محترم دانشمند خان صاحب کا قبول احمدیت
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 5مئی 2005ء میں مکرم بشیر احمد رفیق صاحب اپنے والد محترم دانشمند خان صاحب کے قبول احمدیت کی داستان بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ میرے والد محترم دانشمند خان صاحب اوائل جوانی میں گاؤں چھوڑ کر بلوچستان چلے گئے تھے اور وہاں مستونگ جیل میں ملازمت اختیار کرلی تھی۔ گاؤں سے رخصت کرتے وقت آپ کے والد نے آپ کو قادیانیوں سے بچنے کی خاص طور پر نصیحت کی اور احمدیوں کے خودساختہ عقائد بیان کرکے آپ سے وعدہ لیا کہ آپ اُن کے جال میں نہیں پھنسیں گے۔ جبکہ آپ نہ کبھی کسی احمدی سے ملے تھے اور نہ آپ کو احمدیت میں کوئی دلچسپی تھی۔
ان دنوں مستونگ ایک چھوٹا سا قصبہ تھا۔ زیادہ تر بلوچ اور کچھ پختون لوگ آباد تھے۔ محترم دانشمند خانصاحب کو جیل کے اندر ایک وسیع و عریض رہائشگاہ مل گئی اور زندگی کی ہر آسائش بھی میسر تھی۔ آپ کے ماتحت دفتر کا عملہ بھی مختصر سا تھا۔ 1921ء میں ایک روز آپ جمعہ پڑھنے مستونگ کی جامع مسجد گئے۔ راستہ میں آپ کی ملاقات حضرت مولوی محمد الیاس خان صاحب سے ہوئی۔ دونوں کا تعارف بھی ہوا۔ حضرت مولوی صاحب آپ کے والد صاحب کو خوب جانتے تھے اور ایک دو بار اُن کے پاس بھی جاچکے تھے۔ انہوں نے جب آپ کو اپنے احمدی ہونے کا بتایا تو یہ بات آپ کو اچھی نہ لگی تاہم آپ حضرت مولوی صاحب کی شخصیت اور نوارنی چہرہ سے بے حد متاثر ہوئے اور دل میں سوچا کہ ایسا شخص جھوٹا کیسے ہوسکتا ہے۔ حضرت مولوی صاحب نے آپ کو احمدیوں کے ساتھ جمعہ پڑھنے کی دعوت دی جو آپ نے اس شرط پر قبول کرلی کہ خطبہ تو سنیں گے لیکن نماز احمدیوں کے ساتھ نہیں پڑھیں گے۔ دراصل آپ کو بتایا گیا تھا کہ احمدیوں کی نماز میں گانا بجانا ہوتا ہے۔ اور آپ اس کی تصدیق کرنا چاہتے تھے۔ مستونگ میں اُن دنوں آٹھ دس احمدی ایک گھر میں جمعہ ادا کرتے تھے۔ وہاں آپ نے احمدیوں کو گریہ و زاری سے نماز ادا کرتے دیکھا تو حیرت میں ڈوب گئے۔ حضرت مولوی صاحب نے خطبہ میں سورۃالبقرہ کے حوالہ سے منافقین کی علامات بیان فرمائیں تو آپ کا دل غم سے بھرگیا اور یوں معلوم ہوا کہ گویا یہ آیات آپ ہی کے بارہ میں تھیں۔ نماز کے بعد چائے کا دَور چلا۔ اس دوران بھی حضرت مولوی صاحب نے مختلف قرآنی آیات کی ایسی تفسیر کی کہ عش عش کر اٹھا۔ جب گھر سے نکلے تو آپ نے ڈرتے ڈرتے حضرت مولوی صاحب سے پوچھا کہ اُنہیں آپ کی منافقانہ زندگی کے بارہ میں کس نے بتایا ہے۔ حضرت مولوی صاحب نے کہا کہ جو کچھ انہوں نے بیان کیا تھا وہ تو قرآن کریم کی تفسیر تھی۔ اس واقعہ کے بعد کئی ہفتے گزرگئے۔ آپ نہ تو حضرت مولوی صاحب کو ملے اور نہ ہی احمدیت کے بارہ میں کوئی تحقیق کی۔
کچھ عرصہ کے بعد دسمبر کے مہینہ میں مستونگ میں شدید برفباری ہورہی تھی۔ راستے برف سے اَٹے پڑے تھے۔ محترم خانصاحب شام کو گھر پہنچے تو نوکر نے کھانا تیار کیا ہوا تھا، وہ کھایا اور سوگئے۔ نوکر جو ایک قیدی تھا وہ رخصت ہوگیا۔ آدھی رات کو آپ نے محسوس کیا کہ کوئی آپ کے پاؤں کے انگوٹھے کو زور سے دبا رہا ہے۔ آپ ہڑبڑا کر اٹھ کھڑے ہوئے تو آواز آئی ’’اٹھ بیعت کر‘‘۔ آپ نے فوراً لالٹین جلائی۔ گھر کا ہر کمرہ جاکردیکھا۔ گھر جیل کے احاطہ میں تھا جہاں سخت پہرہ تھا۔ باہر شدید سردی اور برفباری کا منظر تھا۔ آپ دوبارہ بستر پر لیٹ کر سوگئے لیکن تھوڑی دیر کے بعد دوبارہ آپ کو اپنے پاؤں پر شدید دباؤ محسوس ہوا اورساتھ ہی آواز آئی ’’اٹھ بیعت کر‘‘۔ آپ نے گھبراہٹ سی محسوس کی، لالٹین جلاکر رات کا بقیہ حصہ جاگتے گزار دیا۔ دن کو یہ واقعہ آپ کے ذہن سے محو ہوگیا۔ لیکن اگلی رات پھر جونہی آپ گہری نیند سوگئے تو وہی واقعہ دہرایا گیا اور آواز آئی ’’اٹھ بیعت کر ‘‘۔ چنانچہ یہ رات بھی خوف سے جاگتے گزار دی۔ آپ نے زندگی میں اس سے قبل کبھی ’’بیعت ‘‘ کا لفظ سنا تک نہیں تھا۔ سخت پریشانی کے عالم میں قریبی مسجد کے مولوی سے بیعت کا مطلب پوچھنے کے لئے سڑک پر نکلے تو سامنے سے حضرت مولوی محمد الیاس خان صاحب کو آتے دیکھا۔ انہوں نے آپ کی سوجی آنکھیں دیکھیں تو پوچھا کہ خیریت ہے؟ آپ نے گزشتہ دو تین راتوں کی کہانی سناکر پوچھا کہ یہ بیعت کیا چیز ہے۔ حضرت مولوی صاحب نے بیعت کی تشریح کی تو آپ کے پوچھنے پر بتایا کہ بیعت قادیان میں حضرت خلیفہ ثانی سے ہوتی ہے۔ آپ نے فرمایا مولوی صاحب فوراً میری بیعت کرادیں میں سخت پریشان ہوں۔ چنانچہ مولوی صاحب آپ کو اپنے گھر لے گئے اور بیعت فارم پُر کروالیا اور فرمایا اب انشاء اللہ تمہیں رات کو کوئی نہیں ستائے گا اور تم آرام سے سو سکوگے۔ آپ واپس اپنے گھر آگئے، رات کو خوف تو بہت تھا لیکن بالآخر نیند آگئی۔ رات آرام سے گزرگئی۔
چند دن بعد حضرت مولوی صاحب سے دوبارہ ملاقات ہوئی تو انہوں نے فرمایا کہ میرے پاس آکر مجھ سے قرآن اور اس کی تفسیر پڑھو۔ آپ نے کہا کہ میں نے تو بچپن میں قرآن نہ پڑھنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ انہوں نے حیرانی سے پوچھا کہ ایسی قسم کیسے کھالی جو سراسر خلاف شریعت ہے۔ آپ نے عرض کیا کہ بچپن میں مجھے گاؤں کے ملّا کے پاس قرآن پڑھنے کے لئے بٹھایا گیا تھا۔ ناظرہ کے بعد جب ترجمہ پڑھنا شروع کیا تو بعض سوالات میرے ذہن میں اٹھنے لگے جو مَیں ملّا صاحب کے سامنے پیش کرکے جواب مانگا کرتا، ایک دن انہوں نے غصہ میں فرمایا کہ قرآن کریم کے بارہ میں سوالات کرنا کفر کی علامت ہے، اس لئے اگر آئندہ تم نے کوئی بھی سوال کیا تو کافر ہوجاؤ گے۔ اس پر آپ نے قسم کھالی کہ اب قرآن نہ پڑھوں گا جس کے سمجھنے کی کوشش سے انسان کافر بن جاتا ہے۔
حضرت مولوی صاحب نے جواباً فرمایا کہ میں تمہیں قرآن پڑھاؤں گا اور تمہارے ہر سوال کا جواب دوں گا۔ چنانچہ آپ نے حضرت مولوی صاحب کی شاگردی اختیار کر لی۔ چند دن بعد آپ کو قادیان سے بیعت کی منظوری کا خط بھی مل گیا جو کسی طرح دفتر میں کام کرنے والے ایک ملّا نے دیکھ لیا اور اُس نے کہا کہ آپ تو کافر ہوگئے ہیں اور اب مستونگ میں آپ کی زندگی اجیرن کر دی جائے گی۔ لیکن آپ کسی دھمکی یا مخالفت سے خوفزدہ نہ ہوئے بلکہ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ مجھے تو خدا خود احمدیت میں لایا ہے میں کسی کی دعوت سے احمدی نہیں ہوا۔ بعد میں آپ کی شادی حضرت مولوی محمد الیاس خانصاحب کی بیٹی سے ہوگئی۔