۔ اگر کسی بات پر سمجھتیں کہ مجھے تبدیلی کرنی چاہیے تو مجھے بھی کہتیں لیکن ناجائز اعتراضات پر تکلیف محسوس کرتیں۔
آپ کا طریق تھا کہ خاندان میں کوئی واقعہ ہوتا تو ضرور فون کرکے مجھے باخبر کرتیں۔ مَیں گھر سے کم ہی باہر جاتی تھی اور آپ کو احساس رہتا تھا کہ یہ نہ ہو کہ مجھے خبر ہی نہ ہو۔ بعض دفعہ مجھے پوچھ بھی لیتیں کہ وہاں گئی تھی؟ اور چھوٹے چھوٹے بالکل ذاتی مشورے بھی مجھے دیتیں۔ مجھے ایک روز کہنے لگیں کہ تم اچھا کرتی ہو کہ گھرمیں رہ کر کتابیں پڑھتی رہتی ہو۔ آپ خود بھی اکثر مطالعے میں مصروف رہتیں۔ جب تک صحت نے اجازت دی آپ کتب کا مطالعہ باقاعدگی سے کرتی رہیں۔ مذہبی کتب کے علاوہ ادبی ناول بھی شوق سے پڑھتیں۔ ایسی کتب بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر اکثر موجود ہوتیں۔
آپ بہت خوشخط تھیں۔ تحریر پختہ اور لفظ موتیوں کی طرح پروئے ہوئے۔ جب مَیں ملک سے باہر جاتی تو آپ سے خطوط کے ذریعہ رابطہ ہوتا۔ ہر خط کا باقاعدگی سے جواب دیتیں۔ ہلکی پھلکی دلچسپ تحریر، ہر پہلو سے مکمل۔ جس میں سادگی، وقار اور اپنائیت ہوتی۔ مجھے خطوط میں بھی خاندان کی اگر کوئی خبر ہوتی تو تحریر فرماتیں۔


ہر ماں اپنی اولاد سے طبعی محبت کرتی ہے۔ آپ کوبھی اپنے بچوں سے بہت محبت تھی جس کے مَیں نے بےشمار نظارے دیکھے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ آپ کو اپنے جذبات پر ہروقت جو بےپناہ کنٹرول رہتا تھا، آپ اس محبت کے اظہار کو بھی بہت ضبط میں رکھتیں۔ یعنی اظہار تو ہوتا لیکن بہت وقار کے ساتھ۔ اولاد در اولاد سے محبت اور ان کا خیال رکھتیں۔ محترمہ صاحبزادی امۃالرؤوف صاحبہ بہت اچھی، محنتی اور صابر طبیعت کی مالک ہیں۔ ایک واقف زندگی کی زوجہ کی حیثیت سے آپ نے بہت صبرو قناعت اور وقارکے ساتھ اپنی زندگی مسکراتے ہوئے گزاری۔ بچوں کی بہترین تربیت کی۔ واقعۃً کمال صبر و ہمت کی مالک انسان ہیں۔ ضرورت پڑنے پر اپنے گھر کے دروازوں کے پینٹ تک خود کرلیے۔ باجی جان نے کئی مرتبہ ان کے متعلق اپنے قلبی جذبات کا مجھ سے اظہار کیا۔ پھر آپ کے بڑے صاحبزادے محترم مرزا ادریس احمد صاحب کی شخصیت بھی بہت کھری اور سعادت مند تھی۔ باجی جان کو ان سے بھی بہت محبت تھی۔ آپ نے ان کی وفات کا صدمہ بھی بہت ہمت اور صبر سے برداشت فرمایا۔ وقار آپ کے وجود کا نمایاں ترین حصہ تھا اور ہر موقع پر خواہ وہ خوشی کا ہو یا غم کا، آپ مضبوط ستون کی طرح نظرآتیں۔ حضرت صاحبزادہ میاں منصور احمد صاحب کی وفات پر شدّتِ غم سے اور اس کے برداشت کرنے سے آپ کی گردن میں سخت تکلیف ہورہی تھی۔ لیکن اپنے غم کو زبان پر نہ آنے دیا۔
آپ کا گھرانہ دینی اعلیٰ اقدار اور بچوں کی بہترین تربیت کا آئینہ دار تھا۔ جہاں آپ کو اپنے شوہر کے ساتھ ہمیشہ ادب احترام سے پیش آتے دیکھا وہاں حضرت میاں صاحب کو بھی آپ کا انتہائی خیال رکھتے ہوئے دیکھا۔
٭…حضرت اُم طاہرؓ کے بطن سے حضرت مصلح موعودؓ کی بڑی صاحبزادی محترمہ صاحبزادی امۃالحکیم بیگم صاحبہ بہت منکسرالمزاج اور ایک منفرد طبیعت کی حامل خاتون مبارکہ تھیں۔ سادہ، غریب پرور، اپنی دنیا میں نہایت اطمینان کے ساتھ مگن رہنے والی فی الحقیقت تارک الدنیا اور اس دنیا میں ایک مسافر کی طرح زندگی گزارنے والی ولی اللہ خاتون تھیں۔ جب کبھی بھی آپ سے ملنا ہوا بہت کشادہ پیشانی، صاف دل اور محبت سے ملیں۔ بےتکلّف انداز تھا اور ملنے پر حضرت مصلح موعودؓ کے واقعات سناتیں۔ آپ کی سادگی میں بھی حُسن تھا۔ حضرت باجی جان (محترمہ صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ) بہت محبت سے آپ کے ظاہری حُسن کے اُس دَور کو بیان کیا کرتی تھیں جب آپ اپنے پہلے بچے کے حمل سے تھیں ۔ آپ پردے کی بہت پابند تھیں اور اس معاملے میں غیرمعمولی احتیاط کرتی تھیں۔ آپ بہت کم کہیں آتی جاتی تھیں لیکن جب ضروری سمجھتیں تو ضرور جاتیں۔ میری بھاوج اور غالباً پھر میرے بھائی کی وفات پر افسوس کے لیے تشریف لائیں۔
٭…محترمہ صاحبزادی امۃالباسط بیگم صاحبہ بیگم محترم میر داؤد احمد صاحب نہایت خوش مزاج اور محبت کرنے والی ہستی تھیں۔ لجنہ ربوہ میں سیکرٹری ناصرات کی حیثیت سے آپ نے بہت لمبا عرصہ خدمات سرانجام دیں۔ آپ سے تعارف تو بچپن سے ہی حاصل تھا لیکن تعلق شادی کے بعد ہی قائم ہوا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ آپ سے اور آپ کے بچوں سے خاص محبت کرتے تھے، خاص کر عزیزہ نصرت سلمہا سے۔ ہماری شادی سے پہلے آپ نے ایک خواب دیکھا تھا کہ غالباً آپ کے صحن میں حضرت مصلح موعودؓ اور میرے والد محترم عبدالمجید خان صاحب ایک پودا لگارہے ہیں۔ سوکھی سی ٹہنی تھی اور وہ درخت بن گئی۔ آپ نے یہ رؤیا حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کو سنائی۔ حضورؒ نے مجھے بھی سنائی اور مسکراتے ہوئے فرمایا: ’’سو کھی سی ٹہنی تھی بڑا درخت بن گئی۔‘‘ قصرِخلافت میں آپ میری قریبی پڑوسن تھیں۔ عید پر آپ کے ہاں سے بھی لذیذ شیرخُرما ضرور آتا۔ ویسے بھی آپ تحائف بھجواتی رہتیں۔ مَیں کبھی کبھی آپ کے ہاں چلی جاتی تو بہت خوش ہوتیں۔ آپ کے ہاں بھی پاندان کا اہتمام رہتا اور کبھی کبھی جب میرا پان کھانے کو بہت دل چاہتا تو مَیں آپ کے پاس اپنی خادمہ کو بھجوا دیتی اور آپ مجھے دوتین پان لگاکر بھیج دیتیں۔

محترم میر داؤد احمد صاحب

٭…محترمہ صاحبزادی امۃالنصیر بیگم صاحبہ کے ساتھ میرا بچپن سے بہت زیادہ تعلق تھا کیونکہ آپ کی صاحبزادی مکرمہ امۃالشکور صاحبہ میری ہم جماعت اور دوست تھیں اس لیے اکثر مَیں سکول سے جو کہ آپ کے گھر کے قریب ہی تھا آپ کے ہاں چلی جاتی۔ آپ بہت پیار سے ملتیں اور باتیں کرتیں۔بیٹی کی دوستی کا ہمیشہ ذکر کرتی رہیں اور لحاظ بھی رکھتیں۔
آپ بہت صابرو شاکر خاتون تھیں۔ہر قسم کے حالات میں صبر اور قناعت کے ساتھ وقت گزارا اور کبھی اس کا اظہار نہ ہونے دیا۔ ایک مرتبہ آپ کے ساتھ لاہور کا سفر کیا تو راستہ بھر آپ مجھے اپنے بچپن سے لے کر تب تک کے واقعات سُناتی رہیں۔ آپ کے میاں واقفِ زندگی تھے۔ ابتدا میں واقفین نے جماعت کے مالی حالات کمزور ہونے کی وجہ سے بہت مشکل سے گزارے کیے۔ آپ کے حالات بھی تنگ تھے لیکن آپ نے کبھی بھی حضرت مصلح موعودؓ سے اس کا اظہار نہ ہونے دیا۔ حضرت چھوٹی آپا صاحبہ کو ازخود آپ کے حالات کا علم ہوا تو انہوں نے حضورؓ سے ذکر کیا اور حضورؓ نے آپ کو جیب خرچ دینا شروع کیا۔ آپ ہمیشہ اس کوشش میں رہیں کہ سسرال کی عزت میکے میں اور میکے کی عزت سسرال میں قائم رہے۔
حضرت مصلح موعودؓ کا اپنی ازواج اور اُن کی اولادوں کے ساتھ انصاف کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ اگر ایک گھر کے لیے چارپائیاں آتیں تو باقی گھروں کے لیے بھی خریدی جاتیں، اگر ایک بیٹی کے لیے زیور بنتا تو باقی بیٹیوں کے لیے بھی ویسا ہی زیور بنتا۔ ان واقعات کو یاد کرتے ہوئے آپ نے بڑے گہرے لہجے میں فرمایا: میرے باپ نے بہت مشقّت اُٹھائی۔ آپ کا یہ فقرہ ہمیشہ کے لیے میرے دل میں گڑگیا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے بعض حکمتوں کے تحت اگر زیادہ شادیاں کیں تو پھر آپؓ نے اپنی جان کو مشقّت میں ڈال کر تمام ازواج اور اُن کی اولاد کے حقوق کو انصاف کے ساتھ پورا فرمایا۔


آپ اکثر سنایا کرتی تھیں کہ ربوہ کے آغاز میں حضرت مصلح موعودؓ اپنے تمام خاندان کے ساتھ کچے گھروں میں آکر آباد ہوئے۔ ایک بار گرمیوں کے موسم میں ابّاجانؓ کو پت (گرمی دانے) نکل آئی۔ عام طور پر آپؓ کو پت نہیں نکلتی تھی۔ امّی جان نے سرسوں کے تیل میں برف(یا شاید پانی) پھینٹ کر مجھے دیاکہ اپنے ابّا جان کی کمر پر لگا دو۔ حضورؓ اکثر حضرت مسیح موعودؑ کے واقعات سُنایا کرتے تھے۔ اُس وقت بھی آپؓ نے حضرت مسیح موعودؑ کی سیرت کا کوئی واقعہ بیان کیا تو مَیں نے کہا کہ کاش مَیں بھی حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ میں ہوتی! اس پر آپؓ نے فرمایا: ’’شکر کرو کہ تمہیں مصلح موعودؓ کا زمانہ مل گیا۔‘‘ بےشک حُسن و احسان میں حضرت مسیح موعودؑ کے نظیر کا زمانہ پانا بھی کوئی کم خوش قسمتی نہ تھی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں