اداریہ: پرہیزگار انسان بن جاؤ تا تمہاری عمریں زیادہ ہوں اور تم خدا سے برکت پاؤ (نمبر1)

(مطبوعہ رسالہ انصارالدین یوکے جولائی اگست 2022ء)

ممکن ہے کہ آپ یا آپ کے کوئی دوست کسی ایسی عادت میں مبتلا ہوں جسے ترک کرنے کی خواہش کے باوجود اسے چھوڑنے کے تصوّر سے ہی انہیں خوف آتا ہو۔ ایسی ہی ایک چیز تمباکونوشی ہے۔ ہمارا مشاہدہ ہے کہ کسی دینی اجتماع کے موقع پر بھی ہزاروں شاملین میں سے چند دوست ایسے بھی نظر آتے ہیں جو خاص اوقات میں (مثلاً کھانے کے فوراً بعد) کسی ایسے کونے کی تلاش میں ہوتے ہیں جہاں وہ اپنی اس قبیح عادت کی تسکین کرسکیں۔ حیرت اس امر پر ہوتی ہے کہ وہ خود اسے قبیح عادت قرار دیتے ہیں اور چاہتے بھی ہیں کہ اسے ترک کرسکیں۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ہمارے آقا سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور آپؑ کے خلفائے کرام کے ارشادات اس حوالے سے کیا ہیں۔ مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
٭… ’’انسان عادت کو چھوڑ سکتا ہے بشرطیکہ اس میں ایمان ہواور بہت سے ایسے آدمی دنیا میں موجود ہیں جو اپنی پرانی عادت کو چھوڑ بیٹھے ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگ جو ہمیشہ سے شراب پیتے چلے آئے ہیں بڑھاپے میں آکر جب کہ عادت کا چھوڑنا خود بیمار پڑنا ہوتا ہے بلا کسی خیال کے چھوڑ بیٹھتے ہیں اور تھوڑی سی بیماری کے بعد اچھے بھی ہوجاتے ہیں۔ میں حقہ کو نہ منع کہتااور نہ جائز قرار دیتا ہوں مگر ان صورتوں میں کہ انسا ن کو کوئی مجبوری ہو۔یہ ایک لغو چیز ہے اور اس سے انسان کو پرہیز کرنا چاہیے۔‘‘ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 159)

٭… ایک اور موقع پر تمباکو کی نسبت فرمایا کہ ’’یہ شراب کی طرح تو نہیں ہے کہ اس سے انسان کو فسق و فجور کی طرف رغبت ہو مگر تاہم تقویٰ یہی ہے کہ اس سے نفرت اور پرہیز کرے۔ منہ میں اس سے بدبو آتی ہے اور یہ منحوس صورت ہے کہ انسان دھؤاں اندر داخل کرے اور پھر باہر نکالے ۔اگر آنحضرتﷺ کے وقت یہ ہوتا تو آپ اجازت نہ دیتے کہ اسے استعمال کیا جاوے۔ایک لغو اور بیہودہ حرکت ہے، ہاں مسکرات میں اسے شامل نہیں کرسکتے ۔اگر علاج کے طور پر ضرورت ہو تو منع نہیں ہے، ورنہ یونہی مال کو بے جاصرف کر نا ہے ۔عمدہ تندرست وہ آدمی ہے جو کسی شَے کے سہارے زندگی بسر نہیں کرتا۔‘‘ (ملفوظات جلد سوم صفحہ 175)
ایک مجلس میں تمباکو کے مضرات پر ایک مختصر مضمون پڑھا گیا جس میں تمباکو کی مذمّت میں بہت ہی مبالغہ کیا گیا تھا۔ اس کو سن کر حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ ’’ اللہ تعالیٰ کے کلام اور مخلوق کے کلام میں کس قدر فرق ہوتا ہے ۔شراب کے مضار اگر بیان کیے ہیں تو اس کا نفع بھی بتادیا ہے اور پھر اس کو روکنے کے لئے یہ فیصلہ کردیا کہ اس کا ضرر نفع سے بڑھ کر ہے ۔دراصل کوئی چیز ایسی نہیں ہے جس میں کوئی نہ کوئی نفع نہ ہو مگر مخلو ق کے کلام کی یہی حالت ہوتی ہے۔ اب دیکھ لو اس نے اس کے مضرات ہی مضرات بتائے ہیں کسی ایک نفع کا بھی ذکر نہیں کیا ۔تمباکو کے بارے میں اگرچہ شریعت نے کچھ نہیں بتایا لیکن ہم اس کو مکروہ جانتے ہیں اور ہم یقین کرتے ہیں کہ اگر یہ آنحضرت ﷺ کے وقت میں ہوتا تو آپ نہ اپنے لئے اورنہ اپنے صحابہ کے لئے کبھی اس کو تجویز کرتے بلکہ منع کرتے ۔‘‘ (ملفوظات جلد سوم صفحہ367)
اس حوالے سے نہ صرف بے شمار اقوال بھی بیان کیے جاسکتے ہیں بلکہ اس بدعادت کو ترک کرنے لئے جو کامیاب ذرائع بعض دوستوں نے استعمال کیے اُن کے بارے میں بھی بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے۔ تاہم انسانی نفسیات کا غیرمعمولی ادراک رکھنے والے سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ نے جو نصیحت محترم بشیر احمد رفیق خان صاحب کو کی تھی اس نصیحت کو تمباکونوشی ترک کرنے کی سنجیدہ کوشش کرنے والے بہت سے دوستوں نے ازحد مفید پایا ہے۔
محترم خان صاحب رقمطراز ہیں کہ 1945ء میں جب مَیں آٹھویں جماعت کا طالب علم تھاتو چند دوستوں کی بدصحبت کے نتیجے میں سگریٹ نوشی کی بدعادت میں مبتلا ہوگیا۔ اس وقت تک مجھے اس شعر کی صداقت کا پوری طرح علم نہیں تھا کہ صحبت صالح ترا صالح کند صحبت طالح ترا طالح کند
بہرحال دوستوں کے اصرار پر سلگایا جانے والا پہلا سگریٹ میری آئندہ چودہ سالہ سگریٹ نوشی کا پیش خیمہ بن گیااوریہ موذی اور مہلک مرض ایسا لگا کہ باوجود ہزار جتن کے مَیں اس سے جان نہ چھڑا سکا۔ سگریٹ نوشی کی تعداد بڑھتے بڑھتے ساٹھ سگریٹ یومیہ تک جا پہنچی۔روزانہ کے سگریٹ پر آنے والے اخراجات میری طالب علمی کے زمانہ کے جیب خرچ سے بھی زیادہ ہو جایا کرتے تھے اور ان زائد اخراجات کو پورا کرنے کے لئے میں اپنے والد صاحب سے مختلف حیلوں بہانوں سے رقم اینٹھتا رہا۔

بشیر احمد رفیق خان صاحب حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کے ہمراہ

1953ء میں لاہور میں مارشل لاء لگا تو ہم اپنے کالج کے احاطہ میں محصور ہو کر رہ گئے۔دن میں ایک دوگھنٹہ کے لئے کرفیو میں نرمی ہوتی تو دوسرے طلبہ سامان خورو نوش لینے بازار کا رُخ کرتے اور مجھے یہ فکر لاحق ہو جاتی کہ سگریٹ کے ذخیرہ میں کمی نہ واقع ہو جائے چنانچہ میں سگریٹ لینے بازار کا رُخ کرتا۔
1958ء میں جب مَیں جامعۃ المبشرین کا طالب علم تھا تو پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے مجھے اطلاع دی کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے مجھے یاد فرمایا ہے۔ مجھے معلوم تھا کہ حضورؓ کی قوتِ شامہ بہت تیز ہے اس لئے حضورؓسے ملاقات کے لئے جانے سے قبل اپنی انگلیوں کو ،جو نکوٹین کے استعمال سے بالکل زرد ہو چکی تھیں، صابن و اسپرٹ سے خوب صاف کیا۔ صاف ستھرے کپڑے پہنے ، کچھ عطر لگایا اور اس بات کا پورا اطمینان کرنے کے بعدکہ اب حضورؓ کو میرے جسم یا کپڑوں سے سگریٹ کی بو آنے کا کوئی امکان باقی نہیں رہا۔ حضورؓ کی خدمت میں حاضر ہوا توحضورؓ نے کچھ ہدایات دیں ، میرا حال احوال پوچھا اورجامعہ کی پڑھائی کے بارے میں دریافت فرمایا۔ ملاقات ختم ہونے پر مَیں مصافحہ کر کے باہر جانے کے لئے اٹھا ہی تھا کہ حضورؓ نے مجھے بیٹھنے کا ارشاد فرمایا۔میں بیٹھ گیا تو حضورؓ نے اچانک پوچھا تم دن میں کتنے سگریٹ پیتے ہو؟ یہ سن کر میری تو گویا جان ہی نکل گئی۔سخت گھبراہٹ ہوئی۔ جس راز کو چھپانے کے لئے میں نے ہزار جتن کیے تھے وہ یوں افشا ہو جائے گا، یہ میرے خواب و خیا ل میں بھی نہ تھا۔
مَیں نے جواب دیا :’’حضور! سگریٹ تو مَیں بہت پیتا ہوں۔‘‘ حضورؓ نے دریافت فرمایا: ’’پھر بھی دن میں کتنے سگریٹ پی لیتے ہو؟‘‘ مَیں نے عرض کیا کہ ساٹھ سگریٹ کے لگ بھگ۔ حضور کو سخت حیرت ہوئی اور دو تین دفعہ دہرایا کہ تم ایک دن میں ساٹھ سگریٹ پھونک لیتے ہو۔ مَیں نے سخت شرمندگی سے سر جھکا دیااور خاموش رہا۔

حضورؓ نے فرمایا کہ تم بی اے پاس ہو، تمہیں یقینا سگریٹ نوشی کے کچھ فوائد نظر آئے ہوں گے۔ مجھے بھی ان فوائد سے مطلع کروتاکہ میرے علم میں بھی اضافہ ہو۔ مَیں نے شرمندگی سے سر جھکاکر عرض کیا: ’’حضور !اس میں قطعاً کوئی فائدہ نہیں بلکہ یہ ایک لغو فعل ہے۔‘‘ اس پر حضورؓ نے فرمایا کہ تم پڑھے لکھے ہو کر ایک سراسر لغو اور بے فائدہ فعل کو کیوں کرتے ہو؟ پھر حضورؓ نے فرمایا : ’’ میں نے حال ہی میں ’’ ریڈرز ڈائجسٹ‘‘ میں ایک مضمون پڑھا ہے۔ جس میں لکھا تھا کہ ایک یوروپین پارٹی ہمالیہ پہاڑ کی چوٹی سر کرنے گئی تو ان میں سے ایک کوہ پیما صرف اس لئے موت کا شکار ہو گیا کہ اس کے پاس سگریٹ کا سٹاک ختم ہو گیا تھا اور وہ یہ صدمہ برداشت نہ کر سکا۔پھر فرمایا کہ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ایک شخص مہم جوئی میں اس قدر آگے نکل جائے کہ ہمالیہ کو سر کرنے نکلے اور صرف سگریٹ نہ ملنے کی وجہ سے اپنی جان کی بازی ہار دے۔‘‘
حضورؓ نے فرمایا: ’’ سگریٹ وبال جان ہے، مضر صحت ہے، سرطان کا خطرہ ہر وقت لاحق رہتا ہے۔مالی طور پر بھی انسان کو بربادی کی طرف لے جاتی ہے۔جو رقم سگریٹ نوشی پر خرچ ہوتی ہے اس کا دسواں حصہ بھی اگر انسان اچھی اور صحت بخش خوراک پر خرچ کرے تو نہ صرف وہ سگریٹ پر اٹھنے والے اخراجات سے نجات پا لے گا بلکہ اچھی صحت اور تندرستی سے بھی مالا مال ہوجائے گا۔‘‘
اس گفتگو کے بعد آپؓ نے پوچھا کہ کیا تم سنجیدگی سے اس عادت کو ترک کرنا چاہتے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ حضور! مَیں نہ صرف تیار ہوں بلکہ اس لغو عاد ت کوترک کرنے کے لئے ہر قربانی کے لیے بھی تیار ہوں، مگر مَیں کئی دفعہ کوشش کرنے کے باوجود بھی اس لغو عادت سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔
حضورؓ نے فرمایا کہ طریقہ میں بتا دیتا ہوں۔عمل کرنا تمہارا کام ہے۔اگر تم نے میرے بتائے ہوئے طریق پر صدق دل سے عمل کیااور اپنے عمل کے ساتھ دعاؤں کو بھی شامل کیا تو ان شاء اللہ تمہیں اس سے مستقلاً نجات مل جائے گی۔ مَیں بھی تمہارے لئے دعا کروں گا۔ مَیں نے حضورؓ سے پختہ وعدہ کیا کہ حضورؓ کے فرمودہ ارشادات پر دل وجان سے عمل کروں گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔
حضو رؓ نے فرمایا کہ دیکھا گیا ہے کہ سگریٹ نوش عام طور پر سگریٹ نوشی ترک کرنے کے لئے، جو ایک ڈبیا ان کی جیب میں ہوتی ہے، اس کو ختم کرنے کے بعد سگریٹ نوشی ترک کرنے کا عزم کرتے ہیں یاسگریٹ کی مقدار گھٹا کر یہ سمجھتے ہیں کہ بالآخر وہ اس سے نجات پا جائیں گے۔ اس طرح سے وہ ہمیشہ ناکام رہتے ہیں۔ اس لئے میری پہلی ہدایت تمہیں یہ ہے کہ یہاں سے نیچے اتر کر سگریٹ کی جو ڈبیا تم نے کہیں چھپا کر رکھی ہے اس کو پیروں تلے مسل دو۔
میری دوسری ہدایت یہ ہے کہ جس دوکان سے تم سگریٹ خریدتے ہو، (ان دنوں ربوہ میں سگریٹ فروشی کی صرف ایک دوکان تھی) ،چالیس دن تک اس کے قریب بھی نہ جانا۔بلکہ اگر وہ دوکان راستہ میں پڑتی ہو تو اپنا راستہ بدل دو۔
میری تیسری ہدایت یہ ہے کہ تمام ایسے دوستوں کی صحبت سے دُور رہو جو تمہارے ساتھ سگریٹ نوشی کرتے ہیں۔چالیس دن تک ان سے ملنے میں اجتناب کرو۔اور ان کو بتا دو کہ مجھے خلیفۃ المسیح نے تم سے ملنے سے منع کیا ہے۔اگر کسی ایسے دوست سے ملنا ضرور ی ہو تو سختی سے اُسے منع کردو کہ تمہاری موجودگی میں سگریٹ نوشی نہ کرے۔
میری چوتھی ہدایت یہ ہے کہ عام طور پر کھانا کھانے کے بعد سگریٹ نوشی کی شدید طلب ہوتی ہے اس لئے تم اپنی جیب میں چنے رکھ لیا کرواور جب بھی سگریٹ کی خواہش ہو چنے منہ میں ڈال کر چبا لیا کرو۔اس طرح سگریٹ کی طلب میں آہستہ آہستہ کمی آنی شروع ہو جائے گی۔
حضورؓ نے آخر میں فرمایا کہ جو تراکیب میں نے تمہیں بتائی ہیں ان پر چالیس دن تک مکمل عمل پیرا ہونے کے بعد مجھ سے ملنے کے لئے آؤاور مجھے اس عرصہ کی رپور ٹ دو۔ مَیں نے حضورؓ سے حضورؓ کی ہدایات پر خلوص دل سے عمل پیرا ہونے کا وعدہ کیا اور واپس چلا آیا۔
شروع کے چند دن بہت تکلیف میں گزرے۔طبیعت ہر وقت بے چین رہنے لگی۔ کسی کام میں بھی دل نہیں لگتا تھا۔پھر آہستہ آہستہ دل کو قرار آنے لگا۔سگریٹ کی عادت ختم ہونے سے کھانے میں بھی لطف آنے لگااور سگریٹ نوشی کی وجہ سے زبان میں آ جانے والی بد ذائقی بھی دُور ہونے لگی۔
چالیس دن کے اختتام کے بعد مَیں حضورؓ کی خدمت میں حاضر ہو گیا۔ حضورؓ نے دریافت فرمایا کہ کیا رپورٹ ہے؟ میں نے عرض کیا کہ حضور! الحمد للہ مجھے سگریٹ نوشی سے نجات مل گئی ہے۔ حضورؓ نے بآواز بلند الحمد للہ الحمد للہ الحمد للہ فرمایا اور بے حدخوشی کا اظہار فرمایا۔ یہ حضورؓ کا اس عاجز پر ایک عظیم احسان تھا۔
ہمارے وہ بھائی جو واقعی اس بدعادت سے نجات کے خواہاں ہیں انہیں چاہیے کہ حضورعلیہ السلام کا یہ ارشاد اپنے سامنے آویزاں کرلیں۔ فرمایا:
’’ اے عقلمندو! یہ دنیا ہمیشہ کی جگہ نہیں۔ تم سنبھل جاؤ۔ تم ہر ایک بے اعتدالی کو چھوڑ دو۔ہر ایک نشہ کی چیز کو ترک کرو… ہر ایک نشہ جو ہمیشہ کے لئے عادت کر لیا جاتا ہے وہ دماغ کو خراب کرتا اور آخر ہلاک کرتا ہے۔ سو تم اس سے بچو۔ ہم نہیں سمجھ سکتے کہ تم کیوں ان چیزوں کو استعمال کرتے ہو جن کی شامت سے ہر ایک سال ہزار ہا تمہارے جیسے نشہ کے عادی اس دنیا سے کوچ کرتے جاتے ہیں اور آخرت کاعذاب الگ ہے۔ پرہیز گار انسان بن جاؤ تا تمہاری عمریں زیادہ ہوں اور تم خدا سے برکت پاؤ۔ حد سے زیادہ عیاشی میں بسر کرنا لعنتی زندگی ہے۔ حد سے زیادہ بدخلق اور بے مہر ہونا لعنتی زندگی ہے۔‘‘ (کشتی نوح ۔روحانی خزائن۔جلد 19صفحہ 70)
خداتعالیٰ ہمیں اور ہماری نسلوں کو ہر شر سے محفوظ رکھتے ہوئے اپنی رضا کی راہوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


(محمود احمد ملک)

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں