محترمہ سلمیٰ مطہرہ صاحبہ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 3 دسمبر 2010ء میں مکرم منور علی شاہد صاحب نے اپنے مضمون میں اپنی خوشدامن محترمہ سلمیٰ مطہرہ صاحبہ اہلیہ مکرم میاں عبدالرشید فاروقی صاحب مرحوم کا ذکرخیر کیا ہے جو 16مارچ 2010ء کو لاہور میں حرکت قلب بند ہوجانے سے وفات پا گئی تھیں ۔
مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ جنوری 1991ء میں خاکسار کی شادی ہوئی۔ اس وقت سے لے کر وفات تک میری ساس صاحبہ نے کبھی مجھے یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ وہ میری ماں نہیں تھیں۔ آپ کی 7بیٹیاں اور 5بیٹے ہیں۔ مجھ سے رشتہ صرف اسی بات پر طے کردیا کہ مجھے جماعتی خدمت کی سعادت مل رہی تھی۔ اپنی پانچوں بہوؤں کے ساتھ حسن سلوک ایسا تھا کہ مَیں نے انیس سالوں میں کبھی بھی آپ کو بیٹی یا بہو کے درمیان کوئی فرق کرتے نہ دیکھا۔ بلکہ بیٹی سے بڑھ کر بہو کے ساتھ حسن سلوک ہوتا تھا۔ آپ انتہائی عبادت گزار، خلافت سے والہانہ محبت رکھنے والی اور غرباء، مساکین کی مثالی انداز میں مدد کرنے والی ہستی تھیں۔ ہر چھوٹے بڑے کے ساتھ انتہائی شفقت و محبت کا برتاؤ کرنے والی صابر و شاکر اور عملی طور پر دین کو دنیا پر فوقیت دینے والی عالم با عمل خاتون تھیں۔
میرے سسر محکمہ خوراک میں ملازم تھے۔ دو کمروں کے سرکاری کوارٹر میں رہائش تھی۔ گھر کے کُل 14؍افراد تھے۔ لیکن نماز وں خصوصاً باجماعت نماز سے اس قدر عقیدت تھی کہ ایک کمرہ بطور مرکزِ نماز وقف کر رکھا تھا۔ چنانچہ عشاء کی نماز کے بعد جلد سونا اور فجر کی نماز سے پہلے کمرہ تیار کرنا آپ کا معمول تھا۔ ر شتہ داروں اور اہل محلہ کے بار بار کہنے کے باوجود اپنے گھر میں نماز سنٹر کو ختم نہ کیا ۔ وفات سے قبل ہسپتال میں بھی اشاروں سے نماز کی ادائیگی کی تلقین کرتی رہیں ۔
آپ حضرت عبدالعزیزمغل صاحبؓ کی بیٹی اور حضرت میاں چراغ دین صاحبؓ رئیس لاہور کی پوتی تھیں۔ حضرت مسیح موعودؑ بعثت سے قبل ان کے ہاں بھی قیام فرمایا کرتے تھے۔ اسی طرح حضرت حکیم محمد حسین صاحبؓ ( مرہم عیسیٰ والے) مرحومہ کے تایا تھے۔ حضرت اماں جانؓ نے حضرت عبدالعزیز مغل صاحبؓ کو حضرت مسیح موعودؑ کی جیب کی گھڑی بطور یادگار تحفہ دی تھی۔جب اُن کی وفات ہوئی تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ لاہور میں ہی تھے۔ حضورؓ ان کے ہاں تشریف لائے، مرحوم کا چہرہ دیکھا اور جھک کر پیشانی پربوسہ دیا۔
محترمہ سلمیٰ مطہرہ صاحبہ کا بچپن دہلی دروازہ کی مبارک منزل میں گزرا تھا جہاں بزرگان سلسلہ بکثرت تشریف لایا کرتے تھے۔ آپ اکثر اپنے بزرگوں اور حضرت اماں جانؓ کے متعلق اپنے کئی مشاہدات بیان کیا کرتی تھیں۔ آپ کی شخصیت اتنی بااثر اور مسحور کن تھی کہ بچے، بڑے اور گھر میں کام کرنے والی خواتین بھی متأثر ہوئے بغیر نہ رہتی تھیں۔
آپ نہایت جانفشانی اور پوری دیانتداری کے ساتھ جماعتی خدمات بجالاتیں۔ اپنے حلقہ میں لجنہ کی لمبا عرصہ نگران اور سیکرٹری مال رہیں۔ اصلاح و ارشاد کے شعبہ میں بھی کام کیا۔ اپنی بیٹیوں میں بھی خدمت دین کی روح پیدا کی۔ گھر آنے والے ہر شخص کی مہمان نوازی کرنے کی کوشش کرتیں۔ ہر وقت باوضو رہتے ہوئے دعاؤں اور عبادت میں مصروف رہتیں۔ کئی بار خواب کے ذریعہ کسی بچہ کی تکلیف یا مشکل کی اطلاع مل جاتی تو اُسے فون کرتیں۔ دوسرا حیران ہوجاتا کہ آپ کو کیسے واضح طور پر بتایا گیا تھا۔
غریبوں اور مستحقین کی امداد میں بہت حصہ لیتیں۔ مریم شادی فنڈ کی تحریک میں نقدی کے علاوہ درجنوں لڑکیوں کی شادی کے لئے قیمتی اور اعلیٰ کپڑے بھجوائے۔ آپ غریب پرور اور ہر ایک کا دکھ محسوس کرنے والی فرشتہ سیرت وجود تھیں۔
آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ میں عمل میں آئی۔ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ نے لندن میں آپ کی نماز جنازہ غائب پڑھائی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں