محترم مولوی بشارت احمد بشیر صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 23؍مئی 2006ء میں مکرم عبدالوہاب بن آدم صاحب امیر غانا کے قلم سے محترم مولوی بشارت احمد بشیر صاحب کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔
مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ جب مَیں ٹی آئی احمدیہ سیکنڈری سکول کماسی کا طالبعلم تھا تو محترم بشارت احمد بشیر صاحب بھی کماسی میں مقیم تھے۔ ہوسٹل کی سہولت میسر نہ ہونے کی وجہ سے میرا قیام احمدیہ مرکز میں تھا۔ اُن دنوں جماعت کی مالی حالت کمزور تھی۔ مرکز میں کوئی کار یا فریج وغیرہ نہ تھی۔ مٹی کے تیل سے جلنے والا چولہا استعمال ہوتا تھا۔ ایک روز آپ اُس چولہے پر کھانا پکارہے تھے کہ چولہا پھٹ گیا اور آپ کا چہرہ، ہاتھ پاؤں اور بازو بُری طرح جھلس گئے۔ ایک ٹیکسی میں ڈال کر بڑی مشکل سے آپ کو ہسپتال پہنچایا۔ حالت بہت نازک تھی اور کوئی دم کے مہمان معلوم ہوتے تھے۔ مجھے اُن دنوں آپ کی خدمت کی توفیق ملی اور یہی امر اُن کی مجھ سے محبت کا باعث بنا۔
جب آپ کی پاکستان واپسی کا پروگرام بنا تو میرے ایک کزن بشیر بن صالح کا بھی آپ کے ساتھ جانے کا پروگرام بنا۔ اُس کی فیملی اُسے اپنے خرچ پر دینی تعلیم کے لئے ربوہ بھجوارہی تھی۔ آپ نے مجھے کہا کہ اگر میری فیملی بھی میرا خرچ برداشت کرلے تو مجھے بھی آپ اپنے ہمراہ پاکستان لے جائیں گے۔ میرے والد وفات پاچکے تھے۔ والدہ مجھے بتایا کرتی تھیں کہ اُن کی شدید خواہش تھی کہ مَیں بھی مبلغ بنوں۔ جب اُنہیں اس پیشکش کا پتہ چلا تو انہوں نے بے ساختہ کہا کہ ہم تمہارا سارا خرچ ادا کریں گے۔ میرے ایک ماموں ممبر آف پارلیمینٹ تھے، وہ مجھے دنیاوی تعلیم میں آگے لانا چاہتے تھے۔ اُنہیں جب میرے پروگرام کا علم ہوا تو بہت ناراض ہوئے۔
ہم غانا سے ایک تکلیف دہ سفر کے بعد دو ماہ میں پاکستان پہنچے۔ اس سفر پر میری والدہ کا تین سو پاؤنڈ کا خرچ اٹھا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے ایک بار مجلس انصاراللہ کی کسی میٹنگ میں میری والدہ کا ذکر یوں فرمایا کہ اس خاتون نے بڑے اخلاص سے اپنے خرچ پر اپنے بیٹے کو وقف کرکے یہاں مرکز بھجوایا ہے۔
میرے ربوہ میں قیام کے دوران محترم مولوی صاحب بھی ربوہ میں ہی مقیم تھے اور میری خاص حوصلہ افزائی کرتے تھے۔
جب آپ غانا میں امیر و مبلغ انچارج تھے تو ایک اخبار میں خبر شائع ہوئی کہ غانا کے شمالی علاقہ جات میں عیسائیوں کی اکثریت ہے کیونکہ وہاں مساجد کی بجائے گرجے زیادہ ہیں۔ آپ پر اس خبر کا اتنا اثر ہوا کہ آپ نے ملک بھر کے مرکزی اور سرکٹ مربیان کو اکٹھا کیا اور داعیان الی اللہ کو ساتھ ملاکر اُن کی ٹیمیں بناکر اُنہیں شمالی علاقے میں پھیلادیا۔ نتیجۃً جلد ہی عیسائیت کی تبلیغ رُک گئی اور سادہ عوام کو عیسائی بنانے کی اُن کی کئی چالیں بھی معلوم ہوئیں۔ کئی گرجے ایسی جگہ تعمیر کئے گئے تھے جہاں کوئی بھی عیسائی نہیں تھا۔ وہاں گرجے میں شراب بھی مفت دی جاتی اور شراب پی کر بدمست ہونے والے سادہ لوح دیہاتیوں کے گلے میں صلیبیں ڈال کر اُنہیں عیسائی بنالیا جاتا۔
آپ نے بھی شمالی علاقوں کا دورہ ایک پرانی جیپ میں کیا جس میں کچھ کچھ دیر بعد پانی ڈالنا پڑتا تھا۔ آپ کے ڈرائیور نے تنگ آکر ایک بار کہا کہ کب ہمیں بغیر رُکے چلنے والی گاڑی میسر آئے گی۔ آپ نے مسکراکر کہا کہ گاڑیاں تو جلد مل جائیں گی اور وقت آنے پر ہوائی جہاز بھی مل جائے گا۔
آپ کو پاکستان سے بہت محبت تھی۔ مسئلہ کشمیر کے دنوں میں آپ نے تین سو معززین کو مدعو کیا اور پاکستانی سفیر کو خطاب کی دعوت دی کہ اُن لوگوں کو کشمیر کے مسئلہ کی تفصیل بتائیں۔
آپ کی امارت کے دوران ہی نصرت جہاں سکیم کا آغاز ہوا۔ اگرچہ اُس زمانہ میں احمدی 200 سیڈیز کی رقم اس سکیم کے لئے پیش کیا کرتے تھے لیکن نتیجۃً جمع ہونے والی رقم پھر بھی بہت کم تھی۔ بے حد نامساعد حالات تھے۔ آغاز میں کوئی مکان کرایہ پر لے کر سکول یا ہسپتال کا آغاز کردیا جاتا۔ صحت اور تعلیم کی وزارتوں کی طرف سے سخت نکتہ چینی ہوتی لیکن آپ کوشش کرکے مذاکرات سے بالآخر منظوری حاصل کرلیتے۔ آپ کی کوششوں سے کوکوفو، آسوکورے اور سویڈرو کے ہسپتالوں کی منظوری ملی۔
ایک بار وزارت تعلیم کی طرف سے ملک بھر کے سکولوں کو اپنی تحویل میں لینے کا منصوبہ بنایا گیا اور مختلف تعلیمی یونٹس کے جنرل مینیجرز کو بلایا گیا۔ احمدیہ سکولوں کی نمائندگی میں آپ وہاں گئے۔ عیسائیوں نے چونکہ اپنے سکول مسلمانوں کو عیسائی بنانے کے لئے کھولے تھے جہاں مسلمانوں کا نام بھی زبردستی بدل کر عیسائیوں والا نام رکھ دیا جاتاتھا، اس لئے انہوں نے حکومت کے فیصلے پر سخت تنقید کی اور ان سکولوں پر اٹھنے والی لاگت کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ جب آپ سے رائے پوچھی گئی تو آپ نے جواب دیا کہ جماعت احمدیہ نے یہ سکول، اللہ تعالیٰ کی خاطر، ملک کی خدمت کے لئے کھولے ہیں۔ اگر حکومت سمجھتی ہے کہ ان سکولوں کو اپنی تحویل میں لینے سے عوام کو زیادہ فائدہ ہے تو حکومت بے شک یہ سکول واپس لے لے، ہمیں کوئی پیسہ واپس نہ دے، ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ اس خوبصورت جواب سے عیسائی شرمندہ ہوئے اور وزیر بے حد متأثر ہوا۔