محترمہ رضیہ غوری صاحبہ
لجنہ اماء اللہ برطانیہ کے رسالہ ’’النصرت‘‘ دسمبر 2010ء میں محترمہ رضیہ غوری صاحبہ کا ذکرخیر اُن کی بیٹی مکرمہ صالحہ غوری صاحبہ کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
محترمہ رضیہ غوری صاحبہ کا تعلق جالندھر (انڈیا) کے ایک متوسّط گھرانہ سے تھا۔ بہت چھوٹی عمر میں والد کے سایہ سے محروم ہوگئیں۔ اُس وقت آپ لڑکیوں کے سکول ’مدرسۃالبنات‘ میں تعلیم پارہی تھیں۔ والد کی وفات کے بعد آپ کی صحت پر بہت منفی اثر ہوا اور آپ کو قدرے آسان پڑہائی والے سرکاری سکول میں داخل کروانا پڑا۔ گھر کا ماحول بہت مذہبی تھا اور بہت سے بچے اردو اور قرآن کریم پڑھنے آیا کرتے تھے۔ آپ کا بچپن بھی ایسے گزرا کہ آپ کی والدہ آپ کی گود میں قرآن کریم کھول کر رکھ دیتیں اور خود زبانی لمبی سورتوں کی تلاوت شروع کردیتیں۔ جب صفحہ بدلنا ہوتا تو اُس کا بھی بتادیتیں۔
چالیس کی دہائی میں آپ کے خاندان نے احمدی اور غیراحمدی علماء کے درمیان ایک مناظرہ کا اہتمام کیا۔ عورتیں بھی شامل ہوئیں۔ محترمہ رضیہ غوری صاحبہ اس مناظرہ کے بعد تفصیلی مطالعہ کے نتیجہ میں صرف 19 سال کی عمر میں احمدی ہوگئیں اور کچھ عرصہ بعد وصیت بھی کردی۔ آپ نے عقیدت کی بنا پر تیسرے حصہ کی وصیت کی تھی لیکن حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ وصیت دسویں حصہ کی کریں تاکہ دیگر تحریکات میں بھی شامل ہوسکیں۔ پھر آپ نے اپنی والدہ اور ہمشیرہ کو بھی احمدیت میں داخل کرلیا اور اپنے بھائی (مکرم قاری محمد یاسین صاحب جو بسلسلہ معاش افریقہ میں مقیم تھے) کو بھی ایک تفصیلی تبلیغی خط لکھا۔ انہوں نے جواباً لکھا کہ مَیں تو کئی سال پہلے احمدی ہوچکا ہوں لیکن یہ بات خفیہ رکھی ہوئی تھی۔ اگرچہ محترمہ رضیہ صاحبہ کو دیگر رشتہ داروں کی طرف سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ کچھ عرصہ بعد شدید مخالف بھائی (محمد یامین ندیم صاحب) بھی احمدی ہوگئے تو پھر اس فیملی کا سوشل بائیکاٹ کردیا گیاجو تقسیم ملک تک جاری رہا۔
تقسیم ملک کے بعد آپ کی شادی ہوگئی۔ آپ کے خاوند کی پہلی بیوی پانچ چھوٹے بچے چھوڑ کر وفات پاگئی تھیں۔چنانچہ آپ کو گھربار کے ساتھ بچوں کو بھی سنبھالنا پڑا۔ آپ میں خداتعالیٰ کا بہت خوف تھا چنانچہ ان بچوں کی پرورش بھی اپنے بچوں کی طرح ہی کی اور ان بچوں کی والدہ کے رشتہ داروں سے بھی حسن سلوک کرتیں اور جماعت کی کئی مالی تحریکات میں مرحومہ کی طرف سے چندہ بھی ادا کرتیں۔ بیواؤں اور غریب رشتہ داروں کی بھی فراخدلانہ امداد کرتیں۔ آپ کے شوہر کا تعلق ہریانہ کے ایک متموّل کاروباری گھرانہ سے تھا۔ انہوں نے افریقہ جاکر احمدیت قبول کی تھی۔ وہ ہمیشہ اس امر پر شکرگزار رہے کہ انہیں دونوں بار نیک شریک حیات عطا ہوئیں۔
محترمہ رضیہ صاحبہ نے اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کا غیرمعمولی خیال رکھا۔ دوسروں کے بچوں کو بھی حتّی کہ نوکر اگر مسلمان ہوتا تو اُس کو بھی نماز قرآن سکھانے کی کوشش کرتیں۔ ہر وقت دعاؤں کا ورد ہوتا اور فارغ اوقات میں اکثر نوافل ادا کرتیں۔ ہمیشہ حضرت مسیح موعودؑ کی کوئی نہ کوئی کتاب آپ کے زیرمطالعہ رہتی۔ پہلے میرے چاروں بھائیوں کو دینی ماحول میں تعلیم دلوانے کے لئے افریقہ سے ربوہ بھجوایا۔ پھر مجھے بھجوانے کا وقت آیا تو خود بھی ربوہ آکر آباد ہوگئیں۔ دعا پر بہت زور دیتیں اور اللہ تعالیٰ بھی تسلّی بخش حالات پیدا فرمادیتا۔ اپنے محلہ کی صدر بھی منتخب ہوئیں اور ربوہ میں اوّل پوزیشن بھی حاصل کی۔ بعد ازاں سپین میں اور اسلام آباد (یوکے) میں بھی صدر لجنہ رہنے کی توفیق ملی۔ آپ کے شوہر نے زندگی وقف کی تو حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے اُنہیں سپین بھجوایا اور آپ بھی ساتھ گئیں اور خدمت کی توفیق پائی۔
یکم دسمبر 2006ء کو وفات پائی۔ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور بروک وُڈ کے قطعہ موصیان میں تدفین ہوئی۔