فاتح سندھ محمد بن قاسمؒ

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 8 جولائی 2022ء)
روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 7؍ستمبر2013ء میں تاریخ کے ایک فاتح جرنیل محمد بن قاسم کی مختصر سوانح مکرم عطاءالنور صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔

محمد بن قاسمؒ کی پیدائش طائف میں 695ء میں ہوئی۔ بچپن طائف میں گزرا اور پھر بصرہ میں تربیت حاصل کی۔ ان کے چچا حجاج بن یوسف نے اُسی دَور میں ان کی صلاحیتوں کا اندازہ کرلیا تھا اور صرف پندرہ سال کی عمر میں ایران میں کُردوں کی بغاوت ختم کرنے کی مہم انہیں سونپی۔ اس مہم میں کامیابی کے بعد حجاج نے اپنی بیٹی کی شادی محمد بن قاسم سے کردی اور پھر سندھ پر حملہ کرنے کا حکم دیا۔ جس کی وجہ یہ بنی کہ اُس زمانے میں عرب تاجر بحیرۂ عرب کے راستے اپنا مال لے جاتے تھے۔ بہت سے تاجر دیگر ممالک میں ہی مقیم ہوگئے۔ جزیرہ سراندیپ (لنکا) میں مقیم بعض عرب تاجروں کا انتقال ہوا تو وہاں کے راجہ نے مسلمانوں سے دوستانہ مراسم پیدا کرنے کے لیے اُن تاجروں کے اہل و عیال کو ایک جہاز کے ذریعے واپس بھجوایا اور ساتھ ہی اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک کے لیے قیمتی تحائف بھی بھیجے۔ لیکن دیبل کے قریب راجہ داہر (حاکم سندھ) کے سپاہیوں نے جہاز کو لُوٹ لیا اور عورتوں اور بچوں کو گرفتار کرلیا۔ جب ولید کے گورنر حجاج کو یہ اطلاع ملی تو اُس نے راجہ داہر کو خط لکھا کہ ڈاکوؤں کو سزا دے کر ہمارے قیدیوں کو رہا کردے اور مال و اسباب واپس کردے۔ داہر نے جواب دیا کہ یہ کام سمندری قذاقوں کا ہے، مَیں اس معاملے میں بےبس ہوں۔
راجہ داہر کے حکمران باپ راجہ چچ کی وفات پر پہلے اس کا بیٹا چندر حکمران بنا اور اُس کے مرنے پر سندھ کی حکومت دو حصوں میں بٹ گئی۔ شمالی سندھ پر داہر اور جنوبی سندھ پر پہلے چندر کے بیٹے اور پھر داہر کے دوسرے بھائی نے حکومت قائم کرلی۔ جب داہر کا بھائی مرگیا تو داہر پورے سندھ کا حکمران بن گیا۔ لیکن وہ ناعاقبت اندیش آدمی تھا۔ پہلے اُس نے باغی مسلمان عربوں کو اپنے پاس پناہ دی اور پھر قذاقوں کے خلاف بھی کارروائی کرنے سے انکار کردیا۔ چنانچہ محمد بن قاسم کو قذاقوں کی سرکوبی کے لیے بھجوایا تو 712ء میں یکم سے دس رمضان تک اسلامی لشکر کا راجہ داہر کی فوج کے ساتھ اروڑ کے مقام پر مقابلہ ہوا۔راجہ داہر کے پاس ساٹھ ہزار سپاہی اور ایک سو جنگی ہاتھی تھے جبکہ محمد بن قاسم کے پاس بارہ ہزار عرب سپاہی اور تین ہزار سندھی سپاہی تھے۔ اس جنگ میں راجہ داہر مارا گیا اور اس کی فوج شکست کھاگئی۔
اروڑؔ روہڑی سے پانچ میل کے فاصلے پر ہے۔ یہاں سکندراعظم نے ایک قلعہ تعمیر کرایا تھا۔ 641ء میں یہ رائے خاندان کا صدرمقام تھا۔ اسے فتح کرنے کے بعد محمد بن قاسم نے یہاں برصغیر کی پہلی مسجد تعمیر کرائی۔ یہ شہر 964ء میں دریائے سندھ کا رُخ بدلنے سے برباد ہوگیا تاہم پہلی مسجد کے آثار آج بھی باقی ہیں۔ ایک اَور مسجد کے آثار بھی موجود ہیں جو مسجد عالمگیری کہلاتی ہے۔
دیبل کی فتح کے بعد اسلامی لشکر علاقوں پر علاقے فتح کرتا ہوا ملتان تک پہنچ گیا جہاں راجہ داہر کے چچازاد بھائی کی فوج سے مقابلہ ہوا لیکن وہ بھی قلعہ چھوڑ کر بھاگ گیا۔ ملتان اُن دنوں بدھ مت کا مرکز تھا۔ یہاں کے ایک مندر سے مسلمانوں کو سونے کا بھرا ہوا ایک کمرہ بھی ملا جو اٹھارہ گز لمبا اور دس گز چوڑا تھا۔اس وجہ سے عربوں نے ملتان کو سونے کی کان کہنا شروع کردیا۔ محمد بن قاسم کا ارادہ پنجاب اور کشمیر تک پہنچنے کا تھا لیکن 714ء میں پہلے حجاج کی وفات ہوگئی اور اگلے سال ولید بھی وفات پاگیا اور سلیمان بن عبدالملک خلیفہ بنا تو اُس نے محمد بن قاسم کومعزول کرکے یزید بن ابی کبشہ کو سندھ کا عامل مقرر کیا۔ پھر عراق کے والی صالح بن عبدالرحمٰن نے حجاج کے ہاتھوں اپنے بھائی آدم خارجی کے قتل کا انتقام لینے کے لیے محمدبن قاسم کو زنجیروں میں جکڑ کر واسط (عراق) منگوالیا اور قید میں ہی اس عظیم سپہ سالار کی وفات ہوگئی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں