قلعہ بالا حصار پشاور
بالاحصار فارسی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے اونچی جگہ یا بلند قلعہ- روایت ہے کہ یہ نام اس افغان بادشاہ تیمور نے دیا تھا جسے سکھوں نے سمیرگڑھ سے بدل دیا لیکن اِس نام نے شہرت نہ پائی- یہ قلعہ دو سے اڑہائی ہزار سال پرانا ہے اور اس کی ابتدائی تاریخ کا کسی کو بھی علم نہیں-دو چینی سیاحوں نے 520ء اور 630ء میں پشاور کا دورہ کیا اور اس قلعہ کا بھی ذکر کیا- سبکتگین نے 988ء میں پشاور پر قبضہ کیا تو دس ہزار گھوڑے قلعہ کی حفاظت کے لئے رکھے- بعد میں محمود غزنوی نے 1179ء میں پشاور پر قبضہ کیا- مغل بادشاہ بابر نے بھی اس قلعہ کا ذکر کیا ہے- جب شیرشاہ نے ہمایوں کو شکست دی تو یہ قلعہ بھی تباہ کردیا لیکن ہمایوں نے اس کی دوبارہ درستی کروائی اور اپنا فوجی گڑھ یہاں قائم کیا- 1585ء میں قلعہ میں آگ لگنے سے ایک ہزار اونٹوں کا تجارتی سامان تباہ ہوگیا- اسی سال راجہ مان سنگھ نے پشاور پر قبضہ کرلیا- ایک سال بعد ایک پٹھان جلالہ کی قیادت میں فوج نے قلعہ فتح کرکے تباہ کردیا- جلالہ کو مغلوں سے نفرت تھی اور وہ پشاور کو اسلامی ریاست بنانا چاہتا تھا- لیکن ایک سال بعد ہی مغلوں نے حملے کرکے جلالہ کو چترال کی طرف بھگادیا جہاں وہ 1600ء میں انتقال کرگیا- پھر نادر شاہ نے پشاور پر قبضہ کیا اور قلعہ میں اپنے گورنر کو مقرر کیا- لیکن احمد شاہ درّانی نے قلعہ پر قبضہ کرکے اپنے شاہی محل کے طور پر استعمال کیا-
1809ء میں جب ایک برطانوی سفیر کابل گیا تو اُس نے بھی اس قلعہ کو دیکھا- اُس وقت یہ قلعہ ایک بڑے باغ کے اندر واقع تھا- 1834ء میں سکھوں نے قلعہ سمیت پشاور پر قبضہ کرلیا اور قلعہ دوبارہ تعمیر کروایا- 1849ء میں پنجاب کو برطانیہ کے ساتھ منسلک کردیا گیا اور وادی پشاور بھی ہندوستان کا حصہ بن گئی- 1947ء میں یہاں فوج اور خزانہ رکھا گیا تھا- پھر پاکستان کا پرچم اس پر لہرادیا گیا-
آج کا قلعہ ایک بے ترتیب سی چوکور عمارت ہے جس کی سرخ اینٹوں سے بنی ہوئی اندرونی اور بیرونی دو مضبوط اور چوڑی دیواریں ہیں-ان دیواروں کی مکمل اونچائی 92 فٹ ہے-
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 31؍جولائی 1998ء میں یہ معلوماتی مضمون مکرم ظہور احمد صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے-