محترم پروفیسر ڈاکٹر عقیل بن عبدالقادر شہید
پروفیسر ڈاکٹر میجر عقیل بن عبدالقادر شہید نہ صرف ایک ماہر امراض چشم تھے بلکہ ایک نہایت ہی شریف النفس، ہمدرد، خلیق اور غریب پرور انسان تھے۔ سادگی اور منکسرالمزاجی میں نمایاں تھے۔ متوکّل علی اللہ، دعاگو اور علم و فضل کا مجسم پیکر تھے۔ نظام جماعت اور خلفائے احمدیت کے دل و جان سے فدائی تھے۔ آپ کا ذکر خیر آپ کی اہلیہ محترمہ ناصرہ بنت ظریف صاحبہ کے قلم سے ماہنامہ ’’احمدیہ گزٹ‘‘ اپریل 2001ء کی زینت ہے۔
ڈاکٹر صاحب شہید کے آباؤاجداد کا تعلق بخارا کے سادات سے تھا جو مغل بادشاہ جہانگیر کے دَور میں بخارا سے ملتان آئے اور پھر صوبہ بہار کے شہر بھاگلپور میں آباد ہوئے۔ آپ کے دادا حضرت مولانا عبدالماجد صاحب اور اُن کی تینوں بہنوں کو قبول احمدیت کی سعادت حاصل ہوئی۔ حضرت مولانا صاحب ایک جید عالم تھے اور تیج نرائن کالج بھاگلپور کے بانیوں میں سے تھے، علی گڑھ کے اوّلین اساتذہ اور سرسید احمد خان کے ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے۔ علی گڑھ یونیورسٹی کی شعبہ فلاسفی کے ڈین تھے اور آج بھی آپ کا نام وہاں رقم ہے۔ کئی کتب کے مصنف تھے، مشہور مقرر اور خطیب تھے۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے چار بیٹوں اور دو بیٹیوں سے نوازا۔ بیٹیوں میں سے ایک حضرت سیدہ سارہ بیگم صاحبہؓ تھیں جنہیں حضرت مصلح موعودؓ کے عقد میں آنے کا شرف حاصل ہوا۔
حضرت مولانا عبدالماجد صاحبؓ جب لاہور میں بادشاہی مسجد کے مدرسہ میں تعلیم حاصل کررہے تھے تو آپ کو ’’براہین احمدیہ‘‘ ملی۔ آپ نے یہ کتاب اپنے استاد شمس العلماء عبدالحئی فرنگی محل کو پڑھنے کے لئے دی۔ وہ کتاب سے بہت متأثر ہوئے اور انہوں نے کہا کہ اس کتاب سے ’’شمیم نبوت‘‘ آتی ہے۔ کچھ عرصہ بعد حضرت مولانا عبدالماجد صاحبؓ نے حضرت مسیح موعودؑ کی تحریری بیعت کرلی۔ 1902ء میں آپؓ کے صاحبزادے حضرت پروفیسر عبدالقادر صاحب نے بھی دستی بیعت کا شرف حاصل کرلیا اور پھر قادیان میں رہتے ہوئے مولوی فاضل کیا۔ پھر میٹرک کا امتحان دیا اور آگرہ سے انٹر اور علی گڑھ سے ایم۔اے کرلیا اور پھر انسپکٹر آف سکولز ہوکر الہ آباد چلے گئے۔ پھر بسلسلہ ملازمت کلکتہ اور اڑیسہ بھی رہے۔ کیرنگ میں احمدیہ مسجد بنوانے کی توفیق پائی۔ راج شاہی یونیورسٹی میں قائمقام وائس چانسلر تھے جب ملازمت سے ریٹائرڈ ہوئے۔ پاکستان بننے کے بعد لاہور میں سول سروس اکیڈیمی پاکستان کے کئی سال انسٹرکٹر رہے۔ آپ کے پانچ بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں جن میں سے تیسرے پروفیسر ڈاکٹر میجر عقیل بن عبدالقادر صاحب شہید تھے۔
محترم ڈاکٹر عقیل صاحب 21؍اکتوبر 1921ء کو پیدا ہوئے۔ کلکتہ سے میٹرک 1938ء میں امتیاز ی حیثیت میں پاس کیا۔ راج شاہی یونیورسٹی سے 1940ء میں انٹر کیا اور پرنس آف ویلز میڈیکل کالج پٹنہ سے 1946ء میں ڈاکٹری کی تعلیم مکمل کی۔ آٹھویں میں طلائی تمغہ اور وظیفہ حاصل کیا جو تعلیم کے اختتام تک جاری رہا۔ پوسٹ گریجوایٹ تعلیم کے لئے بھی وظیفہ ملا لیکن آپ نے اپنی زندگی وقف کردی۔ 1948ء میں فرقان فورس میں خدمات انجام دیں۔ پھر 1950ء تک کا عرصہ وقف زندگی میں گزارا۔ 1951ء میں جناح ہسپتال کراچی میں رجسٹرار مقرر ہوئے، پھر ڈاؤ میڈیکل کالج میں ملازمت کی۔ اکتوبر 1952ء میں اعلیٰ تعلیم کے لئے انگلستان آگئے اور رائل کالج سے آنکھوں کے امراض و علاج میں تخصص کیا۔ کچھ عرصہ یہاں ملازمت کی۔ 1955ء میں واپس پاکستان آئے اور میڈیکل کالج حیدرآباد میں ملازمت اختیار کی اور 1981ء میں صدر شعبہ امراض چشم کی حیثیت سے ریٹائرڈ ہوئے۔ پرائیویٹ پریکٹس بھی کرتے رہے۔ 1956ء سے 1975ء تک اندرون سندھ آپ نے بے شمار آئی کیمپ لگائے۔ آپکی شہرت پاکستان کے ہر علاقہ میں تھی اور ہر جگہ سے مریض آپ کے پاس آتے تھے۔ بے شمار مریضوں کو آپ کے ذریعہ اعجازی شفا عطا ہوئی بلکہ ایک مریض کو دعا کے نتیجہ میں محترم ڈاکٹر صاحب کی تصویر بھی دکھائی گئی کہ اُس کا علاج ان کے پاس ہے۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ مَیں نے ہمیشہ اپنے مریضوں کی تشخیص اور علاج خدا تعالیٰ سے دعا کے ساتھ کیا اور ہمیشہ ایسی حالت میں تیار رہنے کی کوشش کی کہ کوچ کا وقت آجائے تو خدا اور رسول کے سامنے شرمندگی نہ اٹھانی پڑے۔
محترم ڈاکٹر صاحب مریض سے فیس اس کی استطاعت کے مطابق لیتے تھے۔ احمدیوں، شاگردوں، سادات اور اساتذہ سے فیس نہیں لیتے تھے۔ حلقہ احباب بہت وسیع تھا اور بہت مہمان نواز تھے۔ بہت سے مریض اور ایسے لوگ بھی آپ کے ہاں آتے رہتے تھے جن کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں ہوتا تھا۔ گو خود بہت خوش خوراک نہ تھے لیکن اچھے اور لذیذ کھانے کی پہچان تھی۔ دعوتیں کرنے کا شوق تھا۔
آپ کی والدہ ماجدہ فرمایا کرتی تھیں کہ محترم ڈاکٹر صاحب بچپن سے ہی بہت فرمانبردار اور سعادتمند تھے۔ ہمیشہ سچ بولتے تھے۔ ایک بار گھر میں ایک چھپر پر آگ بھڑک اُٹھی۔ گھر والوں کا شک کسی اَور کی طرف تھا لیکن آپ نے کہا کہ یہ آپ کی غلطی کی وجہ سے لگی ہے۔
آنحضورﷺ سے بہت عشق تھا۔ بڑی حسرت سے ذکر کرتے تھے کہ آنحضورؐ کا جس عمر میں وصال ہوا تھا وہ عمر اللہ تعالیٰ کے پاس جانے کے لئے بہت مناسب ہے۔ چنانچہ شہادت کے وقت محترم ڈاکٹر صاحب کی عمر 63 سال اور چند ماہ تھی۔ حضرت مسیح موعودؑ سے بھی والہانہ عقیدت تھی۔ کبھی بدزبان مخالف سے تعلق نہ رکھتے۔ اکثر حضورؑ کے فارسی اشعار پڑھتے تو آنکھوں سے آنسو رواں ہوجاتے۔ خلفاء کی بے مثال اطاعت کرتے۔ مالی قربانیوں میں بہت بڑھے ہوئے تھے لیکن اس کو بہت پوشیدہ رکھتے۔ خدمت خلق میں بھی آپ کی قربانیوں کا علم دوسروں سے ہی ہوتا تھا۔ 1984ء کے بعد کلمہ طیبہ کی محبت میں جو احمدی قید ہوئے اُن کا بہت خیال رکھا۔ یہاں تک بھی پوچھتے کہ کسی کو سگریٹ کی عادت تو نہیں؟
ڈاکٹر صاحب نے اپنے مطب کو ہمیشہ تبلیغ کا مرکز سمجھا جس پر دشمن بہت سیخ پا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کو اللہ تعالیٰ نے بلا کا حافظہ عطا کیا تھا۔ قرآن کریم اور بائبل کے حوالے، حضرت مسیح موعودؑ کی تحریریں کثرت سے زبانی یاد تھیں۔ نماز کے بہت پابند تھے۔ اگر بچوں میں سے کوئی نماز قضا کرتا تو اُس کا کھانا بند کرنے کے لئے کہتے۔ روزے کے بہت پابند تھے۔ شہادت بھی 19؍رمضان کو روزہ کے دوران ہوئی۔ شہادت سے ایک عرصہ قبل آپ نے خواب دیکھا کہ 1974ء میں شہادت کا رتبہ پانے والے آپ کے بھائی محترم پروفیسر عباس بن عبدالقادر ایک دسترخوان پر بیٹھے ہیں اور آپ کو بھی مدعو کرتے ہیں۔ آپ نے جواب دیا کہ ابھی مجھے بھوک نہیں ہے، آپ کھانا کھائیے۔ آپ کی شہادت کے متعلق یہ واضح اشارہ تھا۔ اسی طرح بھائی عباس کی شہادت کے بعد فجر کی نماز کے معاً بعد آپ کی زبان پر یہ شعر جاری ہوا:
قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو
آپ کی شہادت کے بعد پاکستان کے تمام صوبوں کے اخباروں اور خلیج کے اخباروں میں بھی تعزیتی اور تعریفی کلمات شائع ہوتے رہے۔ آپ ایک دلربا شخصیت کے مالک تھے۔ اُن کا بچھڑنا ناقابل بیان حد تک شاق ہے۔