مجلس انصاراللہ برطانیہ کا سالانہ اجتماع 2016ء
مجلس انصاراللہ برطانیہ کے 34ویں سالانہ اجتماع 2016ء کا انعقاد
خطبہ جمعہ کے ذریعہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کا خصوصی پیغام، علمائے سلسلہ کی تربیتی تقاریر اور معلوماتی پریزنٹیشنز،
علمی اور ورزشی مقابلہ جات کا انعقاد، معلوماتی نمائش،
(رپورٹ: عبادہ عبداللطیف)
(مطبوعہ انصارالدین ستمبر و اکتوبر 2016ء)
خداتعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ مجلس انصاراللہ برطانیہ کو رُبع صدی سے زائد عرصہ سے یہ سعادت حاصل ہوتی چلی آرہی ہے کہ خلفائے احمدیت کی براہ راست ہدایت، رہنمائی اور دعاؤں سے فیضیاب ہوتے ہوئے ترقی کی منازل طے کرتی چلی جارہی ہے۔ ان ترقیات کی پیمائش کا ایک ذریعہ سالانہ اجتماعات بھی ہیں۔ امسال مجلس انصاراللہ برطانیہ کے 34ویں سالانہ اجتماع کی خصوصیت یہ بھی تھی کہ یہ ایک نئے مقام ’اولڈ پارک فارم کنگزلے‘ (Old Park Farm, Kingsley) میں نہایت کامیابی کے ساتھ بتاریخ 30 ستمبر، یکم و 2؍اکتوبر 2016ء کو منعقد ہوا۔ نیز اس اجتماع میں شامل ہونے والوں کی سعادت یہ بھی تھی کہ سیّدنا حضرت امیرالمومنین خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ازراہ شفقت اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 30؍ستمبر میں اجتماع کے حوالہ سے انصار کو نہایت قیمتی نصائح ارشاد فرمائیں۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کا خصوصی پیغام
حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا کہ: ’’آج سے مجلس انصار اللہ … یوکے(UK) کا اجتماع شروع ہو رہا ہے۔ ہمارے اجتماعات کی اصل روح تو یہ ہے جس کے لئے کوشش ہونی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق اور آپس میں محبت و اخوت میں بڑھا جائے۔ علمی پروگرام اور مقابلے اس روح کے ساتھ ہونے چاہئیں کہ ہم نے ان باتوں سے کچھ سیکھ کر اپنی زندگیوں کا حصہ بنانا ہے۔
بعض کھیلوں کے بھی پروگرام ہوتے ہیں تو اس لئے کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے لئے صحتمند جسم بھی ضروری ہے ورنہ نہ ہی انصار اللہ کی کھیل کود کی عمر ہے اور نہ ہی بائیس تیئس سال کی عمر کے بعد عموماً عورتیں کھیلوں میں کوئی زیادہ شوق رکھتی ہیں۔ پس ورزشی مقابلوں کا مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ اپنی جسمانی صحت کی طرف توجہ رہے اور صرف مقابلوں میں حصہ لینے والے نہیں بلکہ دوسرے بھی کم از کم سیر یا پھر ہلکی پھلکی ورزش سے اپنے جسموں کو چست رکھیں۔ تو بہرحال اصل چیز تو ان اجتماعوں کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں اپنی دینی اور علمی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کی طرف توجہ ہو۔
صدر صاحب انصار اللہ نے مجھے کہا کہ خطبہ میں انصار کو مخاطب کر کے کچھ کہہ دیں۔ انصار اللہ کی عمر تو ایک ایسی عمر ہے جس میں انسان کی سوچ mature ہوتی ہے، پختہ ہوتی ہے اور خود انہیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہونا چاہئے اور ان ذمہ داریوں کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ ایک تو پختہ عمر ہونا اور دوسرے ان بڑی عمر کے لوگوں کی مجلس کا نام انصار اللہ ہونا ہر ممبر کو، ہر احمدی مرد کو جو چالیس سال سے اوپر ہے اپنی ذمہ داری کی ادائیگی کا احساس دلانے کے لئے کافی ہے۔ یہ ذمہ داری یا ذمہ داریاں کیا ہیں جن کو ایک ناصر کو ادا کرنا چاہئے؟ ان کا خلاصہ انصار اللہ کے عہد میں بیان ہو گیا ہے۔
پہلی بات یہ کہ ہر ناصر، ہر شخص جو مجلس انصار اللہ کا ممبر ہے اسلام کی مضبوطی اور احمدیت پر سچے دل سے قائم ہونے کی کوشش کرے۔ اور اسلام کی مضبوطی کے لئے کوشش اپنے علم اور طاقت سے نہیں ہو سکتی۔ اسلام اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہوا دین ہے اور تعلیم کے لحاظ سے کامل اور مکمل دین ہے۔ اس میں کسی انسان نے تو کوئی اور مضبوطی پیدا نہیں کرنی ہے۔ ہاں اپنے آپ کو اس سے مضبوط تعلق پیدا کرنے کے لئے کوشش کی ضرورت ہے تا کہ اس کامل اور مکمل دین کا ہم مضبوط حصہ بن سکیں۔ اور یہ بات خدا تعالیٰ سے تعلق کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتی۔ اس کے لئے ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہئے اور انصار اللہ کے معیار سب سے اعلیٰ ہونے چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا جب تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تعلق نہ ہو جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے خود ہمیں حکم دیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود اور سلام بھیجو، اس کی طرف توجہ دو۔ پس یہ بہت ضروری چیز ہے۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آنے کا حق ادا کرنا ہے۔ جب یہ حق قائم ہو گا تو تبھی احمدیت پر ہم سچے دل سے قائم ہوں گے۔ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے تکمیلِ اشاعتِ اسلام کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا ہے اور احمدیت پر سچے دل سے قائم ہونا تبھی ثابت ہو گا جب ہم اشاعت اسلام اور تبلیغ اسلام میں بھرپور حصہ لیتے ہوئے اپنے آپ کو انصار اللہ ثابت کریں گے۔ پس ایک تو یہ ذمہ داری ہے۔
پھر آپ نے، انصار نے اپنے عہد میں ایک عہد یہ بھی کیا یا دوسرے لفظوں میں اس ذمہ داری کو نبھانے کا، اٹھانے کا وعدہ اور اعلان کیا کہ خلافت احمدیہ سے وفا کا تعلق اور اس کی حفاظت کے لئے کوشش کریں گے۔ یہ کوشش کس طرح ہو گی؟ یہ کوشش تبھی ہو گی جب انصار خلافت کے کاموں اور پروگراموں کو آگے بڑھانے کے لئے اس کے مددگار بنیں گے اور یہ تبھی ہو سکتا ہے جب انصار اپنے آپ کو خلیفہ وقت کی باتوں کے سننے کی طرف متوجہ رکھیں گے اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس زمانے میں ایم ٹی اے کی نعمت بھی عطا فرمائی ہے کہیں دُور بیٹھے ہوئے سنا جا سکتا ہے۔ پس انصار اللہ کو اپنے آپ کو اس کے ساتھ جوڑنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح اپنی اولادوں کو بھی۔ یہ بھی عہد کیا کہ اولادوں کو بھی خلافت سے جوڑیں گے تو اولادوں کو بھی اس ذریعہ سے خلافت کے ساتھ جوڑ دیں علاوہ اور باقی تربیتی باتوں کے تا کہ نسلاً بعد نسلٍ یہ وفاؤں کے سلسلے چلتے رہیں اور قائم رہیں تا کہ خدمت اسلام اور اشاعت اسلام کا کام ہمیشہ جاری رہے۔ کیونکہ اشاعت اسلام کا کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد آپ کے ہی اعلان کے مطابق قدرت ثانیہ کے ذریعہ سے ہونا ہے جو نظام خلافت ہے۔ پس اس کے لئے ہر قربانی کے عہد پر نظر رکھیں۔ یہ عہد آپ نے کیا کہ ہر قربانی آپ کریں گے تو اس پر نظر رکھیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ ‘‘
امر واقعہ یہی ہے کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے مذکورہ بالا خطبہ جمعہ کے ساتھ ہی امسال منعقد ہونے والے مجلس انصاراللہ برطانیہ کے سالانہ اجتماع کا روایتی افتتاح بھی عمل میں آگیا۔ حضور انور کا بلاشبہ یہ بہت بڑا احسان ہے کہ اپنی انتہائی مصروفیات کے باوجود بھی اپنے غلاموں کے لئے اپنی شفقت کا انتہائی محبت سے اظہار فرمایا۔ جَزَاھُمُ اللّٰہ اَحْسَنَ الْجَزَاء۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حضور انور کی نصائح پر عمل کرنے اور حقیقی معانی میں انصاراللہ بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
سالانہ اجتماع کے مختصر کوائف
اولڈ پارک فارم کنگزلے میں جماعت احمدیہ کا پہلا فنکشن ایک ہفتہ قبل یہاں منعقد ہونے والا مجلس خدام الاحمدیہ برطانیہ کا سالانہ اجتماع تھا۔ ایک ہفتہ بعد یہاں مجلس انصاراللہ اور لجنہ اماء اللہ برطانیہ کے سالانہ اجتماعات (پردہ کی رعایت کے ساتھ منعقد ہوئے)۔ حدیقۃالمہدی سے محض چار کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع اس مقام اجتماع کا ایک بڑا حصہ پارکنگ کے لئے مخصوص کیا گیا تھا۔ اگرچہ امسال ایک نئی جگہ، نامساعد حالات، موسمِ سرما کے آغاز اور اجتماع کے دوسرے روز بارش ہوجانے کے باعث مقامِ اجتماع اور خصوصاً پارکنگ ایریا میں کیچڑ ہوجانے کی وجہ سے شاملینِ اجتماع کو خاصی تکلیف اٹھانی پڑی۔ تاہم اس زحمت کے باوجود اجتماع کے تیسرے روز بھرپور حاضری ریکارڈ کی گئی۔ الحمدللہ
امسال سٹیج کی بیک گراؤنڈ سادہ مگر دیدہ زیب تھی۔ سبز رنگ کے کینوس پر سورۃالنحل کی آیت 91 تحریر تھی جس کے ساتھ اس کا انگریزی ترجمہ بھی دیا گیا تھا۔ اس آیت کا اردو ترجمہ یوں ہے: ’’یقینا اللہ عدل کا اور احسان کا اور اقرباء پر کی جانے والی عطا کی طرح عطا کا حُکم دیتا ہے اور بے حیائی اور ناپسندیدہ باتوں اور بغاوت سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم عبرت حاصل کرو۔‘‘
مارکی میں مختلف بینرز آویزاں تھے جن پر خصوصیت سے مجلس انصاراللہ کے قیام کے مقاصد اور انصار کے لئے خلفائے سلسلہ کی ہدایات رقم تھیں۔
مارکی کے پچھلے حصہ میں ایک معلوماتی نمائش کا اہتمام تھا۔ اس خوبصورت نمائش کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ ایک حصہ میں مختلف موضوعات پر آیاتِ قرآنی اور اُن کا ترجمہ آویزاں تھا نیز مختلف زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم بھی میز پر ترتیب سے رکھے گئے تھے۔ نمائش کے دوسرے حصہ میں ایک میز پر تبلیغی سٹال کا نقشہ پیش کیا گیا تھا اور ساتھ میں کیلی گرافی سے مزیّن ایک پوسٹ بنائی گئی تھی جس کے پس منظر میں روشنی کرکے اسے نمایاں کیا گیا تھا۔ جبکہ نمائش کے تیسرے حصہ میں مجلس انصاراللہ یوکے کی نیشنل اور ریجنل سطحوں پر ہونے والے چند اہم پروگراموں کی تصاویر اور معلومات پر مبنی پوسٹرز نمائش کے لئے پیش کئے گئے تھے۔ اس کے علاوہ نیشنل شعبہ وصیت، ہیومینٹی فرسٹ اور Voice of Islam نے اپنے سٹالز بھی لگائے ہوئے تھے۔
ہفتہ اور اتوار کو نماز تہجد باجماعت ادا کی گئی اور نماز فجر کے بعد درس دیا گیا۔
امسال کی ایک اہم پیش رفت یہ بھی تھی کہ اردو میں کی جانے والی تمام تقاریر کے Live (براہ راست) انگریزی ترجمہ کا انتظام بھی تھا۔ اس مقصد کے لئے مکرم ڈاکٹر حامداللہ خان صاحب مقرر تھے جبکہ اُن کی مدد مکرم ثاقب جہانگیری صاحب اور مکرم ڈاکٹر چودھری مظفر احمد صاحب نے کی۔
سالانہ اجتماع کا پہلا روز
30 ستمبر 2016ء کو صبح ناشتہ کے بعد سے رجسٹریشن جاری تھی۔ دوپہر ایک بجے احباب جماعت نے ایم ٹی اے انٹرنیشنل کے ذریعہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کا خطبہ جمعہ سنا اور مقامی طور پر نماز جمعہ اور عصر باجماعت ادا کی گئیں۔
شام ساڑھے چار بجے لوائے انصاراللہ لہرانے کی تقریب منعقد ہوئی۔ مکرم مولانا عطاء المجیب راشد صاحب نائب امیر یوکے و امام مسجد فضل لندن نے لوائے انصاراللہ جبکہ مکرم ڈاکٹر چوہدری اعجازالرحمن صاحب صدر مجلس انصاراللہ یوکے نے برطانیہ کا قومی پرچم لہرایا۔ مکرم امام صاحب نے دعا کروائی۔
افتتاحی اجلاس کی صدارت مکرم مولانا عطاء المجیب راشد صاحب نے کی۔ تلاوت قرآن کریم کی سعادت مکرم معید حامد صاحب کو حاصل ہوئی۔ آیات کریمہ کا انگریزی ترجمہ مکرم جمیل موانجے صاحب نے پڑھا۔ مکرم ڈاکٹر چوہدری اعجاز الرحمن صاحب صدر مجلس انصاراللہ برطانیہ کی اقتداء میں انصار نے کھڑے ہوکر انصاراللہ کا عہد دہرایا۔ جس کے بعد مکرم خالد چغتائی صاحب نے نظم پڑھی۔ مکرم امام صاحب نے اپنی افتتاحی تقریر میں انصار کو بعض تربیتی امور سے متعلق توجہ دلائی۔
اس سیشن کا اختتام دعا کے ساتھ ہوا جو مکرم امام صاحب نے کروائی۔
اجتماع کا پہلا باقاعدہ اجلاس ساڑھے پانچ بجے مکرم چودھری وسیم احمد صاحب سابق صدر مجلس انصاراللہ برطانیہ کی زیرصدارت شروع ہوا۔
ذکرحبیب علیہ السلام
اس اجلاس کی پہلی تقریر مکرم وسیم احمد فضل صاحب استاذالجامعہ الاحمدیہ برطانیہ کی تھی جس کا عنوان تھا: ’’ذکرحبیبؑ‘‘۔ یہ تقریر اردو زبان میں تھی۔
مقرر نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پاکیزہ حیات مبارکہ سے منتخب واقعات پیش کرتے ہوئے حاضرین کو بتایا کہ حضور علیہ السلام کے عظیم الشان کردار کے روشن پہلو آج بھی ہمارے لئے نمونہ ہیں۔ چنانچہ ایک موقع پر جب حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ نے موسمِ سرما کے آغاز پر ایک خادم کے ہاتھ اپنے استعمال شدہ کوٹ کسی دوست کے لئے بھجوائے تو اُس دوست نے استعمال شدہ ہونے کی وجہ سے کوٹ لینے سے معذرت کرلی۔ جب وہ خادم کوٹ واپس لے جا رہے تھے تو اتفاقاً راستہ میں حضور علیہ السلام نے دیکھ لیا اور پھر خادم کی زبانی معاملہ کا علم پاکر فرمایا کہ یہ کوٹ ہمیں دے جاؤ، میر صاحب کو بتادینا کہ ہم نے رکھ لئے ہیں۔ اُن کو اگر واپس کروگے تو وہ دُکھ محسوس کریں گے۔
حضور علیہ السلام کو اپنے صحابہ کے جذبات کا ہمیشہ خیال رہتا تھا۔ چنانچہ ایک موقع پر حضور علیہ السلام نے اپنے سفر کے ساتھی حضرت منشی اروڑا خان صاحبؓ کو تو یکّہ کے ذریعہ بھجوادیا تاکہ وہ ایک قریبی گاؤں میں بیاہی جانے والی اپنی بیٹی سے مل کر پھر منزل پر پہنچ جائیں جبکہ حضور علیہ السلام نے خود پاپیادہ سفر اختیار فرمایا۔
حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانیؓکا بیان ہے کہ ایک بار بہت رات گئے وہ یہ خبر حضور علیہ السلام کی خدمت میں عرض کرنے کے لئے حاضر ہوئے کہ ایک دوست یوسف علی صاحب قریب المرگ ہیں۔ یہ اطلاع دینے کے لئے انہوں نے حضور علیہ السلام کے مکان کے اُس حصہ کے بیرونی دروازہ کے قریب پہنچ کر آواز دی جہاں حضور علیہ السلام رات کو آرام فرمایا کرتے تھے۔ وہ بیان فرماتے ہیں کہ میرے آواز دینے پر حضور علیہ السلام نے پوچھا کہ صاحبزادہ صاحب ہیں؟ عرض کیا: جی۔ حضور علیہ السلام نے خادمہ سے فرمایا: ’’جلدی دروازہ کھول دو، ثواب ہوگا‘‘۔ یہاں غور کرنے کا مقام ہے کہ خادمہ کا کام ہی خدمت ہے۔ لیکن حضور علیہ السلام اُس سے اگر کسی خدمت کا تقاضا بھی کرتے ہیں تو اُس خدمت کے نتیجہ میں بھی خداتعالیٰ کے قرب کو ہی پیش نظر رکھتے ہیں۔
حضرت اقدس علیہ السلام کی قوّت قدسیہ ایسے عظیم مقام پر دکھائی دیتی ہے کہ بسااوقات اللہ تعالیٰ لوگوں کے دلوں کے حالات اور خیالات سے آپؑ کو خبر دیا کرتا تھا اور آپؑ معترضین کے اعتراضات کا جواب اُن کے پوچھے بِنا ہی دے دیا کرتے تھے یا اپنے خدام کی تالیف قلب کے لئے اُن سے احسان کا سلوک فرمایا کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت میاں عبدالعزیز صاحبؓ جو ایک مسکین الطبع شخص تھے۔ وہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک مجلس میں حضور علیہ السلام کے پینے کیلئے دودھ کا گلاس آیا تو میرے دل میں حضورؑ کا پس خوردہ دودھ پینے کی خواہش پیدا ہوئی۔ لیکن وہاں موجود باقی افراد کا خیال کرکے چُپ ہورہا۔ اسی اثناء میں حضور علیہ السلام نے ازخود فرمایا: میاں عبدالعزیز! آؤ یہ دودھ پی لو۔
حضرت میاں عبدالعزیز صاحبؓ مزید بیان فرماتے ہیں کہ ایک مجلس میں جب مَیں پہنچا اور سلام عرض کیا تو میرے دل میں حضور علیہ السلام سے مصافحہ کرنے کی شدید خواہش پیدا ہوئی۔ لیکن اس کا اظہار نہیں کرسکا۔ اچانک حضور علیہ السلام نے فرمایا: میاں عبدالعزیز! آکر مصافحہ تو کرلو۔
مقرر موصوف نے بتایا کہ ایک بار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں ایک مولوی آیا اور اُس نے نہایت بے ادبی سے حضور علیہ السلام کے تلفّظ پر اعتراضات کرنے شروع کئے۔ حضرت شاہزادہ عبداللطیف صاحبؓ بھی اس مجلس میں تشریف فرما تھے۔ آپؓ کو اُس مولوی کے انداز سے اتنا غصہ آیا کہ فارسی میں اُس سے بات کرنا شروع کردی۔ اُس وقت حضرت اقدس علیہ السلام نے آپؓ کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا ورنہ خطرہ تھا کہ آپؓ جوش میں اُس مولوی پر ہاتھ اٹھا دیتے۔
حضور علیہ السلام کی پاکیزہ حیات میں متعدد ایسے واقعات آئے جب آپؑ کی صداقت کا نہایت شان سے ظہور ہوا۔ چنانچہ کپورتھلہ کی احمدیہ مسجد پر جب غیروں نے قبضہ کرلیا اور عدالت میں اس کا مقدمہ پیش تھا۔ اُس وقت احمدیوںنے نہایت پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے حضور علیہ السلام کی خدمت میں دعا کی درخواست کی۔ آپؑ نے فرمایا کہ گھبراؤ نہیں، اگر مَیں سچا ہوں تو یہ مسجد تمہیں مل کر رہے گی۔ لیکن حالات یوں دکھائی دیتے تھے کہ بظاہر جج کی نیّت اس کے برعکس تھی اور وہ یہ اظہار اپنی زبان سے بھی کر رہا تھا کہ احمدیوں نے اپنا نیا مذہب بنالیا ہے تو اب مسجد بھی نئی بنائیں۔ تاہم مسیح وقت کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ ہی انجامکار پورے ہونے تھے اس لئے خداتعالیٰ کی تقدیر اس طرح پر ظاہر ہوئی کہ جس روز اُس جج نے عدالت میں مقدمہ کا فیصلہ لکھوانا تھا اُس صبح عدالت جانے سے پہلے جب اُس کا نوکر اُس کو بوٹ پہنانے لگا تو جج کو دل کا شدید دورہ ہوا جو جان لیوا ثابت ہوا۔ اُس کی موت کے بعد وہاں متعیّن ہونے والے نئے جج نے مسل کا جائزہ لے کر احمدیوں کے حق میں فیصلہ کردیا۔
حضور علیہ السلام کو اپنے غلاموں کا خداتعالیٰ کی طرف رجوع کرنا اور اُسی سے مدد کا طالب ہونا اس قدر مرغوب تھا کہ آپؑ نے اپنے ایک مخلص مرید کا ذکر کرتے ہوئے خوشنودی کا اظہار فرمایا کہ سیٹھ صاحب جب کسی ابتلاء میں آتے ہیں تو دنیاوی لحاظ سے ہاتھ پاؤں مارنے کی بجائے دعا کے لئے قادیان چلے آتے ہیں۔
مقرر موصوف نے کہا کہ جیسا کہ حضور علیہ السلام نے اپنے ماننے والوں سے یہ توقّع فرمائی تھی کہ ہمارے مریدوںکو چاہئے کہ وہ ہماری طرف منسوب ہوکر پھر ہمارے نام کو بدنام نہ کریں، پس آج ہمارا فرض ہے کہ اگر ہم خود کو احمدی کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں تو ہمارا عمل اس طرح سے پاکیزہ ہونا چاہئے کہ جس پر کوئی داغ نظر نہ آئے کیونکہ آج جو احمدی بھی کسی کمزوری کا مظاہرہ کرے گا تو دیکھنے والے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپؑ کی پیش فرمودہ تعلیم پر اعتراض کریں گے۔
حضور علیہ السلام نے یہ بھی فرمایا تھا کہ بیعت پیوند کی طرح ہوتی ہے ۔ جس کی بیعت کی جاتی ہے، اُس کا رنگ بھی نظر آنا چاہئے۔ چنانچہ ہم نے بھی بیعت کے نتیجہ میں جو پیوندکاری کی ہے اُس کے نتیجہ میں ہم میں بھی اُس پاکیزہ سیرت کاعکس ظاہر ہونا چاہئے جس کی تعلیم اور جس کی ذات ہمارے لئے بہترین نمونہ ہے۔
بحیثیت والد ہماری ذمہ داری
اس سیشن کی دوسری تقریر مکرم فہیم احمد انور صاحب نائب صدر صف دوم نے انگریزی زبان میں کی۔ تقریر کا عنوان تھا : ’’بحیثیت والد ہماری ذمہ داری‘‘۔
مقررموصوف نے اپنی تقریر کا آغاز اس قرآنی دعا سے کیا: رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيْمَ الصَّلَوٰۃِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِيْ۔ یعنی: اے میرے ربّ! مجھے نماز قائم کرنے والا بنا اور میری نسلوں کو بھی۔
موصوف نے بتایا کہ اس وقت جنریشن گیپ (Generation Gap) کے نتیجہ میں کئی مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ جہاں بچوںکو اپنے والد سے عزت و احترام سے پیش آنا چاہئے وہاں والد کو بھی بچوں سے محبت، شفقت اور دوستانہ برتاؤ کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ اسی طرح ایک والد جو مجلس انصاراللہ کا بھی رُکن ہو، اُسے اپنے عہد کے یہ الفاظ ہمیشہ سامنے رکھنے چاہئیں کہ: ’’مَیں اپنی اولاد کو بھی ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہنے کی تلقین کرتا رہوں گا‘‘۔
مقرّر موصوف نے باپ اور بچوں کے تعلق میں برطانوی معاشرہ کی خوبصورت روایات کا ذکر کرنے کے بعد حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور حضور انور ایدہ اللہ کا اپنے بچوں سے خصوصاً اور بچوں سے عموماً سلوک کا اختصار سے ذکر کیا اور بتایا کہ والدین کو اپنے بچوں کے ساتھ تعلق مضبوط کرنے کے لئے بچوں کے معاملات اور معمولات میں دلچسپی لینی چاہئے۔ والد کو بچے کے تعلیمی ادارہ، اُس کے اساتذہ اور ماحول کا اندازہ بھی ہونا چاہئے۔ والد کو چاہئے کہ اپنے بچوں کو شفقت سے اپنے ساتھ لگائے اور پیار کرے جس طرح آنحضور ﷺ اپنے نواسوں کو پیار کیا کرتے تھے۔ احمدی باپ کو چاہئے کہ اپنے بچوں کے اچھے کاموں اور اچھے خیالات کی تعریف کرے اور کوشش کرے کہ بچوں کی تربیت ایسے ماحول میں ہو کہ وہ اپنی آئندہ زندگی کے فیصلے خداتعالیٰ کی خوشنودی کو پیش نظر رکھتے ہوئے کرنے کی کوشش کریں۔ جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب حضرت اسماعیل علیہ السلام سے اپنی وہ خواب بیان کی جس میں آپؓ اپنے بیٹے کو ذبح کررہے ہیں تو حضرت اسماعیل ؑ نے پورے شعور کے ساتھ اطاعت کرتے ہوئے اپنا سرتسلیم خم کیا۔ آج یہی تعلق ہمارا اپنی اولاد (خصوصاً وقفِ نَو بچوں) کے ساتھ نظر آنا چاہئے کہ جب اُن سے نظام اُن کی رائے پوچھے تو وہ یہ نہ کہیں کہ ہمارے والدین نے ہمیں وقف کیا تھا اس لئے ہم حاضر ہیں بلکہ خدا کی رضا کی خاطر اپنے آپ کو پیش کریں۔ اسی طرح مالی قربانی کے میدان میں بھی وہ ذاتی طور پر حصہ لیں۔ اسی مقصد کی خاطر حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے وقف جدید کے دفتر اطفال کی بنیاد رکھی تھی اور آج خدا تعالیٰ کے فضل سے پاکستان میں وقف جدید کے بجٹ میں دفتر اطفال کا حصہ نصف سے زیادہ ہے۔
مقرّر موصوف نے کہا کہ بچوں کو خداتعالیٰ کے قرب کے راستے بتانے کے لئے ہمیں اُن کی رہنمائی کرنی چاہئے اور مختلف دعاؤں اور تسبیحات کے بارہ میں بتاتے ہوئے اُن کے اثرات اور پس منظر سے بھی آگاہ کرنا چاہئے۔ چنانچہ ایک بار مَیںنے اپنے بچوں کے ساتھ ایسی 33 باتیں ڈھونڈیں جنہیں الحمدللہ کی تسبیح کے ساتھ ذہن میں رکھا جائے تو الحمدللہ کے مطالب زیادہ وضاحت کے ساتھ ظاہر ہوتے ہیں۔
بچے عموماً نقّال ہوتے ہیں۔ جو لوگ اپنے گھروں میں بیویوں اور بچوں کے ساتھ شفقت اور محبت کا سلوک روا رکھتے ہیں وہ گھروں میں سکون پیدا کرنے کے لئے اپنے بچوں کے رول ماڈل بنتے ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ بچوں کو اُن کی اہمیت کا احساس دلائیں۔ جب ہم کسی بڑے سے ملتے ہیں جن کے ساتھ کوئی بچہ بھی ہوتا ہے تو ہمیں چاہئے کہ ہم بچے سے بھی مصافحہ کریں اور حال وغیرہ پوچھیں۔ بچہ اگر کوئی اچھا کام کرے تو اُس کی تعریف کریں۔ بڑی عمر کے بچوں سے شادی کے موضوع پر بات چیت کریں۔ استخارہ کے متعلق اُن کو معلومات دیں۔
اپنی تقریر کے آخر میں مقرر موصوف نے کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ ہم اپنی مصروفیات، روزگار یا جماعتی خدمات کی وجہ سے اپنے بچوں سے تعلق نہ توڑیں بلکہ اُن کے اور اپنے درمیان زیادہ سے زیادہ پُل بنانے کے لئے کوشش کریں۔
انٹرنیٹ کے مسائل اور والدین کا فرض
اس سیشن کی تیسری اور آخری تقریر مکرم ندیم الرحمن صاحب کی تھی۔ انگریزی زبان میں کی جانے والی اس تقریر کا موضوع ’’انٹرنیٹ کے مسائل اور والدین کے فرائض‘‘ تھا۔
آپ نے بتایا کہ انٹرنیٹ کا بڑا مقصد Bridging the Gap of Knowledgeیعنی مختلف طبقات کے درمیان علم میں فرق کے اختلاف کو کم کرنا اور لوگوں کو زیادہ سے زیادہ معلومات مہیا کرنا ہے۔ چنانچہ انٹرنیٹ کا سب سے بڑا فائدہ یہی ہے کہ اس سے آپ مختلف علوم کو بنیادی سطح سے لے کر اعلیٰ سطح تک حاصل کرسکتے ہیں۔ نیز انٹرنیٹ کے ذریعہ لوگوں کے درمیان باہمی روابط مضبوط کئے جاسکتے ہیں (Communication Between People)۔ اسی طرح انٹرنیٹ کے ذریعہ علم کے ذرائع کو وسیع کیا جاسکتا ہے (Share the Resources)۔ اس کی ایک بڑی مثال مجلس انصاراللہ برطانیہ کا انٹرنیٹ کے ذریعہ قرآن کریم سکھانے کا پروگرام ہے۔ مزید یہ کہ تبلیغ کے اہم ذرائع بھی انٹرنیٹ کے مرہون منّت ہیں۔ تاہم انٹرنیٹ کے فوائد کے ساتھ ساتھ اس کے نقصانات بھی بہت زیادہ نظر آتے ہیں۔ انٹرنیٹ کے ذریعہ کم عمر بچوں کے ایسے افراد کے ساتھ روابط پیدا ہوسکتے ہیں جو بدی کی دنیا کی طرف دھکیلنے والے لوگ ہیں۔ انٹرنیٹ کے ذریعہ لوگ باہم جھوٹ کا لبادہ اوڑھ کر مسلسل جھوٹی زندگی گزارتے ہیں اور دوسروں کو دھوکہ دیتے چلے جاتے ہیں۔ بداخلاقی پر مبنی فلموں اور مناظر کا دیکھنا بھی انٹرنیٹ کا ایک منفی پہلو ہے۔ مزید یہ کہ وقت جیسی قیمتی چیز کا ضیاع بھی انٹرنیٹ کے ذریعہ بہت زیادہ سامنے آرہا ہے۔
مقرر موصوف نے بتایا کہ وہ ذاتی طور پر ایسے گھرانوں سے بھی واقف ہیں جہاں بچے اور والدین سب ایک ہی گھر کے مختلف حصوں میں کمپیوٹر اور فون وغیرہ پر مصروف ہیں اور باہم رابطہ بھی “WhatsApp” کے ذریعہ کرتے ہیں۔ اس کے نقصانات سے بچنے کے لئے ہمیں چاہئے کہ گھر میں ایک دوسرے سے زیادہ سے زیادہ براہ راست روابط پیدا کریں۔ بچوں کی کمپیوٹر پر ہونے والی سرگرمیوں سے آگاہ رہیں اور اس حوالہ سے اُن سے تبادلۂ خیال بھی کرتے رہیں۔
تقریر کے آخر میں مقرر موصوف نے والدین کے بچوں کے لئے بہترین نمونہ بننے کی اہمیت بیان کی اور اس اہم نصیحت کے ساتھ تقریر ختم کی کہ انٹرنیٹ صرف اُسی صورت میں آپ کی عائلی زندگی کو خراب کرسکتا ہے جس حد تک آپ اُسے اِس دراندازی کی اجازت دیں گے۔
دعا کے ساتھ یہ اجلاس اختتام پذیر ہوا جو مکرم چودھری وسیم احمد صاحب نے کروائی۔ بعدازاں نماز مغرب اور عشاء ادا کی گئیں اور پہلے دن کا پروگرام اختتام کو پہنچا۔
سالانہ اجتماع کا دوسرا روز
آج صبح کے اجلاس میں چند علمی مقابلہ جات کا انعقاد ہوا جبکہ اُسی وقت میدانِ عمل میں چند ورزشی مقابلہ جات منعقد ہوئے۔
اجتماع گاہ میں نماز ظہر و عصر کی باجماعت ادائیگی کے بعد اجتماع کا تیسرا سیشن مکرم مولانا عطاء المجیب راشد صاحب امام مسجد فضل لندن کی زیرصدارت منعقد ہوا۔ تلاوت قرآن کریم مکرم داؤد احمد صاحب نے کی۔ آیات کریمہ کا ترجمہ مکرم ڈاکٹر مسعود احمد مجوکہ صاحب نے پڑھ کر سنایا۔ مکرم صفدر حسین عباسی صاحب نے محترم ثاقب زیروی صاحب کے کلام ’’نوید منزل‘‘ سے چند اشعار ترنّم سے پڑھ کر سنائے۔
دعوت الی اللہ ہمارا فرض ہے
اس سیشن میں سب سے پہلے ایک Presentationتھی جو مکرم شکیل احمد بٹ صاحب قائد تبلیغ مجلس انصاراللہ یوکے نے پیش کی۔ آپ نے سورۃحٰمٓ السجدہ کی آیت 34 کی تلاوت کی اور درج ذیل ترجمہ پڑھا: اور بات کہنے میں اس سے بہتر کون ہوسکتا ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک اعمال بجا لائے اور کہے کہ میں یقینا کامل فرمانبرداروں میں سے ہوں۔
مقرر موصوف نے اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ ارشاد پیش کیا کہ ’’ہمارے اختیار میں ہو تو ہم فقیروں کی طرح گھر بہ گھر پھِر کر خدا تعالیٰ کے سچے دین کی اشاعت کریں‘‘۔ پھر بتایا کہ حضور علیہ السلام کے ارشادات اور حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی ہدایات کی روشنی میں مجلس انصاراللہ یوکے سارے ملک میں مسلسل ایسے پروگراموں کا انعقاد کرتی رہتی ہے جس کے نتیجے میں اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ملک کی زیادہ سے زیادہ آبادی تک اسلام احمدیت کا پیغام پہنچ جائے۔ حضور انور نے ایک بار یہ ہدایت بھی فرمائی تھی کہ جس طرح حج اور دیگر میلوں کے مواقع پر آنحضور ﷺ تبلیغ کیا کرتے تھے اسی طرح انصار بھی مقامی طور پر ہونے والے میلوں میں سٹال لگائیں اور اسلام کے بارہ میں غلط فہمیوں کا ازالہ کریں۔ نیز دیہات میں چونکہ شرفاء کی تعداد زیادہ ہوتی ہے اس لئے وہاں کے باسیوں میں انفرادی تبلیغ پر خصوصی توجہ دی جائے۔
قائد تبلیغ نے مختلف اعدادوشمار پیش کرتے ہوئے گزشتہ پانچ سال میں مجلس انصاراللہ برطانیہ کی تبلیغی کاوشوںپر روشنی ڈالی اور بتایا کہ گزشتہ پانچ سال میں برطانیہ کے 3792؍دیہات وزٹ کئے گئے اور واقعۃً گھر بہ گھر پہنچ کر نیز نمائشوں کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ افراد کو اسلام احمدیت کی تعلیمات سے آگاہ کیا گیا۔ اسی طرح شہروںمیں گزشتہ پانچ سال میں 12130 تبلیغی سٹالز لگائے گئے جبکہ اس عرصہ کے دوران تقسیم کئے جانے والے لیفلیٹس کی تعداد 2.7 ملین سے زائد ہے۔نیز آنحضور ﷺ کی حیات مبارکہ “Life of Muhammadsa” اور حضور انور ایدہ اللہ کی کتاب “Pathway to Peace” کی تقسیم کے لئے خصوصی مساعی کی گئی۔
گزشتہ پانچ سال کے دوران مختلف نمائشوں، مجالس سوال و جواب اور اسی نوعیت کے پروگراموں کی کُل تعداد 1170 رہی۔ ان پروگراموں کی بازگشت مختلف سطحوں پر بلکہ پارلیمنٹ میں بھی سنی گئی۔
تبلیغی مساعی کے نتیجہ میں حاصل ہونے والے ثمرات کے حوالہ سے مکرم قائد صاحب نے بتایا کہ گزشتہ سال 124؍سعید روحوں کو اسلام احمدیت کی آغوش میں آنے کی توفیق ملی جبکہ امسال اب تک ایسے خوش نصیب افراد کی تعداد 31 ہے۔
UK میں احمدیوں کے خلاف تعصّب اور انصار کا کردار
اس سیشن کی اگلی تقریر مکرم ٹوبان ایفرام موانجے (Toban Ephram Mwanje) صاحب کی تھی۔ آپ کا تعلق یوگنڈا سے ہے اور اس وقت برمنگھم میں مقیم ہیں۔ آپ نے قریباً بیس سال قبل احمدیت قبول کرنے کی سعادت حاصل کی تھی۔ آپ کی تقریر کا موضوع تھا: “Persecution of Ahmadis in the UK & Role of Young Ansar”۔ یعنی برطانیہ میں احمدیوں کے خلاف مذہب کی بنیاد پر جاری تشدّد کی مہم کے جواب میں نوجوان انصار کا کردار کیا ہونا چاہئے۔
مقرر موصوف نے نہایت خوبصورتی سے اپنے موضوع سے انصاف کیا اور حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے خطبہ جمعہ کے حوالہ سے مکرم اسد شاہ صاحب آف گلاسگو کی شہادت کے پس منظر اور اس حوالہ سے حضور انور کی احمدیوں سے توقّعات پر روشنی ڈالی۔ آپ نے برمنگھم اور بعض دوسرے شہروں میں احمدیہ مساجد کی تعمیر کے خلاف ہونے والے مظاہروں اور بہت سے ایسی مقامی پابندیوں کا بھی ذکر کیا جس کے نتیجہ میں احمدیوں کو دیگر مسلمانوں سے علیحدہ کرکے ایک نئے مذہب کے طور پر پیش کرنے کی سازش کی جارہی تھی۔
مخالفت کی اس صورتحال (میں جو اگرچہ پاکستان، بنگلہ دیش، انڈونیشیا اور بعض دیگر ممالک میں کی جانے والی احمدیوں کی مخالفت جیسی سنگین نہیں ہے لیکن اس) کے نتیجہ میں ہم انصار پر جو ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہ خدا تعالیٰ سے بہت بڑھ کر تعلق پیدا کرنے کی کوشش کرنا ہے اور اس مقصد کے لئے نماز اور عبادات کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ نیز اپنی روایات اور اقدار کی حفاظت کرنا اور اطاعت کے جذبہ کے ساتھ اسلام احمدیت کی حقیقی تعلیمات سے دوسروں کو روشناس کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی زندگیوں کو بھی ایسے مقام پر لانا چاہئے جس سے یہ معلوم ہوسکے کہ ایک عملی مسلمان کا کردار کیا ہوتا ہے۔
مقرر موصوف نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ایک خطبہ جمعہ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ جس طرح حضور انور نے ایک دوسرے ملک کی ذیلی تنظیموںکو ہدایت فرمائی تھی کہ اپنے کاموں کے سلسلہ میں کونسل سے خود رابطہ کریں اسی طرح ہمیں بھی چاہئے کہ ایسے مقامات پر جہاں احمدیوں کو الگ تھلگ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے یا کسی بھی قسم کی نفرت انگیز مہم اُن کے خلاف چلائی جارہی ہے، وہاں متعلقہ حکّام سے مل کر شرپسند عناصر سے نبٹنے کی طرف توجہ دلائی جائے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب احمدیوں کو اپنی حفاظت میں رکھے اور دشمن کے شر کو اُن پر ہی اُلٹادے۔ آمین
مقرر موصوف نے نوجوان انصار کی اس ذمہ داری پر بھی روشنی ڈالی کہ معاشرتی برائیوں سے اپنی نوجوان نسل کو بچانے کے لئے کوشش کرنی چاہئے۔ منشیات، جوآ اور شراب وغیرہ کے استعمال سے اس ملک کی نوجوان نسل کا مزاج بگڑ رہا ہے۔ ان برائیوں میں مبتلا ہونے کی بڑی وجہ جنریشن گیپ (Generation Gap) یا بڑوں کا اپنے چھوٹوں سے رابطہ نہ رکھنا ہے۔ بچوں کی پیدائش کے بعد ہم اپنے فرض سے غافل رہتے ہیں اور اُن کی تربیت کی طرف توجہ نہیں دیتے لیکن اُن بچوں کے بڑے ہونے کے بعد ہم نظام جماعت کو مورد الزام ٹھہرانا شروع کردیتے ہیں کہ گویا نئی نسل کی تربیت کی ذمہ داری صرف نظام جماعت کی ہی تھی اور ہمارا کام صرف بیج پھینکنا ہی تھا جبکہ فصل کی حفاظت اور آبیاری وغیرہ کی ذمہ داری کسی اَور کی تھی۔ حالانکہ ہمارا فرض تھا کہ ہم اپنی نسلوں کے ساتھ مضبوط تعلق پیدا کرتے اور اُن کے لئے قابل تقلید نمونہ بنتے۔ دعا بھی کرتے اور خلافت کی اطاعت کرتے ہوئے اُن کے ارشادات کی روشنی میں عمل کرنے کی کوشش کرتے۔
اس تقریر کے بعد شعبہ تبلیغ اور شعبہ مال کے حوالہ سے اعلیٰ کارکردگی کی حامل مجالس کے زعماء کو مکرم مولانا عطاء المجیب راشد صاحب (صدراجلاس) نے اعزازات تقسیم کئے ۔
دعوت الی اللہ اور ہمارا فرض
اس سیشن کی آخری تقریر مکرم مولانا عطاء المجیب راشد صاحب نائب امیر یوکے و امام مسجد فضل لندن کی تھی۔ آپ کی تقریر کا موضوع سورۃ حٰمٓ السجدہ کی آیت 34 ہی تھی جس کا ترجمہ ہے: اور بات کہنے میں اس سے بہتر کون ہو سکتا ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک اعمال بجا لائے اور کہے کہ میں یقینا کامل فرمانبرداروں میں سے ہوں۔
مقرر موصوف نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں تین اہم امور کی طرف توجہ دلائی ہے۔ اوّل یہ کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بات کرنے کی جو صلاحیت عطا فرمائی ہے، اس نعمت کا بہترین استعمال یہ ہے کہ خدا کی طرف لوگوں کو بلایا جائے یعنی دعوت الی اللہ کی جائے۔ دوم یہ کہ اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے کے ساتھ عمل صالح بھی نہایت ضروری ہے۔ دراصل دعوت الی اللہ میں یہ عظیم راز پنہاں ہے جس کے نتیجہ میں ذاتی اصلاح کی صورت بھی پیدا ہوجاتی ہے۔ چنانچہ تیسرا اہم امر اس آیت میں یہی بیان کیا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف بلانے والا اپنی مثال بھی دنیا کے سامنے پیش کرسکے کہ وہ قول و فعل میں عدم تضاد کا مظہر ہے۔ پس جو شخص بھی اپنی ذات میں مثالی احمدی بن جائے گا وہ ایک مثالی داعی الی اللہ اور مثالی مبلغ بھی بن جائے گا۔
محترم امام صاحب نے بتایا کہ دعوت الی اللہ کے میدان میں ہمارے لئے سب سے بہترین نمونہ آنحضرت ﷺ کا ہے۔ آپ نے دعوت الی اللہ کا کوئی موقع ضائع نہیں کیا۔ حج کے ایّام میں، دیگر میلوں ٹھیلوں کے مواقع پرجہاں بھی چند لوگوں سے آپؐ کو بات کرنے کا موقع ملتا تو آپ احسن انداز میں انہیں خداتعالیٰ کی طرف بلاتے اور اس راہ میں ہر مشکل، تکلیف اور صعوبت کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرتے۔ طائف کے سفر میں آپؐ پر اتنے پتھر برسائے گئے کہ خون بہتے ہوئے جوتوں میں جم گیا۔ لیکن ایسی حالت میں بھی آپؐ کے لب سے کسی کے لئے بددعا نہیں آئی اور نہ ہی بعد کی زندگی میں آپؐ نے دکھ پہنچانے والے دشمن کے لئے بددعا کی یا کسی سے کوئی بدسلوکی کی۔
دعوت الی للہ کی راہ میں آنحضور ﷺ کے صحابہ کو بھی حد درجہ تکالیف پہنچائی گئیں لیکن آنحضورﷺ کو دی جانے والی تکالیف کا شمار ہی ممکن نہیں۔ آپؐ کے اوپر سجدہ کی حالت میں اوجھڑی ڈال دی گئی، سر پر خاک پھینکی جاتی، بدزبانی اور گالی گلوچ تو عام تھی۔ لیکن آپؐ نے کسی بھی حالت میں تبلیغ نہیں چھوڑی اور نہ ہی کوئی بددعا کی۔ البتہ تبلیغ کے میدان میں ہر ممکن کوشش جاری رکھی۔ بادشاہوں کو خطوط لکھ کر انہیں بھی دعوت الی اللہ کی۔
آنحضور ﷺ کے غلام صادق حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے بھی قابل تقلید نمونہ دعوت الی اللہ کے میدان میں ہمارے سامنے رکھا۔ آپؑ فرماتے ہیں:
دیکھ سکتا ہی نہیں مَیں ضُعفِ دینِ مصطفی
حضرت مولوی فتح دین صاحبؓ دھرمکوٹی فرماتے ہیں کہ ایک رات میرا قیام حضور علیہ السلام کے پاس تھا۔ رات کو مَیں نے دیکھا کہ حضورؑ نہایت تکلیف کی حالت میں کروٹیں بدلتے رہے اور دردناک آواز میں گریہ و زاری بھی کرتے رہے۔ صبح جب حضرت مولوی صاحبؓ نے خدمتِ اقدس ؑ میں رات کے واقعہ کا ذکر کرکے اتنی تکلیف کے اظہار کا سبب پوچھا تو حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ دین پر مظالم کا تصوّر کرکے ہمارا یہ حال ہوجاتا ہے۔ نیز اس قسم کے الفاظ بھی فرمائے کہ گویا حضورؑ اپنی اس حالت کو کسی پر ظاہر کرنا پسند نہیں فرماتے تھے۔
حضور علیہ السلام کی تبلیغ کے حوالہ سے قلبی کیفیات کا ذکرکرتے ہوئے مکرم امام صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چند ارشادات بھی پیش کئے۔ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’ہمارے اختیار میں ہو تو ہم فقیروں کی طرح گھر بہ گھر پھِر کر خداتعالیٰ کے سچے دین کی اشاعت کریں‘‘۔ حضرت اقدسؑ مزید فرماتے ہیں کہ ’’اگر خداتعالیٰ ہمیں انگریزی زبان سکھادے تو ہم خود پھر کر اور دورہ کرکے تبلیغ کریں۔ اور اس تبلیغ میں زندگی ختم کردیں خواہ مارے ہی جائیں۔‘‘
اگرچہ ایک موقع پر حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ انگریزوں میں اشاعتِ دین کا کام مَیں اُن لوگوں کے سپرد کرتا ہوں جو انگریزی جانتے ہیں۔ لیکن ان ممالک میں رہنے والے بعض لوگ یہ عذر کرتے ہیں کہ ہم انگریزی زبان سے ناآشنا ہیں۔ اُن احباب کے لئے حضرت میاں شیر محمد صاحبؓ تانگہ بان کا نمونہ قابل تقلید ہے۔ اُنہیں اردو نہیں آتی تھی لیکن وہ اپنے تانگہ میں اخبار الفضل کا تازہ پرچہ رکھ چھوڑتے تھے۔ جب وہ قادیان اور بٹالہ کے درمیان تانگہ بانی کرتے تو پوچھتے کہ کسی سواری کو اردو آتی ہو تو مہربانی کرکے مجھے پڑھ کر سنادے۔ چنانچہ کوئی نہ کوئی سواری اس پر تیار ہوجاتی اور اس طرح باقی سارے سنتے۔ کہا جاتا ہے کہ بہت سے لوگوں کی ہدایت کا سبب اُن کا یہ طریقہ کار بنا۔
مکرم امام صاحب نے بتایا کہ ایسا ہی ایک واقعہ ایڈیلیڈ (آسٹریلیا) میں بھی مشاہدہ میں آیا۔ جب ایک مجلس سوال و جواب میں ایک پڑھے لکھے آسٹریلین تشریف لائے اور اُن کے ساتھ بہت عمدہ علمی اور تبلیغی گفتگو ہوئی۔ جب مَیںنے اُن سے پوچھا کہ وہ کس کی دعوت پر اس مجلس میں تشریف لائے ہیں تو وہ کہنے لگے کہ وہ مختار نامی اپنے ہمسائے کی دعوت پر آئے ہیں۔ مَیں چونکہ مختار کو جانتا تھا اس لئے حیرت سے پوچھا کہ اُسے تو انگریزی کا ایک لفظ بھی نہیں آتا اُس سے کیسے دعوت ملی۔ وہ بتانے لگے کہ ایک دن جب وہ اپنے باغیچہ میں تھے تو مختار اس مجلس کے لئے ایک دعوت نامہ لایا اور میرے سامنے کرکے کہنے لگا: Go, Go۔ وہ کہنے لگے کہ مختار کے کہنے میں کچھ ایسی چاشنی تھی اور اُس کی آنکھوں میں ایسا جذبہ تھا کہ مَیں اُسے انکار نہ کرسکا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’درحقیقت خوش اور مبارک زندگی وہی ہے جو دین کی خدمت میں بسر ہو‘‘۔ آپؑ کا اپنا نمونہ یہ تھا کہ انتہائی گرمیوں کے زمانہ میں بھی آپؑ نے اشاعتِ دین کا کام کبھی ترک نہیں کیا۔ ایسی گرمیوں میں جب ہر انسان نڈھال ہو جاتا ہے اُس وقت کسی نے یہ رائے دی کہ اگر حضورؑ کے کمرہ میں لٹکنے والا پردہ لگادیا جائے تاکہ شدید گرمی میں کسی قدر ہوا چلنے کا انتظام ہوجائے۔ اس پر آپؑ نے فرمایا کہ جب ٹھنڈی ہوا آئے گی تو نیند آجائے گی اور کام رُک جائے گا۔
حضور علیہ السلام کے دل میں تبلیغ کا جوش اس قدر غالب تھا کہ ایک موقع پر جب ایک دوست نے دروازہ کھٹکھٹایا اور خواہش ظاہر کی کہ وہ حضورؑ کی خدمت میں خود ایک خوشخبری پہنچانا چاہتے ہیں تو حضورؑ نے اپنی مصروفیت کا عذر کرکے دوسرے دوست کو بھیجا کہ خبر اُن کو بتادیں۔ لیکن خبر لانے والے نے اصرار کیا وہ خود یہ خوشی کی خبر حضورؑ تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ اس پر حضورؑ دروازہ پر تشریف لے گئے۔ آنے والے دوست نے نہایت جوش سے ایک مناظرہ میں شاندار کامیابی کی اطلاع دی کہ احمدی مبلغ نے کس طرح دلائل کے زور پر مخالف کا ناطقہ بند کردیا۔ یہ سن کر آپؑ نے فرمایا کہ مَیں تو سمجھا تھا کہ آپ یورپ کے مسلمان ہونے کی خبر لائے ہیں۔
دراصل یورپ میں (جو شرک اور تثلیث کا مرکز ہے) تبلیغ کے ثمرات دیکھنا حضرت اقدس علیہ السلام کی دلی خواہش تھی۔ پس آج یہاں رہنے والے احمدیوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے آقا کی خواہش کو پورا کرنے کے لئے حکمت کے ساتھ اسلام احمدیت کا پیغام پہنچانے میں کسی قسم کی سستی کا مظاہرہ نہ کریں۔ اور یاد رکھیں کہ داعیان الی اللہ کی نصرت اور اُن کے کام خود خداتعالیٰ کرتا ہے۔
مکرم امام صاحب نے اپنی تقریر کے اختتام پر ایک داعی الی اللہ حضرت مولوی محمدحسین صاحبؓ (سبز پگڑی والے) کے چار واقعات پیش کئے۔ ایک واقعہ میں شدید بھوک اور نقاہت کے عالم میں جب حضرت مولوی صاحبؓ اپنی کتابوں کا بستہ سر کے نیچے رکھ کر ایک کھیت کی منڈیر پر سستانے کے لئے لیٹ گئے تو خواب کے عالم میں آپ کو دودھ کا گلاس بھر کر پلایا گیا۔ جب آپؓ جاگے تو منہ میں دودھ کا ذائقہ تھا اور پھر سارا راستہ آپؓ کو دودھ کے ڈکار آتے رہے اور کمزوری کا کوئی اثر باقی نہیں رہا۔
دوسرے واقعہ میں جب حضرت مولوی صاحبؓ اپنے ایک ساتھی کے ساتھ تبلیغی سفر پر تھے تو تیز بارش نے اُن کو آلیا۔ دونوں داعیان الی اللہ نے اپنے آپ کو نیز دینی کتابوں کو بھیگنے سے بچانے کے لئے ایک درخت کے نیچے پناہ لی۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ یکدم میرے دل میں ڈالا گیا کہ مَیں وہاں سے روانہ ہوجاؤں چنانچہ مَیں نے اپنے ساتھی کا ہاتھ پکڑا اور تیز تیز بارش میں ہی چلنے لگا۔ ابھی ہم کچھ ہی دُور پہنچے تھے کہ زوردار بجلی کا کڑکا ہوا۔ پیچھے مُڑ کر دیکھا تو اُسی درخت پر بجلی گری تھی جس کے نتیجہ میں وہ درخت دو حصوں میں منقسم ہوگیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے دونوں داعیان الی اللہ کو محفوظ رکھا۔
حضرت مولوی صاحبؓ کی حفاظتِ الٰہی کا تیسرا واقعہ یوں تھا کہ بٹالہ کے ایک لوہار کو تبلیغ کرنے آپؓ اُس کی دکان پر جایا کرتے تھے۔ کسی غیراحمدی مولوی نے اُس کو بار بار آپؓ کے خلاف بھڑکایا اور اس بات پر آمادہ کرلیا کہ وہ اپنے ہتھوڑے سے حضرت مولوی صاحبؓ کو اُس وقت قتل کردے جب آپؓ تبلیغ کرنے کے لئے اُس کے پاس آئیں۔ چنانچہ ایک بار جب آپؓ اُس لوہار کی دکان میں داخل ہوئے تو اُس نے قریب پڑا ہوا اپنا بھاری ہتھوڑا اٹھایا اور آگے بڑھ کر آپؓ پر وار کرنے ہی والا تھا کہ ہتھوڑا اوپر اٹھاتے ہوئے اُس کا ہاتھ اچانک چھت کے ساتھ لٹکی ہوئی تیز درانتی کے ساتھ رگڑا اور کٹ کر الگ ہوگیا۔ ہتھوڑا نیچے جاگرا۔ اور جب اُسے شدید زخمی حالت میں ہسپتال لے جایا جا رہا تھاتو وہ بلند آواز میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کی گواہی دے رہا تھا۔
حضرت مولوی صاحبؓ کے حوالہ سے چوتھا واقعہ یہ تھا کہ چارکوٹ (کشمیر) میں ایک تبلیغی نشست کے دوران چوپال میں بیٹھے لوگوں نے قحط سالی کی شکایت کی اور کہا کہ فلاں چشمہ اگر دوبارہ جاری ہوجائے تو پھر ہم مان جائیں گے کہ آپ کا مسیح سچا ہے۔ آپؓ نے پوچھا کہ کیا تم لوگ سنجیدہ ہو یا خوامخواہ ایک بات ہی کررہے ہو۔ جب اُن لوگوںنے اپنی سنجیدگی کا یقین دلایا تو آپؓ اُن کو ہمراہ لے کر چشمہ پر تشریف لائے۔ جوتے اُتارے اور اُن لوگوں سے کہا کہ ہاتھ اٹھاکر میرے ساتھ دعا میں شامل ہوجاؤ۔ آپؓ نے گریہ و زاری سے دعا شروع کی اور اللہ تعالیٰ سے مسیح موعود کی صداقت کا نشان مانگا۔ کچھ ہی دیر گزری تھی کہ قحط سالی کی وجہ سے سوکھ کر بند ہوجانے والے اُس چشمہ سے پانی رسنا شروع ہوگیا اور پھر کچھ ہی دیر میں پانی بہنے لگا۔ یہ نشان دیکھ کر بہت سی سعید روحوں نے قبول احمدیت کی توفیق پائی۔
مکرم امام صاحب نے حضور انور ایدہ اللہ کے اِس ارشاد پر اپنی پُراثر تقریر کا اختتام کیا۔ حضور انور فرماتے ہیں کہ ’’ہر احمدی کو احمدیت کا سفیر، مبلغ اور نقیب بننا چاہئے‘‘۔
دعا کے ساتھ یہ اجلاس اختتام پذیر ہوا جو مکرم امام صاحب نے کروائی۔
چائے کے وقفہ کے بعد سالانہ اجتماع کا چوتھا سیشن مکرم عبدالماجد طاہر صاحب ایڈیشنل وکیل التبشیر لندن کی زیرصدارت شروع ہوا۔ تلاوت قرآن کریم مکرم ایوب ندیم خان صاحب نے کی۔ آیاتِ کریمہ کا ترجمہ مکرم ڈاکٹر اعجاز احمد صاحب نے پیش کیا۔ مکرم چودھری منصور احمد صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حمدیہ کلام سے چند اشعار ترنّم سے پڑھ کر سنائے۔
خدا تعالیٰ سے زندہ تعلق پیدا کرنے کا طریق
اس اجلاس کی پہلی تقریر (Presentation) مکرم نثار آرچرڈ صاحب سیکرٹری تربیت جماعت احمدیہ برطانیہ کی تھی۔ انگریزی میں ہونے والی آپ کی تقریر کا موضوع تھا: ’’خدا تعالیٰ سے زندہ تعلق پیدا کرنے کا طریق‘‘۔
مکرم نثار آرچرڈ صاحب نے بتایا کہ مذکورہ موضوع پر باقاعدہ بات کرنے سے پہلے ہمیں ’’باہمی تعلق‘‘ یعنی Relationship کی تعریف کو ذہن میں رکھنا چاہئے۔ دراصل دو چیزوں یا دو انسانوں کے باہم ملنے کی حالت کو Relationship کہتے ہیں۔ اگر آپ مختلف لوگوں اور مختلف رشتوں کے حوالہ سے اپنے تعلقات کا جائزہ لیں تو محبت اور پیار کے تعلقات کا سوچیں گے جو اپنے والدین، بھائی بہنوں، بیوی اور اولاد نیز دیگر رشتوں کے حوالہ سے اُستوار کئے جاسکتے ہیں۔ اگر آپ شادی کے بعد کے عرصہ میں اپنی بیوی کی محبت سے متعلق سوچتے ہیں کہ کس طرح آپ چاہتے تھے کہ اپنی باہر کے کاموں اور ذمہ داریوں سے جلدی فارغ ہوکر گھر پہنچیں اور اپنی بیوی کی قربت سے لطف اٹھائیں۔ یہی قربت کا تعلق خداتعالیٰ کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ ایسے انسان کا بھی ایسا ہی حال ہوتا ہے کہ وہ سب کام چھوڑ چھاڑ کر خدا کی طرف بھاگنا چاہتا ہے۔ تاہم قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ خداتعالیٰ کا مقام نہایت اعلیٰ و برتر ہستی کا مقام ہے۔ اور کسی انسان کے ساتھ باہمی تعلق کا اظہار خود خداتعالیٰ یوں کرتا ہے کہ اگر کوئی ایک قدم اُس کی طرف اٹھائے تو وہ دس قدم اُس بندے کی طرف آئے گا۔ اور اگر کوئی چل کر اُس کی طرف جائے تو وہ دوڑ کر اپنے بندہ کی طرف آئے گا۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اللہ تعالیٰ سے محبت کس طرح پیدا کی جاسکتی ہے تو یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کے لئے آنحضور ﷺ سے شدید محبت پیدا کرنی چاہئے۔ جس کاطریق اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہی سکھایا ہے کہ ہم درود شریف پڑھیں۔ یہ درود ہمیں سوچ سمجھ کر پڑھنا چاہئے۔ ہمیں یہ احساس ہونا چاہئے کہ آنحضور ﷺ نے ہماری خاطر ، اسلام کی خاطر، بنی نوع انسان کی خاطر کس قدر ظلم برداشت کئے اور کتنی مشکلات اور تکالیف کے دریا عبور کئے۔ آپؐ نے اپنی ساری زندگی خدا تعالیٰ کی خاطر پیش کردی اور اسلام کی ترویج کے لئے ہر صعوبت کو خوشی سے برداشت کیا۔
مقرر موصوف نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کے لئے ہمیں خدا تعالیٰ کے پاک کلام سے بھی انتہائی محبت کرنی چاہئے۔ تلاوت قرآن کریم کو اپنی عادت بنالینا چاہئے اور اس میں بیان فرمودہ احکام پر عمل کرنا اپنی سعادت خیال کرنا چاہئے۔ یہ بات ہمیشہ ہمارے ذہن میں رہنی چاہئے کہ قرآن کریم ’خدا کا کلام ‘ (Word of God) ہے اور ہمارے لئے مکمل ہدایت اس میں موجود ہے۔
خداتعالیٰ سے تعلق اُستوار کرنے کیلئے ایک اہم چیز نماز کا قیام ہے۔ غور کریں کہ اگر کوئی ہمارا عزیز ہمیں فون کرے تو کیا ہم اُس کے فون کا جواب نہیں دیں گے!؟۔ تو کیا وہ عزیز ترین ہستی جو ہمیں اذان کی صورت میں Call کرتی ہے تو ہمیں اُس Call کا جواب نماز کے ذریعہ دینا کس قدر ضروری ہے۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ خداتعالیٰ سے اظہارِ محبت کا بہت بڑا ذریعہ نماز ہے اور یہ خداتعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کا بھی بہت بڑا ذریعہ ہے۔
مکرم آرچرڈ صاحب نے کہا کہ خدا تعالیٰ صفائی اور پاکیزگی کو پسند فرماتا ہے اور نماز کے بارے میں حدیث ہے کہ جس طرح اُس شخص کے جسم پر کوئی مَیل باقی نہیں رہ سکتی جو روزانہ پانچ بار دریا میں نہاتا ہو، اسی طرح جو شخص پانچ بار نماز ادا کرتا ہے، اُس کی روح کی مَیل بھی صاف ہوجاتی ہے۔
مقرر موصوف نے اپنی تقریر کے اختتام سے قبل بتایا کہ اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کے لئے دعا کرنا لازمی ہے۔ جس قدر سوزوگداز، عاجزی اور رقّت سے خداتعالیٰ کی محبت کے حصول کے لئے دعا کی جائے گی اُسی قدر جلد یہ دعا قبولیت کی منازل طے کرے گی۔ یہ یقین رکھیں کہ دعا ضائع نہیں ہوتی۔ پس اپنی نماز کو جذبات سے بھردیں۔ خدا سچے عابدوں کو پسند کرتا ہے۔ خدا تعالیٰ پر یقین رکھتے ہوئے دعا کرنی چاہئے کیونکہ اُس نے خود فرمایا ہے کہ دعا کرو، مَیں قبول کروں گا۔ (40:60)
خداتعالیٰ کی محبت پانے کیلئے ایک بہت عمدہ دعا قرآن کریم میں یہ سکھائی گئی ہے: رَبَّنَا ظَلَمْنَا اَنْفُسَنَا وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْن۔ (الاعراف 7:24)۔ اس کا ترجمہ یوں ہے کہ اے ہمارے ربّ! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا۔ اور اگر تُو نے ہمیں نہ بخشا اور ہم پر رحم نہ کیا تو یقینا ہم نقصان اٹھانے والوںمیں سے ہوجائیں گے۔
میراتھن واک 2016ء
مکرم نثار آرچرڈ صاحب کی مؤثر تقریر کے بعد مکرم ظہیر احمد جتوئی صاحب چیئرمین میراتھن واک نے 29؍مئی 2016ء کو ایسٹ لندن میں منعقد ہونے والی سالانہ میراتھن واک کی مختصر رپورٹ پیش کی۔ آپ نے بتایا کہ امسال ہمارا ٹارگٹ نصف ملین پاؤنڈز اکٹھا کرنا ہے جس میں سے 3لاکھ 70 ہزار سے زائد رقم اکٹھی ہوچکی ہے اور قوی امید ہے کہ 30 نومبر تک (Poppy Appeal میں حصہ لینے کے بعد) نصف ملین پاؤنڈ کا ٹارگٹ حاصل کرلیا جائے گا۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ اب تک اکٹھی کی جانے والی رقم میں سے اکثر غیرازجماعت افراد سے اکٹھی کی گئی ہے۔ امسال اڑہائی ہزار افراد نے میراتھن واک میں حصہ لیا تھا جن میں پانچ سو سے زائد غیرازجماعت افراد تھے۔
مکرم جتوئی صاحب نے بتایا کہ میراتھن واک کے دو بڑے مقاصد ہیں۔ اوّل یہ کہ اسلام کے امن کے پیغام کو معاشرے میں پھیلایا جائے۔ اور دوم یہ کہ انسانیت کی خدمت کے منصوبوں کے لئے فنڈز اکٹھے کئے جائیں۔
اب تک مجلس انصاراللہ برطانیہ کے تحت منعقد کی جانے والی تمام میراتھن واکس میں مجموعی طور پر 2.7 ملین پاؤنڈز کی رقم اکٹھی کی جاچکی ہے اور اڑہائی صد رفاہی اداروں میں یہ رقم تقسیم کی گئی ہے۔ ان اداروں کے نام اور ان کو دی جانے والی رقوم (دیگر معلومات کے ساتھ) متعلقہ ویب سائٹ پر موجود ہیں۔
اس کے بعد مکرم رفیع احمد بھٹی صاحب سیکرٹری میراتھن واک نے مختلف عوامی نمائندوں اور نامور شخصیات کے منتخب پیغامات پیش کئے اور چند اخبارات میں شائع ہونے والی رپورٹس سلائیڈز کے ذریعہ دکھائیں۔
اس موقع پر میراتھن واک کے اُن شرکاء کو سٹیج پر بلاکر انعامات سے بھی نوازا گیا جنہوں نے قابل قدر رقم (قریباً ایک ہزار پاؤنڈز) جمع کرنے کی توفیق پائی تھی۔ ان احباب کو Charity Champion کہا جاتا ہے اور امسال ایسے چیمپئنز کی تعداد پونے دو صد کے قریب تھی۔ مکرم عبدالماجد طاہر صاحب نے ان افراد کو انعامات عطا کئے۔
برکاتِ خلافت۔ ذاتی مشاہدات کے آئینہ میں
اس سیشن کی آخری تقریر مکرم مولانا عبدالماجد طاہر صاحب ایڈیشنل وکیل التبشیر کی تھی جس کا موضوع تھا ’’برکاتِ خلافت۔ ذاتی مشاہدات کے آئینہ میں‘‘۔ آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں خلافت کے مقام کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ خلیفہ جانشین کو کہتے ہیں اور رسول کا جانشین وہی ہوسکتا ہے جو ظلّی طور پر رسول کے کمالات اپنے اندر رکھتا ہو۔ پس برکاتِ خلافت دراصل برکاتِ رسالت اور برکاتِ نبوّت کا ہی سلسلہ ہے اور جو اطاعتِ خلافت میں جس قدر ترقی کرتا چلاجاتا ہے اُسی قدر اُس کی اخلاقی اور روحانی اصلاح ہوتی چلی جاتی ہے۔
محترم مولانا صاحب نے خلافتِ احمدیہ سے بے لوث محبت اور غیرمعمولی عشق کے حوالہ سے دنیا کے مختلف ممالک میں پیش آنے والے نہایت مؤثر واقعات کا دلنشیں انداز میں تذکرہ کیا اور یہ واضح کیا کہ جس طرح خلیفۂ وقت کو احباب جماعت سے ایک گہری محبت کا تعلق ہوتا ہے اور وہ اپنی دعاؤں کے ذریعہ اُن کی روحانی اصلاح اور ترقیات کے لئے مسلسل کوشش کرتا چلا جاتا ہے اسی طرح احباب جماعت بھی خلافتِ حقّہ کے ایسے عشق میں گرفتار ہیں کہ خلیفۂ وقت کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے اور آپ کے وجود مبارک سے مستفید ہونے کے لئے ہر قربانی پیش کرتے چلے جاتے ہیں۔
مقرر موصوف نے بتایا کہ مشرقی یورپین ممالک سے ایک خاتون کے خاوند احمدیت قبول کرچکے تھے۔ خاتون کی شرط تھی کہ اُن کی تین بیٹیاں ہیں اگر اُن کے ہاں بیٹا پیدا ہوجائے تو وہ بھی احمدیت قبول کرلیں گی۔ اُن کی یہ بات حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں عرض کرکے دعا کی درخواست کی گئی۔ چند ماہ بعد جب وہ جرمنی کے جلسہ سالانہ میں شامل ہوئیں تو وہ حاملہ تھیں۔ اُن کی خواہش پر حضورانور ایدہ اللہ نے اُن کے ہونے والے بچے کا نام جاہد تجویز کیا جو کہ ایک لڑکے کا نام تھا۔ انہوں نے مقامی مبلغ سے ذکر کیا کہ ڈاکٹر تو یہ کہہ رہے ہیںکہ لڑکی ہوگی لیکن حضور انور نے صرف ایک لڑکے کا ہی نام تجویز فرمایا ہے۔ الغرض بعد ازاں اُن کے ہاں بچہ پیدا ہوا جو لڑکا تھا۔ مبلغ نے جب اُن کو اُن کا وعدہ یاد دلایا تو وہ کہنے لگیں کہ مَیں تو بہت عرصہ پہلے ہی دل سے احمدیت قبول کرچکی ہوں۔ اور پھر انہوں نے باقاعدہ بیعت بھی کرلی۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جب مغربی افریقہ کے دورے کے دوران بینن پہنچے تو وہاں شدید بارش جاری تھی۔ سائبان لگائے گئے تھے لیکن اُن کی اطراف نہیں تھیں اور بارش ایسی تھی کہ چھت بھی ٹپک رہی تھی۔ حضور انور باہر تشریف لائے۔ نماز کی ادائیگی سے متعلق دریافت فرمایا۔ پھر آسمان کی طرف دیکھا اور فرمایا کہ دس منٹ بعد ہم نماز ادا کریں گے۔ وہاں کے مقامی لوگ جانتے ہیں کہ اُس علاقہ میں ہونے والی بارشیں کئی کئی گھنٹے بلکہ کئی کئی دن جاری رہتی ہیں۔ لیکن اُس دن حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی روحانی نظر کا اثر تھا کہ صرف تین منٹ کے اندر نہ صرف بارش رُک گئی بلکہ موسم میں ایسا ٹھہراؤ پیدا ہوگیا کہ بڑے آرام سے نماز باجماعت ادا کی گئی۔
کیلگری (کینیڈا) میں احمدیہ مسجد کا سنگ بنیاد رکھنے کے لئے جب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز وہاں تشریف لے گئے تو اُس روز موسم شدید ابرآلود تھا اور تیز ہواؤں نے طوفانی موسم کی طرح بنا رکھا تھا۔ منتظمین خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ بہت بڑا فنکشن ہے اور بہت سے اہم مہمانان مدعو ہیں۔ خدشہ ہے کہ موسم کی خرابی کے باعث فنکشن پوری طرح کامیاب نہ ہوسکے اس لئے دعا کی درخواست ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یہ بات سن کر توقّف کیا اور پھر فرمایا کہ مسجد خدا تعالیٰ کا گھر ہے۔ خداتعالیٰ کے گھر کے سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب ہے اس لئے وہ خود سارے حالات ٹھیک کردے گا۔ چنانچہ وہاں موجود حضرات نے یہ معجزہ اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا کہ نہ صرف موسم بالکل ٹھیک ہوگیا بلکہ پروگرام انتہائی کامیابی سے ہمکنار ہوا اور دو گھنٹے سے زائد جاری رہا۔
مقرر موصوف نے بتایا کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جب 2008ء میں غانا تشریف لے گئے تو وہاں صدسالہ جوبلی جلسہ کے لئے قناطیں اور سائبان لگائے گئے تھے۔ تیز ہوائیں چلنے سے کسی سائبان کا بانس ٹوٹا اور ایک بچی کے سر پر لگا جس سے اُس بچی کے سر پر گہری چوٹ آئی۔ یہ بچی وہاں کے مبلغ کی بیٹی تھی اور اگلے روز اس فیملی کی حضور انور سے ملاقات بھی تھی۔ ملاقات کے لئے وہ مبلغ اپنی بچی کو خاص طور پر ہسپتال سے ساتھ لائے۔ جب یہ فیملی خدمت اقدس میںحاضر ہوئی تو حضور انور نے بچی کا حال دریافت فرمایا۔ نیز اُسے فرمایا کہ مَیں ساری رات تمہارے لئے دعا کرتا رہا ہوں۔
مقرر موصوف نے بتایا کہ 2004ء کے دورۂ افریقہ کے دوران حضور انور کے قافلہ کی ایک گاڑی کو نہایت خطرناک حادثہ پیش آگیا۔ گاڑی کئی قلابازیاں کھاتی ہوئی گہری کھائی میں جاگری۔ سارا قافلہ رُک گیا۔ حضور انور نے اُسی وقت اپنی کار کی نشست پر تشریف رکھتے ہوئے پہلے دو نوافل ادا کئے اور پھر باہر نکل کر کھائی میں گرنے والی تباہ شدہ گاڑی کے مسافروں کو باہر نکالنے کا ارشاد فرمایا۔ گاڑی مکمل طور پر تباہ ہوچکی تھی اور بڑی مشکل سے مسافروں کو باہر نکالا گیا۔ یہ ایک عجیب معجزہ تھا کہ کسی شخص کو خراش تک نہ آئی تھی۔ گاڑی کی حالت دیکھ کر اندازہ ہی نہیں کیا جاسکتا تھا کہ اس میں موجود تمام لوگ بالکل محفوظ رہے ہوں گے۔ لیکن وہ تو خلافت احمدیہ کی قوّت قدسیہ کام کر رہی تھی۔
مذکورہ بالا حادثہ کی خبر سُن کر قریبی گاؤں کے لوگ وہاں جمع ہوگئے۔ یہ نہایت غریب لوگ تھے اور ان کی کسمپرسی ان کے چہروں اور کپڑوں سے عیاں تھی۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے شکرانہ کے طور پر اُن میں سے ہر ایک کو صدقہ کی رقم سے دل کھول کر نوازا۔ کسی عورت، مرد اور بچے کو بھی محروم نہیں رکھا۔ حضورانور جس طرح پانی کی طرح رقم بہا رہے تھے وہ اُس الہام کے پورا ہونے کا بھی نظارہ تھا کہ ’’بادشاہ آیا‘‘۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی قوّت قدسیہ کا ایک نظارہ جرمنی میں اُس وقت دیکھا گیا جب میونخ سے روانگی کے وقت حضور انور نے ایک دوست سے فرمایا کہ مجھے فلاں دوائی کی ضرورت ہے، آپ یہ دوائی فارمیسی سے خرید کر فلاں جگہ قافلہ سے مل جائیں۔ وہ دوست بیان کرتے ہیں کہ مَیں اُسی وقت فارمیسی کی طرف روانہ ہوا۔ وہاں پہنچا تو معلوم ہوا کہ اُس وقفہ میں فارمیسی دو گھنٹہ کے لئے بند ہوتی ہے۔ مَیں انتہائی پریشانی میں باہر کھڑا تھا۔ کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا کروں۔ اسی اثناء میں ایک خاتون وہاں آئیں اور چابی سے دروازہ کھول کر فارمیسی میں داخل ہوگئیں۔ مَیں نے اُن کو اپنی ضرورت بتائی تو انہوں نے مطلوبہ دوا دیتے ہوئے بتایا کہ آج اتفاقاً وہ اپنے گھر کی چابیاں فارمیسی میں ہی بھول گئی تھیں اس لئے انہیں خاص طور پر دوبارہ فارمیسی آنا پڑا ہے۔ لیکن دراصل اُن کا آنا اتفاق نہیں تھا بلکہ یہ خدا تعالیٰ کے ایک پیارے بندے کی ضرورت پوری کرنے کے خدائی فیصلے کا حصہ تھا۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی بے مثال شفقت کا ذکر کرتے ہوئے مقرر موصوف نے بتایا کہ ایک مقام پر جب حضور انور نماز پڑھاکر اپنی رہائشگاہ میں تشریف لے جانے لگے تو حضور انور کی نظر اُن معصوم افریقی بچوں پر پڑی جو دیوار کے اوپر سے حضورانور کا دیدار کررہے تھے۔ حضور انور اندر تشریف لے جاکر فوراً ہی باہر آئے اور اُن بچوں کے پاس جاکر انہیں نہایت شفقت سے چاکلیٹ عطا فرمائے اور پیار کیا۔ یہ ایسا نظارہ تھا جس نے نہ صرف بچوں کو بلکہ دیکھنے والوں کو بھی نہال کردیا۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جب پہلی بار 1977ء میں غانا تشریف لے جانے لگے تو ایک رات پہلے حضرت خلیفۃالمسیح الثالث رحمہ اللہ نے آپ کو یاد فرمایا اور بتایا کہ مَیں نے ایک رؤیا دیکھی ہے کہ غانا میں جہاں تمہارے قدم پڑیں گے وہاں سے زمین خزانے اُگلے گی۔ جب حضور انور ایدہ اللہ نے مسندِ خلافت پر رونق افروز ہونے کے بعد 2004ء میں غانا کا پہلا دورہ فرمایا تو آپ نے وہاں کے صدر مملکت کو اس حوالہ سے مطلع کرتے ہوئے فرمایا کہ میرے اِس دورے کے بعد آپ کی زمین سے تیل بھی نکلے گا اور خوشحالی بھی پیدا ہوگی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ 2008ء میں جب حضور انور نے غانا کا دوسرا دورہ فرمایا تو صدر مملکت نے تصدیق کی کہ غانا کی سرزمین سے تیل بھی نکلا ہے اور بعض دوسری دھاتیں بھی اور واقعۃً خدا تعالیٰ نے حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی اُس رؤیا کے مطابق حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے بابرکت قدموں کے صدقے سرزمینِ غانا کو خاص طور پر نوازا ہے۔
مقرّر موصوف نے اپنی تقریر کا اختتام حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی ایک دردمندانہ نصیحت کے ساتھ کیا جس میں حضورؓ نے احباب جماعت کو نہایت اخلاص اور وفا کے ساتھ خلافت احمدیہ سے چمٹے رہنے اور کامل اطاعت کرتے ہوئے اس کی برکات سے مستفید ہونے کی تلقین کی تھی۔ اس خوبصورت تقریر کے اختتام پر مکرم عبدالماجد طاہر صاحب نے دعا کروائی اور اس کے بعد نماز مغرب و عشاء ادا کی گئیں۔ اس طرح دوسرے دن کا پروگرام بھی بخیروخوبی اختتام پذیر ہوا۔
سالانہ اجتماع کا تیسرا روز
2؍اکتوبر2016ء بروز اتوار کی صبح اجتماع کا پانچواں سیشن قریباً دس بجے شروع ہوا جس میں چند علمی مقابلہ جات کا انعقاد ہوا۔ اسی دوران میدانِ عمل میں ورزشی مقابلہ جات کے فائنل بھی کروائے گئے۔
اجتماع کے چھٹے سیشن کا آغاز قریباً ساڑھے گیارہ بجے مکرم مولانا اخلاق احمد انجم صاحب مبلغ سلسلہ کی صدارت میں تلاوت قرآن کریم سے شروع ہوا جو مکرم حافظ محمود احمد بٹ صاحب نے کی۔ آیات کریمہ کا ترجمہ مکرم سلیمان ہاشم صاحب نے پیش کیا۔ مکرم فرید احمد مبشر صاحب نے نظم پڑھی۔
اسلام کی خاندانی اور معاشرتی اقدار
اس سیشن کی پہلی تقریر مکرم کلیم احمد طاہر صاحب سیکرٹری رشتہ ناطہ جماعت احمدیہ یوکے نے “Islamic family values and cultural values” کے موضوع پر انگریزی زبان میں کی۔
مقرر موصوف نے کہا کہ برابری، باہمی عزت، دوسروں کے جذبات کا خیال رکھنا، محبت اور اعتماد کا سلوک کرنا… یہ وہ اقدار ہیں جنہیں اگر گھریلو زندگی میں شامل کیا جائے تو گھر جنّت کا نمونہ بن جاتے ہیں۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اخلاقی اقدار آخر کیا ہیں اور ہماری زندگی میں اُن کی اہمیت کیا ہے؟
مقرر موصوف نے بتایا کہ اقدار دراصل وہ بنیادی اصول ہیں جو ہمیں روزمرّہ فیصلوں کے کرنے میں کام آتے ہیں۔ چنانچہ خاندانی اقدار کے ذریعہ ہم باہمی رشتوں کو نبھاتے ہیں اور خاندانوں کو اکٹھا رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے بعض اوقات معاشرتی روایات کا اسلامی اقدار سے اختلاف نظر آتا ہے جس کی وجہ سے گھروں کا امن برباد ہونے لگتا ہے۔ مثلاً خدا تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ بنی نوع انسان میں نسل یا جنس کی بنیاد پر تفریق نہ کی جائے اور بیوی اور خاوند کے حقوق بھی برابر ہیں۔ نکاح کے موقع پر تلاوت کی جانے والی آیات میں اللہ کا تقویٰ اختیار کرتے ہوئے ایک دوسرے سے حسن سلوک کرنے کی طرف دونوں کو توجہ دلائی گئی ہے۔ دونوں کو مساوی سطح رکھتے ہوئے فرمایا گیا کہ دونوں کی ذمہ داریاں مختلف ہیں اس لئے دونوں کو باہم محبت اور احترام کا سلوک کرنا ہے۔ اسی طرح ماں باپ کے لئے اپنے لڑکوں اور لڑکیوں سے یکساں حسن سلوک کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اگر کسی گھر میں اولاد میں تفریق کی جائے تو عموماً اُس گھر میں جوان ہونے والے بیٹے جس سوچ کے ساتھ بڑے ہوتے ہیں اُس کے نتیجے میں وہ اپنی بیویوں کو ماتحت سمجھ کر سلوک کرنا چاہتے ہیں جس سے گھر کا امن اُٹھ جاتا ہے۔
ایک اَور قدر جس کا اسلام میں حکم دیا گیا ہے وہ دوسروں کے حقوق کا احترام کرنے کا اصول ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ دوسروں سے ایسے ہی برتاؤ کرو جیسا کہ تم اپنے ساتھ سلوک کیا جانا پسند کرتے ہو۔ جہاں بھی یہ سنہری اصول فراموش کیا جاتا ہے وہاں خاندانی نظام میں دراڑیں آجاتی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی فرمایا ہے کہ خاوند اور بیوی کا باہمی رشتہ ایسا ہونا چاہئے جیسے دو سچے اور مخلص دوستوں کے درمیان ہوتا ہے۔ کسی بھی شخص کے اخلاق اور اُس کے تعلق باللہ کی گواہ اُس شخص کی بیوی ہوتی ہے۔ جس کا اپنی بیوی سے حسن سلوک نہ ہو اُس کا خدا تعالیٰ سے بھی اچھا تعلق نہیں ہوسکتا۔
مقرر موصوف نے کہا کہ خاوند اور بیوی کے درمیان باہم اعتماد کا تعلق ایک فیملی کے باہمی تعلق کو مضبوط کرنے کے لئے بہت ضروری ہے۔ قرآن کریم نے دونوں کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیتے ہوئے حکم دیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کی کمزوریوں اور غلطیوں پر پردہ ڈالیں۔ آپ خود مشاہدہ کرسکتے ہیں کہ جس گھر میں خاوند اور بیوی ایک دوسرے کو خوش رکھنے کی کوشش کریں وہاں پلنے والے بچے بھی خاندانی اقدار میں بہت حساس ہوتے ہیں اور باہم ایک دوسرے کے ساتھ مضبوط تعلق رکھتے ہیں۔ اس کے برعکس جن گھرانوں میں میاں بیوی کے درمیان ناچاقی رہتی ہو اُن کے بچوں کے درمیان بھی محبت کا وہ رشتہ نظر نہیں آتا بلکہ وہ ایک پہلو سے اپنے گھر سے لاتعلق ہونے لگتے ہیں۔
مقرر موصوف نے کہا کہ ماں باپ کا بچوں کے ساتھ ایک پیار اور اعتماد کا رشتہ قائم رہنا بھی بہت ضروری ہے کیونکہ اس کے نتیجہ میں بچوں میں اعتماد پیدا ہوتا ہے اور اُن کے شعور میں ترقی ہوتی ہے۔ والدین اور بچوں کو مختلف موضوعات پر رشتوں کے حوالہ سے بھی واضح اور کھول کر بات چیت کرنا ضروری ہے۔ کئی لڑکوں اور لڑکیوں نے مجھ سے یہ اظہار کیا ہے کہ اُن کے والدین اُن کی پسند ناپسند کا خیال نہیں رکھ رہے۔ ایک لڑکے کا کہنا تھا کہ اُسے احساس ہوتا ہے کہ والدین اپنے لئے کوئی رشتہ تلاش کررہے ہیں نہ کہ میرے لئے۔
مزید یہ کہ والدین اور بچوں کے درمیان اعتماد کا تعلق پیدا کرنے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ والدین ایفائے عہد کی طرف خاص توجہ کریں اور بچوں کے ساتھ کسی بھی عمر میں کئے جانے وعدوں کو نبھانا ضروری سمجھیں۔
تقریر کے اختتام سے قبل قرآنی دعا: رَبَّنَا ھَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا۔(سورۃالفرقان:75) پڑھنے کے بعد مقرر موصوف نے کہا کہ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ ارشاد ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے۔ آپ فرماتے ہیں کہ شاید ہی کبھی دعا میں ایسا موقع آیا ہو کہ میں نے اپنی بیوی اور بچوں کے لئے دعا نہ کی ہو۔ پس اگر تقویٰ کو ہم اپنا رہنما اصول قرار دیں لیں اور خدا تعالیٰ کی خوشنودی کے مطابق اپنے اعمال بجالائیں تو بلاشبہ ہمارے گھر جنّت کا نمونہ بن جائیں گے۔
بچوں کی پرورش کے سنہرے اصول
اس سیشن کی دوسری تقریر مکرم مولانا ظہیر احمد خان صاحب قائد تربیت مجلس انصاراللہ برطانیہ کی تھی۔ اردو زبان میں کی جانے والی اس تقریر کا موضوع ’’بچوں کی پرورش کے سنہرے اصول‘‘ تھا۔
مکرم مولانا صاحب نے اپنی تقریر میں قرآن کریم، احادیث، حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے اسلام کے ارشادات کی روشنی میں تربیت اولاد کے موضوع کو بیان کرتے ہوئے دعا کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنے کے ساتھ ساتھ والدین کو اپنا نمونہ بچوں کے سامنے پیش کرنے کا تربیتی طریق بیان کرتے ہوئے قرآن کریم کے اس بنیادی اصول کو بیان کیا کہ کسی کو ایسا کام کرنے کے لئے نہ کہو جس پر خود عمل نہیں کر رہے، یہ بات اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت بڑا گناہ ہے۔ نیز اس آیت کی تشریح میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس فرمان کی وضاحت کی کہ وہی بات دوسروں پر اثر انداز ہوتی ہے جس پر انسان خود عمل پیرا ہو۔ اسی طرح جب والدین اپنے بچوں کے لئے یہ دعا مانگتے ہیں کہ انہیں ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک کا باعث بنا اور ہمیں متقیوں کا امام بنا تو اس میں بھی یہ راز مضمر ہے کہ امام وہ ہوتا ہے جو اپنے وقت کے لوگوں میں سے سب سے بہتر ہو۔ پس جب والدین بچوں کے متقی ہونے اور خود کو ان کا امام ہونے کی دعا مانگتے ہیں تو گویا اس میں بھی یہی حقیقت سمجھائی گئی ہے کہ والدین کو اپنی تربیت اور تقویٰ پر بھی نظر رکھنی ہو گی۔
مقرر موصوف نے کہا کہ مغربی ممالک میں آباد ہونے والدین کا یہ کہنا ہے کہ ہمارے بچے سکولوں میں اساتذہ کے زیر سایہ رہ کر مغربی ماحول کا اثر قبول کرتے ہوئے دین سے دُور ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ بچے اگر آٹھ گھنٹے سکول میں گزارتے ہیں تو سولہ گھنٹے گھر پر بھی ہوتے ہیں۔ اگر والدین بچوں کو مناسب وقت دیں اور قرآن کریم میں حضرت ابراہیمؑ کو سکھائے گئے گُر فَصُرْھُنَّ کے تحت انہیں پیار و محبت سے مانوس کرکے اپنے قریب کرنے کی کوشش کریں تو جس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کو فرمایا تھا کہ جب تو ان پرندوں کو اپنی طرف بلائے گا تو وہ تیری طرف کھچے چلے آئیں گے، اسی طرح جب والدین پیارو محبت سے مانوس کئے گئے بچوں کو اپنی طرف بلائیں گے تو وہ ضرور والدین کی بات سنیں گے۔
مقرر موصوف نے بتایا کہ بچوں کی تربیت کا زمانہ ان کی ولادت سے پہلے شروع ہوجاتا ہے۔ چنانچہ آنحضور ﷺ نے شادی کے بندھن میں بندھنے والے ہر جوڑے کو میاں بیوی کے خاص تعلقات قائم کرنے سے قبل یہ دعا کرنے کی تلقین کی کہ اے اللہ تعالیٰ! تُو ہمیں بھی اور ہماری اس تعلق کے نتیجہ میں عطا ہونے والی اولاد کو بھی شیطان کے ہر حملہ سے محفوظ رکھنا۔ نیز قرآن کریم نے بتایا کہ بنی اسرائیل کی ایک عورت نے اپنے حمل کے دوران اپنے بچہ کو اللہ تعالیٰ کے دین کے لئے وقف کیا۔ اور جب وہ بچی پیدا ہوئی تو اس کے لئے دعا کی کہ وہ شیطان کے حملہ سے محفوظ رہے اور پھر اس کی تعلیم و تربیت کے لئے باقاعدہ انتظام کیا گیا۔
آنحضور ﷺ نے بھی بچے کی پیدائش کے فوراً بعد ایک کان میں اذان اور ایک میں اقامت کا جو حکم دیا ہے اس کی بھی غرض یہی ہے کہ بچے کے کان میں پہلی آواز جو پڑے وہ خدا تعالیٰ کی کبریائی، اس کی توحید، اس کے رسول کی رسالت اور فلاح و کامیابی کی طرف بلائے جانے سے متعلق ہو۔
مقرر موصوف نے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ ارشاد سنایا کہ حضورؓ فرماتے ہیں کہ ’’میری ماں اللہ تعالیٰ اسے جنت میں بڑے بڑے درجات عطا کرے بہت سارے بچوں کی ماں تھیں مگر وہ کبھی نماز قضا نہ کرتیں۔ ایک چادر پاک صاف صرف اس لئے رکھی ہوئی تھی کہ نماز کے وقت اسے اوڑھ لیتیں۔ نماز پڑھ کر معاً اوپر کھونٹی پر لٹکا دیتیں۔ فرقان حمید کا پڑھنا کبھی قضا نہ کیا بلکہ میں نے اپنی ماں کے پیٹ میں قرآن مجید سُنا۔ پھر گود میں سُنا اور پھر ان سے ہی پڑھا‘‘۔ پس والدین کا فرض ہے کہ وہ بچوں کی پیدائش سے پہلے ہی دعا اور اپنے نیک نمونہ کے ساتھ ان کی تربیت کا انتظام کریں۔ پھر والدین اور اولاد کا ایسا تعلق ہونا چاہئے جیسا حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کا تھا کہ جب حضرت ابراہیم نے حضرت اسماعیل سے فرمایا کہ انہوں نے خواب میں دیکھا ہے کہ وہ انہیں ذبح کر رہے ہیں تو حضرت اسماعیل کو اپنے والد کی سچائی اور خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق پر اتنا یقین تھا کہ انہوں نے فوراً جواب دیا کہ اے میرے والد آپ کو جو حکم دیا جاتا ہے آپ اس کو بجالائے،آپ یقینا مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔
مقرر موصوف نے کہا کہ مغربی دنیا میں آ کر صرف دنیاوی مال و متاع کو حقیقی دولت خیال کرنا اور اس کے حصول کے لئے اپنے اور اپنی اولاد کے دینی پہلو کو نظرانداز کرنا نہایت نامناسب طریق ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جس طرح ایک انسان کے نزدیک بکری کے مرے ہوئے بچے کی کچھ حیثیت نہیں، خدا تعالیٰ کے نزدیک اس دنیا کی مال و دولت کی اس سے بھی بہت کم حیثیت ہے۔ پس ایسے والدین جو بچوں کی تربیت کو نظرانداز کر کے دنیا کی چکا چوند کے شکار ہو کر دنیا کے حصول کی دوڑ میں لگ جاتے ہیں انہیں اس وقتی دولت کا خیال چھوڑ کر اصل متاع یعنی اپنی اور اپنے بچوں کی دینی حالت کے سدھارنے کی طرف متوجہ ہونا چاہئے۔
مکرم مولانا صاحب نے اپنی تقریر کو حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی اس نصیحت پر ختم کیا کہ جن خاندانوں میں مائیں نیک ہوں، نمازیں پڑھنے میں باقاعدہ ہوں، نظام جماعت کی اطاعت کرنے والی ہوں، اجلاسوں اجتماعوں وغیرہ میں باقاعدہ شامل ہونے والی ہوں، ہر قسم کے تربیتی پروگراموں میں اپنے کاموں کا حرج کرکے حصہ لینے والی ہوں، نظام جماعت کی پوری طرح اطاعت گزار ہوں اور سب سے بڑھ کر اپنے بچوں کے لئے دعائیں کرنے والی ہوں تو ایسے گھروں کے بچے عموماً دین کی طرف رغبت رکھنے والے ہوتے ہیں اور ماں باپ کے بھی اطاعت گزار ہوتے ہیں اس لئے سب سے اہم اور ضروری چیزہے کہ ماں باپ خود اپنے بچوں کے لئے نمونہ بنیں۔
اس تقریر کے بعد علمی و ورزشی مقابلہ جات میں دوم اور سوم آنے والوں میں مکرم مولانا اخلاق احمد انجم صاحب نے انعامات تقسیم کئے۔
ذکرالٰہی کے ثمرات
اجلاس کی آخری تقریر مکرم اخلاق احمد انجم صاحب نے اردو زبان میں ’’ذکرالٰہی کے ثمرات‘‘ کے موضوع پر کی۔ مقرر موصوف نے قرآن کریم کی چند آیات کی تلاوت کی اور حضرت مصلح موعودؓ کے ایک شعر سے اپنی تقریر کا آغاز کیا جس کا پہلا مصرعہ ہے:
ذکر خدا پے زور دے ظلمت دل مٹائے جا
آپ نے بتایا کہ ہمارے دین کی تعلیم کی بہت سی شاخیں اور بہت سے پہلو ہیں مگر ہمارے دین کی عمارت کی بنیاد، اور ہمارے مذہب کے درخت کی جڑ، اللہ تعالیٰ کی ہستی اور اس سے تعلق اوراس سے محبت ہے۔ اور اس کے لئے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احسانات اور اس کے حسن کو انسان ہر وقت یاد رکھے اور اس سے ڈرتا رہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اے مومنو! اللہ کا ذکر کثرت سے کیا کرو اور اس کی تسبیح صبح بھی کرو اور شام کو بھی۔ وہی ہے جو تم پر رحمت بھیجتا ہے …‘‘۔ نیز فرمایا: ’’اور تو اپنے ربّ کو اپنے دل میں کبھی گڑگڑاتے ہوئے اور کبھی ڈرتے ڈرتے اور بغیر اونچی آواز کئے صبحوں اور شاموں کے وقت یاد کیا کر اور غافلوں میں سے نہ ہو‘‘۔
دراصل ذکر الٰہی انوار کی کنجی ہے۔اس سے اللہ کا قرب حاصل ہوتا ہے اور انسان کی روحانی ترقی ہوتی ہے۔ اسی لئے آنحضورﷺ نے بھی فرمایا کہ ذکر الٰہی کرنے والے اور ذکر الٰہی نہ کرنے والے کی مثال زندہ اور مُردہ کی طرح ہے۔
حضرت جابرؓ بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور فر مایا: اے لوگو! جنّت کے باغو ں میں چرنے کی کوشش کرو۔ ہم نے عرض کی:یارسول اللہ! جنّت کے باغ سے کیا مراد ہے؟ آپؐ نے فر مایا: ذکر کی مجالس جنّت کے باغ ہیں۔ آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ صبح اور شام کے وقت خصوصاً اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو۔ جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اُسے اُس قدر و منزلت کا علم ہو جو اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی ہے، تو وہ یہ دیکھے کہ اللہ تعالیٰ کے متعلق اس کا کیا تصوّر ہے ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی ایسی ہی قدر کرتا ہے جیسی اُس (یعنی بندے ) کے دل میں اللہ تعالیٰ کی ہے۔
رسول کریم ﷺ نے ایک بار ذکرالٰہی کو بہترین عمل قرار دیتے ہوئے اسے سونے اور چاندی کی اللہ کی راہ میں خیرات اور دشمنوں کے مقابلہ میں جہاد کرنے سے بھی بہتر قرار دیا۔ نیز حدیث قدسی ہے کہ حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: مَیں اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوتا ہوں اور جب وہ میرا ذکر کرتا ہے تو مَیں اس کے ساتھ ہوتا ہوں ۔پس اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرے تو مَیں بھی اسے دل میں یاد کرتا ہوں۔ اگر وہ مجھے مجمع میں یاد کرتا ہے تو مَیں بھی اس سے بہتر مجمع کے اندر اسے یاد کرتا ہوں اور اگر وہ بالشت بھر میرے قریب ہوتا ہے تو مَیں گز بھر اس سے قریب ہو جاتا ہوں۔ اگر وہ گز بھر میرے قریب ہوتا ہے تو مَیں دو ہاتھوں کے پھیلاؤ کے برابر اس سے قریب ہوجاتا ہوں اگر وہ چل کر میری طرف آتاہے تو مَیں دوڑ کر اس کی طرف جاتا ہوں۔
ذکرالٰہی کی غرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’انسان اللہ تعالیٰ کو فراموش نہ کرے اور اسے اپنے سامنے دیکھتا رہے اس طریق پر وہ گناہوں سے بچا رہے گا۔ … یاد رکھو کہ کامل بندے اللہ تعالیٰ کے وہی ہوتے ہیں جن کی نسبت فرمایا ہے لَاْتُلْہِیْہِمْ تِجَارَۃٌ وَلَابَیْعٌ عَنْ ذِکْرِاللّٰہ جب دل خدا کے ساتھ سچا تعلق اورعشق پیدا کرلیتا ہے تو وہ اس سے الگ ہوتا ہی نہیں۔ اس کی کیفیت اس طریق پر سمجھ میں آسکتی ہے کہ جیسے کسی کا بچہ بیمار ہو تو خواہ وہ کہیں جاوے کسی کام میں مصروف ہو مگر اس کا دھیان اسی بچے میں رہے گا،اسی طرح پر جو لوگ خدا سے سچا تعلق اور محبت پیدا کرتے ہیں وہ کسی حال میں بھی خدا تعالیٰ کو فراموش نہیں کرتے، یہی وجہ ہے کہ صوفی کہتے ہیں کہ عام لوگوں کے رونے میں اتنا ثواب نہیں جتنا عارف کے ہنسنے میں ہے۔ وہ بھی تسبیحات ہی ہوتی ہیں کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے عشق اور محبت میں رنگین ہوتا ہے۔‘‘
مقرر موصوف نے کہا کہ دل دو چیزوں سے زنگ آلود ہوتا ہے: غفلت اور گناہ سے۔ اور دو ہی چیزوں سے صاف ہوتا ہے: استغفار اور ذکر الٰہی سے۔ اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے شرائط بیعت میں تیسری شرط یہ رکھی کہ ’’ہر روز اپنے گناہوں کی معافی مانگنے اور استغفار میں مداومت اختیار کرے گا۔ اور دلی محبت سے خدا تعالیٰ کے احسانوں کو یاد کرکے اس کی حمد اور تعریف کو اپنا ہر روزہ ورد بنائے گا‘‘۔ حدیث میں ہے کہ عذاب الٰہی سے بچانے کے واسطے ذکر الٰہی سے زیادہ کوئی چیز موجب نجات نہیں۔
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’استغفار روحانی مگدر ہے۔ اس کے ساتھ روح کو ایک قوّت ملتی ہے اور دل میں استقامت پیدا ہوتی ہے ۔ استغفار سے انسان ان جذبات کو ڈھانپنے اور دبانے کی کوشش کرتا ہے جو خدا تعالیٰ سے روکتے ہیں‘‘۔
پس ذکرالٰہی، دل اور روح، دونوں کی غذا ہے۔ اور یہ چند خود تراشیدہ وظائف کا نام نہیں بلکہ نماز، تلاوت قرآن کریم، دعا اور استغفار، نوافل کی ادائیگی، آنحضرت ﷺ پر درود بھیجنا، سب ذکر الٰہی میں آتا ہے۔
مقرر موصوف نے کہا کہ نماز ذکر الٰہی کرنے کا بہترین ذریعہ اور ذکرالٰہی کا مجموعہ ہے۔ یہ دین کا ستون ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے انسان! مَیں ہی تیرا خدا ہوں اور میرے سوا تیرا کوئی محبوب نہیں۔ پس میری ہی عبادت کر اور میرے ہی ذکر کے لئے نماز کو قائم کر ۔ اسی لئے آنحضور ﷺ نے نماز کو اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک قرار دیا ہے۔
پھر قرآن کریم اللہ کا ذکر ہے اور اللہ کے ذکر سے بھرپور ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: انسان کو چاہئے کہ قرآن شریف کثرت سے پڑھے جب اس میں دعا کا مقام آوے تو دعا کرے اور خود بھی خدا سے وہی چاہے جو اس میں چاہا گیا ہے … دل کی اگر سختی ہو تو اس کے نرم کرنے کے لئے یہی طریق ہے کہ قرآن شریف کو ہی بار بار پڑھے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ہر احمدی کو اس بات کی فکر ہونی چاہئے کہ وہ خود بھی اور اس کے بیوی بچے بھی قرآن کریم پڑھنے اور اس کی تلاوت کرنے کی طرف توجہ دیں ۔
مقرر موصوف نے کہا کہ آنحضرت ﷺ پر درود بھیجنا بھی ذکرِ الٰہی کا ایک اعلیٰ طریق ہے جس کا مومنوں کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے۔ خود آنحضور ﷺ نے اس کی فضیلت بیان فرمائی ہے اور حضرت مسیح موعودؑ نے روحانی انعامات کا وارث بننے کے لئے اس کو لازمی قرار دیا ہے۔
پھر تسبیح و تحمید اور صفات الٰہیہ کا تکرار اور ان کا اقرار بھی ذکر اللہ میں داخل ہے۔
حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ فرماتے ہیں: آنحضرت ﷺ نے ہر حالت کے متعلق ذکر مقرر فرمادئیے ہیں اس لئے ان کے کرنے سے انسان ہر حالت میں خدا تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہتا ہے۔ …۔پھر رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ اَفْضَلُ الذِّکْرِ لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہ کہ سب سے افضل ذکر یہ ہے کہ اس بات کا اقرار کیا جائے کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ باقی اذکار کی بھی مختلف فضیلتیں ہیں۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ نے سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ بِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْم کی نسبت فرمایا ہے کہ دو کلمے ایسے ہیں کہ جو زبان سے کہنے میں چھوٹے ہیں مگر جب قیامت کے دن وزن کئے جائیں گے تو ان کا اتنا بوجھ ہو گا کہ ان کی وجہ سے نیک اعمال کا پلڑا بھاری ہو جائے گا اور وہ اللہ تعالیٰ کو بہت ہی پسند ہیں۔
مقرر موصوف نے ذکرالٰہی کے مختلف طریق بیان کرنے کے بعد اس کے ثمرات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ قرب الٰہی کا بہترین ذریعہ ذکرالٰہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ذکر انسان کو بدیوں سے روکتا ہے۔ اور ذکر کرنے والا انسان اپنے مقاصد میں کامیاب ہو جاتا ہے بشرطیکہ سچے دل سے ذکر کرتا ہو۔ ذکر الٰہی کرنے والے کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔ بلاشبہ ذکرالٰہی دلوں کو سکون بخشتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اَلَا بِذِکْرِاللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْب کی فلاسفی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’اس کے عام معنی تو یہی ہیں کہ اللہ کے ذکر سے قلوب اطمینان پاتے ہیں لیکن اس کی حقیقت اور فلاسفی یہ ہے کہ جب انسان سچے اخلاص اور پوری وفاداری کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے اور ہر وقت اپنے آپ کو اس کے سامنے یقین کرتا ہے، اس سے اس کے دل پر ایک خوف عظمت الٰہی کا پیدا ہوتا ہے وہ خوف اس کو مکروہات اور منہیات سے بچاتا ہے اور انسان تقویٰ اور طہارت میں ترقی کرتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے ملائکہ اس پر نازل ہوتے ہیں اور اس کو بشارتیں دیتے ہیں اور الہام کا دروازہ اس پر کھولا جاتا ہے۔ اس وقت وہ اللہ تعالی کو گویا دیکھ لیتا ہے اور اس کی وراء الورا طاقتوں کا مشاہدہ کرتا ہے۔ پھر اس کے دل پر ہم و غم نہیں آسکتا اور طبیعت ہمیشہ ایک نشاط اور خوشی میں رہتی ہے اسی لئے دوسرے مقام پر آیا ہے لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَاھُمْ یَحْزَنُوْن اگر کوئی ہمّ و غم واقعی بھی ہو تو اللہ تعالیٰ اپنے الہام سے اس کے لئے خارجی اسباب ان کے دور کرنے کے پیدا کر دیتا ہے یا خارق عادت صبر ان کو عطا کرتا ہے‘‘۔
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: ’’مومن کا فرض ہے کہ وہ اپنے اوقات کو اس طرح صرف کرے کہ ذکر الٰہی اس کی زبان پر جاری ہو اور نمازوں میں اسے شغف اور رغبت ہو۔ ذکرِ الٰہی کرنا گویا سوئچ آن کرنا ہے، سوئچ آن کردیا جائے تو روشنی پیدا ہو جاتی ہے اور اگر سوئچ آن نہ کیا جائے تو پھر اندھیرا ہی رہتا ہے۔ اسی طرح اگر ذکر الٰہی نہ کیا جائے تو طبیعت روشن نہیں ہوتی۔ پس اپنے اندر ذکر الٰہی کی عادت پیدا کرو تا خدا سے تمہارا تعلق بڑھ جائے، تمہارے اندر ہمت پیدا ہو جائے، تمہاری نظروں میں تاثیر پیدا ہو جائے اور دشمن کے دلوں میں تمہارا رعب بیٹھ جائے‘‘۔
دعا کے ساتھ یہ اجلاس اختتام کو پہنچا جو مکرم اخلاق احمد انجم صاحب نے کروائی۔
اختتامی اجلاس
نماز ظہر و عصر کی باجماعت ادائیگی کے بعد اختتامی اجلاس منعقد ہوا۔ اس سیشن کے لئے حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مکرم ڈاکٹر چوہدری اعجازالرحمن صاحب صدر مجلس انصاراللہ برطانیہ کو صدارت کرنے کا ارشاد فرمایا تھا۔
تقریب کا آغاز تلاوت قرآن سے ہوا جو مکرم داؤد احمد صاحب نے کی۔ آیات کریمہ کا انگریزی ترجمہ مکرم بلال ایٹکنسن صاحب نے پڑھا۔ صدر مجلس کی اقتداء میں عہد دہرائے جانے کے بعد مکرم خالد محمود بٹ صاحب نے سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے درج ذیل کلام سے چند اشعار بہت دلنشیں آواز میں پیش کئے:
وہ دیکھتا ہے غیروں سے کیوں دل لگاتے ہو
جو کچھ بتوں میں پاتے ہو اُس میں وہ کیا نہیں
نظم کے بعد مکرم قاری نواب احمد صاحب سابق صدر مجلس انصاراللہ بھارت نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خداتعالیٰ نے اپنے فضل سے انہیں مرکزِ احمدیت قادیان میں رہائش کی توفیق عطا فرمائی ہے۔ قادیان سے 18 میل کے فاصلہ پر شہر بٹالہ ہے۔ یہ وہ شہر ہے جہاں سے ٹرین میں سوار ہونے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی وہاں تشریف لایا کرتے تھے۔ یہ بھی اتفاق تھا کہ حضور علیہ السلام کا سب سے بڑا مخالف یعنی مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کا تعلق بھی اسی شہر سے تھا۔ انہوں نے مخالفت کا ہر ذریعہ اختیار کیا لیکن آج خداتعالیٰ یہ فیصلہ فرماچکا ہے کہ حق پر کون تھا اور جھوٹا کون تھا۔ قادیان کی پُررونق بستی آج بھی ترقی کرتی چلی جارہی ہے لیکن مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب ، جن کا دعویٰ تھا کہ مَیں نے ہی مرزا صاحب کو اٹھایا ہے اور مَیں ہی انہیں گراؤں گا، گویا خدائی دعویٰ تھا… اُنہیں آج اُن کے آبائی شہر بٹالہ میں بھی کوئی نہیں جانتا۔
1991ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ کے ارشاد پر ایک وفد بٹالہ بھجوایا گیا تھا جس کا مقصد یہ تھا کہ وہاں جاکر مختلف طبقات کے لوگوں سے یہ معلوم کرے کہ کیا وہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو جانتے ہیں اور کیا وہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب کے نام سے آشنا ہیں؟ یہ وفد تین روز تک بٹالہ جاتا رہا اور حیرت انگیز بات یہ تھی کہ کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں ملا جو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو جانتا ہو اور کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں ملا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نام سے ناآشنا ہو۔
مکرم قاری صاحب نے اپنی مختصر تقریر کے اختتام پر انصار کو اپنے گھر کے سربراہ کے طور پر اُن کی ذمہ داریاں ادا کرنے اور اپنا عمدہ نمونہ پیش کرنے کی طرف توجہ دلائی اور دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ہمیں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطبات، خطابات اور دیگر نصائح پر اُن کی روح کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اس کے بعد مکرم سیّد منصور احمد شاہ صاحب قائمقام امیر جماعت احمدیہ برطانیہ نے انگریزی زبان میں اپنی مختصر تقریر میں اجتماعات کے مقاصد پر روشنی ڈالی اور کہا کہ ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ ان تین دنوں میں ہمارے اندر کیا مثبت تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ ان ایام میں جس طرح ہم نماز باجماعت ادا کرتے رہے ہیں، ہمیں واپس جاکر بھی اس سلسلہ کو جاری رکھنا چاہئے اور اس کو اپنی عادت بنالینا چاہئے۔ جیسا کہ نماز کی اہمیت کے بارہ میں حضور انور ایدہ اللہ نے متعدد بار ہمیں نصیحت فرمائی ہے۔
مقرر موصوف نے کہا کہ دوسری چیز احمدی بچوں اور نوجوانوں کی تربیت ہے۔ آج کے بچے ذہنی طور پر گزشتہ نسل کے بچوں سے بہت آگے ہیں۔ ان کے لئے عملی نمونہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اپنے عمل کے وقت ہمیں جو چیز پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے وہ خداتعالیٰ کی ہستی ہے جو ہمارے افعال پر نگران ہے۔
مقرر موصوف نے خلافت کے مقام اور اس کی برکات کی طرف بھی اشارہ کیا اور بتایا کہ خلافت کے بغیر جماعت احمدیہ کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
مکرم شاہ صاحب نے نصیحت کی کہ گھروں میں عہدیداروں کی کمزوریوں کو اجاگر نہ کریں۔ بچوں کے سامنے اس حرکت سے اجتناب کریں۔
تقریر کو ختم کرنے سے قبل آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ’’کشتی نوح‘‘ سے منتخب حصہ پڑھ کر سنایا۔ حضرت اقدسؑ فرماتے ہیں: ’’اے امیرو اور بادشاہو اور دولتمندو! آپ لوگوں میں ایسے لوگ بہت کم ہیں جو خدا سے ڈرتے اور اُس کی تمام راہوں میں راستبازہیں … اے عقلمندو! یہ دنیا ہمیشہ کی جگہ نہیں تم سنبھل جاؤ۔ تم ہر ایک بے اعتدالی چھوڑ دو۔ ہر ایک نشہ کی چیز کو ترک کرو۔…پرہیزگار انسان بن جاؤ تا تمہاری عمریں زیادہ ہوں اور تم خدا سے برکت پاؤ۔ حد سے زیادہ عیاشی میں بسر کرنا لعنتی زندگی ہے۔ حد سے زیادہ بدخلق اور بے مہر ہونا لعنتی زندگی ہے۔ حد سے زیادہ خدا یا اس کے بندوں کی ہمدردی سے لاپروا ہونا لعنتی زندگی ہے۔ ہر ایک امیر خدا کے حقوق اور انسانوں کے حقوق سے ایسا ہی پوچھا جائے گا جیسا کہ ایک فقیر بلکہ اس سے زیادہ۔…خدا اُن لوگوں کی پناہ ہو جاتا ہے جو اُس کے ساتھ ہو جاتے ہیں سو خدا کی طرف آجاؤ اور ہر ایک مخالفت اُس کی چھوڑ دو اور اُس کے فرائض میں سُستی نہ کرو اور اُس کے بندوں پر زبان سے یا ہاتھ سے ظلم مت کرو اور آسمانی قہر اور غضب سے ڈرتے رہو کہ یہی راہ نجات کی ہے‘‘۔
اس کے بعد علمی اور ورزشی مقابلہ جات میں اوّل انعامات کے علاوہ مجالس کی سطح پر عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والوںمیں انعامات تقسیم کئے گئے۔ امسال منعقد ہونے والے علمی مقابلہ جات میں تلاوت، حفظ قرآن، نظم، تقریر (اردو و انگریزی)، فی البدیہہ تقریر (اردوو انگریزی)، ٹیم کوئز اور پیغام رسانی جبکہ ورزشی مقابلہ جات میں والی بال، فٹ بال، رسّہ کشی، گولہ پھینکنا، وزن اٹھانا، کلائی پکڑنا، صف اوّل کی 50 میٹر اور صف دوم کی 100 میٹر کی دوڑیں، ٹینس اور کرکٹ کے گیند پھینکنے کے مقابلے شامل تھے۔ مختلف شعبہ جات میں مجالس کی کارکردگی کے حوالہ سے بھی انعامات دیئے گئے۔
علم انعامی کے حوالہ سے مجموعی کارکردگی میں بڑے ریجنز میں اوّل ساؤتھ، دوم نورؔ اور سوم فضلؔ ریجن رہا۔ جبکہ چھوٹے ریجنز میں ساؤتھ ویسٹ اوّل قرار پایا۔
مجموعی کارگزاری کی بنیاد پر چھوٹی مجالس میں اوّل مجلس براملے اور لیوشم، دوم مجلس لیورپول اور سوم مجلس بکسلے قرار پائی۔ جبکہ بڑی مجالس میں سوم مجلس ناربری، دوم مجلس مچم جبکہ مجلس تھارٹن ہیتھ اوّل آکر علم انعامی کی حقدار قرار پائی۔ اللہ تعالیٰ یہ اعزاز بابرکت فرمائے۔
تقسیمِ انعامات کے بعد مکرم ڈاکٹر چوہدری اعجاز الرحمن صاحب صدر مجلس کی ہدایت پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے گزشتہ خطبہ جمعہ کے اُس حصہ کی ریکارڈنگ پیش کی گئی جس کا تعلق برطانیہ کی ذیلی تنظیموں کے سالانہ اجتماعات سے تھا۔
اس کے بعد مکرم ڈاکٹر منصور احمد ساقی صاحب ناظم اعلیٰ اجتماع نے مختصر رپورٹ پیش کی جس میں بتایا کہ امسال 2009؍ انصار اجتماع میں شامل ہوئے ہیں جبکہ کُل حاضری 2836؍ رہی ہے۔ آپ نے اجتماع کے پروگرام کے حوالہ سے چند معروضات کا ذکر کرنے کے بعد اُن مشکلات کا بھی اظہار کیا جو اِس نئی جگہ پر اجتماع کے انعقاد کے حوالہ سے پیش آئیں اور توقع ظاہر کی کہ ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی جائے گی تاکہ آئندہ پروگراموں میں شامل ہونے والے احباب کو کم سے کم تکلیف اٹھانی پڑے۔
مکرم ڈاکٹر چوہدری اعجاز الرحمن صاحب صدر مجلس انصاراللہ برطانیہ نے اپنی مختصر اختتامی تقریر میں کہا کہ خطبہ جمعہ میں حضور انور ایدہ اللہ کی نصائح سننے کے بعد اب مجھے کچھ زیادہ نہیں کہنا ہے لیکن حضورانور ایدہ اللہ کے ارشاد کی روشنی میں اجتماع کے اختتامی کلمات مجھے کہنے ہیں۔
مکرم صدر صاحب نے موسم کی خرابی اور پارکنگ کی وجہ سے پیدا ہونے والی اُن تکالیف کا ذکر کیا جو خواتین اور بوڑھوں کو خصوصاً برداشت کرنا پڑیں۔ اسی طرح گرم پانی کی عدم دستیابی پر بھی معذرت کی۔
چیریٹی واک کے لئے فنڈز مہیا کرنے کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے اس امر کا اظہار کیا کہ اکٹھی ہونے والی رقم کا تقریباً 45 فیصد حصہ جماعت کے باہر سے اکٹھا کیا گیا ہے اور یہ ایک خوش آئند بات ہے۔
آپ نے مزید کہا کہ حضور انور ایدہ اللہ کی ہدایات کی روشنی میں قرآن کریم کے چودہ پاروں کا لفظی ترجمہ اردو کے علاوہ انگریزی میں بھی طبع ہوچکا ہے اور بہت کم قیمت پر (بغیر کسی منافع کے) دستیاب ہے۔ احباب کو اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔
آپ نے کارڈف میں مسجد کی تعمیر کے لئے کی جانے والی کوششوں کا بھی ذکر کیا اور تعمیر کی اجازت (Planning permission) جلدی مِل جانے اور اس پر عملدرآمد میں آسانی پیدا ہونے کے لئے دعا کی درخواست کی۔ اس اجازت نامہ کے حصول کے لئے مکرم صدر صاحب نے مکرم منور احمد مغل صاحب کی کوششوں کو بھی سراہا۔
آپ نے مزید بتایا کہ امسال مجلس انصاراللہ برطانیہ کی سالانہ مجلس شوریٰ کا انعقاد مسجد بیت الفتوح میں 18و19؍دسمبر کو ہوگا۔
اپنی مختصر تقریر کے آخر میں آپ نے پہلے سیّدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا ایک ارشاد پیش کیا جس میں حضورؓ نے فرمایا ہے کہ انصاراللہ اپنی عمر کے لحاظ سے اگلے جہان میں جانے کی تیاری کر رہے ہیں اور اس لئے اُن کا حساب صاف ہونا چاہئے۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک ارشاد پیش کیا جس میں حضور علیہ السلام نے نماز کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا ہے کہ انسان کو خدا کی عبادت کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔
مکرم صدر صاحب نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے لئے دعا کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایسا وجود ہے جو کسی رخصت اور چھٹی کے بغیر ہمہ وقت اپنی ذمہ داریوں کے ادا کرنے میں مصروف ہے۔
دعا کے ساتھ، جو مکرم ڈاکٹر چوہدری اعجاز الرحمن صاحب صدر مجلس انصاراللہ برطانیہ نے کروائی، یہ اجلاس اور امسال کا سالانہ اجتماع بخیروخوبی اختتام پذیر ہوا۔