محترم مولوی بشیر احمد صاحب کالا افغاناں – درویش قادیان

ہفت روزہ ’’بدر‘‘ قادیان (درویش نمبر 2011ء) میں محترم مولوی بشیر احمد صاحب آف کالاافغاناں کے خودنوشت حالات زندگی بھی شامل اشاعت ہیں ۔
محترم بشیر احمد صاحب ابن مکرم علم دین خان صاحب 1928ء میں کالاافغاناں گاؤں نزد قادیان میں پیدا ہوئے۔ آپ کُل چار بھائی اور ایک بہن تھے۔ آپ نے گاؤں کے اسکول میں مڈل تک تعلیم حاصل کی۔ اسی عمر سے ہی آپ نماز روزہ کے پابند ہوگئے۔ جب آپ نوکری کی تلاش میں تھے تو آپ کے گاؤں کے مکرم مولوی محمد احمد صاحب مرحوم قادیان کی چنگی میں محرر تھے۔ انہوں نے آپ کو پیغام بھجوایا کہ وہ چونگی کی نوکری چھوڑ کر دفتر الفضل میں کام کرنا چاہتے ہیں اس لئے آپ اُن کی جگہ چونگی کی نوکری کرلیں ۔ چنانچہ آپ 1946ء میں قادیان عید گاہ والی چنگی میں پہنچ گئے اور چارج لے کر میونسپل کمیٹی میں نوکری شروع کر دی ۔ اس وقت تک آپ کو احمدیت کے بارہ میں زیادہ معلوم نہ تھا۔ آپ نے کسی سے مسلمانوں کی مسجد کے بارہ میں پوچھا تو اُس نے آپ کو مسجد اقصیٰ کا راستہ دکھادیا۔ آپ وہاں چلے گئے۔ وہاں کا ماحول بہت دل کو بھایا تو ایک ماہ تک وہیں جاکر نماز پڑھتے رہے۔ پھر علم ہوا کہ یہ تو قادیانیوں کی مسجد ہے۔ چنانچہ ایک دن احراریوں کی مسجد میں نماز مغرب پڑھنے گئے تو مسجد کی خستہ حالت، ٹوٹے ہوئے لوٹے اور نمازیوں کو دیکھ کر بہت دکھ ہوا۔ چنانچہ پھر مسجد اقصیٰ میں ہی نمازیں ادا کرتے رہے۔ کچھ عرصہ بعد محترم بشیر احمد خادم صاحب درویش کی تبلیغ کے نتیجہ میں احمدیت قبول کرلی۔
قبولِ احمدیت کے بعد شدید مخالفت شروع ہوگئی۔ میونسپل کمیٹی کے احراریوں نے آپ کو کہنا شروع کیا کہ ہم پیدا ہی قادیان میں ہوئے تھے اور اگر احمدیت سچی ہوتی تو ہم نہ مان لیتے۔ آپ نے اُن کے اس دعویٰ پر غور کیا تو احساس ہوا کہ اُن کی اخلاقی حالت ہی درست نہیں ہے اور اکثر نمازوں کے تارک ہیں ۔
کچھ ہی عرصہ بعد تقسیم ملک کا شور شروع ہو گیا اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کی تحریک پر آپ نے بھی لبّیک کہا۔ پھر دیہاتی مبلغین کلاس میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ کا تقرر مہاراشٹر میں ہوا۔ چند دنوں بعد ہی مخالفت شروع ہو گئی تو آپ نے ایک پمفلٹ مرہٹی زبان میں شائع کیا۔ پندرہ گاؤں کو اپنا تبلیغی سینٹر بنایا اور روزانہ دس دس پندرہ پندرہ کلو میٹر ارد گر د کے علاقوں میں تبلیغ کے لئے سفر کرنے لگے۔ آپ کا طریق تھا کہ کسی کے گھر سے کچھ کھا نا وغیرہ نہ کھاتے تا لوگ آپ کو بوجھ نہ سمجھیں اور مبادا قریب نہ آئیں ۔ اگر کوئی دعوت دیتا تو آپ اُسے کہتے کہ وہ دعوت کے پیسوں سے چندے کی رسید کٹوا لیں ۔ اپنے علاقہ میں لگنے والے ایک ہفتہ وار بازار میں بڑے بلیک بورڈ پر حضرت مسیح موعودؑ کی آمد کی خبر اور آپ کے چیلنج مرہٹی زبان میں لکھ کر لے جاتے اور اس طرح نیک فطرت اثر قبول کرتے اورتبلیغ کی راہ آسان ہو جاتی۔
1952ء میں آپ کی شادی محترم ظہور الدین صاحب ساکن حیدر آبادکی دختر مکرمہ سعیدہ بیگم صاحبہ سے ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے دو بیٹے اور ایک بیٹی عطا فرمائے۔
آپ مستجاب الدعوۃ بزرگ ہیں ۔ لیلۃ القدر اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار کی سعادت بھی پائی۔
آپ کئی سال تک دفتر دعوت و تبلیغ میں لٹریچر برانچ میں خدمت بجا لاتے رہے۔ ایک لمبا عرصہ اخبار بدر کے مینجر بھی رہے۔ لمبا عرصہ امپریسٹ جلسہ سالانہ کے طور پر کام کرنے کی توفیق ملی۔ خدمت خلق کی بھی نمایاں توفیق پاتے رہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ مَیں نمازوں کا شروع سے پابند رہا ہوں ۔ آج بھی جب کہ میری عمر 80سال سے تجاوز کر چکی ہے میں اللہ کے فضل سے باقاعدہ نمازیں ادا کرنے مسجد جاتا ہوں ۔
(نوٹ: محترم مولوی بشیر احمد صاحب کالاافغاناں کی وفات 7؍دسمبر 2015ء کو بعمر87 سال ہوئی)۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں