مائیگرین یا آدھے سر کا درد – جدید تحقیق کی روشنی میں

مائیگرین یا آدھے سر کا درد – جدید تحقیق کی روشنی میں
(فرخ سلطان محمود)

٭ واشنگٹن میں امریکہ کے طبی ماہرین نے کہا ہے کہ آدھے سر کے درد میں مبتلا افراد کو درد سے نجات کے لئے ذہنی دباؤ اور اضطراب سے بچنا چاہئے۔ امریکی طبی ماہرین نے اپنی ایک حالیہ تحقیق کے بعد جاری کی گئی رپورٹ میں کہا ہے کہ ذہنی دباؤ اور سر درد میں اکثر مبتلا رہنے والے مریضوں کو پُرسکون رہنا چاہئے تاکہ وہ ذہنی اور اعصابی دباؤ سے نکل سکیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ آدھے سر میں مبتلا افراد کو اپنے معمولات زندگی میں توازن پیدا کرنا چاہئے۔ ان کے اٹھنے، سونے اور کام کرنے کے اوقات میں یکسانیت ہونی چاہئے اور انہیں ورزش کو اپنا معمول بنانا چاہئے۔ امریکی طبی ماہرین نے کھانے میں اعتدال کو بھی سردرد سے نجات کے لئے مفید قرار دیا ہے۔
٭ ایک طبی تحقیق میں ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ موٹے افراد میں سر درد اور آدھے سر کے درد کے خطرات زیادہ ہوتے ہیں۔ ڈریکسیل یونیورسٹی کالج آف میڈیسن فلاڈلفیا امریکہ میں کی جانے والی اس تحقیق میں 22 ہزار 211 افراد کا مشاہدہ کیا گیا اور یہ معلوم کیا گیا کہ سر درد کی شدّت عمر،صنف اور جسم میں چربی کی مقدار پر منحصر ہوتی ہے اور 22 سے 55 سال کی عمر کے موٹے افراد کو اس کے لاحق ہونے کے خطرات زیادہ ہوتے ہیں۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ موٹاپے کا شکار 37 فیصد خواتین سر درد اور آدھے سر کے درد کی مریض ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر بی لی پیٹرلین کی اس تحقیق کو امریکن اکیڈمی آف نیورالوجی نے شائع کیا ہے۔
٭ ایک برطانوی ڈاکٹر نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ ایک ایسی دوا پر تجربات کر رہا ہے جو مائیگرین یعنی آدھے سر کے درد کا شکار لوگوں کا بخوبی علاج کرسکے گی۔ لندن کے ایک ہسپتال کے کارڈیالوجسٹ جان چیمبرز نے کہا ہے کہ اُس نے اتفاقاً منجمد خون کو غیرمنجمد کرنے والی ایک دوا کو پانچ ایسے مختلف مریضوں پر استعمال کیا جو مائیگرین میں بھی مبتلا تھے اور یہ دوا بعض پر بہت کارگر ثابت ہوئی۔ اب دوسرے مرحلے میں 280؍مریضوں پر تجربات کئے جارہے ہیں جس کے نتائج آئندہ چند ماہ میں برآمد ہوجائیں گے۔ ان دنوں مائیگرین کا علاج Beta Blocker سے کیا جاتا ہے جو خون کا دباؤ کم کرکے دل کی دھڑکن کو باقاعدہ بناتی ہے جبکہ ڈپریشن میں بھی کمی لاتی ہے۔ اس کے علاوہ اسپرین، پیراسیٹامول اور دیگر درد ختم کرنے والی دوائیں بھی مائیگرین کے علاج کے طور پراستعمال کی جاتی ہیں۔ تاہم ڈاکٹر چیمبرز کے تجربات کی بنیاد یہ ہے کہ مائیگرین کی وجہ دل میں خون کا معمولی انجماد بھی ہوسکتا ہے اور پھر یہ خون سفر کرتا ہوا جب دماغ میں پہنچ جاتا ہے تو اِس سے خون کا بہاؤ متأثر ہوتا ہے اور سر کے ایک طرف درد شروع ہوجاتا ہے۔ لیکن ایک دوسری تحقیق کے مطابق ڈاکٹروں نے دماغ کے اس حصے کی نشاندہی بھی کردی ہوئی ہے جس سے مائیگرین کا درد ہوتا ہے۔ بلکہ رضاکاروں پر تجربات کے دوران اُس غدود کا پتہ بھی چلالیا گیا ہے جس کی سرگرمی کی وجہ سے یہ درد ہوتا ہے۔ یہ غدود دماغ کے مرکز میں واقع ہے اور اِس کے بارے میں ایک عرصے سے شبہ تھا کہ اس سے مائیگرین کا درد شروع ہوسکتا ہے۔ اسی طرح یہ درد بھوک سے بھی شروع ہوسکتا ہے۔ چنانچہ ایک دوسری تحقیق کے مطابق دماغ کے ایک سے زیادہ حصے مائیگرین شروع کرنے کا باعث بنتے ہیں اور ایک سے زیادہ وجوہات کے باعث یہ درد ہوسکتا ہے۔ اس کی وجوہات میں تھکاوٹ، اعصابی دباؤ، ڈی ہائیڈریشن، کھانا نہ کھانا اور کافی، چائے یا سگریٹ کا زیادہ استعمال بھی شامل ہے۔
ایک اندازے کے مطابق روزانہ ایک لاکھ 90 ہزار سے زیادہ لوگ مائیگرین میں مبتلا ہوتے ہیں جن میں سے ایک لاکھ اسی وجہ سے کام یا تعلیمی اداروں میں نہیں جاسکتے۔ مائیگرین کے درد کا عام حالات میں دورانیہ 40 سے 72 گھنٹے تک ہوتا ہے اور اکثر حالتوں میں یہ درد سر کے ایک طرف ہوتا ہے۔ اس درد میں مبتلا افراد کو خاموشی اور اندھیرے کمرے میں لیٹنے سے آرام ملتا ہے کیونکہ درد کی دھڑکن حرکت کرنے، شور یا روشنی سے اَور بھی بڑھ جاتی ہے۔ اعدادوشمار سے پتہ چلایا گیا ہے کہ مائیگرین سے برطانیہ کی بھی پندرہ فیصد آبادی متأثر ہوتی ہے جن میں سے دو تہائی خواتین ہیں۔
٭ ایک رپورٹ کے مطابق مائیگرین ورثے میں ملنے والی بیماری ہے جس سے صرف برطانیہ میں چھ بلین لوگ متأثر ہوتے ہیں۔ سر کے درد کی امریکن سوسائٹی کے ایک مطالعے سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ مائیگرین کے مریضوں میں سے صرف نصف کو دستیاب علاج سے فائدہ ہوتا ہے۔ سوسائٹی کے مطابق مائیگرین کے باعث امریکہ میں ہونے والے کام کے ضیاع کا اندازہ سالانہ تیرہ ارب ڈالرز سے زائد ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بیماری ضرورت سے زیادہ حساس دماغ سے ہوتی ہے مثلاً جب تھکاوٹ، بھوک، دبائو یا موسم کے خلاف دماغ اپنا ردّعمل ظاہر کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں سر کے ایک طرف درد ہوتا ہے جس کے ساتھ ساتھ بینائی پر دبائو پڑتا ہے اور متلی کی شکایت بھی پیدا ہوتی ہے۔ مائیگرین کے دوران دماغ سے مخصوص کیمیائی مادوں کا اخراج بھی دیکھنے میں آیا ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق مائیگرین کی شرح مردوں کے مقابلے میں خواتین میں دو سے تین گُنا زیادہ ہے جبکہ سفید فام لوگوں میں افریقن اور ایشینز کی نسبت یہ شرح زیادہ دیکھی گئی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مائیگرین کی ایک ایسی دوا آئندہ تین سال میں دستیاب ہوگی جو اپنے نتائج کے اعتبار سے بہترین دوا کہی جاسکتی ہے۔ یہ دوا دماغ میں کیمیائی ردّعمل کے تسلسل میں مداخلت کرتی ہے جس کے نتیجے میں مائیگرین یعنی دماغ پر دبائو کے نتیجے میں ہونے والی درد کسی دوسری جگہ منتقل ہوجاتی ہے۔ موجودہ دوائی جسے CGRP کا نام دیا گیا ہے، ملحقہ رگوں کے خلیات سے کیمیائی مادہ لینے کے عمل کو روکتی ہے چنانچہ اِس دوا کے استعمال کے نتیجے میں درد میں کمی واقع ہوتی ہے اور چوبیس گھنٹے میں مائیگرین کی واپسی رُک جاتی ہے۔
ایک دوسری رپورٹ کے مطابق امریکہ میں تیار کیا جانے والا ایک آلہ بھی مائیگرین کے علاج کے لئے کامیابی سے استعمال کیا جانے والا ہے۔ TMS نامی یہ آلہ ایک ہیرڈرائر کے سائز کا ہے اور مائیگرین کے پانچ میں سے ایک مریض کی تکلیف کو دُور کرسکتا ہے۔ TMS کو درد شروع ہونے پر مریض کے سر کے قریب رکھا جاتا ہے اور وہ مقناطیسی میدان کی دو مختصر لہریں دماغ میں بھیجتا ہے۔ یہ تحقیقی کام ڈاکٹر رچرڈ لپٹن نے کیا ہے جو البرٹ آئن سٹائن کالج آف میڈیسن سے تعلق رکھتے ہیں اور اُنہیں یقین ہے کہ TMS سے پیدا کی جانے والی لہریں اُس برقی طوفان کو روک دیتی ہیں جو مائیگرین سے متأثرہ لوگوں میں پیدا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر رچرڈ کہتے ہیں کہ اس آلے سے ایک طاقتور مقناطیس کے ذریعے دماغ میں معمولی سا کرنٹ پیدا کیا جاتا ہے جس کے زیراثر مائیگرین کا درد بند ہوجاتا ہے۔ اس تحقیق کے دوران ماہرین نے مائیگرین سے متأثر دو سو مریضوں میں سے نصف کو اصل TMS جبکہ باقی نصف کو ایک کھلونا آلہ دیا۔ نتائج کے مطابق TMS کو استعمال کرنے والے بہت سے لوگوں نے اقرار کیا کہ آلے کے استعمال کے دو گھنٹے کے اندر اُن کا درد ختم ہوگیا اور وہ نارمل محسوس کرنے لگے۔
٭ برٹش میڈیکل جرنل میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق ماہرین نے آدھے سر کے درد اور فالج کے خطرات میں باہمی تعلق کی تصدیق کی ہے اور کہا ہے کہ مائیگرین یا آدھے سر کے درد سے فالج میں مبتلا ہونے کا خطرہ دوگنا ہوجاتا ہے۔ تحقیق کے مطابق مردوں کے مقابلے میں عورتیں زیادہ خطرے میں مبتلا ہیں اور عارضی طور پر وہ بصری یا اعصابی خرابی میں بھی مبتلا ہوسکتی ہیں۔ ہاورڈ میڈیکل سکول میں ہونے والی اس تحقیق کے مطابق ایسی خواتین زیادہ خطرے میں ہیں جو مانع حمل دوائیں استعمال کرتی ہیں یا تمباکو نوش ہیں۔
٭ ایک طبی تحقیق کے مطابق وٹامن بی اور فولک ایسڈ کے استعمال سے درد شقیقہ (یعنی آدھے سر کے درد) کی شدت کو کم کیا جاسکتا ہے۔ گرفتھ یونیورسٹی میں ہونے والی اس تحقیق کے مطابق تجرِبہ گاہ میں کئے جانے والے تجرِبات سے یہ ثابت ہوا ہے کہ وٹامن بی اور فولک ایسڈ درد شقیقہ کے علاج میں کامیابی کے ساتھ استعمال کئے جاسکتے ہیں۔ ماہرین نے کہا ہے کہ 6 ماہ تک مسلسل درد شقیقہ میں مبتلا رہنے والے 50 مریضوں پر جب فولک ایسڈ اور وٹامن بی کا تجرِبہ کیا گیا تو نہ صرف ان کے سر درد میں نمایاں افاقہ مشاہدے میں آیا بلکہ آدھے سر کے درد یعنی درد شقیقہ کی شدّت میں بھی نمایاں کمی واقع ہوئی۔ ماہرین نے اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ درد شقیقہ جسم میں امائنو ایسڈ کی سطح کے بڑھ جانے سے پیدا ہوتا ہے جس کو وٹامن بی اور فولک ایسڈ کم کردیتے ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں