سیرت حضرت مسیح موعودؑ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 20 مارچ2006ء میں حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ کے قلم سے حضرت مسیح موعودؑ کی سیرۃ مبارکہ کے بعض پہلو شامل اشاعت ہیں۔
امراض وبائیہ سے بچاؤ کا روحانی نسخہ
امراض وبائیہ کا تذکرہ ہوا تو حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا: یہ ایام برسات کے معمولاً خطرناک ہوا کرتے ہیں۔ طبیب کہتے ہیں ان تین مہینوں (جون، جولائی، اگست) میں جو بچ رہے وہ گویا نئے سرے سے پیدا ہوتا ہے۔ پھر فرمایا کہ یہ جاڑا بھی خوفناک نظر آتا ہے۔ فرمایا اطباء بڑے بڑے پرہیزوں اور حفظ ماتقدم کے لئے احتیاطیں بتاتے ہیں۔ اگرچہ سلسلہ اسباب کا اور ان کی رعایت درست ہے۔ مگر میں کہتا ہوں محدود العلم ضعیف انسان کہاں تک بچا بچا کر غذا اور پانی کا استعمال کیا کرے۔ میرے نزدیک تو استغفار سے بڑھ کر کوئی تعویذ و حرز اور کوئی احتیاط و دوا نہیں۔ میں اپنے دوستوں کو کہتا ہوں کہ خدا سے صلح اور موافقت پیدا کرو۔ اور دعاؤں میں مصروف رہو۔
ایک حدیث کی لطیف تشریح
حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا: میں تو بڑی آرزو رکھتا ہوں اور دعائیں کرتا ہوں کہ میرے دوستوں کی عمریں لمبی ہوں تا کہ اس حدیث کی خبر پوری ہوجائے جس میں لکھا ہے کہ مسیح موعود کے زمانہ میں چالیس برس تک موت دنیا سے اٹھ جائے گی۔ فرمایا اس کا مطلب یہ تو نہیں ہو سکتا کہ تمام جانداروں سے اس عرصہ میں موت کا پیالہ ٹل جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان میں جو نافع الناس اور کام کے آدمی ہوں گے اللہ تعالیٰ ان کی زندگی میں برکت بخشے گا۔
دینی مصیبت میں پڑنے والے کے لئے بیقراری
دعا کے معاملہ میں مَیں نے دیکھا ہے کہ حضرت اقدسؑ کی عادت ہے کہ اگر کوئی دینی مصیبت میں گرفتار ہو تو آواز کان میں پڑتے ہی بے اختیار ہوجاتے اور پوری رقت اور عقد ہمت اپنے اندر پاتے۔ اس کو یوں سمجھو کہ اس انسان کامل کو دین سے ایسا ہی پیار ہے کہ ہمہ تن دین ہی دین ہے۔ یا یوں اسے تعبیر کرو کہ خدا تعالیٰ کی توجہ محض دین ہی کے امور کی طرف ہے اور اس کا محبوب دین ہی ہے کہ وہ دین کے لئے دعا کو فوراً سنتا ہے۔
دنیا کے ہم و غم میں کھویا جانا خسارت آخرت کا موجب ہے
ایک نوجوان نے آپؑ کے حضور میں دنیا کے مصائب کی کہانی شروع کی اور طرح طرح کے ہم و غم بیان کئے۔ آپؑ نے بہت سمجھایا کہ ان امور میں کھویا جانا خسارت آخرت کا موجب ہوتا ہے، اس قدر جزع فزع مومن کو نہیں چاہئے۔ آخر وہ زور زور سے رونے لگا۔ حضرت اقدسؑ باوجود جبلی رحم و کرم اور نہایت ہی رقیق طبیعت ہونے کے ایسے خفا ہوئے کہ میں حیران ہوگیا۔ اسے کہا بس کرو، میں ایسے رونے کوجہنم کا موجب جانتا ہوں۔ میرے نزدیک جو آنسو دنیا کے ہم و غم میں گرائے جاتے ہیں، وہ آگ ہیں جو بہانے والے کو ہی جلا دیتے ہیں۔ میرا دل سخت ہوجاتا ہے ایسے شخص کے حال کو دیکھ کر جو ایسی جیفہ کی تڑپ میں کڑھتا ہے۔
توکّل علی اللہ
توکّل کے ذکر پر حضور اقدسؑ نے فرمایا: میں اپنے قلب کی عجیب کیفیت پاتا ہوں جیسے سخت حبس ہوتا اور گرمی کمال شدت کو پہنچ جاتی ہے۔ لوگ وثوق سے امید کرتے ہیں کہ اب بارش ہوگی۔ ایسا ہی جب اپنی صندوقچی کو خالی دیکھتا ہوں تو مجھے خدا کے فضل پر یقین واثق ہوتا ہے کہ اب یہ بھرے گی۔ اور ایسا ہی ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ کی قسم کھاکر فرمایا کہ جب میرا کیسہ خالی ہوتا ہے جو ذوق و سرور خدا تعالیٰ پر توکّل کا اس وقت مجھے حاصل ہوتا ہے میں اسکی کیفیت بیان نہیں کرسکتا۔ اور وہ حالت بہت ہی زیادہ راحت بخش اور طمانیت انگیز ہوتی ہے بہ نسبت اس کے کہ کیسہ بھرا ہوا ہو۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں