غیرمسلموں میں شادی ۔ ایک انتباہ
حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ سے ایک مجلس میں اہل کتاب سے شادی کے بارہ میں سوال ہوا تو آپؒ نے فرمایا: ’’پھر دیکھ لو! اگر بچے اپنی والدہ کے مذہب پر اور معاشرے پر رہے تو کیا تم برداشت کرلوگے کہ وہ گرجا جائیں اور عیسائی معاشرے کی طرح بودوباش اختیار کرلیں؟‘‘۔ جماعت احمدیہ امریکہ کے رسالہ ’’النور‘‘ جولائی و اگست 2006ء میں مکرم محمد شریف خان صاحب ایک ایسا واقعہ بیان کرتے ہیں جو حضورؒ کے جواب کی سچائی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ 1890ء کے قریب میرے دادا عبدالحکیم صاحب کی رہائش لاہور میں تھی، ان کے والد محکمہ انہار میں افسر تھے، گھر میں رزق کی فراوانی تھی۔ لیکن عبدالحکیم صاحب کے جی میں کیا آئی کہ میٹرک کرکے بیرون ملک جانے پر مصر ہوئے۔ والدین نے ڈانٹ ڈپٹ کرکے روکا، پھر شادی بھی کردی مگر ایک دن وہ اچانک غائب ہوگئے، کوئی سراغ نہ ملا۔ بیوی مایوس ہوکر اپنے بھائی کے پاس چلی گئی جہاں کچھ عرصہ بعد اُس کے ہاں بیٹا پیدا ہوا جس کا نام حبیب اللہ رکھا گیا۔ پھر دو سال بعد اچانک آسٹریلیا سے عبدالحکیم صاحب کا خط موصول ہوا جس پر پتہ درج نہیں تھا۔ پھر گاہے گاہے خط ملنے لگے۔ معلوم ہوا کہ وہ سڈنی میں رہ رہا ہے اور اس کا کپڑے کا ایک سٹور ہے۔ ایک انگریز کیتھولک عورت سے شادی کرلی ہے اور اب واپسی کا کوئی ارادہ نہیں۔ اس پر والدین نے اُس سے رہاسہا تعلق بھی توڑ لیا۔
جب حبیب اللہ بڑے ہوئے تو اپنے والد سے ملنے کی شدید خواہش نے جنم لیا۔ مشن سکول ڈسکہ کو اس خواہش کا علم ہوا تو انہوں نے ایک شرط پر یہ خواہش پوری کرنے کی حامی بھری کہ پہلے بپتسمہ لیں۔ حبیب اللہ اس کے لئے بھی تیار ہوگئے لیکن جونہی والدہ کو علم ہوا تو وہ انہیں زبردستی واپس لے گئیں اور انہوں نے تعلیم گوجرانوالہ سے حاصل کی۔ پھر فوج کی میڈیکل شاخ میں بھرتی ہوگئے۔ ڈاکٹر بن کر افریقہ بھجوائے گئے۔ وہاں احمدیت قبول کرنے کی توفیق مل گئی۔ 33سال نوکری کرکے 1948ء میں واپس اپنے گاؤں آگئے۔
اُدھر آسٹریلیا میں عبدالحکیم صاحب کے ہاں تین لڑکیاں اور ایک لڑکا یوسف پیدا ہوا۔ بچے بڑے ہوئے تو عیسائیت کی طرف راغب ہوئے۔ اس پر میاں بیوی میں تکرار رہنے لگی جو آہستہ آہستہ اتنی بڑھی کہ طلاق پر منتج ہوئی۔ بچے والدہ کے ساتھ چلے گئے اور گھر ٹوٹنے کے اثرات اُن پر بھی ظاہر ہوئے۔ ایک بیٹی نے ساری عمر شادی نہیں کی جبکہ لڑکا شراب نوشی کے نتیجہ میں ہسپتال میں فوت ہوگیا۔ باقی دو لڑکیوں نے عیسائیوں کے ساتھ شادی کی اور اُن کی اولاد بھی اسلام سے بے بہرہ اور عیسائی ہے۔ گو بچے طلاق کے بعد بھی اپنے والد سے پیار کرتے رہے لیکن مذہب کے معاملہ میں اپنی والدہ کے زیراثر رہے۔ ان حالات سے تنگ آکر جب عبدالحکیم پرانے رشتوں کی تلاش میں نکلے تو پتہ چلا کہ والدین وفات پاچکے ہیں ، بیوی لمبی جدائی کے بعد اب اُنہیں کسی طور خوش آمدید کہنے کی روادار نہیں، بیٹا افریقہ میں ہے اور ایک مخلص احمدی ہے۔ باپ بیٹے میں رابطہ ہوا تو بیٹے نے اُنہیں تبلیغی خط لکھے۔ عبدالحکیم 1935ء میں افریقہ آکر بیٹے کو ملے مگر احمدی نہیں ہوئے اور اسی اختلاف کے باعث دلبرداشتہ ہوکر واپس آسٹریلیا چلے گئے۔ آخری عمر میں اُن کی شدید خواہش تھی کہ اُن کی وفات اپنے وطن میں ہو۔ جنوری 1953ء میں انہوں نے اس خواہش کا اظہار بھی کیا اور جہاز کا ٹکٹ بھی خرید لیا۔ لیکن اچانک اُن کی وفات کی اطلاع ملی اور سڈنی کے مسلمانوں نے اُن کو وہیں دفن کردیا۔
عبدالحکیم صاحب میرے دادا تھے اور پرانے کاغذات دیکھتے ہوئے مجھے خیال آیا کہ اُن کے پتہ پر اب خط لکھ کر دیکھوں تاکہ پتہ چلے کہ اُن کی اولاد کا کیا حال ہے۔ آخر مجھے اُن کی سب سے چھوٹی بیٹی ویلری بُش کا خط موصول ہوا۔ اُس نے لکھا کہ اُس کی والدہ، خالائیں اور ماموں وفات پاچکے ہیں۔ کچھ مزید معلومات بھی لکھیں ۔ جب مَیں نے دادا کی قبر کے بارہ میں استفسار کیا تو اُس نے جواباً پوچھا کہ اُن کا مذہب کیا تھا؟ ہندو، عیسائی یا یہودی، کیونکہ مذہب معلوم ہونے پر علاقے کے متعلقہ قبرستانوں کے ریکارڈ سے کچھ معلوم ہوسکے گا۔ یہ جواب پڑھ کر مَیں سکتہ میں آگیا کہ جو ساری عمر اسلام سے چمٹا رہا لیکن ایک لغزش کی پاداش میں اپنی شناخت کھوبیٹھا۔
سورۃالبقرہ آیت 222: ’’اور مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں… ‘‘ کی تفسیر میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ فرماتے ہیں: ’’بعض لوگ اپنی زندگی مزے میں گزارنے کے لئے ایسی عورتوں سے شادی کرلیتے ہیں جو ایمان میں کمزور ہوتی ہیں۔ دینی لحاظ سے کمزور عورت نسلیں بگاڑ دیتی ہے۔ وہ خود بھی ایسی باتوں کی طرف مائل ہوسکتے ہیں جس کی وجہ سے جنت سے محروم ہوجاتے ہیں۔‘‘