محترم ملک حسن خان ریحان صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 21؍جون 2002ء میں مکرم ملک حسن خان ریحان صاحب کا ذکر خیر کرتے ہوئے آپ کے پوتے مکرم بشیر احمد ریحان صاحب ایڈووکیٹ رقمطراز ہیں کہ ہمارے خاندان میں سب سے پہلے آپ نے قبول احمدیت کی سعادت پائی۔
آپ پرائمری پاس تھے اور پولیس میں بطور سپاہی بھرتی ہوئے۔ جب ایک سینئر کے بارہ میں آپ کو علم ہوا کہ وہ احمدی ہیں تو آپ اُن سے درشت کلامی سے پیش آتے لیکن وہ جواباً ہمیشہ حسن سلوک کیا کرتے۔ یہی ادا آخر آپ کو بھی احمدیت میں کھینچ لائی۔ پہلے حضرت مسیح موعودؑ کی چند کتب کا مطالعہ کیا، پھر بیعت کا خط لکھ دیا اور جلسہ سالانہ پر حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کے دست مبارک پر بھی بیعت کی سعادت حاصل کی۔ اگرچہ برادری نے آخر تک بہت دباؤ ڈالا اور کئی بار نقصان پہنچانے کی کوشش کی لیکن آپ ہمیشہ ثابت قدم رہے۔
قبول احمدیت کے بعد آپ دنیا طلبی سے بالکل کنارہ کش ہوگئے اور ہر بُری عادت حتی کہ حقہ وغیرہ بھی پینا چھوڑ دیا۔ یہ افسوس ہمیشہ رہا کہ حضرت مسیح موعودؑ کا زمانہ دیکھنے کے باوجود کیوں حضورؑ کی دستی بیعت سے محروم رہا۔ پنشن پانے کے بعد اپنے آبائی مسکن چھنی تاجہ ریحان (تحصیل بھلوال) آگئے اور جب آپ کے بیٹے مکرم ملک ولایت خان ریحان صاحب نے تحریک جدید میں ملازمت کی تو آپ بھی ربوہ منتقل ہوگئے۔
جب آپ گاؤں میں تھے تو روزانہ الفضل اخبار لے کر گھوڑے پر سوار ہوکر نکل جاتے اور جگہ جگہ لوگوں کو اخبار سناتے۔ آپ کی کوششوں سے قریبی علاقوں میں دو جماعتیں بھی قائم ہوئیں۔