محترم عبدالرحمٰن صاحب دہلوی
ماہنامہ ’’احمدیہ گزٹ‘‘ کینیڈا اپریل 2009ء میں مکرم فضل الرحمٰن عامر صاحب نے اپنے والد محترم عبدالرحمٰن صاحب دہلوی کا تفصیلی ذکرخیر کیا ہے جو 15فروری 2009ء کو کینیڈا میں وفات پاگئے۔
محترم عبدالرحمٰن دہلوی صاحب 1910ء میں دہلی میں حضرت ڈاکٹر عبدالرحیم صاحب دہلویؓ کے ہاں پیدا ہوئے۔ آپ کا نام حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ نے رکھا تھا۔ تیرہ بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ دہلی سے میٹرک اور قادیان سے مولوی فاضل کا امتحان پاس کرکے آپ لکھنؤ گولا کھنڈ کالج میں انگریزوں کو اُردو پڑھانے پر مقرر ہوئے۔ دوسری جنگ عظیم میں برٹش آرمی میں بھرتی ہوگئے اور ہندوستان کے مختلف علاقوں میں تعینات رہے۔ 1942ء میں آپ برما کے محاذ پر تھے جب آپ کی ملاقات لیفٹیننٹ جان برین آرچرڈ سے ہوئی جو آپ کے کہنے پر قادیان بھی گئے اور پھر اسلام قبول کرکے بشیر احمد آرچرڈ کہلائے نیز پہلے انگریز مبلغ ہونے کا اعزاز بھی انہیں حاصل ہوا۔
محترم دہلوی صاحبؓ کو آنحضورﷺ سے غیرمعمولی عشق تھا اور ان کا نام آتے ہی آپ کی آنکھوں میں آنسو آجاتے تھے۔ درودشریف کی برکات سے متعلق حضرت مولوی اسماعیل حلالپوری صاحب کی کتاب شائع کرکے مفت تقسیم کی۔ بہت متوکّل اور دعاگو انسان تھے۔
فوج سے سبکدوش ہو نے کے بعد 1958ء میں محترم دہلوی صاحب ربوہ منتقل ہوگئے اور 1980ء تک دفاتر صدر انجمن احمدیہ میں خدمات سر انجام دیتے رہے۔ 1982ء میں خاکسار نے اپنے والدین کو کینیڈا بلا لیا۔ یہاں آپ تبلیغ کرنے کے مواقع کی تلاش میں رہتے۔ آپ نے ریڈکرسچین کالج میں بھی تعلیم حاصل کی تھی۔ ایک عیسائی ہمسائی آپ سے گفتگو کے بعد کہنے لگی کہ عیسائیت اور بائبل کا جتنا علم ان کو ہے ہمارے پادریوں کے پاس اُس کے مقابلہ میں عیسائیت کا کچھ بھی علم نہیں ہے۔ آپ ہمارے فیملی ڈاکٹرلوئس کو بھی تبلیغ کرتے۔ ڈاکٹر لوئس سابق وزیراعظم ملائشیا تنکوعبدالرحمن کے بھی معالج رہے ہیں۔ وہ آپ کی باتیں سننے کے لئے دیر تک آپ کو اپنے پاس بٹھاتے اور کہتے کہ باہر بیٹھے لوگ تو میرے ہاتھ سے شفا پانے کا انتظام کررہے ہیں لیکن یہاں اند رمیں مسٹر دہلوی کے ذریعے اپنی روحانی شفا کا بندوبست کررہا ہوں۔ ایک روز ڈاکٹر لوئس نے مجھے کہا کہ میں تمہارے والد کی باتوں پر گھر جاکر گھنٹوں غور کرتا ہوں۔ اور کہنے لگے کہ اگر دنیا میں کچھ اَور لوگ بھی اِن جیسے ہوجائیں تو یہ دنیا تو بہشت بن سکتی ہے۔
آپ نے قرآن و حدیث اور حضرت مسیح موعودؑ اور خلفاء کے ارشادات کو لکھ لکھ کر اور اُن کی بے شمار عکسی نقول کرواکر ایک بڑے تھیلے میں اپنے پاس رکھا ہوتا تھا۔ جلسہ ہوتا یا کوئی شادی بیاہ کی تقریب ہوتی، ہر جگہ اور ہر محفل میں آپ وہ پمفلٹ تقسیم کرتے۔ آپ فرمایا کرتے تھے میں دہلی اور کوئٹہ میں تبلیغ کرتے ہوئے ماریں بھی کھا چکا ہوںاور کوئٹہ میں تو ایک شخص نے میری عینک بھی توڑ دی تھی۔ اور کوئٹہ میں ایک بار ایک شخص چاقو لے کر مجھے مارنے آگیا۔ لیکن پھر پتہ نہیں اُسے کیا ہوا کہ بجائے مارنے کے وہ میرے سامنے کھڑا کانپنے لگا۔ میں نے اُس سے وجہ پوچھی تو وہ کہنے لگا کہ اُسے مولویوں نے مجھے مارنے کے لئے بھیجا تھا اور کہا تھا کہ اس طرح وہ جنت کا حقدار ہوجائے گا۔ وہ میرے پیروں پر گر پڑا اور بے تحاشہ مجھ سے معافی مانگنے لگا۔میں نے اُس سے کہا کہ معافی مانگنی ہے تو خدا سے مانگ۔
ایک بار مَیں نے والد صاحب سے کہا کہ شادی بیاہ پر یہ تھیلا نہ لایا کریں اور وہاں کچھ نہ بانٹا کریں تو آپ کہنے لگے کہ سمجھ لو تمہارا باپ پاگل ہے، اُسے تبلیغ کا جنون ہے۔ اُس کے لئے موقعہ محل کچھ نہیں ہے۔ اُسے تو یہ فکر ہے کہ کسی طرح اسلام اور احمدیت کا پیغام ساری دنیا تک پہنچ جائے۔ اُن کی یہ بات سن کر میں بہت شرمندہ ہوا۔
جب آپ کینیڈا آئے تو چند دن بعد مجھے کہنے لگے کہ پاکستان میں تم نماز اور قرآن روزانہ پڑھنے کی پابندی کرتے تھے لیکن اب دین کا خانہ بالکل خالی ہے۔ اس سے تو بہتر تھا کہ تم پاکستان میں رہتے لیکن دین تمہارے پاس رہتا۔ مَیں نے اُن سے معافی مانگی اور کہا کہ آئندہ کبھی اُنہیں شکایت کا موقع نہیں دوں گا۔ چنانچہ ستائیس سال پہلے کی گئی اِس نصیحت کے بعد نہ صرف مَیں نے نماز اور قرآن کی تلاوت میں باقاعدگی اختیار کی بلکہ روزانہ نصف گھنٹہ کے لئے حضرت مسیح موعودؑ کی کتب بھی آپ کو سنایا کرتا۔ اور اس طرح کم از کم تین بار ساری کتب بھی پڑھ ڈالیں۔ دیگر رسائل و جرائد بھی سنایا کرتا۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو لمبی اور صحت والی عمر عطا فرمائی۔ 99سال کی عمر میں بھی اپنے کام خود کرتے تھے۔ آخری دن تک تہجد اور فجر کی نماز کے لئے اُٹھے۔ وضو کیا اور کھڑے ہوکر نمازیں ادا کیں۔ کینیڈا میں دو بار آنکھوں کا آپریشن ہوا جس کی وجہ سے صحیح طور پر تلاوت قرآن یا حضرت مسیح موعودؑ کی کتب نہ پڑھ سکتے اور اس کا آپ کو بہت صدمہ تھا۔
1986ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کینیڈا تشریف لائے تو آپ نے حضورؒ سے عرض کیا کہ میری خواہش ہے کہ میری وفات کے بعد آپؒ میرا جنازہ پڑھائیں۔ حضورؒ نے مسکراکر فرمایا کہ دہلوی صاحب ایسی بھی کیا جلدی ہے۔ آپ ابھی بہت جئیں گے۔
میرے والدین دونوں موصی تھے اور تحریک جدید کے اوّلین پانچ ہزاری مجاہدین میں شامل تھے۔
آپ کی قبولیت دعا کے بے شمار واقعات میں سے صرف دو واقعات آپ کی زبانی پیش ہیں:
٭ رنگون سے میرا تبادلہ برما کمانڈ کے ہیڈکوارٹر میں ہوگیا۔ رنگون کا سٹاف پکی عمارتوں میں رہتا تھا اور برما کمانڈکا سٹاف خیموں میں۔ چونکہ برما میں بارشیں کافی ہوتی ہیں اس وجہ سے میں برما کمانڈ جانا نہیں چاہتا تھا۔ میرے ساتھیوں میں سے کوئی بھی وہاں جانے پر رضامند نہیں تھا۔ ہمیں مع ہمارے سامان کے ٹرک پر بٹھا دیا گیا اور ٹرک ہمیں لے کر روانہ ہوگیا۔ اُس وقت تیز بارش بھی شروع ہوگئی۔ میں نے دعا کرنی شروع کردی کہ کسی طرح ہماری یہ تبدیلی رُک جائے۔ اس بارش کے دوران ہم برما کمانڈ کے ہیڈ کوارٹر پہنچے۔ ہمارے انٹرویو کے لئے تین میجروں کا ایک بورڈ مقرر تھا۔ ہم باری باری بورڈ کے سامنے انٹرویو کے لئے جاتے رہے۔ جب میں اپنی باری ختم کرکے واپس آیاتو موسلادھار بارش جاری تھی۔ میں نے دعا شروع کردی کہ الٰہی اس تبدیلی کے آرڈر کو منسوخ کردے۔ قربان جائیے خداوند تعالیٰ کی قدرت کے کہ جن الفاظ میں مَیں نے دعا کی تھی انہی الفاظ میں اُس نے منظور فرمالی اور انٹرویو کرنے والے افسر نے ہمارا تبادلہ منسوخ کردیا۔
٭ برما میں Meiktila میں میرے ساتھ ہسپتال میں ایک مولوی عمر خطاب صاحب مولوی فاضل ہوتے تھے۔ ایک دن میں نے اُن سے کہا کہ چلو Mamyo میں احباب جماعت سے ملاقات کر آئیں۔ وہاں ہمارا ریکارڈ آفس تھا اور کئی ہندوستانی احمدی بھی وہاں تھے۔ آفیسر کمانڈنگ Major M.A. Mohar نے ازراہِ نوازش اپنی ذاتی جیپ ہمیں استعمال کے لئے دیدی اور ایک ہندو ڈرائیور بھی دیدیا۔ شام کو اُس ڈرائیور سے میں نے کہا کہ جیپ کو اچھی طرح دیکھ بھال کر پٹرول وغیرہ بھرلے۔ دوسرے دن علی الصبح ہم روانہ ہوئے تو ڈرائیور نے میرے پوچھنے پر بتایا کہ اُس نے رات کو پٹرول بھر لیا تھا۔ قریباً ساٹھ میل کا سفر طے کیا ہوگا کہ جیپ کھڑی ہونے لگی۔ میں نے ڈرائیور سے پوچھا کہ کیا معاملہ ہے؟ مگر وہ خاموش رہا۔ باربار دریافت کرنے پر پتہ چلا کہ پٹرول ختم ہوگیا ہے۔ وہ کہنے لگا کہ رات کو بارہ بجے تک ہم جیپ میں گھومتے رہے اور معلوم ہوتا ہے کہ رات کو سارا پٹرول خرچ ہوگیا۔ ہم کافی دیر تک سڑک پر کھڑے انتظار کرتے رہے کہ کسی فوجی گاڑی سے تھوڑا سا پٹرول مل جائے مگر کوئی پٹرول دینے کے لئے تیار نہ ہوا۔ وہ بڑے خطرناک دن تھے۔ برمی ہندوستانیوں کے سخت خلاف تھے اور جہاں اِکّا دُکّا ہندوستانی کو اکیلے پاتے تو قتل کردیتے تھے۔ ہم اُس وقت بالکل جنگل میں تھے، کوئی ہتھیار پاس نہ تھا اور قرب وجوار میں کوئی بڑی بستی بھی نہ تھی۔ میں جیپ میں پچھلی سیٹ پر بیٹھ گیا اور ڈرائیور سے کہا کہ گاڑی چلائو۔ میں نے دعا شروع کردی اور عرض کیا کہ بارِ الٰہی پٹرول میں یہ خاصیت کہ وہ موٹر کو چلاتی ہے کس نے پیدا کی؟ آپ نے ہی تو پیدا کی ہے۔ آج آپ ہوامیں وہ خاصیت پیدا کردیجئے اور ہوا کو حکم دیجئے کہ وہ گاڑی کو چلائے۔ ڈرائیور نے گاڑی چلانا شروع کی۔ لیکن ڈرائیور جب کبھی سامنے سے کوئی سول یا ملٹر ی گاڑی آتے دیکھتا تو اس گاڑی کے ڈرائیور سے درخواست کرتا کہ ایک دو گیلن پٹرول دیدو مگر کوئی دینے کے لئے رضامند نہ ہوتا۔ یہاں تک کہ ہم مانڈلے کے قریب پہنچ گئے۔ مانڈلے سے چند میل کے فاصلے پر ایک سول گاڑی خراب ہوئی کھڑی تھی۔ باوجودیکہ میں نے ڈرائیور سے کئی مرتبہ کہا کہ گاڑی کھڑی کرکے پٹرول نہ مانگو اور چلتے چلو۔ مگر اُس نے اس جگہ پھر گاڑی روک لی اور اس گاڑی کے ڈرائیور سے بھی وہی پٹرول کا مطالبہ دہرادیا۔ چنانچہ یہ ڈرائیور اس شرط پر ایک گیلن پیٹرول دینے پر راضی ہوا کہ مانڈلے پہنچ کر وہ دو گیلن پٹرول وصول کرے گا۔ چنانچہ ایک گیلن پٹرول گاڑی میں ڈال کر ڈرائیور نے مجھے بتایا کہ آج تک اُس نے ایسا کبھی نہیں دیکھا کہ گاڑی بغیر پٹرول کے چالیس میل چلی ہو۔ میں نے اسے جواب دیا کہ آج اگر تم یہ گاڑی اسی صورت میں بغیر پٹرول ڈالے میمیو تک بھی لے جاتے تو گاڑی راستے میں پٹرول نہ ہونے کی وجہ سے کبھی نہ رکتی۔