محترم الحاج محمد حلمی الشافعی صاحب، محترم چودھری انور حسین صاحب اور محترم مولاناابوالمنیرنورالحق صاحب
جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں
(محمود احمد ملک)
الحاج محمد حلمی الشافعی مرحوم
(مطبوعہ رسالہ ’طارق‘ لندن 1996ء اور ہفت روزہ الفضل انٹرنیشنل 24ُُمئی1996ء)
ایک ایسی بزرگ ہستی جن کے ساتھ میری ابتدائی ملاقاتوں کا آغاز جوبلی کے سال 1989ء میں ہوا اور ان ملاقاتوں میں آپ کی جس بات نے مجھے سب سے زیادہ متأثر کیا وہ خلافت احمدیہ سے آپ کا والہانہ لگاؤ تھا۔ اس ذکر کے ساتھ ہی آپ کی آنکھوں کی چمک اور آپ کی آواز کا زیروبم اس عشق کی عکاسی کرنے لگتا تھا جو آپ کے سینہ میں خلافت کے لئے موجزن تھا۔ 1989ء ہی کی بات ہے ایک موقعہ پر محترم حلمی صاحب نے اس قسم کا اظہار کیا کہ احمدیوں کا دوسری مسلمان تنظیموں کے مقابلے میں سب سے بڑا فرق خلافت کا فرق ہے اور اگر یہ فرق نہ ہوتا تو جماعت احمدیہ یقینا ایسی منظم اور ترقی کرنے والی جماعت نہ ہوتی اور اس کے افراد میں ایسی یکجہتی بھی کبھی پیدا نہ ہو سکتی جیسی کہ اب ہے۔
انہی دنوں حسن عودہ کے فتنہ ارتداد نے سر اٹھایا تھا۔ محترم حلمی صاحب اُس سہ رُکنی کمیٹی کے سربراہ تھے جس نے اس فتنہ کی سرکوبی میں نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ بعد میں ایک موقع پر جب آپ سے مَیں اس سلسلہ میں گفتگو کر رہا تھا تو خلافت سے وابستگی اور اخلاص کا آپ نے جس جذبہ و جوش کے ساتھ اظہار فرمایا وہ آج بھی میری یادداشت میں محفوظ ہے۔
محترم حلمی صاحب مرحوم کی خلافت سے وابستگی اور اطاعت کا اظہار تو حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بھی نہایت محبت کے ساتھ فرما چکے ہیں۔ مجھے ان کی زندگی کا آخری پیغام یاد آرہا ہے جو انہوں نے وفات سے چند ہفتے قبل ’’طارق‘‘ کے لئے ایک انٹرویو دیتے وقت برطانیہ کے خدام کو دیا تھا۔ آپ نے فرمایا تھا کہ ’’میرا یہی پیغام ہے کہ خدام کو حضرت امیرالمومنین کی نصائح اور ہدایات کو غور سے سننا اور ان پر عمل کرنا چاہئے کیونکہ ایسا کرنا اُن کی روحانی ترقی کے لئے بہت ضروری ہے اور دراصل آج جو کچھ حضرت امیر المومنین فرما رہا ہے، یہی اسلام کا مغز ہے‘‘۔ یہ پیغام دیتے ہوئے آپ کے چہرہ پر پھیلی ہوئی سچائی کو مَیں اس وقت بھی محسوس کرسکتا ہوں۔
میری اُن سے آخری ملاقات اُن کی وفات سے دو گھنٹہ قبل مرکزی شعبہ کمپیوٹر لندن (6 Hardwicks Way SW18) میں ہوئی جہاں وہ افطاری میں بھی ہمارے ساتھ شامل ہوئے۔ اُن کے چہرے پر پھیل ہوئی شگفتگی کے ساتھ کچھ کمزوری کے آثار بھی نمایاں تھے۔ میرے دریافت کرنے پر انہوں نے بتایا کہ اسلام آباد سے وہ خود ڈرائیو کر کے لندن آئے ہیں۔ مَیں نے عرض کیا کہ اتنا بوجھ تو آپ کو خود پر ابھی نہیں ڈالنا چاہئے تھا۔ پھر میرے پوچھنے پر بتانے لگے کہ سات مختلف ادویات اُن کے زیر استعمال ہیں اور حضور انور نے جو ہومیو دوائیں بھجوائی ہیں وہ اس کے علاوہ ہیں۔ اور اُن کے لندن آنے کا مقصد صرف حضور انور سے ملاقات ہے جو شام 6 بجے ہوگی۔ دراصل یہ بھی اُن کی خلافت سے محبت ہی تھی کہ حضور انور سے ملاقات کے شوق میں وہ خود کار چلا کر لندن پہنچے تھے اور اس سے دو ہفتہ پہلے اپنے معالجین سے اصرار کرکے مصر سے لندن پہنچے تھے تاکہ حضور کی قربت نصیب ہوجائے۔ … (محترم حلمی الشافعی صاحب کو دل کا حملہ اُس وقت ہوا تھا جب آپ چند روز کے لئے مصر تشریف لے گئے ہوئے تھے)۔
اُن کے ساتھ اس آخری ملاقات کے دوران محترم حلمی صاحب نے اپنا ایک خواب بھی (جو اپنی بیماری کے دوران ہی دیکھا تھا) یوں بیان کیا کہ وہ ایک کار میں اپنی فیملی کے ساتھ جارہے ہیں تو سامنے سے ایک ٹرین آتی ہوئی دکھائی دی۔ چنانچہ انہوں نے اپنی کار کو بڑی مشکل سے کوشش کر کے ایک سائیڈ پر کر لیا اور ٹرین قریب سے گزر گئی اور آپ سب محفوظ رہے۔پھر آپ کہنے لگے کہ غالباً اس سے یہی مراد ہے کہ ٹرین بیماری ہے جو تھوڑی سی مشکل کے بعد گزر گئی ہے۔
محترم حلمی صاحب نے انٹرویو دیتے ہوئے یہ بھی بتایا تھا کہ اُن کے قبول احمدیت میں خدا تعالیٰ کا غیر معمولی فضل یوں شامل تھا کہ محترم مصطفی ثابت صاحب نے جب آپ کو تبلیغ شروع کی تو گو کہ محترم حلمی صاحب اس گفتگو کو پسند نہ کرتے تھے لیکن خوش قسمتی سے دونوں ایک ایسے صحرا میں ملازم تھے جہاں اوقاتِ کار کے بعد باتیں کرنے علاوہ کوئی اَور شغل ممکن ہی نہ تھا اور نہ ہی کوئی شہر قریب تھا اور یہ اللہ تعالیٰ کا فضل تھا کہ اس نے مجبور کر دیا کہ یہ گفتگو ممکن ہوئی جو آپ کے قبولِ احمدیت پر منتج ہوئی۔
قبول احمدیت کے بعد محترم حلمی صاحب کا اپنے محترم والد کو، جو کٹر وہابی تھے، احمدیت کے بارے میں بتانے کا طریقہ بھی بہت پُر حکمت تھا۔ چونکہ آپ کے والد بھی ممتاز علماء میں سے ایک تھے اس لئے جب آپ گھر گئے تو حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی کتاب ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ اپنے ہمراہ لے گئے اور اپنے والد کو کتاب میں سے منتخب عبارات پڑھ کر سنائیں۔ آپ کے والد اتنا اعلیٰ کلام سن کر بہت متأثر ہوئے اور اسلام کی حمایت میں ایسی کتاب لکھنے والے کی تعریف کی۔ تب محترم حلمی صاحب نے ان سے پوچھا کہ ایسی عبارت لکھنے والے کا آپ کے نزدیک کیا درجہ ہے۔ اُن کے والد نے نہایت خوشی کا اظہار کیا اور مضمون نگار کو بھرپور خراج عقیدت پیش کیا۔ اس کے بعد محترم حلمی صاحب نے پوچھا کہ ایسی عبارتیں لکھنے والا اگر مسیح ہونے کا دعویٰ کرے تو پھر!؟… چنانچہ اس طرح آپ نے احمدیت کے بارے میں بتایا اور چونکہ محترم حلمی صاحب کے والد آپ کے اعلیٰ کردار سے متأثر بھی تھے اس لئے انہوں نے بعد میں زیادہ مخالفت نہیں کی۔ اگرچہ آپ کے بعض رشتہ داروں نے بھرپور مخالفت کی لیکن اُنہیں جب بھی کوئی شرعی مسئلہ درپیش ہوتا تو وہ آپ ہی سے رجوع کرتے اور دیگر معاملات میں بھی آپ کے مشورہ کو ہر طرح سے اہمیت دیتے تھے۔…
… اپنی وفات سے ایک روز پہلے مرحوم نے وہ شمارہ ملاحظہ فرمایا تھا جس میں آپ کا انٹرویو شائع ہوا تھا اور وفات سے کچھ دیر پہلے ہونے والی آخری ملاقات میں آپ نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ چونکہ وہ معمولی حد تک اردو پڑھ سکتے ہیں اس لئے اپنے انٹرویو سے لطف اندوز بھی ہوئے ہیں۔
محترم حلمی صاحب بہت نرم مزاج رکھتے تھے یعنی اسم بامسمیٰ تھے، ان کے قریب رہنے والوں نے شاذ ہی اُنہیں کسی بات پر غصہ کی حالت میں دیکھا ہے۔ ان کے انداز میں دلوں کو موہ لینے والی ادائیں شامل تھیں۔
گزشتہ سال اسلام آباد کی جماعت نے سنڈے مارکیٹ میں تبلیغی سٹال لگانے کا سلسلہ شروع کیا تو ہماری خواہش پر ایک روز کچھ دیر کے لئے آپ بھی وہاں تشریف لائے۔ آپ کی شخصیت بہت جاذب اور پُرکشش تھی چنانچہ جتنا وقت بھی آپ وہاں موجود رہے مختلف ممالک سے آئے ہوئے عربوں کے لئے کشش کا باعث اور ہمارے سٹال کی رونق رہے۔
جہاں تک آپ کی محنت کی عادت کا تعلق ہے وہ یقینا قابل رشک تھی۔ کچھ عرصہ کے لئے محترم حلمی صاحب عربک ڈیسک کے دفتر میں بھی قیام فرما رہے۔ آپ کی فیملی مصر میں ہی تھی اور اسلام آباد میں آپ اکیلے تھے۔ چنانچہ کام اور آرام کا انتظام دفتر میں ہی تھا، ایک کونہ میں بستر لگا رکھا تھا۔ میرا قیام اُن دنوں آپ کے دفتر کے سامنے واقع ’’ایس۔ بلاک‘‘ میں تھا اور روزانہ رات گئے تک آپ کے کمرہ میں روشنی کی موجودگی آپ کی انتھک محنت اور خدمت دین کے لئے سچی تڑپ کا پتہ دیتی تھی۔
محترم چودھری انور حسین صاحب امیر جماعت شیخوپورہ
(مطبوعہ رسالہ ’طارق‘ لندن 1996ء )
محترم حلمی صاحب کی وفات سے چند ہفتے قبل پاکستان میں بعض ایسے بزرگوں نے بھی وفات پائی جنہیں اطاعتِ خلافت و محبتِ امام میں خاص مقام حاصل تھا۔ ان میں محترم چودھری انورحسین صاحب امیر جماعت شیخوپورہ بھی تھے۔ جن کا ذکر کرتے ہوئے حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ:
’’بہت ہی مخلص اور فدائی انسان تھے۔ خدا تعالیٰ نے انہیں بے شمار خوبیوں سے نوازا تھا۔ ایسی ہردلعزیز شخصیت تھی کہ اپنے کیا اور غیر کیا جو بھی ان کے قریب آتا تھا اس کا دل موہ لیتے تھے، کسی اور جگہ میں نے کسی امیر ضلع کو اتنا ہر دلعزیزنہیں دیکھا جتنا چوہدری صاحب کو شیخوپورہ ہی میں نہیں اس کے گردو پیش بھی دیکھا ہے… صرف 14 سال کی عمر میں احمدی ہوئے اور پھر شدید دباؤ کے باوجود حق پر قائم رہے۔ ہرجگہ احمدیت کے لئے غیرت میں ننگی تلوار اور تبلیغ کے لحاظ سے ایسا میٹھا رس تھے جو دلوں کی گہرائی تک اترتا تھا۔ احمدیت کے عاشق، مسیح موعود ؑ کے عاشق، خلافت کے عاشق… بہت ہی پیارا وجود تھا۔ حضرت مصلح موعودؓ کے بہت پیارے تھے، حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کو بہت پیارے تھے اور مجھے بہت ہی پیارے تھے۔‘‘
محترم مولاناابوالمنیر نورالحق صاحب
(مطبوعہ رسالہ ’طارق‘ لندن 1996ء )
— — محترم حلمی الشافعی صاحب کی وفات سے چند ہفتے قبل پاکستان میں بعض ایسے بزرگوں نے بھی وفات پائی جنہیں اطاعتِ خلافت و محبتِ امام میں خاص مقام حاصل تھا۔ ان میں دیرینہ خادم دین محترم مولاناابوالمنیر نور الحق صاحب بھی تھے۔ جن کا ذکر کرتے ہوئے حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ:
’’مرحوم بچپن ہی سے خدمت دین کے لئے وقف اور ہمہ تن خدمت دین خصوصاً علمی خدمت میں پیش پیش رہے۔ حضرت مصلح موعودؓ کا دست شفقت خصوصیت سے آپ پر ہوا کرتا تھا۔ خصوصیت سے علمی خدمت میں مولوی صاحب کو ایک بڑے لمبے عرصے تک توفیق ملی کہ مصلح موعودؓ کی مدد کریں اور اس کا اظہار مختلف رنگ میں حضرت مصلح موعود ؓ نے اس طرح بھی فرمایا کہ 1943ء میں جو تعلیمی کمیٹی انجمن کی قائم فرمائی جس کے صدر حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ تھے، اس میں مولوی صاحب کو بھی اپنی کم عمری کے باوجود اس کا ممبر بنایا۔ ناظم انخلاء آبادی بھی رہے۔ جامعۃ المبشرین میں 1949ء میں بطور مدرس مقرر ہوئے، وہاں میرے بھی استاد تھے۔ شروع سے وقف جدید کے ممبر رہے۔ اراکین افتاء میں بھی رہے۔دارالقضاء بورڈ کے ممبر، قرآن پبلیکیشنز، ناظم بکڈپو، سیکرٹری نصرت پرنٹرز بھی رہے۔ میں نے ربوہ میں جو ترجمۃالقرآن کمیٹی بنائی ہے اس کے بھی ممبر تھے۔ اللہ ان کو غریق رحمت فرمائے۔‘‘
پس زندہ قوموں کی روایات کو قائم رکھتے ہوئے اب ہمارا یہ فرض ہے کہ ان بزرگوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ایسا ہی نمونہ قائم کر جائیں جو نہ صرف آئندہ آنے والوں کے لئے قابل تقلید ہو بلکہ ہمارے لئے بھی مغفرت، رحمت اور خدا کی رضا کے حصول کا باعث بن جائے۔ خدا تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے۔