محترم مولانا عبدالرحیم صاحب شہید

محترم مولانا عبدالرحیم صاحب نواحمدی (فاضل دیوبند) کو 15؍اپریل 2000ء کو لدھیانہ میں واقع جامع مسجد فیلڈ گنج میں مخالفین نے نہایت سفاکی سے مار مار کر شہید کردیا۔ آپ چھوٹا کدمہ ضلع گنج بہار کے رہنے والے تھے اورعبدالبصیر صاحب کے بیٹے تھے۔ آپ نے 1980ء میں الہ آباد بورڈ سے عربی ادب میں فضیلت کی سند حاصل کی، پھر دارالعلوم مئو سے دَور حدیث مکمل کیا اور دارالعلوم دیوبند سے سند فضیلت حاصل کی۔ اس کے بعد بنگال کے مختلف مدارس میں بطور مدرس کام کرتے رہے۔ 1990ء سے 1995ء تک ہیڈماسٹر اور شیخ الحدیث کے عہدہ پر فائز رہے۔ پھر جماعت اسلامی کے ادارہ اشاعت اسلام مالیرکوٹلہ پنجاب کی طرف سے صوبہ پنجاب، ہماچل اور ہریانہ کے انچارج منتخب ہوئے اور اس عہدہ پر تقریباً دو سال کام کیا۔ اس دوران احمدیت کی شدید مخالفت کی اور احمدی مربیان سے مباحثے بھی کئے۔ جون 1998ء میں پہلی بار تحقیق حق کے لئے قادیان تشریف لائے اور کچھ لٹریچر ہمراہ لے گئے۔ نومبر 1998ء میں دوبارہ آئے اور بیعت کی سعادت حاصل کرلی۔ اسی سال جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر حضور انور ایدہ اللہ نے اپنی تقریر میں آپ کا ذکر بھی فرمایا۔
بیعت کرنے کے بعد آپ نے اپنی زندگی خدمت اسلام کے لئے وقف کردی۔ آپ کو پنجاب و ہماچل کے نگران اور تربیتی امورکا کام سپرد کیا گیا۔ آپ کے ذریعہ ڈیڑھ سال کے مختصر عرصہ میں ہزاروں افراد کو قبول احمدیت کی توفیق ملی۔ آپ آخری دن تک دعوت الی اللہ میں مصروف رہے۔ آپ عارضی طور پر مدرسۃالمعلمین قادیان میں بطور معلم بھی خدمت بجالارہے تھے۔ آپ ادب عربی اور بالخصوص حدیث پر عبور رکھتے تھے اور پائے کے عالم تھے۔ نہایت منکسرالمزاج، کم گو، نرم طبیعت اور صابر وشاکر تھے۔ نماز، روزہ اور تہجد کے سختی سے پابند تھے۔ قبول احمدیت کے بعد آپ کے اہل و عیال نے آپ سے علیحدگی اختیار کرلی تھی۔
آپ کی شہادت کے المناک واقعہ کی تفصیل یوں ہے کہ لدھیانہ کے ایک معلم مکرم نصرالحق صاحب چند دنوں سے لاپتہ تھے۔ مکرم عبدالرحیم صاحب چند دیگر احمدیوں کے ساتھ اُنہیں ڈھونڈنے کے لئے روانہ ہوئے۔ دو احمدیوں کو احراریوں کی مسجد فیلڈگنج بھیجا گیا تاکہ نصرالحق صاحب کے کسی دوست سے اُن کے بارہ میں معلوم کیا جائے جو اُس مسجد میں رہتے تھے۔ لیکن مخالفین نے ان دونوں احمدیوں کو پکڑ کر ایک کمرہ میں بند کرکے رسیوں سے باندھ کر بے رحمی سے مارا۔ کافی دیر تک جب یہ احباب واپس نہ آئے تو دو دیگر احمدی اس مسجد میں گئے لیکن اُن کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا گیا۔ بلکہ اُن احمدیوں کے بتانے پر کہ ہمارے چار ساتھی باہر ہمارا انتظار کر رہے ہیں، مخالفین اسلحہ کی نوک پر باقی احمدیوں کو بھی مسجد میں لے آئے اور انہیں بھی پیٹنا شروع کیا۔ مکرم مولانا عبدالرحیم صاحب بھی انہی احمدیوں میں شامل تھے۔ آپ کے ماتھے پر ایک بدبخت نے زوردار ڈنڈا مارا جس سے آپ بیہوش ہوگئے۔ اسی اثناء میں ایک احمدی کسی طرح وہاں سے بھاگ جانے میں کامیاب ہوگئے۔ انہوں نے پولیس کو اطلاع کی تو پولیس نے موقع پر پہنچ کر مخالفین کے قبضہ سے احمدیوں کو نجات دلائی۔ عبدالرحیم صاحب کو ہسپتال میں داخل کرایا گیا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاکر 15؍اپریل 2000ء کو شہید ہوگئے۔ اگلے روز قادیان میں اُن کی نماز جنازہ ادا کی گئی اور تدفین عمل میں آئی۔
آپ کے حالات روزنامہ ’’الفضل‘‘ 8؍جولائی 2000ء میں شائع ہوئے ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں