محترم ڈاکٹر حافظ مسعود احمد صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 24؍اپریل 1999ء میں محترم حافظ ڈاکٹر مسعود احمد صاحب کا ذکر خیر کرتے ہوئے مکرم عبدالسمیع نون صاحب رقمطراز ہیں کہ محترم حافظ صاحب کو تقریباً55 سال تک تراویح میں قرآن کریم سنانے کا موقعہ ملا۔ کلام الٰہی کو خوب سمجھ کر جب پڑھتے تھے تو آپ پر وجد طاری رہتا تھا اور سامعین پر بھی مسلسل ایک کیف روحانی مسلّط رہتا تھا۔ 1974ء میں آپ قرآن کریم کا دَور اس لئے تراویح میں مکمل نہ کرپائے تھے کہ آپ کے گھر اور مسجد احمدیہ کو نذر آتش کردیا گیا تھا اور اس ناتمامی کا قلق وہ ساری عمر محسوس کرتے رہے۔
1974ء میں جب آپ کی جائیداد لوٹ کر جلادی گئی تو آپ ایک چھوٹی سی کوٹھڑی میں دری ڈال کر بیٹھ گئے اور پریکٹس شروع کردی۔ اس دوران آپ کو ہر قسم کی مالی امداد کی پیشکش کی گئی لیکن آپ نے اسے قبول نہ کیا۔ حتی کہ حضرت مرزا طاہر احمد صاحب (ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز) نے اپنی کار اس تاکید کے ساتھ بھجوادی کہ آپ کے پاس کوئی سواری نہیں ہے اور سانس پھولنے کی بیماری کے باعث آپ پیدل بھی نہیں چل سکتے اس لئے یہ موٹر کار رکھ لیں۔ آپ نے جواب میں لکھا کہ آپ میرے محسن اور میرے بھائی ہیں، میرے آقا کے لخت جگر اور موجودہ خلیفہ وقت کے بھائی ہیں، آپ کا احسان عمر بھر نہ بھولوں گا۔ مگر 12X9 فٹ کا کمرہ میری ساری کائنات ہے، نہ گھر ہے نہ کلینک۔ مَیں نے کہیں نہیں جانا ہوتا۔ مَیں یہ سوچتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے۔ اگر مَیں کسی سے کوئی شے آج اس بے بسی کے دَور میں وصول کروں تو وہ کہے گا ’’او بے غیرت مسعود! ساری عمر مَیں نے تمہیں موجیں کرائیں، اگر ایک معمولی سا جھٹکا دیا ہے تو تمہیں اب شک پڑ گیا ہے کہ میرے خزانے میں تیرے لئے اب کچھ نہیں رہا‘‘۔
اسی طرح دو دوستوں نے میرے ذریعہ سے ستر ستر ہزار روپے پیش کرنا چاہے تو یہی رویہ تھا کہ کسی بندے سے نہیں مانگنا، اللہ ’’مالک الملک‘‘ پر کامل توکّل تھا۔ ایک اَور خوبی یہ کہ جن لوگوں نے انہیں زندہ جلانے کے لئے آگ بھڑکائی تھی اُن کے خلاف بھی کبھی شکوہ زبان پر نہ لائے۔ اللہ نے بھی اپنی جُود وعطا میں دیر نہ کی اور جلد ہی ایک محل کی صورت گھر بنادیا اور بیس سے زائد دکانوں پر مشتمل مارکیٹ بھی۔
آپ دو ماہ اسیر راہِ مولیٰ بھی رہے۔ ناقص خوراک اور مصائب جھیلنے سے صحت تباہ ہوگئی اور کافی عرصہ بستر علالت پر رہے۔ساری ساری رات بیٹھے بیٹھے گزر جاتی تھی، سانس کی تکلیف کے باعث لیٹنا ناممکن تھا۔ ایک روز مَیں نے پوچھا یاد داشت کا کیا حال ہے؟ کہنے لگے قرآن کریم کا اعجاز ہے کہ یہ تو مجھے ابھی خوب یاد ہے چنانچہ ایک رات میں 18 سیپارے ختم کئے ہیں اور بیماری کے دوران بھی تیسرے دن تو قرآن شریف ختم کرتا ہوں، اس سے مجھے سکون ملتا ہے۔
آپ کو فخر تھا کہ تین خلفاء کے قدموں میں کھڑے ہوکر قرآن پڑھنے کی سعادت آپ کو عطا ہوتی رہی ہے۔
انفاق فی سبیل اللہ میں ہمیشہ مستعد رہتے۔ تمام تحریکات میں ایسی خوشدلی اور فراخی سے خرچ کرتے کہ رشک آتا تھا۔ کسی کی مالی تنگی کا علم ہو تو خود ہی امداد کے لئے پہنچ جاتے۔ وسیع کاروبار کے مالک ایک غیراز جماعت نے آپ سے ایک بڑی رقم بطور قرض لی لیکن ادائیگی وعدہ کے مطابق نہ کرسکا۔ آپ نے تو کبھی مطالبہ نہ کیا اور اسی دوران اُس کی وفات ہوگئی تو آپ فوراً تعزیت کے لئے میرے ہمراہ اُس کے مکان پر گئے اور مجھے کہا کہ اُس کے والد کو کہہ آئیں کہ متوفی کو مَیں نے قرض معاف کردیا ہے۔ چنانچہ اُس کا والد بہت ممنون ہوا کیونکہ وہ خود کو زیربار سمجھ رہا تھا۔ جب آپ زیادہ بیمار ہوئے تو ایک کاپی نکلوائی اور اُسے نذرآتش کرنے کے بعد کہا کہ ’’مَیں نے جن لوگوں سے ادھا رقوم لینی تھیں وہ معاف کردی ہیں، یہ رقوم اس کاپی میں درج تھیں، اگر کوئی ادائیگی کرنا چاہے تو ان سے کچھ وصول نہ کریں‘‘۔ چنانچہ کئی مقروض آپ کی وفات کے بعد آئے اور ہزاروں روپے کی رقوم آپ کے بیٹے کو دینا چاہیں لیکن آپ کی وصیت کے مطابق اُن سے رقم نہ لی گئی۔ محترم حافظ صاحب کی جود و سخا میں مذہب کا کوئی فرق نہ تھا۔
آپ نے باجماعت نماز کی ادائیگی کا اس قدر خیال رکھا کہ مجھے یاد نہیں کہ کبھی ہم حاضری میں آپ سے سبقت لے گئے ہوں۔ نمازوں اور جمعہ سے بہت پہلے مسجد میں آکر ذکر الٰہی میں مصروف ہو جاتے تھے۔
مضمون نگار ضمناً قادیان میں تربیت کے حوالہ سے سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کا یہ واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار تعلیم الاسلام ہائی اسکول کی گراؤنڈ میں ایک تقریب میں حضورؓ تشریف لانے والے تھے۔ اکابرین اور اساتذہ کیلئے کرسیاں بچھائی گئی تھیں جبکہ نوجوانوں نے زمین پر ہی بیٹھنا تھا، کوئی صف یا دری بھی نہیں تھی۔ حضورؓ تشریف لائے تو آتے ہی اپنے نیچے سے کرسی پیچھے ہٹا دی اور اس دھول پر بیٹھ گئے جس سے گرد بھی اڑی اور آپؓ کا سارا لباس بھی گرد آلود ہوگیا۔ اور پھر اسی موضوع سے اپنا خطا ب شروع فرمایا کہ ان نونہالوں کے لئے بیٹھنے کا مناسب انتظام کرنا ضروری تھا۔ ہم کرسیوں پر بیٹھیں اور یہ مٹی پر، یہ تو ان کی عزت نفس کو کچل دینے کے مترادف ہے۔
اسی بستی کے اخلاق عالیہ اور دینی اقدار کے ماحول میں محترم حافظ صاحب نے پرورش پائی تھی۔ ایک موقعہ پر جب پانچ افراد جن میں محترم امیر صاحب بھی شامل تھے، ایک جماعتی مقدمہ کے سلسلہ میں آپ کی کار میں سوار ہوکر لاہور گئے اور رات وہاں قیام کرکے صبح واپس روانہ ہوئے تو محترم حافظ صاحب پر ڈرائیونگ کے دوران نیند کا غلبہ محسوس ہوتا تھا۔ میرے اصرار پر آپ نے علیحدگی میں بتایا کہ آپ کی عادت ہے کہ صرف دائیں کروٹ ہی سو سکتے ہیں اور اگر گزشتہ رات دائیں پہلو سوتے تو محترم امیر صاحب کا پلنگ آپ کی پشت کی طرف آتا تھا جو سوئے ادبی تھی چنانچہ آپ نے موسم سرما کی طویل رات جاگتے ہوئے گزار دی۔… دراصل محترم حافظ صاحب اخلاص و تقویٰ کی باریک راہوں پر چلتے ہوئے نہ کسی تنقید کی پرواہ کرتے تھے اور نہ کسی کی تعریف و توصیف کے محتاج ہوتے تھے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں