لجنہ اماء ﷲ کینیڈا کی ابتداء
سہ ماہی ’’النسا ء ‘‘ کینیڈا اپریل تا جون 2008ء میں محترمہ امۃ الشکور صاحبہ، انچارج شعبہ تاریخ لجنہ اماء اﷲ کینیڈا کے قلم سے لجنہ اماء اللہ کینیڈا کی ابتدائی تاریخ شائع ہوئی ہے۔
لفظ ’’کینیڈا‘‘ دراصل قدیمی باشندوں کا لفظ ’’کناٹا‘‘ ہے جس کا مطلب ہے گاؤں یا رہائش کی جگہ۔ 1547ء میں دنیا کے نقشہ پر جب پہلی مرتبہ یہ ملک نمودار ہوا تواس کا نام کینیڈا رکھا گیا۔ قریباً 1700ء سے اس ملک کے لئے میپل لیف (میپل نامی درخت کا پتہ) بطور قومی نشان استعمال ہو رہا ہے اور یہی قومی نشان کینیڈا کی کرنسی پر 1937ء سے موجود ہے اور 1965 سے کینیڈا کے جھنڈے پر سُرخ رنگ میں جلوہ نُما ہے۔ 18؍جولائی 1867ء کو مختلف صوبوں کے الحاق سے کینیڈا کا ملک معرضِ وجود میں آیا ۔
کینیڈا کا رقبہ دس ملین مربع کِلو میٹر ہے اوراس کے دس صوبے ہیں۔ یہ رقبہ کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ پورے مُلک کا پانچواں حصہ زیر کاشت ہے اور باقی کا نصف حصہ جنگلات سے بھرا پڑا ہے۔ معدنی لحاظ سے مالا مال اورصنعتی لحاظ سے لاجواب ملک ہے۔ ہوائی جہاز، موٹریں، ریل گاڑیوں سے لے کر سوئی تک یہاں بنتی ہے۔ کینیڈا میں ہونے والی بے شمار ایجادات میں ٹیلیفون بھی شامل ہے۔ انگریزی اور فرانسیسی قومی زبانیں ہیں۔ نیاگرا آبشار کینیڈا اور امریکہ کی سرحد پر واقع ہے۔ کینیڈا کا دارالخلافہ Ottawa ہے۔ ہر سال یکم جولائی کو ’یومِ کینیڈا‘ منایا جاتا ہے۔ ملکہ الزبتھ ثانی رسمی و اعزازی طور پر سربراہِ مملکت ہیں۔
کینیڈا قادیان سے قریباً دس ہزار میل دور ہے۔ 28 اگست1908ء کو کینیڈا کے ایک اخبار “The Bobcageon Independent” میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کی خبر یوں شائع ہوئی: ’’مرزا غلام احمد نام ہے اُس شخصیت کا جو قادیان میں رہتے ہیں جو کہ ہندوستان میں واقع ہے۔ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے مسیح موعود ہیں وہ کہتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو خدا نہیں کہلواتے بلکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ وہ خدائی کارناموں کا ایک ذریعہ ہیں۔ عیسائیوں کا قومی دماغ تو عیسائیت اور خدائی کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کرتا مگر ’احمد‘ اس کو ایک غلطی تصور کرتے ہیں …‘‘
حضرت مفتی محمد صادق صاحب ؓ شمالی امریکہ میں قریباً تین سال (1927-1929ء) مبلغ سلسلہ رہے۔ آپؓ نے اپنے قیام کے دوران شکاگو اور ڈیٹرائٹ میں دو مساجد بھی تعمیر کروائیں جن کے لئے امریکہ میں بسنے والے عربوں نے بھی چندہ دیا۔ ڈیٹرائٹ امریکہ اور کینیڈا کی سرحد پر ہے۔ حضرت مفتی صاحب ؓ نے اسلام کا پیغام گھر گھر پہنچانے کے لئے اخبارات میں اشتہارات دیئے اور آپ کی تقاریر بھی اخبارات کی زینت بنتی رہیں۔ بہت سے لوگ جو امریکہ کی سرحد پر واقع کینیڈا کے شہر Windsor میں آباد تھے اُن تک بھی توحید کا پیغام پہنچا۔
حضرت مفتی محمد صادق صاحب ؓ کو جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کی طرف سے امریکہ جانے کا حکم ملا تو آپؓ نے استخارہ کرنے پر ایک خواب دیکھا جیسے آپ امریکہ کے شہر نیویارک میں اسلام کی صداقت پر ایک لیکچر دے رہے تھے۔ جب لیکچر ختم ہوگیا اور سب لوگ اُٹھ کرچلے گئے تو صرف ایک نوجوان عورت بیٹھی رہ گئی تو مفتی صاحبؓ نے اس سے پوچھا کہ تم کون ہو اور کیوں بیٹھی ہو؟ تو اس نے کہا کہ مجھے اسلام بہت پیارا مذہب معلوم ہوتا ہے کیا آپ مجھے اپنے مذہب میں داخل کر سکتے ہیں؟ حضرت مفتی صاحبؓ نے فرمایا کہ میں اسی کام کے لئے تو یہاں آیا ہوں۔ پھر مفتی صاحبؓ نے کلمہ شہادت پڑھا کر اس خاتون کو مسلمان کیا اور اس کا نام فاطمہ مصطفیٰ رکھا۔ نہایت عجیب بات یہ ہے کہ جب حضرت مفتی صاحبؓ امریکہ پہنچ گئے اور نیویارک میں آپ نے لیکچر دیا تو بعینہٖ وہی واقعہ ہوا۔ حضرت مفتی صاحبؓ نے اس خاتون کو بتایا کہ میں تو تمہیں بہت پہلے سے جانتا ہوں اور پھر اسے تفصیل بتائی تو وہ بھی نہایت متعجب ہوئی۔
پچاس کی دہائی میں کینیڈا کے کئی علاقوں میں احمدی آباد ہونا شروع ہوگئے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل التبشیر ربوہ کو 1961ء میں شمالی امریکہ کے تربیتی دورہ پر بھجوایا۔ آپ محترم مولانا عبدالقادر ضیغم صاحب مشنری انچارج امریکہ کے ہمراہ فلاڈلفیا سے ٹورانٹو پہنچے اور تمام حالات کا جائزہ لے کر حضورؓ کو رپورٹ بھجوائی اور کینیڈا میں مرکز تبلیغ کھولنے نیز مبلغ بھجوانے کی سفارش بھی کی۔ اس پر حضورؓ نے میجر عبد الحمید صاحب ریٹائرڈ کو مبلغ انچارج کی حیثیت سے کینیڈا بھجوایا لیکن انہیں بعض ناگزیر مجبوریوں کی وجہ سے کینیڈا کی امیگریشن نہ مل سکی اس لئے وہ امریکہ چلے گئے۔
1961ء میں محترم میاں عطاء اللہ صاحب ایڈووکیٹ، سابق امیر ضلع راولپنڈی، مانٹریال تشریف لائے اور 1962 میں ان کی زوجہ محترمہ عائشہ بیگم صاحبہ ایک بیٹے اور بیٹی کے ہمراہ یہاں آگئے۔ میاں صاحب اور اُن کی اہلیہ ہمیشہ دین کو دنیا پر مقدّم رکھنے والوں میں شامل رہے۔ اہلیہ بھی ضلع راولپنڈی میں بطور صدر لجنہ خدمات بجالاچکی تھیں۔ اُس وقت مانٹریال میں چند خاندان آباد تھے۔ عورتوں کی نسبت مردوں کی تعداد زیادہ تھی۔ دونوں میاں بیوی نے نظام کے قیام کے لئے مرکزی کردار ادا کرنا شروع کیا۔ چنانچہ مانٹریال کینیڈا کا پہلا شہر ہے جہاں احمدیوں نے باجماعت نمازیں شروع کیں۔ محترم میاں صاحب کے گھر پر ہی نماز جمعہ بھی ادا ہونے لگی۔