محترمہ منیرہ کمال یوسف صاحبہ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 5؍نومبر 2010ء میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں مکرمہ نبیلہ رفیق فوزی صاحبہ نے محترمہ منیرہ کمال یوسف صاحبہ اہلیہ محترم کمال یوسف صاحب مبلغ سلسلہ ناروے کی سیرت کے نمایاں پہلوؤں پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔
محترمہ منیرہ کمال یوسف صاحبہ انتہائی ملنسار ، مہمان نواز ، خوش اخلاق، نرم گفتار اور ہنس مکھ خاتون تھیں۔ہر مہمان کا خوش دلی سے استقبال کرنا اور ان کے آرام کاہر طرح سے خیال رکھناآپ کی طبیعت کا خاصہ تھا۔ جب ہماری فیملی ناروے پہنچی تو آپ اوسلو کے مشن ہاؤس کے اوپر والے مکان میں رہائش رکھتی تھیں۔ چند دن آپ کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہوکر ہم ایک دوسرے شہر منتقل ہوگئے جہاں حلال کھانے کا مسئلہ بہت بڑا تھا۔ لیکن (ہمارے تقاضا کئے بغیر) آپ باقاعدگی سے اوسلو سے ہمیں حلال گوشت وغیرہ بھجواتی رہیں۔
اوسلو میں آپ کے ذکرخیر میں مہمان نوازی ایک ایسا خُلق تھا جس کا ذکر سب ہی کرتے ہیں۔ اوسلو کی مسجد دو منزلہ ہے اور تیسری منزل پر مربی سلسلہ کی رہائش ہے۔ ان تینوں منزلوں کی سالہاسال تک صفائی کا نہایت عمدہ اہتمام بھی اپنا ذاتی کام سمجھ کر آپ ہی کرتی رہیں۔ لمبا عرصہ تک لجنہ کے اجلاس بھی آپ کی رہائشگاہ پر ہوتے رہے۔ ہر اجلاس کے بعد اور ہر جمعہ پر سب کو باصرار کھانا کھلاتیں۔ مردوں کے پاس مسلسل چائے بھجوائی جاتی۔
1986ء میں مسجد کا تہ خانہ تعمیر کیا گیا تھا۔ اس سے قبل ناروے میں دو مربیان اَور بھی تشریف لے آئے، مگر ان کے لئے کوئی الگ باورچی خانہ یا کپڑے دھونے کی مشین وغیرہ کا انتظام نہیں تھا۔ چنانچہ پورا ایک سال اُن دونوں مربیان کی تمام تر ذمہ داری مرحومہ پر تھی۔ ان کا تینوں وقت کا کھانا، چائے، رمضان، عید بقر عید، ان کے کپڑوں کی دھلائی ، بستروں کی دھلائی ، الغرض تمام کا تمام کام آپ کے سپرد تھا۔ پھر ایک مربی صاحب کی فیملی آگئی جو ایک سال تک مشن ہاؤس میں آپ کے ساتھ ہی ٹھہری رہی۔ اس عرصہ میں آپ نے جس طرح ماں کی طرح اُس فیملی کا خیال رکھا وہ آج بھی اسے یاد کرتے ہیں۔ مردوں کی طرف کھانا، چائے اور دوسری چیزیں بھجوانے کے لئے آپ کے بیٹے بھی مسلسل مصروف رہا کرتے تھے۔
مرحومہ کا ایک وصف حوصلہ اور قوت ِ برداشت بھی تھا۔ بعض لوگوں کی ناشائستہ بات سن کر بھی اپنے شوہر کے منصب اور ان کے وقار کا خیال رکھتے ہوئے سب کچھ برداشت کرجاتیں۔ یہی حوصلہ انہوں نے اپنی بیماری میں دکھایا۔ اسی بیماری کے دوران اُن کے بیٹے کی شادی ہوئی تو کمال صبر و حوصلہ کے ساتھ مہمانوں کے ساتھ بیٹھی رہیں۔ حالانکہ اُس وقت تک اُن کے دو آپریشن ہوچکے تھے اور شدید تکلیف کے باعث کچھ کھانا پینا بھی مشکل تھا۔ صرف تھوڑی سی دہی کھاسکیں۔
اسی بیماری میں کہنے لگیں کہ مجھے دنیا سے جانے کا خوف نہیں، میرے اوپر تو بیماری آگئی ہے ، مجھے تکلیف تو کمال صاحب کی ہے ، وہ میری وجہ سے بہت پریشان ہیں۔ ان کی یہ عمر نہیں ہے کہ اتنی بڑی تکلیف اٹھائیں۔ کمال صاحب مسجد میں قرآن کے ترجمے کاکام کرنے جایا کرتے تھے ، اس بات کی فکر ان کو کھا ئے جا تی تھی کہ ان کی خوراک بہت کم ہے۔ میری بیماری کی وجہ سے کھانے کا تسلسل خراب ہورہا ہے۔ بہت دیر تک کام کرنا پڑتا ہے مگر اپنے کھانے کی طرف دھیان نہیں دیتے۔
2008 ء آپ کی بیماری کا تکلیف دہ سال تھا۔ اُس سال خلافت جوبلی کے جلسے تمام دنیا میں ہورہے تھے۔ کمال صاحب کی خواہش ان جلسوں میں شمولیت کی ہوتی تھی اور آپ بڑے حوصلہ سے اُن کو نہ صرف جانے کی اجازت دے دیتیں بلکہ بڑی تکلیف کی حالت میں بھی خود اُٹھ کر اُن کا سامان تیا ر کرتیں اور ہر چھوٹی بڑی چیز کا خیال رکھتیں۔ آپ کی بیماری کے دوران جب کمال صاحب نے گھانا کے جلسے پر جانے کا قصد کیا تو مجھے بہت حیرت ہوئی۔ مرحومہ نے بتایا کہ مَیں خود ان کو بھیج رہی ہوں۔ یہاں مجھے دیکھ دیکھ کر پریشان ہی ہو تے ہیں۔
آپ دوسروں کی تعریف فراخدلی سے کرکے اُن کا حوصلہ بڑھاتیں۔ کسی کو غمزدہ دیکھتیں تو اس کا غم دُور کرکے ہی چین پاتیں۔ عورتیں کثرت سے اپنے معاملات بتاکر مشورہ لیتیں۔ تحفہ دینے کا ہنر بھی آپ کو آتا تھا۔ ہم سوچتے کہ کم آمدنی میں کس طرح یہ سلسلہ چلتا ہے؟ خدا نے قناعت عطا کی ہوئی تھی، سفید پوشی کا بھرم تھا یا خدا کا خاص سلوک کہ اپنی مخلوق سے محبت کرنے والوں کا خداخود والی بن جاتا ہے۔ رمضان سے قبل ایک بار آپ کو کچھ خریدنا تھا۔ آپ نے ہاتھ روک لیا۔ کہنے لگیں رمضان آنے والا ہے۔ کمال صاحب نے روزے رکھنے ہیں اچھی خوراک کی ضرورت ہے پھر افطاریاں کروانی ہیں۔ اس کے لیے رقم بچانی ہے۔
آپ دوسروں کو تکلیف میں نہ دیکھ سکتیں۔ اپنی بیماری میں جب ہسپتال سے آتیں تو بہت کمزوری ہو جاتی۔ ڈاکٹر کی ہدایت تھی کہ اگلی دوا لینے سے پہلے اپنی کمزوری کو دُور کرنے کے لیے خوراک پر توجہ دیں۔ لیکن جسم کی یہ حالت تھی کہ سخت دوائی کی وجہ سے گلے اور زبان پر چھالے بن گئے تھے کہ پانی نگلنا بھی مشکل ہو جاتا تھا اور تکلیف کی وجہ سے آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے۔ اس سے بڑھ کر یہ فکر کہ گھر والے مجھے اس کیفیت میں دیکھیں! چنانچہ کمرہ کا دروازہ بند کر کے آرام کا بہانہ بناکر کھانے کے امتحان سے گزرتیں۔ کوئی واویلا نہیں کوئی شکوہ نہیں۔
کمال صاحب کو وقف کے دوران مختلف جگہوں پر جانا پڑتا۔ جہاں تک ممکن ہوتا ساتھ جاتیں۔ اکثر ایسے دورے کرنے پڑتے جہاں کئی کئی دن گھر سے باہر رہنا پڑتا لیکن آپ اس راہ میں کبھی رکاوٹ نہ بنیں۔
جب ڈاکٹروں نے اس دنیا میں تھوڑا عرصہ باقی رہ جانے کی اطلاع دی تو پریشان ہونا قدرتی بات تھی لیکن جلد ہی اپنے آپ کو سنبھال لیا اور رخت سفر باندھنے کے لئے تیار ہو گئیں۔ کمال صاحب کو پریشان دیکھ کر یوں تسلّی دی کہ خدا نے میری یہ خواہش پوری کی ہے کہ میں آپ سے پہلے خدا کے حضور حاضر ہوں۔ پھر ہر تسلی دینے والے کو بڑی ہمت سے حقیقت قبول کرنے کے لیے تیا ر کرتیں۔ بہو بیٹی کو گھر بلا کر اُن کی امانتیں اور چیزیں واپس کیں۔ الماریوں میں رکھے تحائف پر نام لکھوائے کہ فلاں کو فلاں چیز کی ضرورت ہے جب کوئی جائے تو اُن کو پہنچادے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں