ماموریت کا تیرھواں سال 1904ء
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کی اشاعتوں 12، 14، اور 15؍جنوری 2004ء میں شامل اشاعت ایک تفصیلی مضمون (مرتّبہ مکرم حبیب الرحمن زیروی صاحب) میں 1904ء میں تاریخ احمدیت کے حوالہ سے اہم واقعات کو پیش کیا ہے۔
مقدمہ کرم دین:
مولوی کرم دین صاحب نے حضرت مسیح موعود کے خلاف ازالہ حیثیت عرفی کا ایک مقدمہ دائر کیا تھا۔ 19 ؍جنوری 1903 ء کو اس مقدمہ میں ناکامی کے بعد انہوں نے 28 جنوری 1903ء کو جہلم عدالت میں دوسرا مقدمہ دائر کر دیا جو 29؍جون1903ء کو منتقل ہوکر گورداسپور عدالت میں آگیا۔13؍جنوری 1904 ء کی پیشی کے لئے حضرت اقدس مسیح موعودؑ 12؍جنوری 1904ء کو قادیان سے گورداسپور پہنچے۔ حضرت اقدسؑ کی طرف سے ایک تحریری بیان پیش کیا گیا۔ اگرچہ مجسٹریٹ لالہ چندولال نے زبانی تسلیم کیا تھا کہ تحریری بیان دیدیں۔ لیکن پھر انہوں نے اس کا شامل مسل ہونا نامنظور کر دیا۔ 14؍ جنوری1904ء کو حضور عدالت میں تشریف نہ لے جاسکے اور ڈاکٹر کے سرٹیفکیٹ پر آپ کو حاضری عدالت سے ایک ماہ کی اجازت ملی اور حضور واپس قادیان تشریف لے آئے۔
مجسٹریٹ چندولال کی مخالفانہ روش کی بناء پر 4؍فروری 1904ء کو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ بہادر ضلع گورداسپور کی عدالت میں انتقال مقدمہ کی درخواست کی گئی جو 12؍ فروری 1904ء کو ردّ ہوگئی۔ چیف کورٹ سے بھی انتقال مقدمہ کی درخواست 22؍ فروری 1904ء کو مسترد کر دی گئی چنانچہ مقدمہ دوبارہ لالہ چندو لال ہی کی عدالت میں زیر سماعت آگیا اور وہ کھلم کھلا دشمنی پر اتر آئے۔ وہ فی الحقیقت یہ منصوبہ کر چکے تھے کہ سیدنا حضرت مسیح موعودؑ کو خواہ ایک دن کے لئے ہی سہی، ضرور نظر بند کر دیا جائے۔ 14؍مارچ کو بھی مقدمہ کی پیشی تھی مگر 13؍مارچ1904ء کو (کیپٹن پی ایس سی مور) سول سرجن گورداسپور، قادیان آئے اور حضورؑ کی عام حالتِ صحت کے لحاظ سے چھ ہفتہ تک سفر کرنے کے ناقابل ہونے کا سرٹیفکیٹ دیدیا۔ لالہ چندو لال یہ سرٹیفکیٹ دیکھ کر بہت سٹپٹائے اور انہوں نے روایت سے ہٹ کر سول سرجن کو عدالت میں بلایا کہ وہ شہادت دیں کہ واقعی مرزا صاحب بیمار ہیں اور پھر مقدمہ کی تاریخ 10؍ اپریل مقرر کردی۔
لالہ چندو لال کا انجام
جب چندولال کے مظالم کا پیمانہ انتہا تک پہنچ گیا تو خدا کی غیرت جوش میں آئی اور حکومت نے اُس کی تنزّلی کرکے اُس کا تبادلہ بطور منصف ملتان کر دیا۔ یعنی وہ اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر سے منصف بنا دئے گئے۔ پھر کچھ عرصہ بعد پنشن پا کر لدھیانہ آئے۔ یہاں ان کی حالت بہت خراب ہو گئی اور پھر دماغی خرابی میں مبتلا ہو کر کوچ کر گئے۔ لالہ چندو لال صاحب کی تنزلی حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت کا ایک دوہرا نشان تھا کیونکہ آپؑ نے اس کے متعلق پیشگوئی بھی فرمائی تھی۔ چنانچہ جب کسی نے حضورؑ سے عرض کیاکہ حضور چندو لال کا ارادہ آپؑ کو قید کرنے کا ہے۔ آپؑ دری پر لیٹے ہوئے تھے، اٹھ بیٹھے اور فرمایا کہ میں تو چندولال کو عدالت کی کرسی پر نہیں دیکھتا۔
لالہ آتمارام کا انجام
مقدمہ کرم دین کی کارروائی اب لالہ آتما رام کی عدالت میں پھر سے شروع ہوئی اور 24ستمبر کو ختم ہوئی اور آئندہ تاریخ یکم اکتوبر مقرر ہوئی۔یکم اکتوبر 1904ء کو چونکہ عام خبر تھی کہ مقدمہ کرم دین کا فیصلہ سنایا جائے گا اس لئے کچہری کے احاطہ میں بہت سے لوگ جمع تھے۔ لیکن مجسٹریٹ لالہ آتما رام نے فیصلہ 8؍اکتوبر 1904ء کو سنایا جس میں حضرت مسیح موعود ؑ کو پانچ سو روپیہ اور حکیم فضل الدین صاحب کو دو سو روپیہ جرمانہ اور بصورت عدم ادائیگی چھ چھ ماہ قید کی سزا دی۔ فیصلہ کے وقت عدالت کے اردگرد سپاہی کھڑے تھے جو کسی کو اندر نہیں جانے دیتے تھے۔ یہ ہفتہ کا دن تھا اور یہ دن مجسٹریٹ نے اس منصوبہ کے تحت مقرر کیا تھا کہ اگلے دن تعطیل تھی عدالت ختم ہونے سے چند منٹ پہلے فیصلہ سنانے کی صورت میں جرمانہ کی فوری ادائیگی نہ ہوسکے گی اور آپؑ کو کم ازکم دو روز کے لئے جیل میں رکھا جا سکے گا۔ لیکن خدا تعالیٰ نے حضورؑ کے کئی خدام کے دل پہلے ہی یہ تحریک کی کہ وہ روپے ساتھ لے جائیں بلکہ حضرت نواب محمد علی خاں صاحبؓ نے تو احتیاطاً نو سو روپیہ فیصلہ سے ایک روز پیشتر ہی بھجوادیا۔ چنانچہ جونہی فیصلہ سنایا گیا، جرمانہ کی رقم ادا کردی گئی اور لالہ آتما رام کا منصوبہ خاک میں مل گیا ۔
لیکن لالہ آتما رام بھی قہر الٰہی کی زد سے نہ بچ سکے۔ دورانِ مقدمہ ہی اُن کے دو لڑکے حضورؑ کی پیشگوئی کہ آتما رام اپنی اولاد کے ماتم میں مبتلا ہوں گے، کے مطابق بیس پچیس دن کے مختصر سے وقفہ میں مر گئے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کا بیان ہے کہ ایک بار آتما رام لدھیانہ کے سٹیشن پر مجھے ملا اور بڑے الحاح سے کہنے لگا کہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے صبر کی توفیق دے۔ مجھ سے بڑی بڑی غلطیاں ہوئی ہیں اور میں ڈرتا ہوں کہ میں کہیں پاگل نہ ہو جاؤں۔
بعد ازاں ڈویژنل جج امرتسر کی عدالت میں آتما رام کے فیصلہ کے خلاف اپیل کی گئی۔ اور 7 جنوری1905ء حضرت اقدسؑ کو ہر الزام سے بری کرکے جرمانہ کی رقم واپس کردی گئی۔
’’ایک مشرقی طاقت اور کوریا کی نازک حالت‘‘
1894ء کی چین اور جاپان کے درمیان جنگ کے بعد روس، جرمنی اور فرانس کی مداخلت نے جاپان کو کوریا پر قبضہ جمانے سے محروم کر دیا تھا۔ روس، مانچوریا اور جزیرہ لیاؤٹونگ پر قبضہ جما لینے کے بعد کوریا میں بھی نفوذ حاصل کرنے کامتمنی تھا۔ جاپان کوریا کے بدلے مانچوریا پر روس کا حق ماننے تیار تھا۔ مگر روس نے یہ بات نہ مانی اس لئے جاپان کے شہنشاہ میکاڈو نے 6 فروری 1904ء کو روس کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ ابھی یہ لڑائی شروع ہی ہوئی تھی کہ حضرت اقدسؑ کو 29؍ اپریل کو الہام ہوا: ’’ایک مشرقی طاقت اور کوریا کی نازک حالت‘‘ ۔ اس کے بعد روس کو پے در پے شکستیں ہوئیں اور جاپان کا کوریا پر مکمل قبضہ ہو گیا اور جاپان دنیامیں ’’مشرقی طاقت‘‘ شمار ہونے لگا۔ روس کو بالآخر ہار ماننی پڑی اور امریکہ کی مداخلت سے 1905ء میں روس اور جاپان کے درمیان معاہدہ طے ہوا جس کی رو سے روس نے لیاؤ ٹونگ کا علاقہ بھی جاپان کو دیدیا اور کوریا پر جاپان کی سیادت کا مکمل حق تسلیم کر لیا۔
دخت کرام
حضرت مسیح موعودؑ کو مئی1904ء میں الہام ہوا ’’دخت کرام‘‘۔ اس الٰہی بشارت کے مطابق 25 جون 1904ء کو صاحبزادی سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ پیدا ہوئیں۔ ’’حقیقۃ الوحی‘‘ میں حضور نے ان کو اپنی صداقت کا چالیسواں نشان قرار دیاہے۔
حضورؑ کا سفر لاہور
حضرت اقدسؑ نے 20؍ اگست 1904ء کو سفر لاہور اختیار فرمایا اور یہاں چار لیکچرز ارشاد فرمائے۔ پہلا لیکچر 21؍اگست 1904ء کو ہوا۔ دوسرالیکچر 28؍ اگست 1904ء کو دیا۔ ڈیڑھ ہزار سے زیادہ افراد اس خطاب سے مستفید ہوئے۔ 2ستمبرکو حضور نے ایک پر معارف اور زور دار تقریر فرمائی۔ حضورؑ کا چوتھا عظیم الشان لیکچر 3؍ستمبر کو ’’اس ملک کے موجودہ مذاہب اور اسلام‘‘ کے موضوع پر ہوا۔ یہ لیکچر دربار داتا گنج بخش کے عقب کے منڈوہ میلا رام میں ہوا۔ اس لیکچر کے لئے احباب لاہور نے پہلے سے اشتہار دیا تھا اور اس کا بہت چرچا تھا۔ مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی نے لیکچر پڑھا۔ اور تین گھنٹے میں ختم ہوا یہ لیکچر لاہور کے نام سے موسوم ہے۔سیدنا حضرت مسیح موعود جن دنوں لاہور تشریف لائے۔
لاہور میں ایک بہائی مبلغ میرزا محمود زرقانی بھی آئے ہوئے تھے۔ پہلے تو خاموش رہے مگر جب حضورؑ کی روانگی کا وقت قریب آیا تو انہوں نے بہاء اللہ کو مدعی مسیحیت کے طور پر پیش کر کے حضورؑ کو دعوت مباحثہ دیدی۔ اس دعوت کا علم حضور کو 2 ستمبر کو ہوا۔ اگلے دن 2ستمبر کو حضور کا پبلک لیکچر پہلے ہی مقرر تھا اور 4ستمبر کو گورداسپور کی عدالت میں آپ کی پیشی تھی۔ چنانچہ حضورؑ نے حق وباطل میں امتیاز کے لئے یہ آسان طریق ان کے سامنے رکھا کہ 3ستمبر کو جلسہ میں میرا جو مضمون پڑھا جائے گا آپ اُس کا جواب شائع کرا دیں اور پھر خود پبلک دونوں مضامین پڑھ کر فیصلہ کر لے گی کہ کس شخص کا مضمون سچائی پر مبنی ہے۔ چنانچہ حضورؑ نے دوسرے روز جو معرکۃ الآراء لیکچر دیا اس میں اسلام کی حقانیت اور اپنے دعویٰ کی سچائی پر ایسے زبردست نکات سامنے رکھ دئیے کہ بہائی دنیا اور دیگر مذاہب آج تک اس کا جواب لانے سے قاصر ہیں۔
لاہور میں قیام کے دوران ایک سبز پوش فقیر نے اصرار کیا کہ آپ مجھے لکھدیں۔ کہ جو کچھ آپ نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے۔ سب سچ ہے حضور ؑ نے فرمایا ایک ہفتہ بعد آؤ ہم لکھدیں گے جب ایک ہفتہ کے بعد وہ آیا۔ تو حضورؑ نے یہ الفاظ لکھ کر اور اپنی مہر لگا کر اسے دئیے۔کہ جو کچھ میں نے دعویٰ کیا ہے یا جو اپنے دعویٰ کی تائید میں لکھا ہے۔ یا جو میں الہام الٰہی اپنی کتابوں میں درج کئے ہیں۔ وہ سب صحیح ہے سچ ہے اور درست ہے۔
حضورؑ 4ستمبر کو لاہور سے روانہ ہو کر گورداسپور تشریف لے گئے۔
سفر سیالکوٹ
1904ء میں قیام لاہور کے دوران جماعت سیالکوٹ نے حضرت مسیح موعود ؑسے سیالکوٹ تشریف لے جانے کیلئے عرض کیا۔ حضور ؑنے یہ درخواست منظور فرما لی اور 27؍ اکتوبر1904ء کو قادیان سے سیالکوٹ تشریف لے گئے۔ حضور صبح 4بجے قادیان سے روانہ ہوئے اور آٹھ بجے بٹالہ پہنچے۔ بٹالہ سٹیشن سے سیالکوٹ تک ایک سیکنڈ کلاس اور ایک تھرڈ کلاس ڈبہ ریز رو کرایا گیا تھا۔ گیارہ بجے امرتسر پہنچے۔ اس مقام پر چند دوستوں نے حضرت مسیح موعود ؑکی بیعت میں شامل ہونے کا شرف بھی حاصل کیا۔ جماعت امرتسر نے حضور اور حضور کے خدام لئے گاڑی میں ہی کھانا پیش کیا۔پھر راستہ میں اٹاری کے احمدیوں نے دودھ پیش کیا۔ لاہور ریلوے اسٹیشن پر کثرت سے اژدھام تھا حالانکہ بہت سے لوگوں کو اندر آنے سے روکا گیا اور پلیٹ فارم ٹکٹ بھی بند کر دئیے گئے۔ سیالکوٹ کے علماء ایک ہفتہ سے وعظ کررہے تھے کہ کوئی شخص مرزا صاحب کو دیکھنے کے لئے اسٹیشن پر نہ جائے ورنہ اس کی بیوی پر طلاق واقع ہو جائے گی لیکن اس کے باوجود سیالکوٹ کے لوگ ایسے کھینچے گئے کہ جس طرف نظر جاتی تھی آدمی ہی آدمی دکھائی دیتے تھے۔ حضور ؑکی سواری کا جلوس پولیس اور مقامی حکام کے انتظام کے ساتھ شہر کی طرف روانہ ہوا۔ حضورؑ ایک کھلی گاڑی میں سوار تھے۔ حضور ؑ کی قیام کے لئے جناب حکیم میر حسام الدین صاحب کا ایوان تجویز ہوا۔ یہ وہی محلہ تھا جس میں حضورؑ انتہائی گمنامی کی حالت میں چالیس برس پیشتر زمانہ ملازمت کے دوران قیام پذیر رہے۔
28؍اکتوبر کو جمعہ تھا۔ اس دن بیعت کے بعد حضورؑ نے ایک جذب وتاثیر تقریر فرمائی جس میں حضورؑ نے بیش قیمت نصائح فرمائیں اور اپنے دعویٰ کی صداقت پر روشنی ڈالی۔ 31؍اکتوبر کو تجویز ہوئی کہ حضور ؑکی طرف سے دین پر ایک پبلک لیکچر دیا جاوے۔ چنانچہ حضور ؑنے 31؍اکتوبر کی دوپہر کے بعد لیکچر لکھا جو 2؍نومبر کو چھپ بھی گیا۔ اور اسی روز حضورؑ نے لیکچر سیالکوٹ جلسہ میں ارشاد فرمایا۔ حضور ؑکے ساتھ ہی ایک طرف حضرت مولوی نور الدین صاحبؓ (صدر جلسہ) اور دوسری طرف حضرت مولوی عبد الکریم صاحبؓ تشریف فرماتھے ۔ حضرت مولوی نور الدین صاحبؓ نے افتتاحی اور اختتامی خطابات فرمائے۔ مولوی عبدالکریم صاحبؓ نے اپنے مخصوص انداز میں قرآن مجید کی چند آیات تبرکاً تلاوت کیں۔ پھر حضورؑ کا مطبوعہ لیکچر پڑھ کر سنایا۔
3؍نومبر کو حضرت اقدس ؑ واپسی کے سفر پر روانہ ہوئے۔ واپسی پر بھی اسٹیشن پر زائرین کا ہجوم تھا۔
1904ء کے بعض صحابہؓ
1۔ حضرت چوہدری نصر اللہ خاں صاحب
ولادت1863ء۔ آپ اکثر مولوی عبد الکریم صاحب کے درس میں شامل ہوتے اور اس درجہ متأثر تھے کہ خود مولوی صاحب اکثر فرماتے تھے کہ یہ ہو نہیں سکتا چوہدری صاحب اس سلسلہ سے علیحدہ رہیں۔ جب مولوی مبارک علی صاحب کے خلاف احمدی ہونے کے باعث ایک مقدمہ دائر ہوا اور جماعت سیالکوٹ نے چوہدری صاحب کو وکیل مقرر کیا تو مقدمہ کی پیروی کی خاطر آپ کو حضرت مسیح موعود ؑ کے لٹریچر کا تفصیلی مطالعہ کرنا پڑا اور آپ بڑے متأثر ہوئے۔ 1904ء میں آپ کو سیدنا حضرت مسیح موعود ؑ کی طرف سے مولوی کرم دین صاحب والے مقدمہ میں بطور گواہ صفائی بھی طلب کیا گیا جہاں انہیں پہلی بار حضرت مسیح موعود ؑ کی خدمت میں شرف باریابی حاصل ہوااور آپ بہت خوشگوار اثر لے کر واپس آئے۔ اور بالآخر حضور کے قیام سیالکوٹ کے دوران بیعت کر لی۔ (آپ کی اہلیہ محترمہ نے کشف کی بناء پر چند دن پہلے بیعت کرنے کی سعادت پالی تھی)۔ بیعت نے آپ میں ایک روحانی انقلاب پیدا گیا اور آپ 1917ء میں اپنی کامیاب وکالت چھوڑ کر قادیان تشریف لے آئے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے نظارت علیاء کے علاوہ صیغہ بہشتی مقبرہ کے فرائض سپرد فرمائے۔ اس منصب کو آپ نے آخری دم تک اعزازی طور پر نہایت خوش اسلوبی سے نبھایا۔ معرکہ شدھی میں بھی آپ کو حصہ لینے کا شرف حاصل ہوا۔1924ء میں حج سے مشرف ہوئے۔ آپ کا ایک علمی کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے حضرت مسیح موعود ؑ کی بہت سی کتب کے جامع انڈیکس تیار کئے۔ 2ستمبر 1926 ء کو لاہور میں انتقال فرما گئے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کو آپ کے وصال کی خبر ڈلہوزی میں ملی جس پر حضورؓ قادیان تشریف لائے اور 4 ستمبر1926ء کو جنازہ پڑھایا اور چارپائی کو اٹھا کر لحد تک لے گئے۔ بعد ازاں خود اپنے ہاتھ سے کتبہ کی عبارت تحریر فرمائی جس میں لکھا:
’’نہایت شریف الطبع، سنجیدہ مزاج، مخلص انسان تھے۔ بہت جلد جلد اخلاص میں ترقی کی۔ بڑی عمر میں قرآن کریم حفظ کیا۔ آخر میری تحریک پر،وکالت کا پیشہ جس میں آپ بہت کامیاب تھے ترک کر کے دین کے کاموں کے لئے بقیہ زندگی وقف کی اعلیٰ اخلاص کے ساتھ جس میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمیشہ ترقی ہوتی گئی۔…نگاہ دور بین تھی۔ باریک اشاروں کو سمجھتے اور ایسی نیک نیتی کے ساتھ کام کرتے کہ میرا دل محبت اور قدر کے جذبات سے بھر جاتا تھا اور آج تک ان کی یاد دل کو گرما دیتی ہے‘‘۔
2۔ حضرت ماسٹر مولا بخش صاحب
ولادت1876ء۔ مدرسہ احمدیہ کے قدیم اساتذہ میں سے تھے۔ 21؍ اکتوبر1949ء کو جب ربوہ میں لوئر مڈل سکول کی ابتداء ہوئی تو آپ اس کے پہلے ہیڈ ماسٹر بنے۔ 9؍اگست 1950ء کو وفات پائی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے ان کی وفات پر فرمایا کہ آپؓ ان بزرگوں میں سے تھے جو استثنائی ہوتے ہیں۔ باوجود اندھے ہوجانے کے ان کا پڑھنے کا شوق نہیں جاتا تھا۔ جہاں بھی خدمت کا کوئی موقعہ نکلتا وہ اپنے آپ کو اس کے لئے پیش کر دیتے۔ باوجود زور دینے کے میں نے دیکھا ہے کہ وہ پیسے نہیں لیتے تھے۔ میری بچیوں کو بھی انہوں نے پڑھایا ہے مگر باوجود زور دینے کے انہوں نے پیسے نہیں لئے … حالانکہ میں جانتا ہوں کہ ان کی مالی حالت بہت کمزور تھی۔
آپؓ کے دو بیٹوں محترم مولوی عطاء الرحمن صاحب طالب اور محترم مولوی عبد القادر صاحب ضغیم (سابق مبلغ سلسلہ امریکہ) کو ساری زندگی جماعتی خدمات میں گزارنے کی توفیق ملی۔
3۔ حضرت سید دلاور شاہ صاحب
وفات 6؍جون1944ء۔ کئی سال تک اخبار ’’سن رائز‘‘ میں قلمی خدمات بجا لائے۔ ایک اچھی ملازمت آپ نے قومی خدمت کی خاطر ترک کر دی۔ راجپال کے مقدمہ میں آپ نے ’’مسلم آؤٹ لک‘‘ کے ایڈیٹر کی حیثیت سے ہائی کورٹ کے فیصلہ پر بڑی جرأت سے تبصرہ کیاجس پر آپ کو چھ ماہ قید کی سزا دی گئی۔ نہایت قانع بزرگ تھے اور مذہبی مسائل پر تقریر کرنے کا خاص سلیقہ رکھتے تھے۔
4۔ حضرت چوہدری غلام محمد صاحبؓ پوہلہ مہاراں۔
آپ صاحب کشف والہام تھے۔ جب سے سیالکوٹ میںضلع وار نظام قائم ہوا اپنے حلقہ میں بیس اکیس جماعتوں کے امیر رہے۔ خلافت ثانیہ کی بیعت میں آپ کی مسابقت سے دوسرے احباب کو بھی خلافت سے وابستہ ہونے کی تو فیق ملی۔ 31؍ دسمبر1960ء کو انتقال فرمایا اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئے۔
5۔ حضرت شیخ فضل احمد صاحب بٹالوی
ولادت 1883ء۔ وفات 30؍اگست 1968ء۔ 1923ء میں جہاد ملکانہ میں شرکت کی۔ ستمبر 1935ء کے قریب ملازمت سے پنشن یاب ہوکر مستقل قادیان آگئے اور 1936ء سے 1950ء تک سلسلہ کے متعدد انتظامی اداروں میں بہت سی خدمات کی توفیق پائی۔ بہت دعا گو اورحلیم الطبع بزرگ تھے۔
6۔ سابق والیٔ قلات میر خداداد خاں صاحب
ولادت 1839-40ء۔ میر احمد خاں دوئم بادشاہ اورنگ زیب کے ہم عصر اور قلات میں براہوئی سلطنت کے بانی تھے۔ میر خداداد خاںصاحب اسی مرد جری کی نسل میں سے تھے۔ آپ کے والد کا نام مہراب خان دوم تھا۔ آپ 1857ء کے دوران تخت نشین ہوئے اور سترہ سال تک خطرات میں محصور رہے۔ آپ کی شاہی انگشتری میں ’’خدادادگان راخدادادہ‘‘ اور ’’دین ودنیا مرز خداداد است‘‘ کے الفاظ نقش تھے۔ آپ واحد خان تھے جنہوں نے ریاست میں باقاعدہ فوج اور مرکزی خزانہ کی ضرورت محسوس کی۔ زمانہ حال کے بعض مؤرخین کے نزدیک ’’ہمت، استقلال، خلوص، فراست آپ کی سیاسی کشتی کے چپو تھے۔‘‘ آپ نماز اور دیگر مذہبی فرائض کی ادائیگی بہت التزام اور اہتمام سے کرتے تھے اور عالمانہ مذاق رکھتے تھے۔ آپ37سال تک حکمران رہے۔ اور بلوچستان کے انگریز ایجنٹ گورنر جنرل کی سازش سے مارچ 1892 ء میں معزول کر دئیے گئے اور تاج شاہی اگلے سال 10؍نومبر 1893ء کو ان کے بیٹے محمود خان کو پہنا دیا گیا۔ آپ نے 20؍مئی1909ء کو پشین میں داعی اجل کو لبیک کہا اور اسی جگہ سپرد خاک کئے گئے۔ آپ ایک عام خشی گنبد کے نیچے ایک سادہ سی قبر میں مدفون ومکنون ہیں۔
قبولیت دعا
ایک دفعہ1904ء میں حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ بہت بیمار ہو گئے تھے۔ اور ایک وقت ایسا وارد ہوا کہ ان کی بیوی نے سمجھا کہ ان کا آخری وقت ہے۔ وہ روتی چیختی حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں پہنچیں۔ حضورؑ نے تھوڑی سی مشک دی کہ انہیں کھلاؤ اور میں دعا کرتا ہوں۔ حضورؑ اسی وقت وضو کرکے نماز میں کھڑے ہو گئے۔ صبح کا وقت تھا۔ جب حضرت مفتی صاحب کو مشک کھلائی گئی تو تھوڑی دیر میں طبیعت سنبھل گئی۔