محترم مولانا دوست محمد شاہد صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 19دسمبر 2009ء میں مکرم رانا سلطان احمد خان صاحب محترم مولانا دوست محمد شاہد صاحب کا ذکرخیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آپ سے میرا ذاتی تعلق 1975ء کے جلسہ سالانہ کے ایام میں ہوا جب خاکسار جلسہ سالانہ میں شرکت کے لئے لاہور سے ربوہ آیا ہوا تھا۔ آپ کا حافظہ بلا کا تھا۔ اپنے ملنے والوں کو پہلی ہی نظر میں پہچان لیتے۔
خاکسار نے دو مرتبہ آپ کے زیرسایہ وقف عارضی کی توفیق بھی پائی۔ اس دوران آپ وقت کی پابندی اور خلافت سے ذاتی تعلق بڑھانے پر بہت زور دیا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ جو لمحہ گزر گیا وہ کسی قیمت پر واپس نہیں آ سکتا۔
آپ کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ آپ اپنی ذاتی ڈاک کا جواب فوری ارسال کرتے تھے۔ آپ نے دفتر میں اپنی ذاتی ڈاک کے استعمال کے لئے لفافے اور کاغذ مع ضروری سٹیشنری علیحدہ رکھی ہوتی تھی۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے بارہ میں سنا تھا کہ حضرت مسیح موعودؑ کا بلاوا آتا تو آپ جوتی گھسیٹتے ہوئے اور پگڑی چلتے چلتے باندھتے۔ یہی نظارہ خاکسار نے حضرت مولوی دوست محمد شاہدصاحب میں بھی دیکھا۔
پھر ایک نظارہ خاکسار نے 1982ء میں دیکھا جب مسجد مبارک میں خلافت رابعہ کا انتخاب ہورہا تھا۔ آپ باہر پلاٹ میں سرجھکائے دعا میں مصروف تھے۔ جب لاؤڈسپیکر پر انتخاب کا اعلان ہوا تو آپ سنتے ہی سجدہ ریز ہو گئے اور کافی دیر سجدہ میں پڑے رہے۔
دارالذکر لاہور میں ایک لکڑی کا بکس تھا۔ احباب گھروں میں موجود زائد کتب رسالہ جات وغیرہ تلف کرنے کی غرض سے اس میں چھوڑ جاتے۔ خاکسار اس میں سے ضرورت کے مطابق کوئی رسالہ یا کتاب لے آتا۔ ایک دفعہ اس میں سے برمنگھم کے ایک قانون دان کا سپریم کورٹ کے فیصلہ پر تبصرہ خاکسار کو ملا جو میں نے حضرت مولانا کی خدمت میں ارسال کر دیا۔ آپ نے شکریہ کا خط ارسال کرتے ہوئے یہ بھی لکھا کہ حیرت انگیزبات ہے کہ ان دنوں شعبہ تاریخ 1993ء کے حالات سلسلہ ترتیب دے رہا ہے۔ اس ضمن میں یہ کتابچہ معجزانہ طور پر تصرف الٰہی سے آپ نے بھجوا دیا جو شامل مسودہ ہو گا۔
خاکسار کو تین چار بار آپ کے ہمراہ لاہور جانے کا موقعہ ملا۔ خاکسار کو آپ کی بیٹی کے گھر کا علم تھا جس کے قریب سے ہم گزر رہے تھے۔ میں نے پوچھا کہ فلاں کے گھر تو نہیں جانا۔ آپ نے نہایت جوشیلی آواز میں فرمایا کہ مَیں جماعتی دورہ پر ہوں اس لئے کسی رشتہ دار کے گھر نہیں جانا۔
دورانِ سفر آپ مختلف قسم کے واقعات سنا کر سفر کی تکلیف دُور کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ ایک بار آپ منصورہ میں جماعت اسلامی کے مرکز میں موجود کتب خانہ میں تشریف لے گئے۔ آپ بے دھڑک اندر چلے گئے اور اندر داخل ہوتے ہی جلالی آواز سے السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہا۔ پھر کاؤنٹر پر موجود تمام افراد سے فرداً فرداً ہاتھ ملایا اور بعض کتب کے بارہ میں دریافت فرمایا۔ پھر کتب خانہ دیکھنے لگے اور ایک گھنٹہ سے زائد وقت کتابوں کی ورق گردانی کرنے کے بعد آپ نے چند کتب خریدیں اور بل ادا کرنے کے بعد وہاں کے انچارج کو اپنا بھرپور تعارف کرایا اور مولانا مودودی سے اپنی ملاقات کا ذکر کیا اور ربوہ سے آنے کا بتایا اور دوبارہ اُن سے مصافحہ کرکے روانہ ہوئے۔ فرمانے لگے کہ ہم نے تو ہر حال میں تبلیغ کرنی ہے۔
ایک بار جب ہم مرسڈیز ویگن میں لاہور سے ربوہ آرہے تھے۔ دو عدد بڑے بیگز بھی آپ نے رکھے ہوئے تھے۔ فرمانے لگے اللہ تعالیٰ کی ہماری جماعت پر اب کتنی بڑی عنایات ہیں۔ اس عاجز خادم کو لاہور لے جانے اور لانے کے لئے ایئرکنڈیشنڈ مرسیڈیز گاڑی اللہ تعالیٰ کے انعاموں میں سے ایک انعام ہے اور ایک وہ وقت تھا دو بزرگوں کا نام لیا (جن میں سے ایک گیانی واحد حسین صاحب مرحوم تھے) جن کے ہمراہ ڈی جی خان جانا تھا اور تین بڑے بکس کتابوں کے ہمارے پاس تھے جو ہم نے اٹھا رکھے تھے اور آج یہ حالت ہے کہ ان دو بیگز میں تقریباً ایک ہزار سے زائد حوالے مَیں لے کر جا رہا ہوں۔
ایک موٹر سائیکل سوار ہماری گاڑی سے آگے آگے جا رہا تھا جب وہ اچانک گرگیا تو مولانا نے بڑے زور سے کہا اللہ فضل کرے۔ پھر گاڑی رکوائی اور اتر کر اُس کے پاس جاکر حال وغیرہ دریافت کیا۔ گاڑی میں موجود ہومیوپیتھی دوائی نکال کر اُسے دی۔ اور جب تک وہ وہاں سے چلا نہیں گیا آپ بھی موجود رہے۔
آپ کو مطالعہ کا بہت شوق تھا۔ بہت جلد مطالعہ کرلیتے اور مطلب کی بات نکال لیتے تھے۔