لڑکی کے بعد لڑکاعطا ہونا
حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب کا ایک پرانا مضمون مذکورہ بالا عنوان سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 19؍اکتوبر1995ء میں مکرر شائع ہوا ہے۔
اسی عنوان کے تحت حضرت میر محمد اسماعیل صاحب ؓ نے اپنے مضمون میں قرآنی الفاظ ’’یا بشریٰ ھذا غلام‘‘ سے استنباط کرتے ہوئے یہ لکھا تھا کہ اگر کسی لڑکی کا نام ’’بشریٰ‘‘ رکھا جائے تو اس کے بعد لڑکا پیدا ہوگا۔ حضرت مولانا شمس صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ یہ نسخہ ذوقی ہے اور پورا نہ ہونے پر کبھی یہ شک نہیں کرنا چاہئے کہ یہ خدا کا کلام ہے یا نہیں۔ بلکہ سمجھ لینا چاہئے کہ ہمارے بھائی نے آیت سے اپنے ذوق کے مطابق جو سمجھا تھا وہ درست نہ تھا۔
مضمون نگار مزید لکھتے ہیں کہ مکرم شیخ صالح عبدالقادر صاحب کبابیر (فلسطین) کے پہلے احمدی ہیں اور دعوت الی اللہ کے نتیجہ میں انہوں نے بہت جلد اپنے علاقہ میں احمدیت کو پھیلادیا۔ ان کا بیان ہے کہ ان کے ہاں لڑکیاں ہی پیدا ہوتی تھیں اور لڑکے کے لئے وہ دعا کیا کرتے تھے کہ ایک دن سورہ نوح آیات 11 تا 13 پر پہنچے:
فَقُلتُ استَغفِرُوا رَبَّکُم اِنَّہُ کَانَ غَفَّارًا۔ یّرسِلِ السّمآئَ عَلَیکُم مِّدرَارًا۔ وّیُمدِدکُم بِاَموَالٍ وَّبَنِینَ وَ یَجعَل لَّکُم جَنّٰتٍ وَّ یَجعَل لَّکُم اَنھٰرًا۔
(ترجمہ : پس میں نے ان سے کہا اپنے ربّ سے استغفار کرو، وہ بڑا بخشنے والا ہے۔ اگر تم توبہ کروگے تو وہ برسنے والے بادل کو تمہاری طرف بھیجے گا۔ اور مالوں اور اولاد سے تمہاری مدد کرے گا۔ اور تمہارے لئے باغات اگائے گا اور تمہارے لئے دریا چلائے گا۔)
تو آپ کو یہ تفہیم ہوئی کہ اللہ تعالیٰ استغفار کے نتیجہ میں بنین یعنی بیٹوں کا دیا جانا فرماتا ہے۔ چنانچہ انہوں نے استغفار کا ورد شروع کردیا اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں پانچ لڑکے عطا فرمائے ۔
علم الابدان اور علم الادیان میں نہایت عمیق اور گہرے تعلقات ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی فرماتے ہیں کہ روح اور جسم کا نہایت گہرا تعلق ہے اور دونوں ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔