محترم میاں اقبال احمد صاحب شہید

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 2؍مئی 2009ء میں محترم میاں اقبال احمد صاحب شہید (امیر ضلع راجن پور) کا ذکر خیر مکرم میاں حمید احمد صاحب ایڈووکیٹ کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
مورخہ 25فروری 2003ء کو محترم میاں اقبال احمد صاحب امیر ضلع راجن پور راہ مولیٰ میں قربان ہو گئے۔ میں نے میاں صاحب کو بہت قریب سے دیکھا اور ان کو اپنی ذات میں نادر پایا۔ ان کے ہر عمل سے ایک انفرادیت جھلکتی تھی۔ بچوں سے حسن سلوک، عدالت میں غریب نوازی، دوستوں کی محفلوں میں اور غیروں سے تعلقات الغرض ہر اندازجدا تھا۔
ایک مرتبہ کچھ نوجوان جماعتی دورہ سے واپس آئے تو میاں صاحب نے پوچھا بچو! کہاں سے آئے ہو؟ انہوںنے کہا کہ امیر صاحب! جماعتی دورہ سے آئے ہیں۔ یہ سن کر آپ کا چہرہ کھِل اٹھا اور آپ انعام کے طور پر انہیں آئس کریم کھلانے لے گئے۔
آپ ایک شفیق باپ تھے لیکن بچوں کے ساتھ بے تکلف دوستی بھی تھی۔ ان کے ساتھ کھیلنا اور مذاق وغیرہ کرنا ان کی عادت تھی۔ احساس دلائے بغیربچوں کو تربیت کے نئے نئے انداز سکھا دیتے، اطاعت کے بارے میں نصائح کرتے۔ بچوں کی تعلیم کی طرف بہت توجہ دیتے۔
آپ کی تمام عمر دکھوں میں گزری، اسیرراہ مولیٰ ہونے کی سعادت بھی ملی۔ 8مختلف جھوٹے اور بے بنیاد جماعتی مقدمات میں پھنسایا گیا۔ خدتعالیٰ کی راہ میں بھوک سہی اور گالیاں سنیں لیکن ہر لمحہ مسکراتے رہتے۔ آپ کی میت پر ہر آنکھ اشکبار تھی۔ ایک بیوہ خاتون روتے ہوئے کہہ رہی تھی کہ ہمارے بچے آج یتیم ہوگئے ان کو اب کون پالے گا۔
آپ نے خود بیعت کرنے کی سعادت پائی اور ردّ عمل میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ 1970ء کی دہائی میں جب آپ صدر جماعت راجن پور تھے، تو آپ نے اپنی زمین مسجد کے لئے وقف کر دی لیکن غربت اور نامساعد حالات کی وجہ سے تعمیر ممکن نہ ہوسکی۔ آپ نے جماعت کو تحریک کی کہ اپنے گھر کا فالتو سامان دیں اور جب بھی کسی گھر میں آٹا گوندھا جائے تو ایک مٹھی آٹا خدا کے گھر کے لئے علیحدہ کر لیا جائے اور یہ سامان آپ خود گھر گھر جا کر اکٹھا کرتے رہے اور صبر آزما مشقت کے بعد مسجد کو تعمیر کرایا۔ اسی طرح مہمان خانہ، مربی ہائوس اور احمدیہ قبرستان کے لئے بھی اپنی زمین جماعت کو تحفہ میں دی۔آپ کو خداتعالیٰ کی راہ میں مالی قربانی کرنے کا خاص ہی چسکا تھا۔ اکثر کہا کرتے تھے کہ اگر خداتعالیٰ کی راہ میں مَیں اپنی جیب خالی نہیں کروں گا تو وہ اسے کیسے بھرے گا اور اللہ تعالیٰ نے ان کی جیب کو ہمیشہ بھرے رکھا۔
آپ دعوت الی اللہ کے بہت شوقین تھے، ہر جماعتی تقریب میں شرکت کیلئے تیار رہتے۔ خلافت سے بہت گہرا تعلق تھا۔ کہا کرتے تھے کہ اگر خلافت سے مضبوط تعلق رہا تو فلاح پا جائو گے۔ اسی طرح تعلق باللہ کے حوالے سے جماعت کو نصیحت کرتے رہتے تھے کہ خداتعالیٰ سے ذاتی تعلق قائم کرو۔
آپ کا شمار ضلع بہاولنگر کے چوٹی کے وکلاء میں ہوتا تھا، نیک نامی اور وکالت میں مہارت کے سب معترف تھے آپ کے انصاف کی گواہی غیر بھی دیتے تھے۔ رات گئے تک بلکہ صبح تک اپنے دفتر میں کام کرتے رہتے تھے۔ جب ان سے پوچھا جاتا کہ آپ اتنی محنت کیوں کرتے ہیں، کہتے کہ میں نے جس موکل سے فیس لی ہے نہ جانے وہ کس قدر مشکلات اٹھا کر لایا ہو گا اس لئے انصاف کا تقاضا ہے کہ میں نے اگر اس سے فیس لی ہے تو اس کے کیس پر بھی دیانتداری سے کام کروں۔ غرباء کے کیس بغیر فیس لئے بھی کر دیا کرتے تھے اور یہ ان کی عادت تھی کہ رمضان کے آخری عشرہ میں آنے والے تمام کیس بغیر فیس کے کیا کرتے تھے اور کیس لیتے ہی اس پر کام شروع کر دیتے تھے۔ آپ کی شہادت کے بعد آپ کے موکل پریشان تھے لیکن یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ان کے کیس ہر ممکنہ حد تک مکمل کئے جا چکے تھے اور ان پر مزید کسی محنت کی ضرورت نہ تھی۔ آپ کو متعدد جماعتی کیسز کی پیروی کرنے کی توفیق بھی ملی۔ اپنی مصروفیات کے باوجود پہلی فرصت میں جماعتی کیس کی پیروی کے لئے تشریف لے جاتے۔ اس بارہ میں کہتے تھے کہ میں نہیں چاہتا کہ کوئی احمدی ناحق زیادہ دیر اندر رہے یا اس کو کسی ذہنی کوفت کا سامنا کرنا پڑے۔
راقم الحروف کو ایک جماعتی مقدمہ میں بحث کی فائنل رپورٹ کی کمپوزنگ کی توفیق ملی۔ رات گئے تک اپنے روٹین کے مقدمات کو چھوڑ کر کم و بیش 200 صفحات کی اردو کمپوزنگ کراتے رہے۔ وہ چاہتے تھے کہ میں بھی وکالت کے شعبہ میں جماعتی خدمت کرسکوں، ساتھ ساتھ چھوٹے چھوٹے قانونی نکات بھی سمجھاتے رہتے۔ جس دن آپ مقدمہ کی پیروی کرتے تو مقامی وکلاء آپ کا انتظار کیا کرتے تھے کیونکہ آپ کی بحث کا انداز اور ناقابل تردید دلائل ان کے لئے کافی کشش رکھتے تھے۔ آپ کی آواز کافی بلند، بارعب اور ماحول کو اپنے زیر اثر کر دینے والی تھی۔
ایک مرتبہ ایک جماعتی کیس کے سلسلہ میں آپ کو کسی دوسرے شہر میں جانا تھا۔ رات کے وقت کسی سواری کا انتظام نہ ہو سکا۔ آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اے اللہ! تیرے نام پر تیرا بندہ ناحق جیل میں ہے، اس کا مسئلہ حل کرنے کے لئے میں نے جانا ہے تو میرے لئے کوئی سواری کا انتظام فرما۔ آپ کی دعا قبول ہوئی اور ایک کھلی چھت کی کیری وین میں سردیوں کے موسم میں منزل مقصود تک پہنچے اور ان کی یہ قربانی اور محنت رنگ لائی اور اس احمدی شخص کا مسئلہ حل ہوگیا۔
آپ بہت سے اچھے پکوان بھی تیار کر سکتے تھے۔ اور جماعت کے کئی مرد احباب نے آپ کی تلقین پر کھانا پکانا سیکھا۔ آپ نے احباب جماعت سے بہت محبت کا سلوک کیا۔ ایک بار ایک دوست آپ کے گھر سخت گرمیوں میں دوپہر کے وقت تشریف لائے۔ آپ گھر پر اکیلے تھے، لیکن مہمان سے اس قدر بے تکلفی اور اپنائیت سے کھانے کا پوچھا کہ اُسے انکار کی گنجائش نہ رہی اور مہمان نے بھی اثبات میں سر ہلا دیا۔ آپ کچھ دیر بعد سویوں کا ڈونگہ پکڑے تشریف لائے اور کہا کہ دراصل آج میری بیگم صاحبہ گھر پر نہیں ہیں اور اس وقت میں صرف یہی بناسکتا تھا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں