محترم مولانا دوست محمد شاہد صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 17 اکتوبر 2009ء میں محترم مولانا دوست محمد شاہد صاحب کے بارہ میں مکرم ریاض محمود باجوہ صاحب کے قلم سے ایک مضمون شامل اشاعت ہے جنہیں محترم مولانا صاحب کے ساتھ بیس سال سے زیادہ عرصہ کام کرنے کا موقع ملا۔
محترم مولانا دوست محمد شاہد صاحب فرمایا کرتے کہ میں نے جو کچھ بھی حاصل کیا وہ خلافت کی اطاعت سے حاصل کیا۔ امام وقت کے ذکر سے آپ کا دل گداز ہوجاتا تھا۔ لندن سے حضور انور کی طرف سے بذریعہ فیکس کوئی حوالہ طلب کیا جاتا تو اپنے ساتھیوں کو بلاکر اجتماعی دعا کے ساتھ فوراً کام شروع کردیتے۔ نہایت سبک رفتاری سے کام کرتے تھے۔ آپ کی خواہش ہوتی تھی کہ ارشاد کی جلد سے جلد تعمیل ہو۔ کام زیادہ ہوتا تو اپنی طرف سے چائے وغیرہ منگواتے۔ کبھی پھل منگا لیا جاتا اور کھانا دارالضیافت سے منگوایا جاتا تھا۔ آپ کا کام کرنے اور کرانے کا انداز ایسا تھا کہ رونق لگائے رکھتے تھے۔ کبھی کوئی لطیفہ سنا دیا، کبھی تاریخی واقعہ اور ساتھ ساتھ وعظ و نصیحت بھی جاری رہتی۔
خلفاء احمدیت سے عقیدت و محبت کا اظہار آپ کے خطوط سے بخوبی معلوم ہوسکتا ہے۔ نہایت انکساری اور عاجزی کا انداز اختیار کرتے۔ ایم ٹی اے پر خلفاء کے تمام پروگرام دیکھتے اور اہم باتوں کو نوٹ کرتے رہتے پھر دفتر میں دوسروں کو بھی آگاہ فرماتے۔
٭ آپ کی زندگی کا ایک اہم پہلو وقت کی بہت پابندی کرنا تھا۔ صبح وقت سے پہلے دفتر پہنچتے۔ جب تک صحت ٹھیک رہی دوپہر کے بعد دوبارہ آجاتے اور پھر رات گئے تک کام کرتے رہتے۔ جنوری 2000ء میں سائیکل سے گرنے کے بعد پھر دوپہر کے بعد گھر میں ہی کام کرتے تھے لیکن حتی المقدور صبح کے وقت دفتر میں وقت پر آتے رہے۔ وقت کے ضیاع کا شدّت سے آپ کو احساس ہوتا تھا۔ فرمایا کرتے کہ جو لمحہ گزر گیا وہ لاکھوں پاؤنڈ خرچ کرکے بھی واپس نہیں لایا جاسکتا اس لئے اس کی قدر کرنی چاہئے۔ دفتر میں آپ نے جو ارشادات فریم کرکے رکھوائے اُن میں یہ بھی تھے:
’’تو وہ بزرگ مسیح ہے جس کا وقت ضائع نہیں کیا جائے گا‘‘۔ (ترجمہ الہام حضرت مسیح موعودؑ)
’’وقت نہایت قیمتی چیز ہے جو وقت کو استعمال کرے گا وہی جیتے گا اور جو ضائع کرے گا وہ ہار جائے گا‘‘۔
(فرمان مصلح موعود الفضل 23 فروری 1952ء)
کام مشکل ہے بہت منزل مقصود ہے دُور
اے مرے اہل وفا سست کبھی گام نہ ہو
وقت کم ہے بہت ہیں کام چلو
ملگجی ہو رہی ہے شام چلو
٭ کسی پروگرام میں آپ کو بلایا جاتا یا کسی میٹنگ میں آپ نے جانا ہوتا تھا تو ہمیشہ وقت کی پابندی کرتے۔ مجھے یاد نہیں کہ ساڑھے بیس سال کی رفاقت میں ایک دفعہ بھی آپ کہیں بروقت نہ پہنچے ہوں۔
٭ ذمہ داری چھوٹی ہو یا بڑی آپ اس کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتے۔ لیکن مفوضہ فرائض ہمیشہ پیش نظر رکھتے تھے۔ ہمیشہ تاریخ مرتب کرنے کا کام پیش نظر رکھتے۔ اپریل 1990ء میں آپ گوجرانوالہ کی سنٹرل جیل میں تھے۔ آپ نے 13؍اپریل 1990ء کے مکتوب بنام خاکسار میں لکھا ’’یہاں میں اخبارات پڑھ کر ضروری خبروں والے صفحات جمع کررہا ہوں امید ہے کہ اگر کوئی معتبر ذریعہ مل گیا تو میں ریکارڈ میں محفوظ رہنے کے لئے بھجوا سکوں گا۔ یہ تراشے مساوات، مشرق، جنگ اور نوائے وقت کے ہیں۔ یقین ہے کہ آپ خبروں کا ضروری خلاصہ خاص اہتمام سے محفوظ کررہے ہوں گے‘‘۔
٭ روزانہ کی بنیاد پر کام کرتے تھے۔ یعنی آج کا کام کل پر ڈالنا ان کو گوارا نہ تھا۔ کسی امر کی تحقیق میں کوئی پہلو تشنہ نہیں رہنے دیتے تھے۔ جتنے ماخذ میسر آتے ان کو بغور ملاحظہ کرنے کے بعد آپ کی تسلی ہوتی تھی۔ بعض اوقات ایک حوالہ کے لئے آپ کو کئی کتب کا مطالعہ کرنا پڑتا۔ آپ بتایا کرتے تھے کہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے فرمایا کرتے تھے کہ کوئی بات رہ جائے تو دوبارہ چھپ جائے گی لیکن اگر کوئی غلط بات چھپ جائے تو اس کی تلافی آسان نہیں کیونکہ تصحیح کو تو بہت کم لوگ ہی پڑھیں گے۔
علمی یا قلمی کام کرتے ہوئے محویت کا عجیب عالم ہوتا تھا۔ کہتے تھے کہ جب میں کچھ لکھ رہا ہوتا ہوں تو ایک رَو دماغ میں چل رہی ہوتی ہے۔ دائیں بائیں کا خیال نہیں آتا کہ کیا ہورہا ہے۔ مسائل اور مشکلات کو فرائض کی ادائیگی میں آپ نے رکاوٹ نہیں بننے دیا۔ لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے بھی دقت درپیش ہوتی تھی۔ معمولی سی لائٹ سے ہی کام جاری رکھتے تھے۔
کئی دفعہ ہم نے دیکھا کہ کتب کا ڈھیر پڑا ہے اور آپ نے ان کا مطالعہ شروع کردیا۔ جب تک وہ ختم نہ ہو جاتیں آپ چین سے نہ بیٹھتے تھے۔
٭ دفتری مصروفیت اور اہم ذمہ داریوں کے باوجود دعوت الی اللہ کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہ دیتے۔ کئی دفعہ پورا دفتری ٹائم اس کام پر صرف ہو جاتا تھا۔ دوران سفر بھی کسی نہ کسی رنگ میں دعوت الی اللہ جاری رہتی۔ مخاطب اپنا ساتھی ہوتا، لیکن دوسروں کو بھی آواز بلند رکھ کر سنا دیتے۔ اپنی بات کرنے کا فن اور ڈھنگ بھی آپ کو خوب آتا تھا۔ پھر موقعہ اور محل کے مطابق بات کرنے کا بھی آپ کو کمال حاصل تھا۔
خداتعالیٰ کی تائید و نصرت ہر آن آپ کے شامل حال دیکھی۔ کسی شخص کی حیثیت یا علمیت سے آپ مرعوب نہیں ہوتے تھے۔ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے ہر مسلک کا گہری نظر سے مطالعہ کیا ہے۔ اسی طرح دعوت الی اللہ کے سلسلہ میں یا کوئی اور اہم علمی نقطہ آپ کے ذہن میں آتا تو فوراً اپنے ساتھیوں کو بتاتے تھے۔ فرماتے تھے یہ طریق ہمارے بزرگوں کا بھی تھا۔ ایک دن آپ نے بتایا کہ رات کا وقت تھا۔ حضرت قاضی محمد نذیر صاحب لائل پوری نے مجھے بلایا۔ جب میں حاضر ہوا تو فرمانے لگے ایک علمی نقطہ میرے ذہن میں آیا تھا۔ سوچا آپ کو بتا دوں ایسا نہ ہو کہ صبح تک میں زندہ نہ رہوں اور یہ امانت آگے منتقل ہونے سے رہ جائے۔
سنٹرل جیل گوجرانوالہ میں دورانِ اسیری بھی تبلیغ جاری رکھی۔ چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی خدمت میں آپ نے جو رپورٹ بھجوائی اس کے جواب میں حضورؒ نے اپنے ایک خط میں فرمایا ’’آپ کا خط ملا جیل میں ماشاء اللہ آپ نے تو خوب تبلیغ کی اور زبردست جماعت قائم کی ہے۔ … ‘‘۔
٭ جس دن کسی کا خط موصول ہوتا اسی دن اس کا جواب لکھ کر حوالہ ڈاک کر دیتے تھے۔ فرمایا کرتے تھے کہ حضرت مولانا مختار احمد صاحب شاہجہانپوریؓ کا بھی یہی طریق تھا اور وہ کہا کرتے تھے کہ خط کا جواب میں اپنے اوپر قرض سمجھتا ہوں اگر قاف کا ایک نقطہ حذف ہو تو یہ فرض بن جاتا ہے اگر دوسرا بھی حذف ہو جائے تو مرض بن جاتا ہے اور میں کسی مرض کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
٭ دفتر میں مصروفیت کے باوجود اگر کوئی بچہ ملنے آتا تو ضرور وقت دیتے تھے۔ کسی نوجوان یا بڑے سے معذرت کرلیتے لیکن احمدی بچوں کی دلجوئی کرتے۔
ممبران شعبہ تاریخ احمدیت میں سے کسی کا کوئی بچہ دفتر آتا تو اسے بڑی محبت سے ملتے اور اگر کوئی چیز پاس ہوتی تو اسے دیدیتے۔ کئی دفعہ چیز نہیں ہوتی تھی تو جیب سے کچھ پیسے نکال کر دیتے۔ فرماتے یہ بچے ہمارا مستقبل ہیں اور یہ خوش قسمت ہے کہ ان کی زندگی میں احمدیت کو بڑا عروج حاصل ہوچکا ہوگا اور آج کے یہ بچے کل کو بڑی بڑی ذمہ داریاں سنبھالنے والے ہیں۔
لوگوں کے احسانات کو یاد رکھتے تھے اور ان کا اکثر ہمارے سامنے ذکر بھی کرتے رہتے تھے۔جب کبھی کوئی مہمان آتا تو مشروب پیش کرتے وقت اکثر یہ فقرہ بطور مزاح کہا کرتے تھے: ’’معذرت خواہ ہوں کہ آپ کو خالص پانی پیش نہیں کرسکا‘‘۔
یہ بات بھی آپ کے ذہن میں مستحضر رہتی کہ کسی دوست کو کہاں اور کب ملا تھا اور اس کاتعارف کیا ہے۔ کسی مہمان کو جب آپ خود بتاتے تو وہ حیران رہ جاتا۔
٭ صبح دفتر آکر اجتماعی دعا سے کام کا آغاز کرتے تھے۔ صفائی اور سلیقہ آپ کی طبیعت کا خاصہ تھا۔
دفتر میں اگر کبھی چائے وغیرہ کا پروگرام ہوتا تو آپ خصوصاً پکوڑے منگواتے اور کہتے کہ بیسن گلے کے لئے مفید ہوتا ہے۔ ہر سال اپنی طرف سے ان سب مربیان کی دعوت دفتر میں کرتے تھے جنہوں نے کسی وقت آپ کے ساتھ کام کیا تھا اور اب وہ دیگر دفاتر میں کام کررہے ہیں۔ آپ ان سے فرماتے کہ میں آپ کو شعبہ تاریخ احمدیت کا سفیر ہی سمجھتا ہوں۔
امام وقت کی خدمت میں جب بھی آپ کوئی رپورٹ بھجواتے تو آخر میں اپنے رفقاء کار کے لئے دعا کی درخواست ضرور کرتے تھے۔ حضور انورکی طرف سے جواب آتا تو وہ جواب سب ممبران کو پڑھاتے۔
کام کرنے کی رفتار حیرت انگیز تھی۔ قلم مشین کی طرح چل رہا ہوتا تھا۔ جس کا اندازہ آپ کے کثیر تعداد میں شائع ہونے والے مضامین سے لگایا جاسکتا ہے۔
جماعتی اشیاء کا بہت خیال رکھتے تھے۔ کوئی پیپر پن یا کلپ نیچے گرا ہوتا تو اسے بھی اٹھا کر رکھ لیتے تھے۔ بتایا کرتے تھے کہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اسی طرح ایک پیپر پِن اٹھائی اور فرمایا یہ سلسلہ کی امانت ہے اس کی بھی حفاظت ضروری ہے۔
حافظہ اور یادداشت آخری عمر میں بھی ٹھیک تھی۔ جب بھی کسی امر سے متعلق معلوم کیا تو بڑی تفصیل سے پہلے کی طرح وضاحت مل جاتی تھی۔ 19جولائی 2009ء کا دن دفتر میں آپ کا آخری دن تھا۔ کمزوری تھی جسے ہم محسوس تو کرتے تھے لیکن یہ وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ آپ کا دفتر میں آخری دن ہے۔
سلسلہ کی آپ کو بڑی غیرت تھی اور بڑے جوش کے ساتھ اظہار نظر آتا۔ ایک اہم خوبی یہ بھی تھی کہ دوسروں سے مخاطب ہوتے تو مؤدبانہ الفاظ استعمال کرتے اور یہ چیز آپ کی تحریرات اور خطوط میں بھی نمایاں نظر آتی تھی۔ بلکہ ہمیں بتایا کرتے تھے کہ مجھے حضرت حافظ مختار احمد شاہجہانپوریؓ نے تاکید کی تھی کہ غیروں کا اگر کوئی حوالہ دوں تو ان کے پورے القابات تحریر کروں۔ اس سے ایک تو اس حوالے کی اہمیت واضح ہوگی دوسرا جب کبھی ان کی نسلیں ان چیزوں کو پڑھیں گی تو اچھا اثر لیں گی۔
آپ کی زندہ دلی، جذبہ خیرسگالی، ہمدردی اور دل کی دردمندی نمایاں اوصاف تھے۔ کہا کرتے تھے کہ بچے جب بیمار ہوتے ہیں تو مجھے ان کی تکلیف بہت محسوس ہوتی ہے۔ صدقہ کی آپ بہت تاکید کیا کرتے تھے۔ اگر کوئی خط آتا اور کسی نے اپنی پریشانی کا اظہار کیا ہوتا تو آپ جواب میں دیگر نصائح اور ہدایات کے علاوہ صدقہ دینے کی تاکید بھی کرتے تھے۔