محترم رانا محمد خاں صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 12جون اور 16 جولائی 2009ء میں محترم رانا محمد خان صاحب سابق امیر ضلع بہاولنگر کا ذکر خیر مکرم رشید احمد طیب صاحب اور مکرم نذیر احمد سانول صاحب مربیان سلسلہ کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔ مرحوم کا ذکرخیر قبل ازیں 11مارچ 2011ء کے ’’الفضل انٹرنیشنل‘‘ کے ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ میں بھی شائع ہوچکا ہے۔
مکرم رشید احمد طیب صاحب لکھتے ہیں کہ محترم رانا محمدخان صاحب کا ذکرخیر حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ نے 23جنوری 2009ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا اور بعد نماز جمعہ ان کی نماز جنازہ غائب پڑھائی۔
خاکسار 1994ء میں جامعہ احمدیہ سے فارغ التحصیل ہوا تو میرا پہلا تقرر بہاولنگر کی ایک جماعت میں ہوا۔ اس چارسالہ قیام میں محترم رانا محمد خانصاحب کو قریب سے دیکھا۔ آپ بہت خیال رکھنے والے اور مربیان کا احترام کرنے والے وجود تھے۔دین و دنیا ہر دو لحاظ سے علاقہ بھر میں نہایت ممتاز مقام پر فائز ہونے کے باوجود آپ کی بے شمار نمایاں خوبیوں میں نہایت سادگی و وقار کے ساتھ مہمان نوازی، طبیعت میں نرمی، اور دعا گوئی اور خدمت خلق شامل تھیں۔ بالخصوص جماعتی مہمان خواہ وہ عمر میں آپ سے بہت چھوٹا بھی ہوتا، آپ خوداپنے ہاتھ سے مہمان نوازی میں راحت محسوس کرتے۔ تربیت کا انداز نہایت حکیمانہ و مشفقانہ ہوتا تھا اور اکثر اجتماعات، جلسہ جات و عام دوروں وغیرہ میں اپنے خطابات و تقاریر میں تربیتی موضوعات پر بڑے دلی درد سے نصائح فرماتے اور خلافت کے احترام کی اپنے عمل سے اہمیت واضح فرماتے۔
دنیاوی لحاظ سے خداتعالیٰ کے بے شمار فضلوں کے وارث تھے، اعلیٰ زرعی زمین بھی تھی اور پیشہ وارانہ آمدنی بھی وسیع تھی لیکن نہایت پُر وقار اور سادہ زندگی خود بھی گزاری، اور اپنے خاندان اور اپنی جماعت کو بھی ہمیشہ حکمت سے اس طرف توجہ دلاتے رہتے۔ ایک دفعہ شدید گرمی کے دن چالیس میل دُور ایک احمدی گھرانہ میں تعزیت کے لئے تشریف لائے تو اہل خانہ نے فوراً ایک بچہ کو ٹھنڈے مشروبات کی بوتلیں لینے دکان پر بھیج دیا۔ بچہ جونہی واپس آیا تو آپ نے اُسے بلاکر کہا کہ یہ بوتلیں کھولے بغیر واپس کر آؤ اور چند روپے کی سکنجمیں بنالاؤ۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ پانی پی کر آپ نے اہل خانہ سے کہا کہ دیکھو ہم نے اپنی پیاس کے مطابق پانی جی بھر کے پیا ہے، مزہ بھی زیادہ آیا ہے۔ بوتل سے تو پیاس بھی نہیں بجھتی اور بندہ مزید بھی مانگنے سے شرماتا ہے اور پھر جو آپ کے پیسے بچے ہیں وہ اب آپ کسی تحریک میں چندہ دیدیں۔
آپ ایک بااصول ، ایماندار اور کامیاب وکیل تھے۔ ایک احمدی مکرم ڈاکٹر عبدالمجید منہاس صاحب کا ایک کیس قریباً 30/35 سال سے جاری تھا اور محترم راناصاحب آپ کے وکیل تھے۔ ایک دن وہ عرض کرنے لگے کہ رانا صاحب! جب ہم حق پر ہیں اور مخالف فریق ہمیشہ پیسے اور جھوٹ سے معاملہ مزید لٹکاتا چلا جا رہا ہے تو کیا حرج ہے کہ ہم بھی کسی کو کچھ دے دلا کر اپنا حق حاصل کر لیں۔ یہ سنتے ہی آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور فائل اُن کی طرف بڑھاتے ہوئے کہنے لگے کہ پھر دینے دلانے والے وکیل کے پاس لے جاؤ۔ اس پر انہوں نے فوراً معذرت کرلی اور اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ سالوں پرانا کیس اس واقعہ کے کچھ ہی عرصہ بعد ان کے حق میں ختم ہو گیا۔
محترم رانا صاحب کی زبان ہمیشہ ذکر الٰہی اور دعاؤں سے تر رہتی۔ اکثر نماز باجماعت سے قبل اور بعد بھی آپ کافی دیر تک تسبیحات و دعاؤں میں مشغول رہتے۔ نماز کے بعد ’’اللّٰھُمَّ اَعِنِّی عَلَی ذِکْرِکَ … والی دعا بکثرت آپ کے ورد میں ہوتی اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کا عملی مظہر بھی بنایا تھا۔
وسعت حوصلہ کے ساتھ شفقت علیٰ خلق اللہ کی صفت آپ کی ذات کا ایک نمایاں امتیاز تھا۔ بہاولنگر کے پوش علاقہ میں عدالت کے قریب ہی آپ کی کوٹھی واقع ہے جس کے عقبی لان میں اکثر بہت سے سائیکل اور چند ریڑھے اور ٹھیلے وغیرہ آپ کی اجازت سے کھڑے ہوتے۔ بہت سے ضرورت مند غرباء بلا جھجک اپنی ضروریات کے سلسلہ میں اکثر آپ کے پاس آجاتے اور آپ مقدور بھر امداد ہمیشہ کرتے رہتے۔
مالی قربانی میں آپ کا خاص مقام تھا۔ لازمی چندہ جات کے ساتھ سب تحریکات میں بڑھ چڑھ کر قربانی پیش کرتے۔ جماعتی پروگراموں میں شرکت کے سلسلہ میں اپنا ذاتی خرچ کرتے۔ مسجد بشارت سپین کے افتتاح کے تاریخی موقع پر تشریف لے گئے۔ 1985ء سے لے کر اپنی وفات سے دو سال قبل تک ہر جلسہ برطانیہ میں شرکت فرماتے رہے۔