محترم سعید احمد اعجاز صاحب
حضرت مصلح موعودؑ 1949ء میں کراچی جاتے ہوئے جب ساہیوال پہنچے تو وہاں حضورؓ کے دست مبارک پر بیعت کرنے والوں میں محترم سعید احمد اعجاز صاحب بھی شامل تھے۔
احمدیت قبول کرنے والے وہ اپنے خاندان میں پہلے فرد تھے۔ آپ کی اہلیہ کو جب اس کا علم ہوا تو وہ بہت ناراض ہوئیں۔ اتفاق ایسا ہوا کہ دوتین سال کے بعد آپ کا ایک بیٹا شدید بیمار ہوا اور زندگی کی امید ختم ہو گئی تو آپ کی اہلیہ کے دل میں خیال آیا کہ اگر احمدیت سچی ہے تو اللہ تعالیٰ اس بچے کو نئی زندگی دے گا۔ چنانچہ اُسی رات بچے کی حالت بدل گئی اور اس طرح وہ بھی ایمان لے آئیں اور پھر خاندان بھر کی مخالفت کے باوجود ثابت قدم رہیں۔
محترم سعید احمد اعجاز صاحب کے حالات زندگی آپ کی بیٹی محترمہ سلمیٰ شہناز صاحبہ کے قلم سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 4؍جولائی 1996ء کی زینت ہیں۔
محترم اعجاز صاحب 25؍دسمبر 1912ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ دس سال کے تھے کہ والدہ کی وفات ہو گئی اور والد نے دوسری شادی کر لی۔ 1938ء میں آپ نے پٹنہ انجینئرنگ یونیورسٹی سے سول انجینئر کی ڈگری حاصل کی اور پھر بسلسلہ ملازمت مختلف جگہوں پر مقیم رہے۔ آپ کی بعض پیشہ وارانہ تصانیف رسول کالج آف انجینئرنگ اور انجینئرنگ یونیورسٹی کے نصاب میں شامل ہیں۔ دوران ملازمت آپکی دیانتداری کا شہرہ اور رعب تھا۔ شاعر بھی بہت اعلیٰ تھے اور حلقہ اربابِ ذوق میں ’’رباعی کے بادشاہ‘‘ کہلاتے تھے۔ فارسی، عربی، اردو اور انگریزی پر یکساں قدرت حاصل تھی اور چند دیگر زبانوں کی بھی سوجھ بوجھ تھی۔ 1981ء میں انصار اللہ کے لئے آپ کی کہی ہوئی نظم: ’’جوانوں کے تم ہو جواں اللہ اللہ‘‘ ایک مقابلہ میں اول قرار پائی اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے اجتماع کے موقع پر آپ کو انعام عطا فرمایا۔
حضرت امیرالمومنین خلیفۃالمسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ نے بھی آپ کے کلام کے سلسلے میں نہایت محبت سے متعدد مرتبہ حوصلہ افزائی فرمائی۔
خلافت سے آپ کو والہانہ عشق تھا۔ حضرت مصلح موعودؑ کی وفات پر رخصت نہ ملی تو ملازمت کو خطرہ میں ڈال کر ربوہ چلے گئے۔
بہت خدا ترس تھے۔ اپنی دوسری والدہ کی خدمت اور تیمارداری میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ انسانیت کا ایسا درد تھا کہ ایک ملازم جو رقم لے کر بھاگ گیا تھا، کچھ عرصہ بعد پکڑا گیا اور معافی کا طلبگار ہوا تو آپ نے اسے معاف کر دیا اور کرایہ کے لئے اسے مزید رقم بھی دی۔ اسی طرح بس کے کسی سفر کے دوران ایک جیب کترے نے آپ کی رقم نکال لی اور آپ کے شور مچانے پر چلتی بس سے چھلانگ لگا کر زخمی ہو گیا۔ آپ نے نہ صرف اسے معاف کر دیا بلکہ وہی رقم مرہم پٹی کے لئے اسے دیدی۔
83 سال کی عمر میں آپ کی وفات ہوئی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئے۔