محترم مرزا محمد صادق صاحب
محترم مرزا محمد صادق صاحب 1937ء میں ملٹری ٹرانسپورٹ سیکشن کوئٹہ میں ملازم تھے۔ ایک روز آپکی داہنی آنکھ میں تکلیف محسوس ہوئی۔ ملٹری ہسپتال میں ڈاکٹروں نے معائنہ کرکے بتایا کہ آنکھ میں ٹیومر ہے اور یہ آنکھ فوری طور پر نکالنی پڑے گی۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ مجھے آنکھ نکلوانے میں تردد تھا چنانچہ مشن ہسپتال کوئٹہ چلا گیا لیکن وہاں کے ماہر امراض چشم کا بھی یہی جواب تھا۔ انہی دنوں شملہ سے ایک بریگیڈیئر ڈاکٹر وہاں آئے اور انہوں بھی ڈاکٹروں کی پہلی رائے سے اتفاق کیا اور یہاں تک کہا کہ اگر آنکھ نہ نکلوائی گئی تو چھ ماہ میں مر جاؤگے۔ مجھے کچھ ایسا یقین تھا کہ میں نے جواباً کہا کہ میں اپنی آنکھ کی وجہ سے نہیں مرتا، چھ ماہ چھوڑیں انشاء اللہ چھ سال بلکہ بفضل خدا “سولہ سال” کے بعد بھی آپ کو سلام کروں گا۔… یہ بات کہہ تو دی مگر بے حد پریشان تھا، دعائیں کرتا رہا اور ڈسچارج ہوکر قادیان آکر حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ کو دکھایا۔ آپؓ نے بڑی شفقت سے معائنہ کیا اور فرمایا ’’آپ کو کوئی تکلیف تو نہیں، اسی طرح رہنے دیں، ڈاکٹروں کی ایسی ہی باتیں ہوتی ہیں خدا کی اَور بات ہوتی ہے‘‘۔
اس کے لمبے عرصہ کے بعد کوئٹہ سٹیشن پر اچانک انہی ڈاکٹر صاحب سے میری ملاقات ہوگئی جنہوں نے چھ ماہ میں میری موت کی پیشگوئی کی تھی۔ میں نے اپنا تعارف کروایا تو بہت حیران ہوکر کہنے لگے خدا تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔
محترم مرزا محمد صادق صاحب کی اہلیہ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 18؍اگست 1997ء میں مذکورہ بالا واقعہ بیان کرتی ہیں اور مزید لکھتی ہیں کہ محترم مرزا صاحب کو 1947ء میں 6 ماہ تک قادیان میں درویشی کی زندگی گزارنے کی بھی توفیق ملی۔ اگست 1981ء میں آپ کی وفات ہوئی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئے۔ آپ بہت سے اوصاف کے مالک تھے مجھے اپنی زندگی میں یاد نہیں کہ کبھی آپ نے جمعہ چھوڑا ہو۔