محترم چودھری محمد اشرف صاحب

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 8 جولائی 2022ء)
روزنامہ’’الفضل‘‘ ربوہ 9؍ستمبر2013ء میں مکرمہ ع۔چودھری صاحبہ کے قلم سے اُن کے والد محترم چودھری محمد اشرف صاحب کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔ قبل ازیں 30؍اکتوبر2015ء کے شمارے کے ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ میں بھی مرحوم کا تذکرہ شامل اشاعت کیا جاچکا ہے۔
محترم چودھری محمد اشرف صاحب فروری 2010ء میں امریکہ میں وفات پاگئے۔ آپ کے والد حضرت محمد منیر صاحبؓ اور دادا حضرت چودھری غلام رسول صاحبؓ اصحابِ احمدؑ میں شامل تھے۔یہ خاندان گھٹیالیاں ضلع سیالکوٹ کا رہنے والا تھا اور پیشہ زمینداری تھا۔ حضرت چودھری غلام رسول صاحبؓ نے ایک صبح جبکہ آسمان ستاروں سے بھرا پڑا تھا اور آپ اپنے کھیت کی منڈیر پر بیٹھے تھے، ستاروں کے ایک جھرمٹ اور ایک نہایت چمکدار ستارے کو دیکھا تو دل میں آواز اُٹھی کہ یہ ترتیب اور یہ ستارہ کسی موعود کے آنے کی نشانی ہے۔ آپ نے کھیت میں ہل چلانے والے اپنے نوکر کو بلاکر آسمان پر یہ نظارہ دکھایا تو اُس نے بھی کہا کہ یہ کوئی نیا ستارہ ہے۔ آپ نے اُسی روز نوکر کو سیالکوٹ بھیجا کہ پتہ کرکے آؤ کہ کیا کوئی غیرمعمولی واقعہ ہوا ہے۔ نوکر جب سیالکوٹ کے مرکزی بازار میں پہنچا تو وہاں حضور علیہ السلام کا سبز اشتہار بانٹا جارہا تھا جس میں بشیراوّل کی وفات اور بشیرثانی کی پیدائش کی خبر تھی اور پنڈت لیکھرام اور دیگر معاندین کی غلط بیانیوں کا ازالہ بھی کیا گیا تھا۔ وہ یہ اشتہار گاؤں میں لایا تو حضرت چودھری صاحبؓ اپنے بیٹے محمد منیر صاحبؓ کے ہمراہ قادیان چلے گئے اور وہاں پہنچ کر زیارت کرتے ہی حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کرلی۔ آپؓ تحریک جدید دفتر اوّل کے مجاہدین میں شامل تھے۔ چندہ دینے میں نہ صرف خود پیش پیش تھے بلکہ گاؤں کے لوگوں سے بھی چندہ اکٹھا کیا کرتے تھے۔
محترم چودھری محمد اشرف صاحب ابھی تین چار برس کے تھے کہ والدہ کی وفات ہوگئی۔ والد نے دوسری شادی کی جس میں سے تین بیٹیاں اور دو بیٹے مزید پیدا ہوئے۔
محترم چودھری صاحب بچپن سے ہی نہایت فرمانبردار اور منکسرالمزاج بچے تھے۔ میٹرک کا امتحان پاس کیا تو آپ کی شادی حضرت چودھری عبدالقادر صاحبؓ وکیل (فیروزوالہ ضلع گوجرانوالہ) کی بیٹی سے ہوگئی۔ آپ ایک ایماندار اور محنتی شخص تھے۔ دہلی اور بٹالہ میں ملازم رہے۔ دعوت الی اللہ کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے۔ جب جنگ عظیم دوم شروع ہوئی تو آپ فوج میں بھرتی ہوگئے۔ محاذ جنگ پر ڈاکخانہ افسر مقرر ہوئے۔ جنگ ختم ہوئی تو محکمہ جنگلات میں ملازم ہوگئے۔ لیکن داعی الی اللہ ہونے کی وجہ سے جلدی جلدی ٹرانسفر کردی جاتی اور اکثر پسماندہ علاقوں میں بھیج دیا جاتا۔ کئی بار خطرات بھی پیدا ہوئے اور کئی دلچسپ واقعات بھی رونما ہوئے۔ مثلاً ایک دفعہ ضلع گجرات کے کسی دُور کے علاقے میں ٹرانسفر ہوئی تو وہاں خبر پہنچنے پر کہ کوئی مرزائی افسر آرہا ہے، ماتحت عملے نے احتجاج شروع کردیا۔ چند روز بعد وہاں افواہ پھیل گئی کہ افسرانِ بالا نے مرزائی افسر کی ٹرانسفر کہیں اَور کردی ہے۔ چند روز بعد جب چودھری صاحب وہاں پہنچے تو ماتحت عملے نے پُرتپاک استقبال کیا۔ سارا عملہ آپ کے اچھے سلوک کی وجہ سے بڑا مداح بن گیا۔ چند روز بعد وہ لوگ خوشی سے آپ کو بتانے لگے کہ یہاں ایک مرزائی آنے لگا تھا لیکن ہم نے اُسے احتجاج کرکے بھگادیا ہے۔ آپ زیرلب مسکرائے اور اپنی طرف اشارہ کرکے کہا کہ وہ بھاگ کر یہ آگیا ہے۔ اس پر ملازمین بہت شرمندہ ہوئے۔
محترم چودھری صاحب نے تنگی ترشی برداشت کرلی لیکن کبھی رشوت نہیں لی۔ سالانہ پراپرٹی پر اپنے بچوں کی تعداد لکھتے کہ یہی میری پراپرٹی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو آٹھ بچے دیے۔ کافی کوشش کرکے آپ نے لاہور کے ہیڈآفس میں اپنی تبدیلی کروالی تاکہ بچوں کی تعلیم بہتر ہوسکے۔ بچوں کی عزت کرتے اور بچے کی قابلیت کے مطابق نصیحت کرتے۔ دینی کمزوری پر سرزنش کرتے۔ جاہلانہ رسوم سے نفرت تھی۔
آپ اپنی سالانہ چھٹی اکثر کسی قریبی گاؤں میں وقف عارضی میں گزارتے۔ اپنی جوانی میں ہی اپنی اہلیہ کے ساتھ نظام وصیت میں شامل ہوگئے تھے۔ لاہور میں قیام کے دوران مقامی جماعت میں مسلسل خدمت کی توفیق پاتے رہے اور بڑی جانفشانی سے اپنی ذمہ داری ادا کرتے۔ جب آپ کے بچے امریکہ میں آباد ہوگئے تو آپ بھی وہاں آگئے اور مسجد بیت الرحمٰن میں ایم ٹی اے کے دفتر میں ایک نگران کے طور پر کام کرنے کی توفیق پائی۔ آخر بڑھاپے کی وجہ سے گردوں کی بیماری ہوگئی اور ڈائیلاسس کرواتے رہے۔ تاہم آخری دنوں تک مسجد جاکر نماز جمعہ ادا کرنے کی کوشش کرتے۔ گھر میں بھی بار بار نماز ادا کرنے لگتے کہ شاید ابھی ادا نہیں کی۔اکثر یہ اشعار گنگناتے رہتے کہ ؎

مَیں ترا در چھوڑ کر جاؤں کہاں
چینِ دل آرامِ جاں پاؤں کہاں
یاں نہ گر روؤں کہاں روؤں بتا
یاں نہ چلّاؤں تو چلّاؤں کہاں

اپنا تبصرہ بھیجیں