محترم ڈاکٹر حافظ مسعود احمد صاحب

محترم ڈاکٹر حافظ مسعود احمد صاحب آف سرگودھا 18؍ ستمبر 1996ء کو 74 سال کی عمر میں وفات پاگئے اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں آپ کی تدفین عمل میں آئی۔ آپ کی ہمشیرہ محترمہ سلیمہ بیگم صاحبہ کے قلم سے آپ کا ذکر خیر روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 5؍اکتوبر 1996ء کی زینت ہے۔
محترم حافظ صاحب نے بارہ سال کی عمر میں قرآن کریم حفظ کیا اور پھر 55سال تک رمضان میں قرآن کریم سنانے کی سعادت حاصل کی۔ دوران تعلیم آپ کے اساتذہ بھی آپ کی نیکی اور پارسائی کی وجہ سے بہت عزت کرتے تھے۔ تکمیل تعلیم کے بعد جب آپ نے اپنے والد محترم ڈاکٹر محمود احمد صاحب کے ساتھ پریکٹس کاآغاز کیا تو دونوں کی نیکی ، جذبہ خدمت خلق اور اللہ تعالیٰ کے ان کے ہاتھوں میں شفا رکھنے کی وجہ سے لوگ بلا تفریق مذہب دُور دُور سے علاج کے لئے آتے تھے اور بہت احترام سے پیش آتے تھے۔ حتی کہ قیام پاکستان کے بعد ایک ہندو نے خود ہی آپ کی قادیان کی جائیداد کے کلیم کے فارم بنوا کر واہگہ بارڈر پر پہنچ کر آپ کے حوالہ کئے۔ اگرچہ محترم حافظ صاحب نے جماعتی ہدایت کے مطابق اپنی قادیان کی جائیداد کا Claim نہیں کیا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے چند ہی سالوں میں اتنا کچھ عطا کر دیا کہ دیکھنے والے حیران رہ گئے۔
1974ء میں دشمنان احمدیت نے آپ کے گھر کو مع سازو سامان جس میں دو کاریں بھی شامل تھیں جلا کر خاکستر کر دیا۔ محترم حافظ صاحب اور دیگر اہل خانہ نے بڑی مشکل سے ہمسایہ کی چھت کے ذریعہ پھلانگ کر جانیں بچائیں۔ اس وقت حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے آپ کی بہت دلجوئی کی اور فرمایا: حافظ صاحب! مَیں آپ کے لئے دعاکروں گا آپ بے فکر رہیں۔
چنانچہ چند ہی روز کے بعد جب آپ نے جلے ہوئے مکان کے کھنڈروں میں مریض دیکھنے شروع کئے اور کچھ عرصہ بعد اس جگہ ایک کمرہ بنوالیا تو مریض اتنی بڑی تعداد میں وہاں آیا کرتے تھے کہ عقل دنگ رہ جاتی۔ چنانچہ دو تین سال بعد ہی ملبے کے ڈھیر پر ایک عالیشان عمارت نظر آنے لگی۔ یقینا یہ سب کچھ دعاؤں کے طفیل ہی تھا۔
محترم حافظ صاحب بہت فیاض اور ہمدرد تھے اور غیروں میں بھی ہر دلعزیز تھے۔
– … ٭ … ٭ … ٭ … –
محترم ڈاکٹر حافظ مسعود احمد صاحب کے اخلاق حسنہ کا تذکرہ آپ کی بھانجی محترمہ سلمیٰ خلیل صاحبہ نے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 31؍اکتوبر 1996ء میں کیا ہے۔ محترم حافظ صاحب جب حافظ کلاس میں زیر تعلیم تھے تو آپ کے ہمراہ دو نابینا یتیم بچے بھی پڑھتے تھے۔ آپ کی والدہ آپ کو ہر روز بادام دیتی تھیں جو آپ چپکے سے ان بچوں کو دیدیتے۔ ایک روز استاد نے دیکھا تو آپ کے والد صاحب کو اس بارہ میں بتایا۔ اس پر آپ کے والد محترم نے حافظ صاحب کو بہت پیار کیا اور کہا تم اپنے بادام کھا لیا کرو، ان بچوں کو میں بھجوادیا کروں گا۔ پھر ان یتیم بچوں کے لئے نہ صرف بادام بھجوائے جاتے رہے بلکہ ان کے کپڑے بھی آپ کی ہی طرح کے بنوائے جاتے۔
محترم حافظ صاحب جب امرتسر پڑھتے تھے تو وہاں ایک دس بارہ سالہ لڑکا صبح صبح بوٹ پالش کرنے آتا۔معلوم ہوا کہ وہ یتیم لڑکا ہے اور پڑھائی کے اخرجات پورے کرنے کے لئے جوتے پالش کرتا ہے۔ آپ نہ صرف اپنے بلکہ دوسروں کے جوتے بھی زبردستی پالش کروادیتے۔ پاکستان بننے کے بعد وہ آپ کو ڈھونڈتا ہوا آپ کے پاس سرگودھا آیا اور بتایا کہ گریجوایشن کے بعد وہ اچھی ملازمت کررہا ہے اور اس نے 15 یتیم لڑکوں کو بھی تعلیم دلوائی ہے جس کا ثواب بھی محترم حافظ صاحب کو جاتا ہے۔
محترم حافظ صاحب نے جب پریکٹس شروع کی تو بہار میں قحط کی وجہ سے حکومت نے رضاکار مانگے آپ نے بھی خدمات پیش کیں اور وہاں دو دن تک بغیر کھائے پئے بھی خدمت انجام دیتے رہے۔ پاکستان بننے کے بعد جہاد کشمیر میں بھی شامل ہوئے۔
1974ء میں احمدیت کی خاطر آپ کا نہ صرف گھر اور سامان جلا دیا گیا بلکہ آپ اور آپ کا نو عمر بیٹا منصور کچھ عرصہ قید بھی رہے۔ بعد میں جب اللہ تعالیٰ کے فضل سے دوبارہ ہر نعمت میسر آ گئی تو کسی نے بتایا کہ ایک مریض جو آپ کے پاس آتا ہے اس کا تعلق اس گروہ سے ہے جس نے آپ کا گھر جلایا تھا۔ آپ کی ہمشیرہ نے بھی کہا کہ اس کا علاج نہ کریں لیکن آپ نے جواب دیا میں اپنے پیشے سے غداری کیوں کروں، ویسے بھی میں نے سب کچھ خدا پر چھوڑ دیا تھا۔ چنانچہ آپ کے علاج سے اللہ تعالیٰ نے اسے شفادی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں