محترم چودھری محمد الدین عادل صاحب

ماسٹر احمد علی صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 5؍اگست 2011ء میں مکرم چودھری احمد علی صاحب کے قلم سے محترم چودھری محمدالدین عادل صاحب کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔

چودھری محمدالدین عادل صاحب

امام الصلوٰۃ حضرت مولوی نظام دین صاحبؓ کے قبول احمدیت کے بعد ادرحماں کا سارا گاؤں جماعت احمدیہ میں شامل ہو گیا تھا۔ حضرت مولوی نظام دین صاحبؓ کے بڑے بیٹے حضرت حافظ عبدالعلی صاحبؓ (B.A;L.L.B.) ایڈووکیٹ سرگودھا اور دوسرے حضرت مولوی شیرعلی صاحبؓ (B.A.) تھے ۔ گاؤں کی اکثریت ہماری لنگاہ برادری پر مشتمل تھی۔ جلسہ سالانہ قادیان میں شمولیت کے لئے اکٹھے گروپ کی صورت میں جایاکرتے تھے۔ روزانہ ڈیرہ پر مجلس لگتی اور دینی باتوں کا ذکر ہوتا۔ اسی طرح کی ایک مجلس میں محترم سیّد مہدی حسین صاحب معلّم اصلاح و ارشاد بھی آئے ہوئے تھے کہ میرے چچا چوہدری محمدالدین عادلؔ مرحوم نے جماعتی عقائد کے بارہ میں کوئی نازیبا جملہ کہہ دیا۔ اس پر اُن کے بڑے بھائی عبدالرحمٰن صاحب نے غصہ میں آکر اُنہیں تھپڑرسید کر دیا۔ اس پر وہ روتے ہوئے ڈیرہ سے اٹھے اور گھر کی طرف چل پڑے۔ لیکن معلّم سیّد مہدی حسین صاحب جلدی سے اُن کے پیچھے جاکر عادل صاحب کو اپنے ساتھ ڈیرہ پر واپس لے آئے اور پھر عبدالرحمٰن صاحب سے کہا کہ آپ نے کتنی غلطی کی ہے، یہ نوجوان تو جماعت کاداعی الی اللہ بننے والا ہے۔
اُس دن سے چوہدری محمدالدین عادل صاحب نے لٹریچر کا گہرا مطالعہ شروع کردیا اور پھر تبلیغ کا ایسا جنون پیدا ہوا کہ کچھ عرصہ بعد ہی دیہاتی رواج کے مطابق پنجابی زبان میں بطرز ’’ڈھولے‘‘ ایک کتابچہ بعنوان ’’جٹ جپھہ‘‘ لکھ کرشائع کردیا۔ سادہ پنجابی زبان میں یہ ڈھولے تبلیغ کے میدان میں بے حد مؤثرثابت ہوئے۔
1937ء میں محترم مولانا دوست محمد شاہد صاحب کے چچا میاں محمدمراد صاحب نے مسجد مبارک قادیان میں حضرت مصلح موعودؓ سے اجتماعی ملاقات کے دوران محترم چوہدری محمدالدین عادل صاحب کا تعارف کرواتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ اس نوجوان نے دیہات میں تبلیغ کے لئے ڈھولے لکھے ہیں۔ اس پر حضورؓ نے فرمایا کہ کچھ نمونہ ہمیں بھی سنائیں۔ چنانچہ عادل صاحب نے کھڑے ہو کر کانوں میں انگلی ڈال کر خاص دیہاتی طرز میں ایک ڈھولہ سنا دیا جسے سن کر حضورؓ بہت خوش ہوئے ۔
ادرحماں کے قریب ایک بڑی سیم میں پانی مستقل کھڑا رہتا تھا اور بڑی بڑی گھاس (ڈِب) وہاں اُگی رہتی تھی۔ اس سیم پر سے شیرشاہ سوری کی بنوائی ہوئی جرنیلی سڑک گزرتی تھی لیکن عملاً یہ راستہ انتہائی دشوارگزار ہوچکا تھا۔ محترم عادل صاحب 1943ء میں جب بطورمدرّس مڈل سکول بھابڑا میں تعینات تھے تو آپ نے سکول کے لڑکوں کو ساتھ لے کر لمبے اور مسلسل وقارعمل کے ذریعہ یہ راستہ صاف کرکے قابل استعمال بنوایا۔ جب دوبارہ یہ کچا راستہ طے کرنا مشکل ہوگیا تو اُس وقت عادل صاحب مجلس خدام الاحمدیہ ادرحماں کے قائد تھے۔ اُس وقت آپ نے خدام کو ساتھ لے کر وقارِ عمل کے ذریعہ اس جگہ مٹی ڈالنا جاری رکھا اور پھر مستقل طور پر یہ مسئلہ حل کرنے کے لئے پختہ پلیاں بنوانے کی طرف بھی توجہ کی۔ چنانچہ پختہ اینٹوں، سیمنٹ اورمستریوں کی اُجرت وغیرہ کے لئے وہاں سے گزرنے والوں سے عطیات وصول کرنے شروع کردیئے اور اس کا باقاعدہ حساب رکھا۔ آپ کی وفات کے بعد آپ کے کاغذات میں سے ان عطیات کو دینے والوں کے اسماء اورعطیہ کی رقم بھی لکھی ہوئی ملی۔ بہرحال اس راستہ کو قابل استعمال بنانے کے نتیجہ آپ نے بے شمار لوگوں کی دلی دعائیں حاصل کیں۔
1949ء کے اوائل میں محترم چوہدری محمدالدین عادل صاحب کی وفات ہوگئی تھی۔آپ کے اکلوتے بیٹے محترم الحاج چودھری ناز احمد ناصرؔ صاحب ریٹائرمنٹ کے بعد زندگی وقف کرکے اس وقت ایڈیشنل وکالت تبشیر لندن میں خدمت بجا لارہے ہیں۔

چودھری ناز احمد ناصر صاحب

ان کا ایک نواسہ نصیراحمد چودھری صاحب، ربوہ کے دفاتر میں اورایک نواسہ ملک طاہرحیات نسوانہ صاحب، سوویت ریاستوں میں خدمت دین میں مصروف ہیں۔
محترم عادل صاحب کی وفات کے بعد کئی افراد تبلیغ کی غرض سے اُن کا کتابچہ تلاش کرتے رہے۔ اب یہ کتابچہ دیدہ زیب صورت میں شائع کیا گیا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں