محترمہ حمیدہ بیگم صاحبہ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 23؍اپریل 2012ء میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں مکرمہ ص۔ وسیم صاحبہ نے اپنی والدہ محترمہ حمیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم محمد حنیف باجوہ صاحب کا ذکر خیرکیا ہے جو 21؍ اپریل 2011ء کو وینکوور (کینیڈا) میں وفات پاگئیں۔ آپ موصیہ تھیں۔ تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ میں ہوئی ۔ حضور انور نے بھی لندن میں نماز جنازہ غائب پڑھائی۔
محترمہ حمیدہ بیگم صاحبہ حضرت حافظ محمد اسحاق صاحبؓ آف پیرکوٹ کی سب سے چھوٹی بیٹی تھیں۔ بچپن قادیان کی بابرکت بستی میں گزرا ۔ باقی عمر کا اکثر حصہ ربوہ میںبسر ہوا۔ ہنس مکھ تھیں، امیر غریب ہر ایک سے دوستی کرتیںلیکن غرباء کی خاص طور پر زیادہ دلداری کرتیں اور اُن کی ضرورتوں کو پورا کرتیں۔
آپ پڑھی لکھی تھیں۔ سکول ٹیچر کی تعلیم بھی حاصل کی ہوئی تھی لیکن کبھی ملازمت نہ کی بلکہ اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت پر ہی خاص توجہ دی۔ اسی مقصد کے لئے بچوں کے ہمراہ ربوہ رہتی رہیں جبکہ خاوند ملازمت کی غرض سے بہاولنگر میں رہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے بچوں میں ڈاکٹر، انجینئر، فارماسسٹ، ماسٹرز (کیمسٹری، عربی، اردو) سب موجود ہیں۔ اور سب بچے جماعتی خدمات میں بھی بھرپور حصہ لیتے ہیں۔
محترمہ حمیدہ بیگم صاحبہ لجنہ کے کاموں میں سر گرم رہتیں۔ لمبا عرصہ اپنے محلّہ کی صدر لجنہ کے طور پر خدمت کی توفیق پائی۔ ہر ایک کی مدد کے لئے ہر وقت آمادہ رہتیں۔ غریب خواتین کو چندہ دینے کی عادت ڈالنے کے لئے پہلے ان کی مالی مدد کرتیں اور پھر ان کو چندہ دینے کی تحریک کرتیں اور انہی کے ہاتھ سے چندہ دلواتیں اور کسی کو کانوں کان خبرنہ ہوتی ،یوں آپ نے بہت سی خواتین کو چندہ دینے کی عادت ڈالی۔کسی کے ہاں وفات ہوتی تو سب سے پہلے ان کے گھر جاتیں اور کھانے یا ناشتے جس کا بھی وقت ہوتا خود بنا کر لے جاتیں اور ان کی ڈھارس بندھاتیں ،ہمت اور حوصلے کی تلقین کرتیں ۔
آپ نے بہت فعّال زندگی گزاری۔ کم کھاتیں، کم سوتیں اورروزانہ سیر ضرور کرتیں۔ بہت صاف گو، متقی، پرہیزگار، خدا پر توکّل کرنے والی خاتون تھیں۔ خلیفۂ وقت سے وفا اور پیار کا تعلق تھا۔ قرآن کریم کا آپ کا تلفّظ بہت اچھا تھا مگر جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے عربی تلفّظ سیکھنے کی تحریک کی تو عمر زیادہ ہونے کے باوجود بہت شوق سے کلاسز میں شامل ہو کر عربی تلفظ خود بھی سیکھا اور پھر دوسروں کو بھی تحریک کی چنانچہ بہت سی بزرگ خواتین نے آپ کی تحریک پر عربی تلفّظ سیکھا۔
آپ نے اپنی 75 سالہ زندگی میں جہاں دوسری جماعتی تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا وہاں 1977ء میں وصیت کی بابرکت تحریک میں بھی شامل ہوئیں۔ وصیت کرنے کے بعد اَن گنت بچوں اور بچیوں کو قرآن پاک سادہ اور ترجمہ سے پڑھایا۔ چند عمررسیدہ خواتین کو بھی قرآن کریم سادہ پڑھایا۔ بوقت وفات بھی وینکوور میں وقف نو کے بچوں کو قرآن پڑھانے کا کام آپ کے سپرد تھا۔ قرآن کریم پڑھانے کا اتنا شوق تھا کہ وفات سے ایک روز قبل اپنے سب بچوں اور پوتیوں پوتوں کو اپنے پاس بلاکر باری باری پیار کیا۔جب چھوٹے پوتے اور پوتی کو پیار کیا تو رونے لگیں اور روتے ہوئے کہا کہ ابھی تو میں نے ان کو بھی قرآن پاک ختم کروانا تھا۔
محترمہ حمیدہ بیگم صاحبہ بہت غریب پرور تھیں۔ زیور کپڑے جمع کرنے کی حسرت نہ تھی۔ جو بھی ملا غرباء میں تقسیم کر دیا۔ ہرمالی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتیں۔ پنجوقتہ نماز اور قرآن کی تلاوت کا خود بھی التزام کرتیں اور اپنی اولاد کو بھی نصیحت کرتیں۔ رمضان میں ہمیشہ دو مرتبہ قرآن پاک کا دَور مکمل کرتیں ایک دفعہ سادہ اور ایک دفعہ ترجمہ سے۔ اجلاسات اور جمعہ پر باقاعدگی سے جاتیں۔اپنی بیٹیوں کو ہمیشہ نصیحت کرتیں کہ برکت اسی کمائی میں ہوتی ہے جو خاوند لے کر آئے اور بیوی اس کو سلیقے سے خرچ کرے اور یہ بھی نصیحت کرتیں کہ برے وقت کے لئے کچھ سنبھال کر رکھنا چاہئے۔ اپنی اولاد کو پاک رزق عطا ہونے کے لئے خاص دعا کرتیں۔
آپ کا اپنے سسرال سے بہت پیار کا سلوک تھا۔ کبھی کوئی آپ سے ناراض ہوا اور نہ ہی آپ کو کسی کے خلاف بات کرتے ہوئے سنا۔ ہمیشہ بڑوں کی عزت اور چھوٹوں سے پیار کرتیں۔ اپنے بیٹوں سے کبھی بہوؤں کی شکایت نہ کرتیں بلکہ بہوؤں کے حقوق کی خاطر بیٹوں کو سمجھاتیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں